Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
تحقیق آچکی ہیں تمہارے پاس بصیرت کی باتیں تمہارے رب کی طرف ستے جس نے دیکھا (بصیرت کی باتوں کو) پس اپنے نفس کے فائدے کے لیے۔ اور جو اندھا بنا رہا ، پس اس پر پڑے گا اس کا وبال۔ اور نہیں ہوں میں تم پر نگہبان۔
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کے رد میں عقلی اور نقلی دونوں قسم کے دلائل بیان فرمائے اور ان کا ذکر آگے بھی آئے گا سابقہ کتب کا ذکر بھی ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جو مختلف قسم کے انعامات فرمائے ہیں ان کا ذکر بھی ہوچکا ہے کائنات کی تخلیق اور اس کے چلانے والے نظاموں کے متعلق بیان ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دلائل قدرت بیان کر کے اپنی ذات وصفات کو سمجھنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے پہلے انسان کی تخلیق ، رات دن کے اختلاف ، چاند اور سورج کی مسافرت ، ستاروں اور سیاروں پر مربوط نظام ۔ آسمان سے بارش کے نزول اور اس کے ذریعہ سبز ، اناج اور پھلوں کی فراوانی خاص طور پر کھجور ، انگور ، زیتون ، اور انار کا تذکرہ کر کے انسان کی توجہ ان دلائل قدرت کی طرف دلائی گئی ہے ، کہ ان چیزوں پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں آتی ہے اور انسان ایمان قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے ان واضح دلائل کے باوجود جنوں ، فرشتوں اور انسانوں میں سے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں حالن کہ نیتس سے ہست کرنے والا ، ذرے ذرے کا علم رکھنے والا اور ہر چیز کی تدبیر کرنے والا ہی وحدہٗ لاشریک ہے جب یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں تو معبود برحق بھی وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہو سکتا۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ قد جاء کم بصائِر من ربکم تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصرت کی باتیں آچکی ہیں۔ بصارت آنکھ کی روشنی کو کہتے اور بصیرت سے مراد انسان کے دل کی روشنی ، علم اور یقین ہے جب کوئی شخص دل کی آنکھوں سے کوئی چیز پالیتا ہے تو اسے بصیر حاصل ہوجاتی ہے۔ یہاں بصار سے مراد ہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ہر نشانی صاحب و عقل ضردانسان کے دل میں بصیرت پیدا کردیتی ہے جس سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعی وحدہٗ لاشریک ہے۔ تو فرمایا تمہارے دل کو روشن کردینے والی بصیرت کی باتیں تمہارے پاس آچکی ہیں فمن ابصر جس نے ان واضح دلائل کو دل کی آنکھوں سے دیکھ لیا فلنفسہ پس یہ اس کی اپنی بہتری کے لئے ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کریگا۔ اس کا فائزہ اسی کی ذات کو پہنچے گا ، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی قربت کا مستحق ہوجائے گا ، اس کا شمار مقربین کے گروہ میں ہوگا ، وہ بہترین سوسائٹی کا فرد اور خطیرہ القدس کا ممبر بن جائے گا۔ جو ایمان لا کرنی کی کا اہتمام کرے گا ، اس کا فائدہ خدا تعالیٰ کو تو نہیں پہنچے گا کیونکہ وہ تو بےنیاز ہے البتہ اس کا فائدہ خود مومن ہی کو پہنچے گا۔ فرمایا ومن عمی اور جو اندھا بنا رہا ۔ نہ عقلی دلیل پر غور کیا اور نہ نقلی دلیل کو سمجھا ، اس نے ہر طرف سے آنکھیں بند کرلیں جو شخص دل و دماغ کو بروئے کار ہی نہ لایا ، وہ اللہ کی وحدانیت کو کیسے پا سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسے شخص کا دل اندھا ہوچکا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ سورة حج میں اس کی وضاحت یوں فرمائی ” فاِنھا لا تعمیٰ البصار ولکن تعمی القلوب التی فی اصدور “ دراصل بات یہ ہے کہ یہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہوتے ہیں۔ عام طور پر علم ، ایمان اور نیکی کے بارے میں دل اندھے ہوتے ہیں۔ جب دل ہی اندھے ہوجائیں تو بصیرت کیسے آسکتی ہے۔ بصیرت تو غور و فکر ، طلب اور جذبے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے مگر جس شخص نے ان چیزوں کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں وہ حقیقت کو نہیں پا سکتا ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی سورج کی روشنی میں اپنی آنکھیں بند کر کے خود اندھا بن جائے۔ ایسی صورت میں اسے کوئی چیز نظر نہیں آئیگی اور وہ ہر بھلائی سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ، جو شخص خود اندھا بنا رہا فعلیھا تو اس کا وبال اسی کی ذات پر پڑے گا کسی دوسرے شخص کا کچھ نہیں جائیگا۔ ایسا شخص ایمان ، نیکی اور بالآخرت نجات سے محروم ہوجائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کا قانون اس طرح سمجھایا ” لا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت “ (البقرۃ) اگر انسان اچھے کام کرے گا تو ان کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور اگر بُرے کام کریگا تو نقصان بھی خود ہی اٹھائیگا ہر بُرے کام کا وبال برائی کرنیولاے پر ہوگا ، نہ کہ کسی دوسرے شخص پر ۔ امام ابوحنیفہ فقہ کی یوں تعریف کرتے ہیں معرفۃ النفس مالہا وما علیھا یعنی انسان کا نفس اپنے لیے ہر مفید اور نقصان دہ چیز کو جان لے امام صاحب نے حدیث شریف کی تعریف میں فرمایا ہے معرفۃ قول الرسول و فعلہ وتقریرہ یعنی حضور علیہ اسلام کے قول ، فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے تقریر اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور علیہ اسلام کے سامنے کیا گیا ہو ، مگر آپ نے اس سے منع نہ کیا ہو۔ بہر حال سمجھدار آدمی وہ ہے جو اپنی اچھائی اور برائی سے واقف ہے۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ جو کئی بصیرت حاصل کرے گا ۔ اس میں اسی کا فائدہ ہوگا اور جو اندھا بن جائیگا۔ وہ خود اپنے نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے ، حضور علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا کہ منافق آدمی میں دو چیزیں نایاب ہوتی ہیں ، ایک حسن خلق اور دوسری تفقہ فی الدین جس شخص کے اخلاق اچھے نہیں ہیں وہ بھی منافق ہے اور جسے دین کی سمجھ نہیں۔ وہ بھی منافق ہے۔ اعتقادی منافق تو حضور علیہ اسلام کے زمانہ میں ہی تھے۔ آپ کے زمانہ میں منافق کی پہچان وھی کے ذریعے ہوجاتی تھی مگر اب اعتقادی منافق کا علم اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود ظاہر نہ کرے۔ البتہ عملی منافقوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ ہر بد اخلاق اور دین سے بےبہرہ منافق ہے۔ حضور علیہ اسلام کا ارشاد ہیمن یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے اس کو دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کو توحید ، کفر ، شرک ، بد عت اور معصیت کی پہچان ہوتی ہے اور وہ دین کی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ تو فرمایا جو اندھا بنا رہا اس کا وبال اسی پر پڑے گا ، یہ وضاحت کرنے کے بعد فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں وما انا علیکم بحفیظ میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ہوں۔ مجھے اللہ نے مبلغ بنا کر بھیجا ہے اور حکیم دیا ہے بلغ ما انزل الیک من ربک (المائدۃ) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے ، اسے آگے پہنچا دیں۔ میرا کام تو تبلیغ ہے ، لوگوں سے زبردستی منوانا نہیں ہے کیونکہ میں تم پر نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ فرمایا وکذلیک نصرف الایت اسی طرح ہم اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ، کبھی عقلی دلائل دیتے ہیں ، کبھی نقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ کہیں سابقہ اقوام کے حالات بیان کر کے اور کبھی نیک آدمیوں کے واقعات سنا کر لوگوں کے لیے ترغیب کا انتظام کرتے ہیں اور بری اقوام اور برے لوگوں کے حالات بیان کر کے ترہیب کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ غرضیکہ ہم اپنی آیات کو مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔ ہمارے یہ دلائل اس قدر قوی ہوتے ہیں ولیقولو درست کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اے پیغمبر ! یہ باتیں آپ نے کسی سے پڑھی ہیں۔ یہ اتنی جامع باتیں ہیں کہ کسی سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں درس کا معنی پڑھنا یا سیکھنا ہوتا ہے۔ مگر حضور علیہ اسلام تو امی تھے۔ آپ نے کسی سکول ، کالج یا یونیورسٹی میں تو تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور یہی آپ کی صداقت کی دلیل تھی۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود ایسی ایسی حکمت کی باتیں اللہ کا نبی ہی کرسکتا ہے۔ مگر وہ لوگ کہتے تھے کہ آپ کسی دوسرے شخص سے سیکھ کر آتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کہتے تھے کہ آپ تورات ، انجیل اور دیگر پرانی کتابوں سے اخذ کر کے یہ باتیں بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں اللہ تعالٰ آپ کو وحی کے ذریعے سکھاتا تھا۔ بہر حال معترضین کے ایسی باتیں کرنے سے ان پر حجت تمام ہوگئی۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ تم کسی سے سیکھ کر آئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو حق کی بات پہنچ گئی اور انہوں نے انکار کردیا۔ اب کل کو یہ تو نہیں کہ سکیں گے کہ ہمیں اللہ کا سچا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ بعض اس لفظ کو دادست بھی پڑھتے ہیں جس کا معنٰی مٹ جانا ، مٹا دینا یا محو کردینا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ تو پرانی محوشدہ باتیں ہیں۔ ہم ان کو پہلے بھی سنتے آئے ہیں ۔ یہ محض قصے کہانیاں ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ معترضین کا یہ کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے احکام ان تک پہنچ گئے اور ان پر حجت تمام ہوگئی۔ اب وہ انکار نہیں کرسکیں گے۔ بہر حال فرمایا کہ ان دلائل کو پھیر پھیر کر بیان کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ وہ لوگ کہیں کہ آپ نے یہ چیزیں کس سے سیکھی ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے ولنبینہ لقوم یعلمون تاکہ ہم واضح کردیں اس کو ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔ جو لوگ عقلی اور نقلی دلائل دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں ہم ان کی تقویت ایمان کے لیے ان دلائل کو بار بار بیان کرتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور آپ کے امتبعین کو تسلی دی ہے اور فرمایا ہے اتبع ما اوحی الک من ربک اے نبی علیہ اسلام ! تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے ، آپ اس کی پیروی کریں۔ یہ لوگ تو اعتراض کرتے رہیں گے آپ ان کی پروا کیے بغیر حکم خداوندی کا اتباع کرتے رہیں اور اپنے عقیدے مشن ، اور عمل کو جاری رکھیں۔ اور دیکھیں آپ کی طرف جو وحی نازل کی جاتی ہے ، اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے لا الہ الا ہو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہذا اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسی کی فرمانبرداری کریں۔ اتباع ومی میں سب سے اہم بات یہی ہے ، جب کوئی اتباع وحی کو ترک کردیتا ہے تو وہ اس کی توحید کا انکار کرتا ہے۔ اور پھر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب وحدانیت کا دامن چھوٹ جاتا ہے تو پھر کفر ، بدعت اور معاصی آجاتے ہیں اور انسان دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے۔ فرمایا آپ ان کو اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دیتے رہیں۔ اگر پھر بھی یہ شرک پر اصرار کریں وعرض عن المشرکین تو آپ ان سے اعراض فرمائیں۔ ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑ کر علیحدہ ہوجائیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام دلائل کے ذریعے حق کا راستہ وضح کردیا ہے ولو شاء اللہ ما اشرکو اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے چاہنے سے مراد یہ ہے ” ولوشاء لھد لکم اجمعین “ (الخل) اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت عطا کردیتا مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ وہ کسی کو ہدایت کا راستہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا ” فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر “ (کہف) جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا دل چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے اس نے اپنی حجت تمام کردی۔ اب یہ ہر آدمی کی اپنی مرضی پر منحصر کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس رب العلمین کا قانون تو یہ ہے۔ لا اکراہ فی الدین “ (بقرۃ) کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ سب کو زبردستی دین کی طرف لے آتا تو یہ جبری ایمان ہوتا جو اللہ تعالیٰ کو ہرگز قبول نہیں ہے۔ پھر اللہ نے وعید بھی سنادی کہ اگر کفر کرو گے تو آگے تمہارے لیے جہنم بھی تیار ہے اور اگر ایمان لائو گے تو کامیابی کی بشارت بھی موجود ہے۔ وان تشکرو یرض لکم “ (الذمر) اگر شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوگا ” ولایرضیٰ لعبادہ الکفر “ (الزمر) اور کفر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ ہرگز راضی نہیں ہوتا ۔ البتہ جس طرف کوئی جاناچاہئے ، وہ اسکی تو فیق سلب نہیں کرتا بلکہ اس کا فرمان ہے ” نولِہ ‘ ماتولی “ (النسا) جدھر کوئی جانا چاہتا ہے۔ ہم اس کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں ۔ تاہم برائی ، کفر ، شرک کا انجام بُرا ہوگا۔ اس نے اچھا اور بُرا راستہ واضح کر کے تمہیں آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور ہر قسم کے وسائل اور دلائل دے کر تمہیں چھوڑ دیا ہے کہ جس راستے پر جانا چاہو ، چلے جائو۔ ” ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ ہم تمہیں نیکی اور بدی کے ذریعے آزماتے ہیں (الانبیائ) فرمایا وما جعلنک علیھم حفیظا اے پیغمبر علیہ اسلام ! ہم نے آپ کو ان لوگوں پر نگہبان نہیں بنایا۔ وما آنت علیھم بوکیل اور نہ ہی آپ ان کے ذمہ داری ہیں۔ نہ تو آپ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لائے سورة غاشیہ میں ہے ” لست علیھم بمصیطر “ آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں جو پکڑکر ایمان کی طرف لے آئیں گے۔ ” ما انت علیھم ۔۔ “ (ق) آپ ان پر زبردستی کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ ماننا یا نہ ماننا ان کی اپنی صوابدید پر ہے۔ آپ کا کام صرف پہنچا دینا ہے۔ یہ حضور ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان کی طرف سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ وہ اپنے بُرے انجام کے خود ذمہ دار ہیں ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “ آپ سے اہل دوزخ کے متعلق کوئی سوال نہیں ہوگا۔ بلکہ ان سے پوچھا جائے گا ” ماسلککم فی سق “ (مدثر) کہ تم جہنم میں کس وجہ سے پہنچے ۔ آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے ہیں۔ ایمان قبول کرنا یا نہ کرنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے جس کے لیے یہ خود جوابدہ ہیں۔
Top