Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 128
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا١ۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ١ۚ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَا١ؕ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَيَوْمَ
: اور جس دن
يَحْشُرُهُمْ
: وہ جمع کرے گا
جَمِيْعًا
: سب
يٰمَعْشَرَالْجِنِّ
: اے جنات کے گروہ
قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ
: تم نے بہت گھیر لیے (اپنے تابع کرلیے)
مِّنَ
: سے
الْاِنْسِ
: انسان۔ آدمی
وَقَالَ
: اور کہیں گے
اَوْلِيٰٓؤُهُمْ
: ان کے دوست
مِّنَ
: سے
الْاِنْسِ
: انسان
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
اسْتَمْتَعَ
: ہم نے فائدہ اٹھایا
بَعْضُنَا
: ہمارے بعض
بِبَعْضٍ
: بعض سے
وَّبَلَغْنَآ
: اور ہم پہنچے
اَجَلَنَا
: میعاد
الَّذِيْٓ
: جو
اَجَّلْتَ
: تونے مقرر کی تھی
لَنَا
: ہمارے لیے
قَالَ
: فرمائے گا
النَّارُ
: آگ
مَثْوٰىكُمْ
: تمہارا ٹھکانہ
خٰلِدِيْنَ
: ہمیشہ رہو گے
فِيْهَآ
: اس میں
اِلَّا
: مگر
مَا
: جسے
شَآءَ اللّٰهُ
: اللہ چاہے
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور اس دن کا خیال کرو جس دن اکٹھا کرے گا اللہ ان سب کو اور فرمائیگا اے جنات کے گروہ ! تحقیق تم نے بہت زیادہ کرلیے گمراہ انسان ، اور کہیں گے ان کے رفیق انسانوں میں سے ، اے ہمارے پروردگار فائدہ اٹھایا ہمارے بعض نے بعض سے اور پہنچے ہم اس مدت تک جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ اللہ فرمائے گا کہ دوزخ کی آگ تمہارا ٹھکانا ہے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے مگر جو اللہ چاہے بیشک تیرا پروردگار حکمت والا سب کچھ جاننے والے ہے
ربط آیات گذشتہ دورس میں یہ بیان آچکا ہے۔ کہ جسے اللہ تعالیٰ راہ راست کی طرف ہدیت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہی میں رکھنا چاہتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے اور اس میں ایمان اور اسلام جیسی اعلیٰ چیز داخل نہیں ہو سکتی اور پھر اس شخص کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے اس کو آسمان پر چڑھنا پڑے۔ جس طرح کوئی شخص اس مادی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں چڑھ سکتا اسی طرح تنگدل شخص ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ کفر شرک کرنے والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نجاست ڈال دیتا ہے۔ جو ایمان سے محروم ہوتے ہیں ، ضد اور عناد کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان پر شیطان مسلط کردیتا ہے جو کہ بجائے خود ایک گندگی ہے۔ وہ انسان کے دل و دماغ میں ناپاک خیالات ڈالتا ہے جسکی بناء پر ایسا شخص صراط مستقیم سے مزید دور ہوجاتا ہے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالٰ نے شیطان اور انسان کے باہمی تعلق کو بیان فرمایا ہے۔ جب محاسبے کا وقت آئیگا تو انسان اقرار کریں گے کہ ہم نے شیطان سے اور شیطان نے ہم سے فائدہ اٹھایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو جہنم کی سزا کا حکم سنائیں گے۔ ارشاد ہوتا یوم یحشر ھم جمیعاً اس دن کو دھیان میں لائو جس دن اللہ رب العزت ، پروردگار عالم اور معبود برحق سب کو اکٹھا کریگا۔ اور محاسبے کا عمل شروع کریگا۔ جنات سے خطاب ہوگا۔ یمعشر الجن اے جنات کے گروہ ! قد استکثرتم من الانس تم نے انسانوں میں سے بہت سے لوگ اپنے پیچھے لگا لیے یعنی ان کو گمراہ کردیا ۔ وقال اولیو ھم من الانس اور انسانو میں سے ان کے دوست کہیں گے یعنی اقرار کریں گے کہ بیشک جنوں نے ہم میں سے کثیر تعداد کو بہکا کر راہ راست سے گمراہ کردیا ۔ جس طرح یہاں پر جنات سے خطاب ہے اسی طرح سورة یٰسین میں انسانوں سے بھی اللہ نے خطاب فرمایا ” الم اعھدالیکم یبنی ادم ان لا تعبد والشیطن “ اے بنی آدم ! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا۔ اللہ کے علاوہ کسی بھی غیر کی پرستش شیطان ہی کی پوجا ہے۔ غیر اللہ کی عبادت شیطان ہی کے اغوائ ، اضلال اور وسوسہ اندازی سے ہوتی ہے۔ بہر حال اس آیت میں جنات کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ انسان اور جن دونوں مکلف ہیں اور قیامت کے دن محاسبے کے عمل سے گزریں گے۔ انسانوں کی آبادی سے پہلے اس زمین میں جن آباد تھے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ اسلام کی پیدائش سے دوہزار سال پہلے جن یہاں آباد تھے۔ پھر جب انہوں نے فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یہاں سے بھگا دیا اور یہ خوفناک جنگلوں پہاڑوں اور جزیروں کی طرف چلے گئے۔ اس طرح زمین ان سے پاک ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ اسلام کی تخلیق کر کے آپ کی نسل کو چلایا۔ مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں ۔ کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی نیک اور بد ہوتے ہیں۔ بعض کافر ، بعض مشرک ، بعض منافق اور بعض مومن اور مؤحد ہوتے ہیں۔ جس طرح انسانوں میں مختلف فرقے پائے جاتے ہیں اسی طرح جن بھی مختلف فرقوں میں تسیم ہیں۔ بہر حال جن اور انسان اللہ کے قانون کے پابند ہیں۔ اگلے رکوع میں اسکی مزید تفصیل آئیگی۔ فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو اکٹھا کریگا اور جنوں سے فرمائیگا کہ تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا ، تو شیطان کے دوست انسان کہیں گے پروردگار ! تیرا فرمان برحق ہے۔ ہم واقعی شیطان کا اتباع کرتے رہے اور سیدھے راستے سے بہک گئے۔ اور یہ بھی عرض کریں گے ربنا استمتع بعضنا ببعض ہم میں سے بعض نے بعض کے ساتھ فائدہ اٹھایا یعنی جنات انسانوں سے مستفید ہوتے رہے اور انسان جنات سے استفادہ کرتے رہے۔ جنات کا انسان سے فائدہ اٹھانا اس طرح ہے کہ جنات نے انسانوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے ان کو گمراہ کیا۔ جیسا کہ سورة جن میں موجود ہے ” فزادو ھم رھقا “ جب جنات نے دیکھا کہ انسان ان سے ڈتے ہیں ان کی نذر نیاز کرتے ہیں ، ان کی پنا میں آتے ہیں تو ان کے غرور وتکبر اور اکڑ میں اضافہ ہوگیا۔ اور اس طرح انہوں نے انسنوں سے فائدہ اٹھایا۔ انسانوں کے مستفید ہونے کی صورت یہ ہے کہ انہیں شیطان کے بتائے ہوئے عقائد باطلہ میں لطف و سرور حاصل ہونے لگا۔ طرح طرح کی مشرکانہ رسوم سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اہل بدعت کو بدعات کے کاموں میں لطف آنے لگا اور وہ ان میں مزید منہمک ہوگئے۔ کسی کو قربانی پر حاضری سے اطمینان قلب حاصل ہوگیا۔ اور کسی کو نذر بغیر اللہ سے کامیابی ہوگئی۔ کسی نے جھنڈیاں لگا کر اور کسی نے جلوس نکال کر اور کسی نے نعرے بازی کر کے اپنے دل کو مطمئن کرلیا۔ اُدھر شیطان بھی خوش ہوگیا کہ اس کا حربہ کامیاب رہا اور لوگ گمراہی کی طرف چل نکلے ہیں ، اس طرح گویا جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے استفادہ حاصل کیا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہوا ہے۔ اللہ کے دربار میں انسان بھی اس حقیقت کا اعتراف کریں گے کہ وہ قیامت کے منکر تھے ، توحید کا انکار اور شرک میں مگن رہے مگر ہمارا خیال غلط نکلا ، ہمارا عقیدہ باطل ثابت ہوا وبلغنا اجلنا الذی اجلت لنا اور تو نے ہمارے لیے جو وقت مقرر کر رکھا تھا ہم اس تک پہنچ گئے اور قیامت آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انس و جن کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جب اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور پھر پوری کائنات کے لیے بحیثیت مجموعی بھی ایک وقت معین ہے جب قیامت برپا ہو جائیگی ۔ تو انسان کہیں گے مولا کریم ! ہم نے اس دن کا انکار کیا ، شیطان کا اتباع کرتے رہے ، اس نے ہم سے اپنی باتیں منوائیں ، ہم کفر اور شرک میں مبتلا رہے ، بد عات کو ہی دین سمجھتے رہے اور اور اصل دین سے غافل ہوگئے اور آکر کار اس وقت تک پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ اس اعتراف حقیقت یا اقبالی باین کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیگا قال النار مثو لکم اب جہنم کی آگ تمہارا ٹھکانا ہے۔ انسان ہو یا جن جس نے بھی غرور وتکبر کیا ، شرک ، کفر اور بدعات میں مبتلا رہا ، رسومات باطلہ کے پیچھے لگا رہا ، اللہ کی وحدانیت سے انکار کیا ، اس کا ٹھکانا جہنم کی آغ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اور پھر بھی کہ جہنم کی سزا عارضی نہیں ہوگی کہ مدت پوری ہونے پر وہاں سے نکال لیے جائیں گے بلکہ خلدین فھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہیں گے الا ماشاء اللہ مگر یہ کہ جو اللہ چاہے۔ مشیت الٰہی کی صورت یہ ہے کہ وہ کس کو توبہ کی توفیق دے دے ، حقیقت اس کی سمجھ میں آجائے تو وہ توحید کا اقرار کر کے دروزخ سے بچ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن پاک میں مذکور ہے کہ جہنمی جب جہنم میں جلیں گے تو پانی طلب کریں گے۔ پھر ان کو پانی کی طرف لے جایا جائیگا جو کہ کھولتا ہوا ہوگا۔ اگرچہ اس سے دوزخیوں کو کوئی خاص فائدہ تو نہ ہوگا مگر اتنی دیرت آگ میں جلنے سے تو افاقہ رہے گا۔ الا ماشاء اللہ کا یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سزا اپنی مشیت اور ادارے سے دیگا ، وہ چاہے تو کسی سے سزا موقف کر دے۔ وہ تو خود مختار ہے ، وہ سزا دیینے پر مجبور تو نہیں ہے ، لہٰذا جس کی چاہے سزا معاف بھی کرسکتا ہے اعمال انسانی کا طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ اسے اعمال کے مطابق سزا یا جرزادی جائے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لیے پابند بھی نہیں ، کہ وہ کسی کو ضروری سزا دے یا کسی کو ضرور ہی معاف کر دے۔ اگرچہ اس کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کسی کافر اور مشرک کو نہیں چھوڑے گا مگر وہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرمایا ان ربک حکیم علیم تیرا رب حکیم ہے ، وہ ہر کام اپنی حکمت تامہ کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ اس کا سزا اور جزا کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ وہ علیم بھی ہے اور کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں۔ اس کا ہر فیصلہ شک و شبہ سے بالا کامل علم پر ہوتا ہے۔ جنوں او انسانوں کے محاسبے کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آخرت میں مختلف لوگوں کی آپس میں رفاقت کا ذکر کیا ہے ۔ جن لوگوں کی سزا کا بیان ہوا ہے ، ان کے متعلق فرمایا وکذلک نولی بعض الظلمین بعضا اور اسی طرح ہم ملا دیں گے ، بعض ظالموں کو بعض کے ساتھ یعنی دوزخ میں جانے والے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ نولی کے معنی قریب کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت سعید ابن جبیر (رح) ، حضرت قتادہ (رح) اور حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر مفسرین نے اس آیت میں قریب کا معنی ہی لیا ہے۔ اور پورا مطلب اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ اس طر ہم بعض ظالموں کو بعض دوسرے ظالموں کے قریب کردیں گے۔ یعنی ان کو ایک دوسرے کی رفاقت حاصل ہوگی۔ سورة تکویر میں آخرت میں تمام لوگوں کے متعلق فرمایا ہے ” وازا النفوس زوجت “ جب ہر قسم کے لوگوں کو ملا دیا جائے گا مفسرین اس سے یہی مراد لیتے ہیں کہ ہر قسم کے لوگوں کی علیحدہ علیحدہ گورہ بنا دیئے جائیں گے۔ حشر کے میدا میں نیکوں کی قطاریں الگ ہوں گی اور بڑوں کی الگ ہونگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ اعمال اور جرائم کے اعتبار سے بھی الگ الگ قطاریں ہوں گی ، سب س اچھے اعمال انجام دینے والے اور سو فیصد نمبر حاصل کرنیوالے ایک قطار میں ہوں گے اور اس سے کم نوے نمبر والے اور پھر پچاس نمبر حاصل کرنے والے علیحدہ علیحدہ قطاروں میں کھڑے ہوں گے۔ جس درجے کی کسی نے نیکی یا برائی کی ہے ۔ وہ اسی گروپ میں شامل ہوگا۔ اسی طرح ظالم ظالموں کی ساتھ مل جائیں گے ، شرک کرنے والے مشرکوں کے ساتھ ہوں گے اور توحید پرست مئوحدین کے گروہ میں شامل ہوں گے ، جس طرح دنیا میں ” کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز باباز کامقولہ ہے ، اس طرح آخرت بھی ایک دوسرے کی رفاقت حاصل ہوگی۔ حتیٰ کہ چورچوروں کے ساتھ ہوں گے اور عبادت گزار عبادت گزاروں کے ساتھ ۔ جس طرح دنیا میں لوگ اچھی سوسائٹی کی تلاش میں رہتے ہیں ، اسی طرح آخرت میں بھی ان کو بہتر سوسائٹی نصیب ہوگی اور جو لوگ اس دنا میں بُری سوسائٹی میں رہتے تھے ، آخرت میں بھی انہیں ویسی ہی رفاقت میسر آئیگی۔ وہ سزا کے دوران بھی ایک دوسرے کے قریب ہی ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہوں گے۔ آیت کریمہ کا یہ مفہو م بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ تولی کا ایک معنی مسلط کردینا بھی ہے۔ اس کے علاوہ ولایت معنی مد د اور نصرت کے بھی آتا ہے۔ اس سے حکومت اور سلطنت بھی مراد ہوتا ہے اسی لیے متولی وہ ہوتا ہے جو نگرنای اور حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر نولی کا معنی مسلط کردینا لیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے توحید کی بجائے شرک کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور قرآن پاک سے اعراض کرتے ہیں ان کی گردنوں پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے ، ان کا ساتھی بن جاتا ہے اور پھر ان کو گمراہ کر کے چھوڑتا ہے۔ سورۃ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے ” ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطنا فھو لہ قرین “ جو شخص قرآن سے اعراض کرتا ہے اس کی گردن پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے۔ اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے اللہ کے دین سے منہ موڑنے والے ظالم ہیں اور ان پر شیطان ظالم کو مسلط کردیا جاتا ہے ۔ بما کانو ایکسبون یہ اس وجہ سے کہ جو کچھ وہ عمل کرتے ہیں اور کماتے ہیں۔ اس تسلط سے ایک دوسرا عام فہم معنی بھی لیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق ایک ظالم پر دوسرے بڑے ظالم کو مسلط کردیتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کما تکونون یومی علیکم اوکذلک یولی علیکم یعنی اے لوگو ! جس طرح کے تم خود ہو گے اسی طرح کے تم پر حاکم مقرر کردیئے جائیں گے۔ اگر تم اچھے عادات و خصائل کے مالک ہو ، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہو ۔ نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو تو تمہارے حاکم بھی رحم دل اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہوں گے۔ اور اگر تم ظلم وجود کے عادی ہوں گے ، کمزوروں پر ظلم کر دے گے ، غریبوں کی حق تلفی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر حاکم بھی ایسے مسلط کر دیگا جو تمہیں ظلم کا نشانہ بنائیں گے اور تمہیں ذلیل و خوار کر کے رکھ دیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں ؤتا ہے من اعان ظالما سلط اللہ علیہ ظالما جو شخص ظالم کی اعانت کریگا ، اللہ اُ پر ایک بڑا ظالم مسلط کر دیگا جو اسے ذلیل کریگا۔ دنیاں میں جہاں کہیں لوگوں میں ظلم و ستم کا دور دورہ ہو ، ان پر حاکم بھی ایسے ہی مسلط ہوتے ہیں جو انکی سرکوبی کرتے رہیں۔ اور یہ سب کچھ ان کی اپنی کمائی کا بدلہ ہوتا ہے۔ جو سلوک وہ اپنے سے کم ترلوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ جب کوئی قوم عدل و انصاف کی بجائے ظلم کو پسند کرتی ہے تو خدا تعالیٰ ان پر کسی ظالم کو ہی مسلط کردیتا ہے تو بہر حال اسی طرح ہم بعض کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں اور انسانوں پر شیطانوں کا مسلط ہونا انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اصل میں یہ بیان تو کفر و شرک اور شیطان کے تسلط کا تھا تاہم اس کا اطلاق ایک انسان کا دوسرے انسان پر بھی ہوتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ۔ کہ وہ ایک ظال کو دوسرے ظالم کے ذریعے دفع کردیتا ہے اور پھر یہ بھی بیان ہوگیا کہ جس طرح دنیا میں ایک طرح کی سوجھ بوجھ کے آدمی ایک گروہ میں شامل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آخرت میں ہر شخص اپنے اپنے اعمال اور عقیدے کے مطابق اپنے اپنے گروہ میں شامل ہوگا۔
Top