Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
اے پیغمبر ! آپ ان سے دریافت کریں کہ کس کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ‘ آپ کہہ دیجئے۔ اللہ ہی کے لئے ہے اس نے لکھا ہے اپنے اوپر رحمت کو البتہ وہ ضرور جمع کر دے گا ‘ قیامت کے دن جس کے آنے میں شک نہیں ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے نقصان میں ڈالا اپنی جانوں کو پس وہ ایمان نہیں لاتے۔
گزشتہ آیات میں ان مشرکین کا رد فرمایا گیا تھا جو اللہ کی کتاب کا انکار کرتے تھے اور طعن کرتے تھے کہ کاغذ پر لکھی لکھائی کتاب کیوں نہیں آتی اور فرشتے اس کو لے کر کیوں نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بیہودہ سوالات کی تردید کی۔ پھر اللہ نے فرشتے کی اپنی اصل شکل میں عدم نزول کی حکمت بیان فرمائی کہ انسان قویٰ فرشتوں کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتے اور اگر دیکھ لیں تو فوراً ہلاک ہوجائیں اور ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں اور ہم فرشتے کو انسانی شکل میں نازل کریں تو پھر یہ لوگ اسی التباس میں پڑے رہیں گے اور جس طرح انسان کو نبی ماننے کے لئے تیار نہیں ‘ اسی طرح انسانی شکل والے فرشتے کا بھی انکار کردیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کو تسلی بھی دی کہ اپ ان لوگوں کے ٹھٹا اور تمسخر سے گھبرائیں نہیں ‘ آپ سے پہلے انبیاء سے بھی لوگ یہی سلوک کرتے رہے ہیں اور پھر آخر میں ان لوگوں کو اسی چیز نے گھیر لیا جس چیز کے متعلق وہ ٹھٹا کیا کرتے تھے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا عبرتناک انجام ہوا۔ توحید باری تعالیٰ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل اور قیامت کے دن سب کو اکٹھا کئے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل لمن ما فی السموات ولارض ط اے پیغمبر ! آپ ان سے ذرا پوچھیں کہ بتلائو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ‘ یہ کس کا ہے ؟ ارض و سما کی تمام چیزوں کا موجد ‘ مالک اور متصرف کون ہے ؟ کس نے ان کو ظاہر کیا اور کون ان کو تمام کر رہا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب بھی خود ہی مرحمت فرمایا قل اللہ آپ کہہ دیجئے کہ مذکورہ ہر چیز اللہ ہی کی ہے ۔ ان کا موجد ‘ مالک اور متصرف بھی وہی ہے ‘ اور پھر اس کی مہربانی کا حال یہ ہے کہ کتب علی نفسہ الرحمتہ ط اس نے اپنے ذمے رحمت کو لکھ لیا ہے۔ اس نے اعلان فرما دیا ہے کہ اسکی رحمت بڑی وسیع ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کائنات کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے عرض عظیم پر لکھ دیا کہ ان رحمتی سبقت علیٰ غضبی یعنی میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میری تمام مخلوق میری رحمت سے حصہ پائے مگر پھر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو میرے غضب کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کی سرکشی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معاد کا تصور دو بنیادی چیزیں ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کا انکار کرنا بہت بڑا جرم ہے ‘ اسی طرح معاد کا انکار بھی کفر ہے یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کا تصور پیش کرنے کے بعد معاذ کا ذکر فرمایا ہے۔ لیجمعنکم الی یوم القیمتہ لا ریب فیہ وہ تمہیں ضرور قیامت کے دن اکٹھا کرے گا کہ جس کے آنے میّں کوئی سک نہیں۔ اگر معاد پر یقین آجائے اور انسان جان لے کہ حساب کتاب کی منزل آنے والی ہے تو پھر وہ بغاوت اور سرکشی پر نیں اتر سکتا فرمایا الذین خسروا انفسھم فہم لا یومنون جن لوگوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا ‘ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کو بگاڑ دیا کیونکہ جس شخص میں یہ دو چیزیں ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معاد سے کبھی انکار نہیں کرسکتا۔ کل مولود یولد علیہ الفطرۃ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ فطرۃ اللہ التی فطر اناس علیھا اللہ تعالیٰ نے تو پیدائش ہی اس فطرت پر کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانے مگر لوگوں نے اس فطرت کو بگاڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلیا جو کہ بالکل غیر فطری اور بےعقلی کی بات ہے لہٰذا اس سے بڑھ کر خسارا کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کو ہی تباہ کرے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ ہی جزائے عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال دیا ہے۔ ساکن اور متحرک اشیاء آگے پھر اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان اور شرک کا رد ہے ارشاد ہوتا ہے ولہ ماسکن فی اللیل والنھم۔ دن اور رات اور دن میں جو چیز سکون پکڑ رہی ہے ‘ اسی کی ہے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر ساکن اشیاء کا ذکر کیا ہے مگر متحرک چیزوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے حالانکہ ساکن چیزوں ک طرح کائنات کی تمام متحرک اشیاء بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔ اس کے جواب میں امام محمد ابن ابی بکر (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ساکن اور متحرک دونوں قسم کی چیزیں مراد ہیں مگر متحرک کا لفظ محض اختصار پیدا کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے گویا اس جملہ میں والنھار کے بعد وما تحرک کے الفاظ مخدوف ہیں اور مطلب یہی ہے کہ ہر ساکن اور متحرک ہر چیز کا مالک اللہ وحدہ ‘ لا شریک ہی ہے امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس قسم کی مثال سورة نحل میں بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر بہت سے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ” وجعل لکم قوسرابیل تقیکم الحد اللہ نے تمہارے لئے ایسی قمیضیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں قمیض تو گرمی اور سردی دونوں سے بچاتی ہے مگر یہاں پر سردی کا ذکر UNDERSTOOD ہے یعنی خود بخو د سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آیت زیر درس میں ساکن اشیاء کا ذکر کر کے متحرک چیزوں کو چھوڑ دیا ہے کہ سمجھنے والے خود سمجھ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے۔ مفسرین کرام صرف ساکن کے تذکرے کی یہ توجیہہ بیان کرتے ہیں کہ کائنات میں حرکت کی نسبت سکون کی مقدار زیادہ ہے ساکن چیز تو بہرحال ساکن ہے مگر متحرک چیز بھی بالآخر کسی نہ کسی مدت کے بعد ساکن ہوجاتی ہے۔ ہرجاندارچیز جو دنیا میں حرکت کر رہی ہے وہ آخر کار موت سے ہمکنار ہو کر ساکن ہوجائے گی ‘ جو گاڑی ‘ مشین ‘ دریا ‘ ہوائی جہاز ‘ کشتی حرکت میں آتی ہے ‘ وہ رک بھی جاتی ہے حتیٰ کہ سیاروں اور ستاروں جیسی بڑی بڑی متحرک چیزیں بھی ایک مقررہ مدت کے بعد ساکن ہوجائیں گی ‘ تو فرماتے ہیں کہ یہاں پرسکون کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ آخر کار ہر چیز کو ایک نہ ایک دن ساکن ہی بن جانا ہے تاہم ہر چیز خواہ ساکن ہے یا متحرک ‘ اس کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ نیز وھو السمیع العلیم وہ ہر چیز کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے وہ لطیف سے لطیف چیز کی حرکت اور آواز کو سنتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں۔ آگے شرک کی تردید میں فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں اغیر اللہ اتخذولیا کیا میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا ولی اور مددگار اور کارساز بنا لوں ؟ حالانکہ کائنات کے ذرے ذرے کا خالق اور مالک تو اللہ رب العزت ہے فاطر السموات ولارض زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے ۔ کہیں بدیع کا لفظ آیا کہ ہر چیز کو بغیر نمونے کے ایاد کرنے والا وہی ہے ۔ اس نے اپنی صفات کے ذریعے تجلیات میں تغیر پیدا کر کے تمام چیزوں کو قائم کیا ہے۔ تاہم اس عمل کی کیفیت ا عالم الغیب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہی فاطر اور بدیع ہے ‘ اس کو چھوڑ کر میں کسی دوسرے کو کیسے اپنا کارساز اور مددگار بنا لوں ‘ یہ تو بڑی ناانصافی اور بغاوت کی بات ہے۔ فرمایا اس مالک الملک کی یہ صفت بھی ہے و ھو یطعم کہ ہر وہ جاندار کو کھلاتا ہے۔ روزی پہنچاتا ہے ۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی چیز اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ولا یطعم اور اس کو نہیں کھلایا جاتا۔ وہ کھانے پینے سے بےنیاز ہے۔ مگر بعض مشرک اپنے معبودان باطلہ کے متعلق اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ ان کی پیش کردہ نذر و نیاز کھاتے ہیں ا س پر خوش ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کو کھلاتا ہے ‘ اسے خود کھانے کی حاجت نہیں۔ ان اللہ ھوالرزاق ذوالقوۃ المتین) (الذریت) وہی رازق ہے ‘ زور آور اور مضبوط ہے۔ روزی کے تمام ذرائع اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں ‘ لہٰذا روزی بھی ہمیشہ اسی سے طلب کرنی چاہئے تو فرمایا کیا میں اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا کارساز بنا لوں جو کھانے پینے اور بول و براز کے محتاج ہیں ‘ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کارساز ‘ مددگار اور ولی وہی ہے جو ہر چیز کا مالک ہے ‘ ہر جاندار کے لئے روزی کے ذرائع پیدا کرتا ہے اور وہ خود نہ کھانے پینے کا محتاج ہے اور نہ کی دیگر چیز کا۔ اولین اطاعت گزار فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ یہ بھی کہہ دیں انی امرت ان اکون اول من اسلم کہ مجھے تو میرے اللہ نے حکم یہ دیا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہو جائوں جو اللہ تعالیٰ کے اولین اطاعت گزار ہیں ولا تکونن من المشرکین اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ تم مشرکوں میں سے نہ ہوجانا ‘ شرک روحانی بیماریوں میں سے مہلک بیماری ہے۔ لہٰذا اس سے بچتے رہنا۔ اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ‘ کارساز نہیں ‘ تمام چیزوں کا مالک اور متصرف وہی ہے۔ فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ یہ بھی کہہ دیں انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم۔ کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بڑے دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں۔ سارے نبی یہی کہتے رہے اور اپنے رب کی نافرمانی سے ڈرتے رہے اسی لئے ہم احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہو کر اس کی گرفت میں نہ آجائیں اور پھر یہ ہے کہ سب سے بڑی نافرمانی کفر اور شرک ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ والکفرون ھم الظلمون کافر ہی ظالم ہیں جو اپنے رب کی نافرمانی کرتے تھے۔ نیز شرک کے متعلق فرمایا ” الشرک نظلم عظیم سب سے بڑی نافرمانی اللہ کی ساتھ شرک ہے۔ فرمایا کفر و شرک کی غلاظتوں سے بچ جائو اور اللہ کی رحمت کے امیدوار بن جائو کیونکہ من یصرف عنہ یومنذ فقد رحمتہ قیامت کی دن جس شخص سے عذاب ہٹا لیا گیا ‘ اس پر اللہ نے رحم فرما دیا۔ وذلک الفوز المبین اور یہ بہت بری کامیابی ہے۔ دوسری جگہ موجود ہے۔ فمن زحرج عن النار وادخل الجنتہ فقد فاز (آل عمران) جو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ تو فرمایا اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہے کہ انسان ذلت سے بچ جائے اور عزت کا مقام پا لے۔ مشکل کشا صرف اللہ ہے فرمایا وان یمسک اللہ بضر اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے فلا کاشف لا الا ھو تو اس کے سوا کوئی اسے ہٹانے والا نہیں۔ یعنی مافوق الاسباب نافع اور ضار اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے۔ یاد رہے کہ یہاں مافوق الاسباب نفع نقصان کی بات ہو رہی ہے ورنہ اسباب کے دائرے میں رہتے ہوئے تو ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کرتا ہے اور کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور کسی کو کی کے ہاتھوں نقصان ہوجاتا ہے مگر جس مقام پر تمام اسباب و علل ختم ہوجاتے ہیں اس مقام پر کسی کی تکلیف کو دور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے وان یمسک بخیر اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں بھلائی پہنچائے فھو علی کل شی قدیر تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ کوئی دوسرا شخص اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے میں دخل نہیں دے سکتا ‘ وہ اپنی منشاء کے مطابق جسے چاہے نفع پہنچانے پر قادر ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ غلط کار لوگ اللہ کی مخلوق کو نفع نقصان کا مالک سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی لئے ان کے نا م کی دہائی دیتے ہیں ‘ ان کو نذرانہ پیش کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت ان کو پکارتے ہیں جو کہ صریح شرک ہے ۔ اللہ کے سوا نہ کوئی قبر والا کسی کی مدد کرسکتا ہے اور نہ کوئی جن یا فرشتہ کی مشکل کشائی کرسکتا ہے۔ ویسلے کا تصور بعض مشرکین ویسلے کا غلط تصور رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم انبیاء اور اولیاء اللہ کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ جس طرح اس دنیا کے بادشاہ یا امیر ‘ وزیر تک رسائی کے لئے کی وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے بھی انبیاء اولیاء کے وسیلہ کی ضرورت ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا ‘ مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ دنیا کے بادشاہوں اور امراء پر قیاس کیا ہے ‘ جو کہ سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوق کا خالق اور مالک ہے ‘ اس کا ہر مخلوق کی ساتھ تعلق بھی قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے چوتھی صفت کا نام تدلی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا عکس ہر انسان کی روح پر پڑتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا تعلق ہر شخص سے براہ راست قائم ہوتا ہے لہٰذا مشرکین کے بادشاہوں کے مماثل وسیلے کی یہاں قطعی گنجائش نہیں۔ ہاں ایک وسیلہ ضرور ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا وسیلہ۔ اطاعت بجا لائو تو بلا روک ٹوک اللہ کی بارگاہ تک رسائی حاصل کرلو ‘ درمیان میں کسی مزید وسیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مدد صرف اسی سے مانگو ‘ کیونکہ وہی مدد دینے والا ‘ مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) اپنی کتاب فتوح الغیب میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں ‘ جو کہ مسند احمد میں موجود ہے۔ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھا کہ آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ‘ یا غلام یعنی اے لر کے ! احفظ اللہ یحفظک اللہ تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو یعنی ان کا دھیان رکھو ‘ اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا ‘ پھر فرمایا تو اللہ کو حاضر ناظر جان ‘ تو اسے اپنے سامنے موجود پائے گا۔ واذا سالت فاسئل اللہ جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر واذا ستعنت فاستعن باللہ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے طلب کر۔ اللہ نے اپنے بندوں کی قسمت میں جو کچھ لکھا ہے وہ ازل سے مقدر ہوچکا ہے اور اسے کوئی بدل نہیں سکتا ہر شخص کو جو فائدہ پہنچتا ہے۔ وہ پہنچ کر رہے گا اور جو نقصان پہنچتا ہے وہ بھی پہنچ کر رہے گا۔ پھر اگر تو اللہ پر توکل رکھے اور یقین محکم کے ساتھ معاملہ کرسکے تو وہ تجھے بہت بڑی جزاء عطا فرمائے گا۔ حدیث نقل کرنے کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) لکھتے ہیں کہ ہر مومن کی اعتقادی اور عملی صحت و عافیت اسی میں ہے کہ اس حدیث پر ہمیشہ عمل کرے تا کہ وہ دنیا و عقبیٰ میں تمام آفات و مصائب سے محفوظ رہ سکے آپ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اس حدیث شریف کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لے اور ہم یہ اس پر عمل پیرا رہے مگر آج ان کے نام لیوا کیا کر رہے ہیں ۔ کوئی حضرت علی ہجویری (رح) کا بکرا لے جا رہا ہے تو کوئی شیخ عبدالحق (رح) کا توشہ ‘ کہیں شاہ مدار (رح) کا ملیدہ مشہور ہے اور کہیں بو علی قلندر کا کچھڑ ‘ کہیں امام جعفر (رح) کے کو نڈے اور کہیں بی بی کی صحنک اور پھر شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کی گیارہویں تو بڑی مشہور ہے۔ یہ سب کیا ہے غیر اللہ کو نذریں پیش کی جارہی ہیں ان سے مدد طلب کی جا رہی ہے۔ مرادیں مانگی جا رہی ہیں شیخ عبدالقادر (رح) تو اس حدیث کو اوڑھنا بچھونا بنانے کی تلقین کر رہے ہیں اور تم انہیں سے مشکل کشائی کی امید لگائے بیٹھے ہو۔ یہ سب باطل باتیں ہیں مگر یار لوگ خوش ہیں کہ یہ بزرگ ہماری حاجت روائی کر رہے ہیں۔ ایصال ثواب جب کہا جائے کہ بھئی ! غیر اللہ کی نذر و نیاز جائز نہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایصال ثواب کرتے ہیں۔ بھائی ! یہ ایصال ثواب نہیں بلکہ شرکیہ امور ہیں ‘ اگر ایصال ثواب مطلوب ہے تو غرباء اور محتاجوں کو ان کی ضروریات کی اشیاء بہم پہنچائو ‘ کھانا کھلائو ‘ کپڑا پہنائو ‘ کسی کو قرض سے نجات دلائو ‘ کسی کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دو اور نیت یہ رکھو کہ اس کا ثواب فلاں بزرگ کو پہنچے ‘ اناء اللہ پہنچے گا۔ اموات کیلئے استغفار ‘ ایصال ثواب ملت ابراہیمی کا مسلمہ اصول ہے ان کے لئے دعائیں کرو ‘ ایصال ثواب کرو مگر یہ کیسے نعرے ہیں ” یا علی مدد “ اور ” یا غوث اعظم المدد “ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب شرکیہ باتیں ہیں اللہ کے سوا کوئی غائبانہ مدد نہیں کرسکتا کوئی حاجت روائی اور مشکل کشائی پر قادر نہیں کوئی مددگار اور کارساز نہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ فرمایا وھو القاھر فوق عبادہ وہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس طرح چاہے اپنے بندوں سے کام لے سکتا ہے ‘ اگر اکڑ جائیں تو انہیں دبا سکتا ہے۔ لہٰذا اسی سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ اپنے دست قدرت سے اپنے بندوں کی اصلاح فرمائے کیونکہ قاہر تو وہی ہے ‘ سارا انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وھوالحکیم الخبیر وہ حکیم ہے کہ اس کی کوئی چیز حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبیر ہے کہ اسے ذرے ذرے کا لم ہے۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں لہٰذا دست سوال بھی ہمیشہ اسی کے سامنے دراز کرنا چاہئے۔
Top