Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 114
اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا اَبْتَغِيْ : میں ڈھونڈوں حَكَمًا : کوئی منصف وَّهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : جو۔ جس اَنْزَلَ : نازل کی اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : کتاب مُفَصَّلًا : مفصل (واضح) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں اَنَّهٗ : کہ یہ مُنَزَّلٌ : اتاری گئی ہے مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تم نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
کیا میں اس کے علاوہ کسی دوسرے کو فیصلہ کرنے والا تلاش کروں۔ حالن کہ وہی اللہ ہے جس نے آپ کی طرف ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ اتاری ہوئی ہے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ۔ پس نہ ہوں آپ شک کرنے والوں میں
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور مشرکین کی تردید کے ساتھ ساتھ رسالت کا ذکر بھی کیا ۔ اس کے ساتھ توحید کا ذخر بھی مختلف انداز میں کیا اور انسانی اور جناتی شیطانوں کا بیان بھی فرمایا اور یہ بھی کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رک تھے وہ شرکیہ باتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں اور اللہ کی وحدانیت کا انکار کردیتے ہیں اور پھر اللہ کے انبیاء کے متعلق بھی بیہودہ باتیں کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سب کی تردید فرمائی اور اب آج کے درس میں مشرکین کے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ قریش مکہ حضور علیہ اسلام کی رسالت کے منکر تھے اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب کا بھی انکار کرتے تھے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہماری مرضی کی نشانیاں پیش کریں۔ اس کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے کہ نشانی کا اظہار مشیت ایزدی پر موقف ہے ، وہ جب چاہے نشانی ظاہر کردیتا ہے۔ یہ بات پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہے۔ پھر اہل ایمان کو تسلی بھی دی گئی کہ آپ ان کی ہٹ دھرمی کو خاطرہ نہ لائیں آپ سمجھت ہیں کہ اپنی مرضی کی نشانی پاکر یہ لوگ مان جائیں گے مگر تمہیں کیا معلوم ، یہ ایسے عنادی لوگ ہیں کہ نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ لہٰذا انہیں ایسے ہی بھٹکنے دیں۔ مشرکین مکہ نے حضور علیہ اسلام کی رسالت پر ایمان لانے کے متعلق ایک اور تجویز پیش کی تھی ۔ کہتے تھے کہ اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں تو ، اس کا فیصلہ کسی معتبر آدمی سے کروالیتے ہیں۔ پھر جو وہ فیصلہ کرے ہم دونوں فریق اسے تسلیم کرلیں۔ اس کام کے لیے وہ ولید ابن مغیرہ کا نام تجویز کرتے تھے جو کہ بڑا تجربہ کار ، دولت مند اور دشمن رسول شخص تھا یہ حضرت خالد ؓ بن ولید کا باپ تھا۔ بڑا جہاں گشت اور جہاں دیدہ آدمی تھا۔ بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات رکھتا تھا۔ لوگ اکثر اپنے معاملات کے فیصلے اس سے کرواتے تھے۔ مشرکین مکہ طائف کے بڑے سردار مسعود کا نام بھی پیش کرتے کہ اسے حکم تسلیم کرلیں۔ وہ یہ بھی کہتے کہ اگر یہود و نصاریٰ کا کوئی بڑا عالم آپ کی نبوت کی تصدیق کر دے تو ہم پھر بھی مان جائیں گے۔ صاحب تفسیر روح المعانی علامہ سید محمود آلوی بغدادی (رح) نے بھی لکھا ہے۔ کہ مشرکین مکہ تاصدیق رسالت کے لیے یہود و نصاریٰ کے علماء کی بات ماننے کے لیے بھی تیار تھے۔ مقصد یہ کہ وہ لوگ آپ کی رسالت کی تصدیق کسی دوسری شخصیت یا جماعت سے چاہتے تھے اور حضور علیہ اسلام کے دعویٰ نبوت اور اللہ کی کتاب کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا جواب دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ کہ اے پیغمبر ! آپ ان کے سوال کا جواب یہ دیں ، افغیر اللہ ابتغی حکما کیا میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو حکم ، مصنف یا پنچ تلاش کرلوں ؟ کیا میں اس کے فیصلے کا انتظار کروں کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا نہیں اور مجھ پر نازل ہونے والی کتاب برحق ہے یا نہیں ؟ فرمایا میں کسی ایسے جج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ میری صداقت کا گواہ تو خود اللہ تعالیٰ ہے۔ وھو الذی انزل الیکم الکتب مفصلا حالانکہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہاری طرف بڑی واضح کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کتاب میں عقائد ، احکام ، دلائل اور واقعات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کردیئے گئے ہیں۔ اور بعض آیات کی تفصیل اللہ کے نبی کی زبان سے کرا دی گئی ہے۔ تو ایسی عظیم کتاب کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو حکم بنانا تو ممکن بات ہے۔ ہر مومن اللہ کی رضا پر راضی ہوگا اور وہ اسکی نازل کردہ کتاب اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر کو اپنا فیصل بنائے گا۔ جب وہ مالک المک احکم الحاکمین ہے تو پھر دوسرا کون حکم بن سکتا ہے ؟ فرمایا تم یہود و نصاریٰ کے علماء کو حکم بنانا چاہتے ہے ، ان کی حالت یہ ہے والذین اتینھم الکتب جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے یعنی قرآن پاک سے پہلے یہودیوں کو تورات دی اور نصاریٰ کو انجیل عطا کی۔ یعلمون انہ منزل من ربک بالخق وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ قرآن پاک تیرے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ٹھیک ٹھیک۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ دوسرے پارہ میں موجود ہے یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وہ اللہ کے آخری نبی کو اسی طرح پہنچاتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہنچاتے ہیں۔ اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کی بناء پر انہیں یقین ہے کہ حضور ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں مگر بغاوت ، سرکشی خود غرضی اور چودھراہٹ کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ یہاں پر بھی فرمایا اہل کتاب کو یقین ہے کہ قرآن پاک و ہی کتاب ہے جس کا وعدہ اللہ نے پہلے نبیوں سے کیا تھا۔ تورات میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا میں تیرے بھائی بھائی بندوں یعنی بنی اسماعیل میں سے تیرے جیساعظیم رسول اٹھائوں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یہ وہی کلام ہے جو اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ فرمایا فلا تکونن من الممترین پس نہ ہوں آپ شک کرنے والوں میں ، مطلب یہ کہ اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ حجور علیہ اسلام کو تو کوئی تردد نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ خود ان پر کتاب نازل ہو رہی تھی ، تاہم باقی مومنوں کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ یہ اللہ کا سچا کلام ہے۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے ، لہٰذا کسی سردار یا عالم یا دانشور کو اس معاملہ میں منصف نہیں بنایا جاسکتا ۔ دوسری جتگہ یہ بھی آتا ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کی کتاب کا انکار کرتے ہیں تو کرتے رہیں ، خود اللہ تعالیٰ تو اس بات کا گواہ ہے کہ یہ کتاب اس نے نازل کی ہے۔ اس میں مومنین کے لیے تسلی کا پہلو بھی ہے۔ اللہ نے اس کلام برحق کے متعلق فرمایا وتمت کلمت ربک اور تیرے رب کے کلمات پورے ہوگئے ہیں۔ یعنی تیرے رب کا کلام مکمل ہوگیا ہے۔ صدقاً وعدلا صدق اور عدل کے ساتھ ، یعنی سچائی اور انصاف کے ساتھ ، امام رازی (رح) چھٹی صدی کے عظیم مفسر قرآن ہوئے ہیں۔ آپ اسلام کے خادم ، منطقی اور فلاسفر تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تکمیل کلمہ کے لیے دو لفظ صدق اور عدل آئے ہیں اور ان دونوں کا مصداق الگ الگ ہے۔ قرآن پاک میں ماضی اور مستقبل کے متعلق بہت سی خبریں دی گئی ہیں ، جہاں تک ان خبروں کا تعلق ہے یہ صدق یعنی سچائی پر مبنی ہیں۔ اس لحاظ سے یہاں پر صدق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن پاک کا ایک معتدبہ حصہ احکام پر مشتمل ہے اور ہر انسان ان احکام کا مکلف ہے ، اس کے لیے فرمایا کہ یہ احکام عدل پر مبنی ہیں لہٰذا ان پر عمل پیرا ہونے میں کسی قسم کا تردد نہیں کرنا چاہئے۔ یہ احکام اللہ نے اپنی کمال حکمت کے ساتھ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے نازل فرمائے ہیں۔ ان میں عدل کا پہلو واضح ہے۔ پھر فرمایا لا مبدل لکلمتہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک کے حقائق کو کوئی شخص غلظ ثابت نہیں کرسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنا ہی 9 دماغ ٹیڑھا ہو تو ہر چیز ٹیڑھی نظر آئے اور اس طرح قرآن پاک میں کجی تلا کرتا پھرے وگرنہ یہ تو بالکل برحق کلام ہے۔ جس طرح بھینگے آدمی کو ایک کی بجائے نظر آتی ہیں۔ یا صفر اوی آدمی کو ہر چیز زرد نظر آتی ہے ، اسی طرح قلب و ذہن کے مریض کو اللہ کے کلام میں خامی نظر آتی ہے۔ حقیقت میں اس میں کوئی خامی نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سابقہ کتب سماویہ میں تحریف ہوچکی ہے۔ اور وہ اپنی اصل حالت پر قائم نہیں رہ سکیں۔ تورات و انجیل میں بیشمار تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ ان کے احکام بدل کر ان میں کفر و شرک کی آمیزش کردی گئی ہے۔ انجیل ایک سے ایک سو بیس اور پھر ایک سو بیس سے چار ہوئیں اور چار سے پانچ ہوگئیں۔ اللہ نے صاف فرمایا ” یحرفون الکلم عن موا ضعہ “ یہود و نصاریٰ نے احکام کو تبدیل کردیا۔ بائیبل کا ہر نیا ایڈیشن پہلے سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض احکام نکال کر نئی چیزیں شامل کردی جاتی ہیں۔ مگر یہ شرف صرف قرآن پاک کو حاصل ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہیں ہوئی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ ’ انا نخن نزلنا الذکروانالہ لحفظون “ ہم نے ہی اس کتاب کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ اسی لیے یہاں فرمایا ہے کہ اس کے کلمات کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ انگریزوں اور یہودیوں نے قرآن پاک میں تحریف کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکے ، ابھی کچھ عرصہ پہلے یہودیوں نے تحریف شدہ قرآن کے نسخے چھپوا کر افریقی ممالک میں بھجوائے۔ مصر کے صدر ناصر مرحوم کو پتہ چلا تو انہوں نے صوت الاسلام کے نام س ریڈو اسٹیشن قائم کیا جس کے ذریعے یہودیوں کی ناپاک سازش کا پردہ چاک کیا گیا اور افریقی باشندوں کو اس ناپاک حرکت سے آگاہ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کے لا تعداد نسخے نہایت صحت کے ساتھ طبع کرا کے افریقہ اور ساری دنیاں میں بھجوائے اور اس طرح یہودی سازش کا کامیاب مقابلہ کیا۔ یہ نسخہ یہاں ہمارے پاس بھی موجود ہے انگریزوں نے بھی قرآن پاک کے خلاف بڑا زبردست پراپیگنڈا کیا ہے ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں وزیر اعظم گلیڈ سٹون نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں اٹھا کر کہا تھا کہ جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود ہے لوگ مہذب نہیں ہو سکتے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جو شراب اور جوئے پر پابندی عائد کرتی ہے۔ زانی کے لیے سخت سزا تجویز کرتی ہے۔ کسی کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتی ۔ قوموں کو غلام بنانے کیخلاف ہے۔ لہٰذا اسے دنیا سے ناپید ہونا چاہئے ، اس کی موجودگی میں امریکہ ، بر طانیہ ، فرانس اور جرمنی کی تہذیب پروان نہیں چڑھ سکتی۔ انگریز اپنے مقصد میں تو کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ ان کی اپنی سلطنت جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ، آج ایک دو جزیروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ قرآں پاک کی حفاظت کا ذمہ خود اس کو نازل کرنے والے نے لے رکھا ہے۔ ہندو ستان میں یو پی کا گورنر ولیم میور پادری تھا۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ دنیا میں انسانیت کی دشمن دو چیزیں ہیں ، ایک محمد کی تلوار اور دوسرااُس کا قرآن۔ اس شخص نے ” لائف آف محمد “ کے نام سے حضور علیہ اسلام کے سوانح عمری بھی لکھی۔ بہر حال اس نے یہ فقرہ کہا تھا جسے سن کر سر سید بھی تڑپ اٹھا اور اسے انسانیت کا دشمن قرار دیا ۔ بہر حال آج بھی یورپی ممالک میں اسلام اور قرآن کے خلاف برابر سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کی مقرر کردہ کمیٹیاں برابر کام کر رہی ہیں۔ اس معاملے میں مشرقی علوم کا ذوق رکھنے والے مغربی دانشور جنہیں متشرقین کہا جاتا ہے ، وہ بھی اسلام کے خلاف بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوئی قرآن پر ریسرچ کر رہا ہے اور کوئی حدیثت پر ، پھر اپنے زیر اثر لوگوں اور یورپی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے مشرقی طالب علموں کو ریسرچ کے نتائج سے آگاہ کرتے ہیں اور اس طرح اپنے باطل افکار اہل اسلام کے اذہان میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دنیا میں لوگوں کے دلوں سے قرآن کی عظمت کو ختم کیا جاسکے۔ پاکستان میں بھی اس قسم کے فتنے اٹھتے رہتے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں فضل الرحمن نے یہ بیان دیا تھا کہ قرآن پاک کا کچھ حصہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے ، کچھ جبریل علیہ اسلام کا اور کچھ حضور علیہ اسلام کا ۔ اس پر پاکستان میں سخت احتجاج ہوا جس کے نتیجے میں فضل الرحمن کو اس کے عہدے سے ہٹانا پڑا اس کا باپ دیوبند کا فاضل بڑا جید عالم تھا مگر یہ انگریزی سازشوں کا شکار ہوگیا۔ پرویز بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ یہ انگریزی حکومت میں سپرٹینڈنٹ تھا ، اس نے بھی مگر بی افکار کو قرآن پاک کی تعلیم میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے عجیب بات ہے کہ یہ دشمن قرآن پاک کی ایسی تفسیر بیان کر رہا ہے جسے سلف صالحین بھی نہ سمجھ سکے۔ یہ سب انگریزوں کی سازش کے تحت مستشرقین کے کارنامے ہیں۔ مرزائیت کا پودا بھی انگریزوں نے اسی سازش کے تحت لگایا ہمارے اس اسلامی ملک پاکستان میں اب بد عات سرکاری طور منائی جارہی ہیں یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے حکومت ایسی چیزوں کی سرکاری سرپرستی اس لیے کرتی ہے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ دوام حاصل ہو سکے۔ افسوس کی بات ہے کہ بدعات کو تو رواج دیا جا رہا ہے مگر حق بات کہنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی۔ اس مملکت خدا داد میں خدا کا قانون اور نبی کا فرمان ذاتی خواہشات کی وجہ سے پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ تاہم حضور علیہ اسلام کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو غالیوں کی طرف سے دین میں تحریف کو عام لوگوں کے سامنے آشکار کرتے رہیں گے۔ اللہ کے یہ بندے ہر تحریف ، بد عت اور نفس پرستی کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام کردیا ہے۔ اب کوئی شخص لفظی تحریف نہیں کرسکتا۔ تاہم معنوی تحریف کے خلاف بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کھڑا کرتا رہے گا۔ غرضیکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس کی حفاظت کا ذمہ اس نے خود لے رکھا ہے۔ وھوالسمیع العلیم وہ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قلت و کثرت (NAJORITY/MINORITY) کا مسئلہ بھی بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ وان تطع اکثر من فی الرض اگر آپ زمین میں موجود اکثریت کا کہنا مانیں گے یضلو ک عن سبیل اللہ وہ آپ کو اللہ کے راستے سے بہکا دیں گے۔ محض اکثریت کی بنیاد پر حق و باطل کی پہچان نہیں کی جاسکتی کیونکہ اکثریت کا حال یہ ہے ان یتبعون الا الظن وہ تو محض گمان کا اتباع کرتے ہیں اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ گمان دوقسم کا ہوتا ہے ایک تو حسن ظن یعنی اچھا گمان ہے ، اس کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی بلکہ محض اٹکل دوڑانے والی بات ہوتی ہے۔ البتہ گمان کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جس کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے۔ مجتہدین اسی گمان کے تحت مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ ان کا ہر فتویٰ مستندالی دلیل ہوتا ہے۔ وہ ہر حال صحیح دلیل سے اخذ کرکے بتاتے ہیں۔ اس کے بر خلاف کفر ، شرک بدعت وغیرہ اٹکل پچو باتوں سے رائج کیے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں قوانین کثرت رائے سے منظور ہوتے ہیں۔ جو کہ حق کے سراسر خلاف ہے۔ یہ بھی محض گمان ہوتا ہے جسکی کوئی قطعی دلیل نہیں ہوتی جو اکثریت نے کہ دیا ، کرلیا ، خواہ اس میں کتنی قباحت ہو ” وان الظن لا لا یعنی من الحق شائیا “ (النجم) اس قسم کا گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا ۔ غور فرمائیں ، آج دنیا میں جتنے بھی نظریات سامنے آرہے ہیں ، سب کی بنیاد گمان محض پر ہے ۔ کوئی ایرانیوں کا فلسفہ ہو یا انگریزوں کا ، ڈارون کا نظریہ ہو یا آئن سٹائن کا۔ اشتراکیوں کی بڑ ہو یا سرمایہ پرستوں کی ، سب کے سب محض عقل کی تخلیق ہیں۔ اس میں سے کسی کا استناد بھی وحی الٰہی کی نہیں ہے۔ کارل مارکس نے سرمایہ داری کے خلاف کتاب لکھی تھی کہ مزدوروں کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے ، ان کی اجرت کا تعین کیسے ہو اور انہیں کون کونسی دیگر سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ محض حساب کتاب کی بتا ہے مگر لوگ اسے انجیل کی طرح مانتے ہیں۔ یہ سب انسانی دماغ کی اختراع اور گمان ہے۔ مارشل لاء کے ضابطے ، انگریز کی طرز پر اسمبلیوں کا نظام محض اٹکل پچو بات ہے۔ جب تک اللہ کی کتاب یا نبی کا فرمان کسی بات کی تصدیق نہیں کرتا کوئی قانون درست ثابت نہیں ہو سکتا۔ 1922 ئ؁ میں امریکی اسمبلی میں شراب نوشی کے خلاف بل پیش ہوا اس کے خلاف دلائل دیئے گئے کہ فضول خرچی ہے اور انسانی ذہن کو مائوف کرتی ہے چناچہ بل پاس ہوگیا اور شراب نوشی ممنوع قرار پائی۔ اکثریت نے فیصلہ دے دیا بمشکل چار سال تک اس قانون پر عملدرآمد ہوا اور اس کے بعد لوگوں نے چوری چھپے شراب کی کشید شروع کردی اور پینے پلانے لگے۔ معاملہ پھر اسمبلی میں پیش ہوا۔ پھر اس کے حق میں دلائل دیئے گئے اور اسمبلی نے اس کو دوبارہ جائز قرار دیدیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو قانون محض اکثریت کے بل بوتے پر بنا تھا اسے پھر اکثریت نے ہی مسترد کردیا ، حالن کہ شراب کی قباحت نہ پہلے کم تھی نہ بعد میں۔ 1960 ئ؁ کے بعد برطانوی اسمبلی نے دو بالغ مردوں کی باہمی رضا مندی سے ہم جنسی کو جرائم کی فہرست سے خارج کردیا تھا ۔ یہ بھی کثرت رائے کا فیصلہ تھا۔ بہر حال کثرت کے فیصلے تو ایسے ہی ہوتے ہیں کہ حلا کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے دیا جائے۔ وہی ہے جو وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہو اور جس میں تغیر و تبدیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آج دنیا کے پانچ ارب نفوس دیکھ لیں کہ کثرت کن کو حاصل ہے ہر جگہ کفر و شرکت کو اکثریت حاصل ہے۔ ظالم ، فاسد اور بد عقیدہ لوگ اکثریت میں ہیں۔ حرام خور اور انسانیت کے دشمن ہر جگہ غالب ہیں۔ تو کیا حق و صداقت کا یہی معیار ہے ؟ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا تھا از مغز دو صبد خر فکہ انسا نے نمی آئد “ یعنی ایک انسان کے مقابلے میں دو سو گدھوں کی فکر کو قبول نہیں کیا جاسکتا ، کثرت و قلت کا یہی مسئلہ ہے جب تک جاہل اکثریت کو عالم اقلیت پر غلبہ رہیگا ، دنیا کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ نہیں پیروی کرتے یہ لوگ مگر گمان کی وان ھم الا یخروصون اور نہیں وہ مگر اٹکل دوڑاتے۔ یہ سب اٹکل پچو کا م ہو رہے ہیں ، اس میں حقیقت کو کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔ فرمایا ان ربک ھو اعلم من یضل عن سبلیہ بیشک تیرا پروردگار خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بہک گیا ہے۔ وھو اعلم بلمھتدین اور وہ اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ کسی شخص کو حکم نہ بنائیں۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں۔ قرآن کو اپنا حکم تصور کریں اور اسی کے احکام پر عمل کرتے رہیں۔ اللہ نے مفصل کتاب نازل کردی ہے۔ اب کسی پادری یا سردار کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اعتراض کا یہ جواب دیا۔
Top