Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ
: آچکیں تمہارے پاس
بَصَآئِرُ
: نشانیاں
مِنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
فَمَنْ
: سو جو۔ جس
اَبْصَرَ
: دیکھ لیا
فَلِنَفْسِهٖ
: سو اپنے واسطے
وَ
: اور
مَنْ
: جو
عَمِيَ
: اندھا رہا
فَعَلَيْهَا
: تو اس کی جان پر
وَمَآ
: اور نہیں
اَنَا
: میں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
بِحَفِيْظٍ
: نگہبان
تحقیق آچکی ہیں تمہارے پاس بصیرت کی باتیں تمہارے رب کی طرف ستے جس نے دیکھا (بصیرت کی باتوں کو) پس اپنے نفس کے فائدے کے لیے۔ اور جو اندھا بنا رہا ، پس اس پر پڑے گا اس کا وبال۔ اور نہیں ہوں میں تم پر نگہبان۔
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کے رد میں عقلی اور نقلی دونوں قسم کے دلائل بیان فرمائے اور ان کا ذکر آگے بھی آئے گا سابقہ کتب کا ذکر بھی ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جو مختلف قسم کے انعامات فرمائے ہیں ان کا ذکر بھی ہوچکا ہے کائنات کی تخلیق اور اس کے چلانے والے نظاموں کے متعلق بیان ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دلائل قدرت بیان کر کے اپنی ذات وصفات کو سمجھنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے پہلے انسان کی تخلیق ، رات دن کے اختلاف ، چاند اور سورج کی مسافرت ، ستاروں اور سیاروں پر مربوط نظام ۔ آسمان سے بارش کے نزول اور اس کے ذریعہ سبز ، اناج اور پھلوں کی فراوانی خاص طور پر کھجور ، انگور ، زیتون ، اور انار کا تذکرہ کر کے انسان کی توجہ ان دلائل قدرت کی طرف دلائی گئی ہے ، کہ ان چیزوں پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں آتی ہے اور انسان ایمان قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے ان واضح دلائل کے باوجود جنوں ، فرشتوں اور انسانوں میں سے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں حالن کہ نیتس سے ہست کرنے والا ، ذرے ذرے کا علم رکھنے والا اور ہر چیز کی تدبیر کرنے والا ہی وحدہٗ لاشریک ہے جب یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں تو معبود برحق بھی وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہو سکتا۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ قد جاء کم بصائِر من ربکم تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصرت کی باتیں آچکی ہیں۔ بصارت آنکھ کی روشنی کو کہتے اور بصیرت سے مراد انسان کے دل کی روشنی ، علم اور یقین ہے جب کوئی شخص دل کی آنکھوں سے کوئی چیز پالیتا ہے تو اسے بصیر حاصل ہوجاتی ہے۔ یہاں بصار سے مراد ہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ہر نشانی صاحب و عقل ضردانسان کے دل میں بصیرت پیدا کردیتی ہے جس سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعی وحدہٗ لاشریک ہے۔ تو فرمایا تمہارے دل کو روشن کردینے والی بصیرت کی باتیں تمہارے پاس آچکی ہیں فمن ابصر جس نے ان واضح دلائل کو دل کی آنکھوں سے دیکھ لیا فلنفسہ پس یہ اس کی اپنی بہتری کے لئے ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کریگا۔ اس کا فائزہ اسی کی ذات کو پہنچے گا ، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی قربت کا مستحق ہوجائے گا ، اس کا شمار مقربین کے گروہ میں ہوگا ، وہ بہترین سوسائٹی کا فرد اور خطیرہ القدس کا ممبر بن جائے گا۔ جو ایمان لا کرنی کی کا اہتمام کرے گا ، اس کا فائدہ خدا تعالیٰ کو تو نہیں پہنچے گا کیونکہ وہ تو بےنیاز ہے البتہ اس کا فائدہ خود مومن ہی کو پہنچے گا۔ فرمایا ومن عمی اور جو اندھا بنا رہا ۔ نہ عقلی دلیل پر غور کیا اور نہ نقلی دلیل کو سمجھا ، اس نے ہر طرف سے آنکھیں بند کرلیں جو شخص دل و دماغ کو بروئے کار ہی نہ لایا ، وہ اللہ کی وحدانیت کو کیسے پا سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسے شخص کا دل اندھا ہوچکا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ سورة حج میں اس کی وضاحت یوں فرمائی ” فاِنھا لا تعمیٰ البصار ولکن تعمی القلوب التی فی اصدور “ دراصل بات یہ ہے کہ یہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہوتے ہیں۔ عام طور پر علم ، ایمان اور نیکی کے بارے میں دل اندھے ہوتے ہیں۔ جب دل ہی اندھے ہوجائیں تو بصیرت کیسے آسکتی ہے۔ بصیرت تو غور و فکر ، طلب اور جذبے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے مگر جس شخص نے ان چیزوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں وہ حقیقت کو نہیں پا سکتا ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی سورج کی روشنی میں اپنی آنکھیں بند کر کے خود اندھا بن جائے۔ ایسی صورت میں اسے کوئی چیز نظر نہیں آئیگی اور وہ ہر بھلائی سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ، جو شخص خود اندھا بنا رہا فعلیھا تو اس کا وبال اسی کی ذات پر پڑے گا کسی دوسرے شخص کا کچھ نہیں جائیگا۔ ایسا شخص ایمان ، نیکی اور بالآخرت نجات سے محروم ہوجائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کا قانون اس طرح سمجھایا ” لا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت “ (البقرۃ) اگر انسان اچھے کام کرے گا تو ان کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور اگر بُرے کام کریگا تو نقصان بھی خود ہی اٹھائیگا ہر بُرے کام کا وبال برائی کرنیولاے پر ہوگا ، نہ کہ کسی دوسرے شخص پر ۔ امام ابوحنیفہ فقہ کی یوں تعریف کرتے ہیں معرفۃ النفس مالہا وما علیھا یعنی انسان کا نفس اپنے لیے ہر مفید اور نقصان دہ چیز کو جان لے امام صاحب نے حدیث شریف کی تعریف میں فرمایا ہے معرفۃ قول الرسول و فعلہ وتقریرہ یعنی حضور علیہ اسلام کے قول ، فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے تقریر اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور علیہ اسلام کے سامنے کیا گیا ہو ، مگر آپ نے اس سے منع نہ کیا ہو۔ بہر حال سمجھدار آدمی وہ ہے جو اپنی اچھائی اور برائی سے واقف ہے۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ جو کئی بصیرت حاصل کرے گا ۔ اس میں اسی کا فائدہ ہوگا اور جو اندھا بن جائیگا۔ وہ خود اپنے نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے ، حضور علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا کہ منافق آدمی میں دو چیزیں نایاب ہوتی ہیں ، ایک حسن خلق اور دوسری تفقہ فی الدین جس شخص کے اخلاق اچھے نہیں ہیں وہ بھی منافق ہے اور جسے دین کی سمجھ نہیں۔ وہ بھی منافق ہے۔ اعتقادی منافق تو حضور علیہ اسلام کے زمانہ میں ہی تھے۔ آپ کے زمانہ میں منافق کی پہچان وھی کے ذریعے ہوجاتی تھی مگر اب اعتقادی منافق کا علم اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود ظاہر نہ کرے۔ البتہ عملی منافقوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ ہر بد اخلاق اور دین سے بےبہرہ منافق ہے۔ حضور علیہ اسلام کا ارشاد ہیمن یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے اس کو دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کو توحید ، کفر ، شرک ، بد عت اور معصیت کی پہچان ہوتی ہے اور وہ دین کی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ تو فرمایا جو اندھا بنا رہا اس کا وبال اسی پر پڑے گا ، یہ وضاحت کرنے کے بعد فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں وما انا علیکم بحفیظ میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ہوں۔ مجھے اللہ نے مبلغ بنا کر بھیجا ہے اور حکیم دیا ہے بلغ ما انزل الیک من ربک (المائدۃ) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے ، اسے آگے پہنچا دیں۔ میرا کام تو تبلیغ ہے ، لوگوں سے زبردستی منوانا نہیں ہے کیونکہ میں تم پر نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ فرمایا وکذلیک نصرف الایت اسی طرح ہم اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ، کبھی عقلی دلائل دیتے ہیں ، کبھی نقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ کہیں سابقہ اقوام کے حالات بیان کر کے اور کبھی نیک آدمیوں کے واقعات سنا کر لوگوں کے لیے ترغیب کا انتظام کرتے ہیں اور بری اقوام اور برے لوگوں کے حالات بیان کر کے ترہیب کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ غرضیکہ ہم اپنی آیات کو مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔ ہمارے یہ دلائل اس قدر قوی ہوتے ہیں ولیقولو درست کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اے پیغمبر ! یہ باتیں آپ نے کسی سے پڑھی ہیں۔ یہ اتنی جامع باتیں ہیں کہ کسی سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں درس کا معنی پڑھنا یا سیکھنا ہوتا ہے۔ مگر حضور علیہ اسلام تو امی تھے۔ آپ نے کسی سکول ، کالج یا یونیورسٹی میں تو تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور یہی آپ کی صداقت کی دلیل تھی۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود ایسی ایسی حکمت کی باتیں اللہ کا نبی ہی کرسکتا ہے۔ مگر وہ لوگ کہتے تھے کہ آپ کسی دوسرے شخص سے سیکھ کر آتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کہتے تھے کہ آپ تورات ، انجیل اور دیگر پرانی کتابوں سے اخذ کر کے یہ باتیں بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں اللہ تعالٰ آپ کو وحی کے ذریعے سکھاتا تھا۔ بہر حال معترضین کے ایسی باتیں کرنے سے ان پر حجت تمام ہوگئی۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ تم کسی سے سیکھ کر آئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو حق کی بات پہنچ گئی اور انہوں نے انکار کردیا۔ اب کل کو یہ تو نہیں کہ سکیں گے کہ ہمیں اللہ کا سچا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ بعض اس لفظ کو دادست بھی پڑھتے ہیں جس کا معنٰی مٹ جانا ، مٹا دینا یا محو کردینا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ تو پرانی محوشدہ باتیں ہیں۔ ہم ان کو پہلے بھی سنتے آئے ہیں ۔ یہ محض قصے کہانیاں ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ معترضین کا یہ کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے احکام ان تک پہنچ گئے اور ان پر حجت تمام ہوگئی۔ اب وہ انکار نہیں کرسکیں گے۔ بہر حال فرمایا کہ ان دلائل کو پھیر پھیر کر بیان کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ وہ لوگ کہیں کہ آپ نے یہ چیزیں کس سے سیکھی ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے ولنبینہ لقوم یعلمون تاکہ ہم واضح کردیں اس کو ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔ جو لوگ عقلی اور نقلی دلائل دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں ہم ان کی تقویت ایمان کے لیے ان دلائل کو بار بار بیان کرتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور آپ کے امتبعین کو تسلی دی ہے اور فرمایا ہے اتبع ما اوحی الک من ربک اے نبی علیہ اسلام ! تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے ، آپ اس کی پیروی کریں۔ یہ لوگ تو اعتراض کرتے رہیں گے آپ ان کی پروا کیے بغیر حکم خداوندی کا اتباع کرتے رہیں اور اپنے عقیدے مشن ، اور عمل کو جاری رکھیں۔ اور دیکھیں آپ کی طرف جو وحی نازل کی جاتی ہے ، اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے لا الہ الا ہو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہذا اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسی کی فرمانبرداری کریں۔ اتباع ومی میں سب سے اہم بات یہی ہے ، جب کوئی اتباع وحی کو ترک کردیتا ہے تو وہ اس کی توحید کا انکار کرتا ہے۔ اور پھر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب وحدانیت کا دامن چھوٹ جاتا ہے تو پھر کفر ، بدعت اور معاصی آجاتے ہیں اور انسان دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے۔ فرمایا آپ ان کو اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دیتے رہیں۔ اگر پھر بھی یہ شرک پر اصرار کریں وعرض عن المشرکین تو آپ ان سے اعراض فرمائیں۔ ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑ کر علیحدہ ہوجائیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام دلائل کے ذریعے حق کا راستہ وضح کردیا ہے ولو شاء اللہ ما اشرکو اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے چاہنے سے مراد یہ ہے ” ولوشاء لھد لکم اجمعین “ (الخل) اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت عطا کردیتا مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ وہ کسی کو ہدایت کا راستہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا ” فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر “ (کہف) جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا دل چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے اس نے اپنی حجت تمام کردی۔ اب یہ ہر آدمی کی اپنی مرضی پر منحصر کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس رب العلمین کا قانون تو یہ ہے۔ لا اکراہ فی الدین “ (بقرۃ) کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ سب کو زبردستی دین کی طرف لے آتا تو یہ جبری ایمان ہوتا جو اللہ تعالیٰ کو ہرگز قبول نہیں ہے۔ پھر اللہ نے وعید بھی سنادی کہ اگر کفر کرو گے تو آگے تمہارے لیے جہنم بھی تیار ہے اور اگر ایمان لائو گے تو کامیابی کی بشارت بھی موجود ہے۔ وان تشکرو یرض لکم “ (الذمر) اگر شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوگا ” ولایرضیٰ لعبادہ الکفر “ (الزمر) اور کفر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ ہرگز راضی نہیں ہوتا ۔ البتہ جس طرف کوئی جاناچاہئے ، وہ اسکی تو فیق سلب نہیں کرتا بلکہ اس کا فرمان ہے ” نولِہ ‘ ماتولی “ (النسا) جدھر کوئی جانا چاہتا ہے۔ ہم اس کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں ۔ تاہم برائی ، کفر ، شرک کا انجام بُرا ہوگا۔ اس نے اچھا اور بُرا راستہ واضح کر کے تمہیں آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور ہر قسم کے وسائل اور دلائل دے کر تمہیں چھوڑ دیا ہے کہ جس راستے پر جانا چاہو ، چلے جائو۔ ” ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ ہم تمہیں نیکی اور بدی کے ذریعے آزماتے ہیں (الانبیائ) فرمایا وما جعلنک علیھم حفیظا اے پیغمبر علیہ اسلام ! ہم نے آپ کو ان لوگوں پر نگہبان نہیں بنایا۔ وما آنت علیھم بوکیل اور نہ ہی آپ ان کے ذمہ داری ہیں۔ نہ تو آپ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لائے سورة غاشیہ میں ہے ” لست علیھم بمصیطر “ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں جو پکڑکر ایمان کی طرف لے آئیں گے۔ ” ما انت علیھم ۔۔ “ (ق) آپ ان پر زبردستی کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ ماننا یا نہ ماننا ان کی اپنی صوابدید پر ہے۔ آپ کا کام صرف پہنچا دینا ہے۔ یہ حضور ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان کی طرف سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ وہ اپنے بُرے انجام کے خود ذمہ دار ہیں ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “ آپ سے اہل دوزخ کے متعلق کوئی سوال نہیں ہوگا۔ بلکہ ان سے پوچھا جائے گا ” ماسلککم فی سق “ (مدثر) کہ تم جہنم میں کس وجہ سے پہنچے ۔ آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے ہیں۔ ایمان قبول کرنا یا نہ کرنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے جس کے لیے یہ خود جوابدہ ہیں۔
Top