Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ
: نئی طرح بنانے والا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَنّٰى
: کیونکر
يَكُوْنُ
: ہوسکتا ہے
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: بیٹا
وَّلَمْ تَكُنْ
: اور جبکہ نہیں
لَّهٗ
: اس کی
صَاحِبَةٌ
: بیوی
وَخَلَقَ
: اور اس نے پیدا کی
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر چیز
وَهُوَ
: اور وہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ تعالیٰ ایجاد کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا کیسے ہو سکتا ہے اس کا بیٹا حالانکہ نہیں ہے اس کی کوئی بیوی۔ اور اس نے پیدا کی ہے ہر چیز اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید اور توحید کی عقلی دلائل بیان کیے۔ اگر انسان اپنی عقل کو بروئے کار لائے اور غور وفکر کرے تو اللہ کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا شکوہ بھی کیا کہ دیکھو انہوں نے اللہ کے لیے شریک بنا رکھے ہیں ، کسی نے جنات کو خدا کا شریک بنا لیا ہے ، کوئی اللہ کی اولاد کا عقیدہ رکھتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کی طرف منسوب کی جانے والی ان چیزوں سے پاک ہے۔ پھر اللہ نے تو حید ہی کے اثبات میں اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے۔ چناچہ گذشتہ درس میں نزول بارش اور اس سے پیدا ہونے کی تردید بھی کی جا چکی ہے۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی طرف توجہ دلا کر اپنی بیوی اور اولاد ہونے کی نفی کی ہے اور اپنی توحید خالص کا درس دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے بدیع السموت والرض وہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا بدیع کا معنی سے وجود میں لانے والا ، یا نیستی سے ہستی میں لانے والا یا پیدا کرنے والا ہے۔ بدیع کا ہم معنی لفظ فاطر بھی ہے۔ اللہ نے مختلف مقامات پر ” فاطر السموت والارض بھی فرمایا ہے ۔ اس کے معنٰی بھی کسی چیز کو کتم عدم سے پھاڑ کر نکالنے کے ہیں۔ گویا دونوں الفاظ کے معانی قریب قریب ایک ہی ہیں۔ ابداع ایسی چیز کو کہتے ہیں ۔ جو بغیر نمونے مادہ ، اور آلے کے وجود میں آئے اور بدیع اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ لفظ بدعت کا مادہ بھی یہی ہے اور اس سے مراد دین میں ایسی ایجاد ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو یعنی وہ ایجاد بندہ ہو ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس کائنات کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات بالترتیب کام کرتی ہیں۔ سب سے پہلے ابداع ، اس کے بعد خلق ، اس کے بعد تدبیر اور آخر میں تدلی کی صفت ، اسکی تفصیل آپ نے اس طرح بیان فرمائی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ابداع سے مراد ایسی چیز ہے جو بغیر سابقہ نمونے ، مادہ اور آلہ کے وجود میں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کے ساتھ ساتھ کائنات کو مجموعی طور پر کتم عدم سے نکالا ہے ۔ اس کو شخص اکبر بھی کہا گیا ہے ۔ مجموعہ کائنات کی ایجاد ایمان بالغیب سے تعلق رکھتی ہے اور انسان کی اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مبدع (موجد) اور مبدع (ایجاد کردہ) کے درمیان عالم شہادت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جسے نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ یعنی موجد اور ایجاد کردہ کے درمیان ایسی نسبت پائی جاتی ہے کہ اس کی کوئی مثال کائنات میں موجود نہیں لہٰذا یہ نہایت ہی پوشیدہ اور غامضن چیز ہے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو کس طرح ایجاد کیا ، یہ انسان کی عقل و فکر سے باہر ہے البتہ یہ ہوا ضرور ہے اور اس کی موجود گی ہی اس کا ثبوت ہے۔ مجموعی کائنات اللہ کی تجلیات اور صفات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے کیونکہ اس کے وجود سے پہلے نہ کوئی نمونہ تھا ، نہ مادہ اور نہ ایجاد کرنے کا کوئی آلہ۔ جب کائنات بحیثیت مجموعی وجود میں آگئی تو پھر اللہ تعلیٰ کی صفت خلق کا رفرما ہوئی۔ یعنی ابداع کے بعد دوسرے نمبر پر صفت خلق نے کام کیا۔ اگر پہلے مادہ موجود ہو تو اس سے کسی چیز کو بنانا خلق کہلاتا ہے۔ جب مجموعی کائنات بشمول زمین اور اس کی مٹی ایجاد ہوگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے مٹی سے آدم علیہ اسلام کی تخلیق کی ، جیسے فرمایا خلقہ من ترابٍ (آل عمران) اسے مٹی سے پیدا فرمایا۔ ابداع اور خلق میں یہی فرق ہے۔ ابداع کے ذریعے مٹی کو بغیر کسی مادہ کے ایجاد کیا اور پھر اس مٹی سے آدم علیح اسلام کو تخلیق کیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام سطح زمین سے مٹی لے کت آدم کا مجمہ بنایا ، اس کے اعضا بنائے اور پھر اس میں روح ڈالی تو انسان زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اللہ نے اس ایک نفس سے سلسلہ تناسل کے ذریعے نسل انسانی کو آگے بڑھایا۔ آدم (علیہ السلام) کی طرح جنات کی تخلیق کے متعلق ارشاد ہے ” وخلق الجان من مارج من نار (الرحمن) اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ یہاں بھی آگ کا مادہ موجود ہے جس سے جنات کو خلق کیا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ شیاطین وغیرہ کے اجسام مختلف عناصر کے گندے اور تعفن زدہ مادے سے اٹھنے والے بخارات سے پیدا کیے جاتے ہیں ، پھر ان میں غلیظ قسم کی روحیں ڈالی جاتی ہیں جن کا مبنیٰ فساد ہوتا ہے۔ بہر حال خلق اللہ تعالیٰ کی وہ صفت جس کے ذریعے وہ پہلے سے موجود مادہ سے کوئی نئی چیز پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی چیز تیار ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفت تدبیر کام کرتی ہے ۔ پیدائش کے بعد انسان ، حیوان ، پرندوں اور درندوں کا بتدریج جوانی کی عمر تک پہنچنا اور پھر بڑھاپے میں اس کے اعضاء کا کمزور ہوجانا حتیٰ کہ بتدریج موت کی آغوش میں چلے جانا ، اللہ تعالیٰ کی صفت تدبیر ہی کا کام ہے۔ اسی طرح نباتات اور درختوں کی پیدائش کے بعد انہیں بڑھانا ان میں پھل پید ا کرنا اور پھر اپنی مقرر ہ مدت پوری کر کے ختم ہوجانا سب اسی صفت کا کام ہے۔ کائنات میں موجود چاند ، سورج اور دیگر سیاروں کو ایک مربوط نظام کے تحت چلانا ، دن اور رات کا آگے پیچھے ہونا اور کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے ہونا ، بادلوں کا آنا ، بارش کا برسنا ، چاند اور سورج کا گہنا جانا ، سورج کا ہمیشہ یکساں رہنا جب کہ چاند کا بڑھتے گھٹے رہنا ، ہر ہر کام کی تدبیر اللہ تعالیٰ کی صفت تدبیر ہی کی مرہون منت ، اس کا اپنا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے یدبرالامرمن السماء الی الارض (الم سجدہ) جو آسمان سے لے کر زمین تک کے تمام معاملات کی تدبیر کرتی ہے۔ ابداع اور خلق کے بعد صفت تدبیر تیسرے مرحلے میں کام کرتی ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عرش الٰہی کے نیچے خطیرۃ القدس میں تمام انسانیت کا ایک مجسم نمونہ پایا جاتا ، اس کو امام نوع انسانی یا روح اعظم کہتے ہیں۔ اسی نمونے پر دنیا میں ہر انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ جب چوتھے چلّے میں داخل ہوتا ہے۔ تو جو روح اس میں ڈالی جاتی ہے وہ روح اعظم کا عکس ہوتا ہے اور اس عکس میں اللہ تعالیٰ کی اس تجلی کا عکس بھی ہوتا ہے جو عرش پر پڑتی ہے اور پھر اس کا اثر خطیرۃ القدس کی معرفت روح اعظم میں بھی ہوتا ہے اور یہی اثر پھر ہر انسان کی روح میں بھی آتا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر نو مولود کی روح میں بھی آتا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر نومولود کی روح میں اللہ تعالیٰ کی تجلی اعظم کا عکس ضرور پایا جاتا ہے جسے تدلی کا نام دیا گیا ہے تجلی اعظم کے عکس کے اثر کی وجہ سے ہر انسانی روح کی کشش اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ اس دنیا کے مادی دھندوں میں پھنس کر انسانی روح کی حالت ایسے نیم بیہوش شخص کی سی ہوجاتی ہے۔ جسے کلوروفارم سونگھا دیا گیا ہو۔ جس دن اس کلوروفارم کا اثر زائل ہوجائے گا تو آدمی کو ہوش آجائیگا۔ اور تجلی اعظم کا عکس انسان کو اوپر کی طرف کھینچے گا۔ پھر اگر اس نے اس دنیا میں رہ کر ایمان حاصل نہیں کیا تو اس کا اوپر جانا نہایت دشوار ہوجائیگا اور وہ اوپر کی بجائے نیچے کی طرف جائیگا جسکی وجہ سے اسے سخت تکلیف ہوگی البتہ جس نے خطیرۃ القدس میں موجود نمونہ کے مطابق زندگی بسر کی ہوگی ، اسے تجلی اعظم کی کشش آسانی سے اوپر عالم بالا میں لے جائیگی۔ بہر حال شاہ صاحب کی کمت کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت تدلی ہے جس کا تعلق انسان کی روح کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کی روح میں تجلی اعظم کا عکس ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کے قلب میں بھی تجلی اعظم کا ایک نمونہ ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کی طرح انسانی قلب بھی بڑا پیچیدہ (Complicated) عضو ہے۔ ابھی تک سائنس نے انسانی دماغ کے 45 فیصد سے زیادہ کا مطالعہ نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا غامضن بنایا ہے ہزاروں آپریشن اور تجربات ہوچکے ہیں مگر انسان اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ نے انسانی قلب بھی عجیب و غریب چیز بنائی ہے ۔ خدا پرستی کے مرکز اسی دل میں پائے جاتے ہیں ۔ چناچہ بزرگان دین جو خاص ترتیب کے ساتھ ذکرت کراتے ہیں ان کا مقصد ان مراکز کی بیداری ہوتا ہے۔ مگر اس میں بعض اوقات کامیابی ہوتی ہے اور بعض اوقات ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ تاہم کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے قلب پر خدا کی تجلی اعظم کا عکس نہ پڑتا ہے۔ تاہم کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے قلب پر خدا کی تجلی اعظم کا عکس نہ پڑتا ہو۔ اگر وہ اس تجلی سے خاطر خواہ فائدہ اس زندگی میں نہیں اٹھائے گا تو اس کی کشش اسے بہت پریشان کریگی۔ بہر حال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ابداع کا ذکر فرمایا کہ اُ س نے اس صنعت کے ذریعے آسمانوں اور زمین کو بغیر نمونے ، مادے اور آلے کے پیدا فرمایا۔ یہ مجموعی کائنات کی ایجاد کا تذکرہ ہے کیونکہ اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ پھر جب یہ چیز معرض وجود میں آگئی تو اللہ تعالیٰ نے باقی اشیاء اس کے مادہ سے پیدا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ ابداع کے تذکرہ کے بعد فرمایا انی یکون لہ ولہ ولم تکن لہ صاحبۃ ، جو اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خود موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے حالن کہ اس کی بیوی بھی کوئی نہیں۔ اولاد اجسام کے قبیلے سے ہوتی ہے اور وہ اپنے باپ کے ہم جنس اور مشابہ ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ تو اجسام کے قبیلے سے ہی نہیں ہے لہٰذا اس کی اولاد اور پھر اس کے مشابہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ” لئس کمثلہ شئی “ اس کی مثل تو کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی ‘ لہٰذا اس کی اولاد بھی نہیں ہو سکتی۔ اولاد کی پیدائش کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک فطری طریقہ وضع کیا ہے ، میاں اور بیوی خاص جذبات کے تحت ملتے ہیں جس کے نتیجہ میں مادہ خارج ہو کر حمل قرار پاتا ہے اور پھر اولاد پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہاں پر واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بیوی ، شہوت رانی اور انسانی جذبات سے مبرا اور منزہ ہے اس کی طرف اولاد کی نسبت کیسے کی جاسکتی ہے اسے بیوی اور اولاد کی آخر ضرورت بھی کیا۔ وخلق کل شئی وہ تو خود ہر چیز کا خالق ہے۔ کائنات اور اللہ کے درمیان خالق کی نسبت ہے۔ جو چیز مخلوق ہے وہ خالق کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اولاد تو ہم جنس ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جنس سے کوئی دوسری ہستی نہیں ہے وہ یکتا ہے اور لاشریک ہے۔ فرمایا وھو بکل شئی علیم اور وہ ہر چیز کو جاننے والا یعنی علیم کل ہے۔ اس کی نظروں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ۔ وہ ہر شخص کی نیت اور ارادے تک سے واقف ہے اس کی اولاد ثابت کرنا اس کا شریک ٹھہرانا ہی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ فرمایا ذلکم اللہ ربکم یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو تمہیں پیدا کرکے بتدریج درجہ کمال تک پہنچاتا ہے۔ لہٰذا لا الہ الا ہو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ عبادت کے لائق وہی ہو سکتا ہے جو موجد اور علیم کل ہو۔ چونکہ یہ صفات کسی دوسری زات میں نہیں پائی جاتیں ، اس لیے اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ہو سکتا ۔ خالق کل شئی پھر فرمایا کہ ہر چیز کا خالق وہی اللہ ہے فاعبد وہ لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرو چونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن ، فرشتے ، انبیاء وغیرہ سب مخلوق ہیں اس لیے ان میں سے کوئی بھی معبود نہیں ہو سکتا بلکہ یہ سب اسی کی عبادت کرنے پر مامور ہیں۔ عبادت انتہائی درجے کی عاجزی کا نام ہے اور عاجزی کا اظہار ، قلب ، اعضاء اور مال سے ہوتا ہے لہٰذا ہر قسم کی زبانی ، قلبی ، مالی اور بدنی عبادت کے لائق صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ آخر اس کی عبادت اور انتہائی تعظیم کیوں نہ کی جائے جب کہ وھو علی کل شئی وکیل ہر چیز کا کار ساز بھی وہی ہے۔ بگڑی کو بنانے والا وہی ہے۔ ہر چیز کا تصرف اسی کے پاس ہے۔ ، لہٰذا ہر قسم کی حاجت براری کے لیے ہاتھ بھی اسی کے سامنے پھیلانا چاہئے۔ سورة مزمل میں فرمایا ” لا الہ الا ہو فاتخذہ وکیلا “ چونکہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، لہٰذا ہر کام میں کارساز بھی اسی کو پکڑو۔ وہی تمہارے کام بنائے گا اور وہی بگاڑے گا۔ یہ صف صرف اسی کے لیے خاص ہے باقی سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ یہ بات عام تعلیم کے دوران بھی سمجھائی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ غیر مرئی ہے اس کائنات میں کوئی شخص اس کو زن ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ یہاں بھی فرمایا ہے۔ لاتدر کہ الابصار اللہ تعالیٰ کو یہ آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اس مادی جہان میں انسانی آنکھ وہ صلاحیت نہیں ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرسکے ، البتہ دوسرے جہاں میں اہل ایمان کو روئیت الٰہی نصیب ہوگی۔ ایک حدیث شریف کے الفاظ ہیں لم تروا ربکم حتیٰ تموتوا مرنے سے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے روئیت کا مطلق انکار کیا ہے مگر ایسا نہیں ، بلکہ اس عدم روئیت کا تعلق اس جہان سے ہے۔ اسی اشتباہ کی وجہ سے یہ اختلاف بھی پید ہوا کہ معراج کے موقع پر بھی حضور علیہ اسلام کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا تھا یا نہیں۔ اس ضمن میں شیخ ابن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ آخرت دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک زمان اور دوسری مکان ہے۔ آخرت کا زمانہ تو جب آئے گا جب قیامت برپا ہوگی ، البتہ اس کا مکان عالم ِ بالا میں ہے۔ معراج کے موقع پر حضور علیہ اسلام اللہ تعالیٰ کی روئیت اِ س دنیا کے مکان میں نہیں بلکہ عالم بالا میں ہوئی تھی۔ وہ تو خطیرۃ القدس کا مقام تھا جس کے متعلق آتا ہے۔ ” ولقدرہُ نزلۃً اُخریٰ عند سدرۃ منتہیٰ بہر حال یہ اس جہاں کا ذکر ہے ، اس مادی دنیا میں روئیت الٰہی ممکن نہیں۔ فرمایا تمہاری آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں وھو ید رک الابصار اور وہ آنکھوں کو پاتا ہے۔ اس کی نظر ہر چیز پر ہے ، کوئی چیز اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔ بعض فرماتے ہیں کہ روئیٹ اور ادراک دو مختلف چیزیں ہیں۔ روئیت سے مراد سطحی نظر سے دیکھنا بھی ہو سکتا ہے۔ جب کہ ادراک سے مراد کسی چیز کا مکمل طور پر احاطہ ہوتا ہے یہاں پر ادراک کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی یہ انسانی آنکھیں اس کا پورے طور پر احاطہ نہیں کرسکتیں اور یہ چیز تو اگلے جہان میں بھی ممکن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات لا محدود ہے جس کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ البتہ اس کے نیک بدندوں کو تجلی نظر آئے گی جس سے وہ لطف اندوز ہوں گے ، یہی روئیت ہوگی۔ معراج کے واقع میں بھی حضور علیہ اسلام نے فرمایا رایت نور فسجدت لہ میں نے نور دیکھا اور سجدے میں گر گیا۔ بہر حال آخرت میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نصٰب ہونا بھی بہت بڑی بات ہے۔ اسی کو روئیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرمایا وہو اللطیف الخبیر لطیف کے دو معنی آتے ہیں۔ یعنی مہربانی کرنے والا اور بہت زیادہ لطافت والا اور باریک بین خبیر سے مراد ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہوتا ہے۔ یہ دونوں صفات واحد رب العلمین میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی لطیف ہے کہ اس کی نظر ہر چھوٹی سے چھوٹی اور مخفی چیز پر ہو اور نہ کوئی علیم کل ہے اسی طرح اس کے علاوہ نہ کوئی بدیع ہے اور نہ خالق۔ یہ تمام صفات اسی کے ساتھ خاص ہیں لہٰذا معبود برحق بھی وہی ہے۔
Top