Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پس کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھن والے ہو۔
گذشتہ درس میں اللہ کے علاوہ دوسروں کو حکم تسلیم کرنے سے منع کیا گیا تھا ، نیز نبی علیہ اسلام کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر آپ اکثریت کا کہا مانیں گے تو آپ سیدھے راستے سے بہک جائیں گے ، کیونکہ لوگوں کی اکثریت محج گمان پر چلتی ہے اور ان کے پاس حق بات نہیں ہوتی۔ اب آج کی آیات میں ایسے لوگوں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مشرک لوگ ایمان پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور یعنی ذبح شدہ جانور حلال سمجھتے ہیں اور اس کا گوشت کھالیتے ہیں ، جب کہ خدا کا مارا ہوا یعنی طبی موت مرا ہوا جانور حرام جانتے ہیں۔ وہ لوگ اس بعید از قیاس خیال کرتے تھے۔ بعض مشرکین یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمان جس جانور یا پرندے کو لوہے لکڑی ، پتھر وغیرہ سے مارلیتے ہیں ، اس کو تو کھالیتے ہیں مگر جس جانور کو خدا تعالیٰ سنہری تلوار سے مارتا ہے اس کو نہیں کھاتے ، بلکہ حرام سمجھتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے باطل خیالات کا رد فرمایا ہے کیونکہ کافر لوگ اس قسم کی باتیں کر کے مسلمانوں میں اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل ایمان کو ان کے باطل نظریات کی طرف توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو بخوشی استعمال کرنا چاہئے اور حرام کردہ اشیاء سے اجتناب کرنا چاہئے۔ مشرکین و کفار کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا فکلو مما ذکر اسم اللہ علیہ اے ایمان والو کھائو اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا ِگیا ہے یعنی ذبح کرتے وقت جس جانور پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا گیا ہے اس کا گوشت کھائو جب کہ وہ حلال جانور ہو ۔ انکنتم بایتہ مومنین اگر اللہ کی نازل کردہ آیات پر تمہارا ایمان مکمل ہے۔ تو ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانے میں جھجک محسوس ن کرو پھر اسی بات کو تاکید اً فرمایا وما لکم الا تاکلو مما ذکر اسم اللہ علیہ اور تمہیں کیا ہے کہ تم نہیں کھاتے وہ چیز جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ ایسی چیز تو حلال اور طیب ہے۔ اور تمہیں حلا ل و حرام کی تمیز کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے ، کیونکہ وقد فصل لکم ما حرم علیکم تمہارے سامنے ان چیزوں کی تفصیل بیان ہوچکی ہے جو تم پر حرام ہیں۔ سورة بقرہ اور سورة نمل میں اللہ تعالیٰ نے حرام کردہ اشیاء کی تفصیل بیان کردی ہے لہٰذا اس کی روشنی میں شرعی طریقہ سے ذبح شدہ حلال جانور کا گوشت بصد شوق کھاسکتے ہو۔ اسی طرح تمہارے لیے حرام چیزوں سے پرہیز بھی لازمی ہے الا ماضطرتم الیہ سوائے اس کے کہ جس کی طرف تم مجبور کردیئے گئے ہو۔ مجبوری کی حالت میں حرام چیز کھانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ جب جان جانے کا خطرہ ہو تو اس وقت شراب ، خنزیر اور نذر یغر اللہ بھی کھائی جاسکتی ہے اور ایسی حالت میں استعمال کنندہ پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا۔ البتہ اگر وہ مجبوری کی حالت میں کھائے بگیر مر جائے تو اللہ کی گرفت میں آجائے گا کیونکہ اس لیے جان کی حفاظت لازم تھی۔ مجبوری کی حالت میں حرام چیز کی حرمت اٹھ جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جن جانوروں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ ان کا گوشت انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ بعض حرام کردہ اشیاء سے جسمانی صحت خراب ہوتی ہے اور بعض اشیاء سے روحانی صحت ضائع ہوتی ہے حرام اشیاء کی حرمت میں یہی حکمت ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں انسان کے لیے مضر ہیں۔ اسی طرح جن جانوروں کا گوشت انسانی جسم کے لیے مفید ہے ان کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے۔ چناچہ آگے اسی سورة میں ان حلال مویشیوں کی تفصیل آرہی ہے۔ جو گھاس کھاتے ہیں۔ پالتو ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قریب رہتے ہیں اور انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ لوگ ان کا دودھ پیتے ہیں ۔ اون استعمال کرتے ہیں اور گوشت بھی کھاتے ہیں۔ یہی جانور کھیتی باڑی اور باربرداری کے کام بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حلال قرار دیا ہے۔ البتہ گوشت استعمال کرنے کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ جانور شرعی طریقے کے مطابق ذبح کیا گیا ہو۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ملت ابراہمیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ حلال جانور کو حلق سے ذبح کیا جائے اور ذبح کے لیے لوہے ، پتھر یا شیشے وغیرہ کا تیز دھار آلہ استعمال کیا جائے ذبح کیلئے گلے کی چار رگیں ، مرئی ، سانس کی نالی اور دو خون کی رگیں کاٹی جاتی ہیں کم از کم تین رگوں کا کاٹنا ضروری ہے تاکہ جسم کا سارا خون بہہ جائے۔ گلے کے علاہ اگر کسی دوسرے جگہ سے ذبح کیا جائے تو جانور کا گوشت مکروہ تحریمی ہوگا۔ کیونکہ ایسا ذبح مسلمہ اصول کے خلاف ہوگا۔ برطانیہ میں مشینی ذبح کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جانور کے ماتھے میں گولی مار کر اسے بےحس کردیا جاتا ہے پھر اوپر سے مشین چلا کر ذبح کردیا جاتا ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔ بہر حال جب آدمی کو ذبح پر مکمل اختیار ہو تو مذکورہ طریقے سے ذبح کرنا لازمی ہوگا۔ ہاں مجبوری کی حالت میں جب کہ آدمی جانور تک پہنچنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو ذبح کے مقررہ طریقے کے خلاف کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اونٹ بھاگ گیا ہے اور اس کسی طرح قابو میں نہیں آرہا ہے ، کوئی جانور کنویں میں گرگیا ہے اور مرجانے کا خطرہ ہے۔ تو ایسی صورت میں اگر کسی چیز سے ران پر بھی زخم لگ گیا تو جانور حلال ہوگا ایسی صورت میں گلا کٹنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس کے متعلق ترمذی شریف میں روایت موجود ہے کہ پوچھنے والے نے پوچھا کہ اس قسم کی اضطراری حالت میں ذبح کا کیا حکم ہے تو حضور علیہ اسلام نے فرمایا ولو طعنت فخذھا……اگر نیزہ یا کسی دوسرے تیز دھار آلہ سے زخم لگا دیا جائے جس سے خون نکل جائے تو جانور حلا ل ہوجائے گا۔ پرندوں کے شکار کا بھی یہی حکم ہے۔ ان کو پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا اگر تیر یا نیزہ چلاتے وقت اللہ کا نام لے لیا گیا تو جانور حلال ہوجائے گا۔ کبھی شکار کے پیچھے کتا یا باز یا شکرا وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسا کرتے وقت بھی اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ مقصدیہ کہ اضطراری حالت میں اگر ذبح کے مسلمہ اصول کو ترک کردیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ تاہم اختیار حالت میں حلق کاٹنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر درست نہیں ہوگا۔ بہر حال شرعی ذبح کے لیے دو شرائط کا پایا جانا لازمی ہے۔ ایک ذبح اور دوسرا اللہ کا نام ، جب تک یہ دوشرائط پوری نہ ہوں ذبح درست نہیں ہوگا۔ امام ابو حنفیہ (رح) کا یہی مسلک ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام جان بوجھ کر نہیں لیا تو جانور حرام ہوگا۔ البتہ اگر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا بھول گیا تو معاف ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر مومن کے دل میں اللہ کا نام ہوتا ہے جس طرح بھول کر کھالینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس طرح اگر بوقت ذبح اللہ کا نام لینا بھول جائے تو جانور کی حلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہا اگر دانستہ اللہ کا نام نہیں لیا تو شرط پوری نہ ہوئی اور جانور حرام ہوگیا۔ اس مسئلہ میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر اللہ کا نام لینے کی بجائے کسی پیر ، فقیر ، پیغمبر ، جن یا فرشتے کا نام لے لیا تو جانور مردار ہوگیا۔ امام غزالی (رح) اور امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ ذبح میں دم مسفوح کا نکل جانا بھی ضروری ہے ذبح کرتے وقت جو خون نکلتا ہے وہ حرام ہے فرماتے ہیں کہ اگر یہ خون جانور کے جسم میں ہی رہ جائے تو اس کا گوشت مضر ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے مضرہوتے ہیں لہٰذا خون کا نکل جانا ہی صحت کے لیے مفید ہے۔ جب یہ خون جسم سے نکل جاتا ہے تو گوشت پاک اور قابل استعمال ہوجاتا ہے۔ اسی لیے شریعت نے مضر صحت اشیاء کو حلال قرار نہیں دیا۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس بارے میں کئی آیات نازل ہوئی ہیں کہ کفار اعتراض کرتے تھے کہ مسلمان اپنے ہاتھ سے مارے ہوئے جانور کا گوشت کھا جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا مارا ہوا نہیں کھاتے فرماتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں شیطان لوگوں میں اشتباہ پیدا کرنے کے لیے سکھاتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ حلت و حرمت میں صرف اللہ تعالیٰ کا قانون چلتا ہے۔ اس میں محض عقلی ڈھکو سلے کا نام نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ہر جاندار کو مارنے والا اللہ ہی ہے مگر جو جانور اس کے نام پر ذبحہ کیا جاتا ہے اس میں برکت اور پاکیزگی آجاتی ہے ، اس میں طہارت اور پاکیزگی کا قانون بیھ کار فرما ہے اسی طرح جو جانور اللہ کا نام لیے بغیر ذبح ہوتا ہے۔ وہ طہارت سے خالی ہوتا ہے۔ فرمایا حلت و حرمت کا مسئلہ تمہیں تفصیل کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے وان کثیرالیضلون باھوائِ ھم بغیر علم بیشک بہت سے لوگ محض اپنی خواہشات کے ساتھ بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں ۔ مشرکین کا یہ پراپیگنڈا کہ مسلمان اپنا مارا ہوا کھاتے ہیں اور خدا کا مارا ہوا نہیں کھاتے اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ وہ ایسے اعتراضات کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرمایا ان ربک ھو اعلم بالمعتدین بیشک تیرا پروردگار زیادتی کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ جو اس قسم کی بیہودہ باتیں کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو ضرور گرفت کریگا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے ہر ظاہر اور باطن گناہ کی ممانعت فرمائی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے وذروا ظاہر الاثم وباطغہ ظاہری اور باطنی گناہ کو ترک کر دو ۔ ظاہری گناہ تو وہ ہے جو سر عام کیا جائے اور باطنی وہ جو چھپ کر پوشیدہ طور پر کیا جائے۔ خدائی قانون اور انسان کے وضع کردہ قانون میں یہ بنیادی فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر و پوشیدہ برائی سے منع فرماتا ہے جب کہ اس زمانے کا انگریزی قانون ظاہری طور پر کی جانیوالی برائی کو قابل مواخذہ گردانتا ہے اور پوشیدہ طور پر انجام دیے جانے والے گناہ کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ چناچہ جب کوئی پبلک سکینڈل بن جاتا ہے تو قانون حرکت میں آجاتا ہے اور اگر زنا اور لواطت جیسے قبیح جرائم چوری چھپے باہمی رضا مندی سے کیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ۔ زنا کے متعلق تو اللہ نے فرمایا ” انہ کان فحشۃ ومقتا وساء سبیلا “ (النسائ) یہ تو سخت بےحیائی کا کام ہے مگر انگریزی قانون میں اگر باہمی رضا مندی سے کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ یہ تو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ اسلام کا قانون ہے کہ گناہ ہر حالت میں گنا ہ اور قابل تعزیر ہے خواہ وہ ظاہراً کیا جائے یا چھپ کر اور با ہمی رضا مندی سے ایسے قبیح فعل سے اخلاق تباہ ہوجاتا ہے روحانیت بگڑ جاتی ہے اور انسان کا دین ضائع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے ہر ظاہری اور باطنی گناہ سے منع فرمایا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ظاہری گناہ وہ ہے جو اعضاء وجوارح یعنی آنکھ ، کان ، ہاتھ وغیرہ سے کیا جائے ، اور باطنی گناہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہو۔ بُرا عقیدہ اور بری نیت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ باطنی گناہ بیشمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح حسد ، کینہ ، بغض ، نفرت وغیرہ روحانی امراض ہیں جن کا تعلق باطن سے ہے۔ اللہ نے فرمایا ، ظاہری گناہ بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ سے بھی باز آجائو۔ ساتھی یہ بھی بتلادیا۔ ان الذین یکسبون الثم جو لوگ گناہ کماتے ہیں سیجزون بما کانوا یقترفون انہیں ان کی کمائی کے مطابق بدلہ دیا جائے۔ گناہ کا ارتکاب کر کے کوئی شخص اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ اسے ضرور اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ آگے پھر مشرکین کے اسی اعتراض کا جواب دوسرے انداز میں دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کھائو۔ اب ارشاد ہے ولا تاکلو مما لم یذکراسم اللہ علیہ جس پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا ، اس کو مت کھائو ، وہ حرام ہے۔ جس طرح اللہ کا نام لینے سے ذبیحہ حلال ہوجاتا ہے اسی طرح غیر اللہ کا نام لینے سے حرام ہوجاتا ہے ” ما اہل بہ لغیر اللہ “ کی تفسیر مختلف سورتوں میں بیان ہوچکی ہے ، جو چیز اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے تقریب کے لیے اس کے نام پر نامزد کی جائیگی ، وہ حرام ہوگی۔ اس میں صرف جانور ہی نہیں بلکہ دودھ ، مٹھائی ، فروٹ وغیرہ ہر چیز آجاتی ہے۔ بہر حال جس ذبیحہ پر عمداً اللہ کا نام نہیں لیا گیا وہ بھی حرام ہے اور جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا گیا وہ بھی حرام ہے۔ فرمایا وانہ لفسق ایسا جان بوجھ کر کرنا فسق ہے۔ فسق کا معنی اطاعت سے نکل جانا ہے اور اس میں کفر ، شرک ، بدعت اور چھوٹے موٹے سب گناہ آجاتے ہیں۔ گرمایا وان الشیطن لیوحون الی اولیھم شیاطین ایسی باتیں اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ بہک کر مردار کھانے لگیں یا غیر اللہ کی نذر ونیازدینے لگیں۔ شیطان لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے غیر اللہ کا نام لینے سے چیز کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، لہٰذا جو چاہو کرتے جائو ، حالن کہ اس سے چیزوں میں روحانی نجاست پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں۔ فرمایا شیطان اس لیے دسوسہ امذاذی کرتے ہیں لیجاد لوکم تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑا کریں۔ فرمایا وان اطع تمھم اگر تم ان شیاطین کی بات مان لو گے۔ ان کے بہکاوے میں آجائو گے انکم لمشرکون تو بیشک تم مشرک بن جائو گے۔ شرک صرف غیر اللہ کی پرستش کا نام ہی نہیں بلکہ اگر اللہ کے مقابلے میں دوسروں کا حکم بھی اسی طرح مانا جائے جس طرح اللہ کا حکم مانا جاتا ہے تو یہ بھی شرک میں داخل ہے۔ فرمایا خوب سمجھ لو کہ غیر اللہ کی اطاعت سے تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوگا۔
Top