Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 57
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ
نَحْنُ : ہم نے خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہم نے تم کو فَلَوْلَا : پس کیوں نہیں تُصَدِّقُوْنَ : تم تصدیق کرتے ہو۔ تم یقین کرتے۔ سچ مانتے
ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ، پس تم کیوں نہیں تصدیق کرتے
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر و قوع قیامت اور جزائے عمل کا ذکر کیا ہے۔ قیامت واقع ہونے کے بعد انسان تین گروہوں سابقین ، اصحاب یمین اور اصحاب شمال میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جزائے عمل کی تفصیل بھی بیان کردی ہے۔ پھر اللہ نے توحید ، رسالت ، قرآن کی صداقت و عظمت اور معاد چاروں مضامین بیان فرمائے ہیں اب ان آیات میں پہلے توحید اور قیامت کے کچھ دلائل بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد رسالت اور قرآن کی عظمت کا ذکر آرہا ہے۔ تخلیق انسانی بطور دلیل : ارشاد ہوتا ہے نحن خلقنکم ہم نے پیدا کیا ہے ، تم کو فلالا تصدقون پس تم تصدیق کیوں نہیں کرتے ؟ ہر چیز کا خالق تو اللہ ہے جس سے کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا ۔ جب خالق ، مالک ، مدبر اور متصرف وہ ہے تو پھر وہ موت طاری کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے اگر یہ بات سمجھ میں آتی ہے تو فرمایا پھر تم اس کی وحدانیت ، وقوع قیامت اور بعث بعدالموت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ بھلا تم ان چیزوں کا کیسے انکار کرسکتے ہو ؟ پھر تخلیق انسانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا افرئیتم ما تمنون بھلا دیکھو تو کیا تمہارا کام تو صرف اتنا ہے کہ تم عورت کے رحم میں قطرہ آب ٹپکا دیتے ہو ، اور اس کے بعدء انتم تخلفونہ ام نحن الخالقون رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کو تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں ؟ اللہ نے تخلیق انسانی کو ایک عام فہم دلیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ آدمی کا کام تو صرف اس قدر ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ مجامعت کرکے علیحدہ ہوجاتا ہے ، اور پھر نوماہ کے عرصہ میں اس قطرہ آب کو مختلف حالتوں سے گزار کر اسے گوشت پوست اور ہڈیوں کے مجموعہ کی صورت میں شکم مادر میں کون پرورش کرتا ہے۔ اللہ نے سورة المومنون میں اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے کہ جب مرد نے عورت کے رحم میں قطرہ آب ٹپکا دیا۔ تو ہم نے اس نطفے کا لوتھڑا بنایا ، پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی ، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ، پھر اس کو نئی صورت میں بنادیا۔ فتبرک اللہ احسن الخالقین (آیت 14) پس خدا تعالیٰ بڑا ہی بابرکت ہے۔ جو بہترین بنانے والا ہے۔ حدیث شریف میں بھی پیدائش کی بعض تفصیلات بیان ہوئی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ماں کے پیٹ میں مختلف تبدیلیوں کے ذریعے بچے کی تکمیل کرتا ہے اور ہر تبدیلی چالیس دن کے بعد عمل میں آتی ہے حتیٰ کہ بچے کے اعضا ، جوڑ ، ہڈیوں ، بال ، کھال اور تمام ظاہری اور باطنی قویٰ پیدا ہو کر بچہ مکمل صورت میں باہر آجاتا ہے۔ کائنات میں انسانی جسم کے پیچیدہ ترین چیز ہے جسے اللہ کے فرشتے اللہ کے حکم سے مقررہ مدت میں مکمل کرتے ہیں۔ نسل انسانی کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی جن کو اللہ تعالیٰ نے مٹی جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا اور اسی کے وجود سے اس کا جوڑا پیدا کیا ، اور پھر ان کے ملاپ سے نسل انسانی آگے چلنا شروع ہوگئی۔ میرے مالک نے میرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا سو مجھے انسان کیا بہرحال اللہ تعالیٰ نے خود انسانی وجود کو اپنی وحدانیت اور قدرت کی دلیل بنایا ہے اور دریافت کیا ہے کہ کیا تم نے یا کسی حکیم ، ڈاکٹر یا سائنس دان نے انسان کو بنایا ہے یا ہم نے بنایا ہے ؟ اللہ نے نہ صرف انسان کا جسم بنایا بلکہ اس میں جان ڈالی اور روح پھونکی جو نہایت ہی لطیف اور حیرت انگیز چیز ہے بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا بھی بڑا مشکل ہے۔ اور پھر دیکھیں کہ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں مگر کوئی دو اشخصاص شکل و صورت میں بعینہ نہیں ملتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے جس کا فرمان ہے ھوالذی………………………یشآئ (آل عمران 6) اللہ کی ذات وہ ہے جو مائوں کے رحموں میں حسب منشا تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔ موت اور دوبارہ بعث : فرمایا ، ہم نے تمہیں پیدا کیا ، ایک خاص وقت تک زندگی دی اور پھر نحن قدرنا بینکم الموت ، ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقدر کردیا۔ ایک مقررہ وقت پر ہر شخص موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے اور پھر کائنات کی مجموعی موت کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے جب یہ پورا سلسلہ کائنات ختم ہوجائے گا ، اور پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی ، فرمایا ہم اپنے اس منصوبہ پر عمل درآمد پر مکمل قدرت رکھتے ہیں ومانحن یمسبوقین اور اس کام سے عاجز آنے والے نہیں ہیں بلکہ ہم اس کام کو لازماً پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ پھر فرمایا ہم اس بات پر بھی قادر ہیں علی ان نبدل امثالکم کہ تمہیں ختم کردیں اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ تبدیل کردیں سورة فاطر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ان یشا………جدید (آیت 16) اگر وہ چاہے تو تم کو نابود کردے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے وننشئکم فی مالا تعلمون ، اور تمہیں ہم ایسی جگہ اٹھائیں جس کو تم نہیں جانتے۔ خدا تعالیٰ قادر ہے کہ وہ تمہیں دوسرے جہان میں زندہ کرکے اپنے سامنے کھڑا کردے۔ بعض مفسرین اس کا یہ معنی کرتے ہیں کہ تم انسان بنے پھرتے ہو ، ہم چاہیں تو تمہاری شکلیں تبدیل کرکے بندروں اور خنزیروں جیسی کردیں۔ بعض سابقہ اقوام کو اللہ نے یہ سزا بھی دی۔ لہٰذا تمہیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور وقوع قیامت کی تصدیق کرنی چاہیے۔ فرمایا ولقد علمتم النشاۃ الاولیٰ اور البتہ تم پہلی اٹھان یعنی پیدائش کو تو جانتے ہو۔ تمہیں یقین ہے کہ تم خود بھی پیدا ہوئے تھے اور اپنے سامنے دوسروں کو پیدا ہوتے دیکھ رہے ہو۔ پہلی پیدائش سے صرف انسانوں کی نہیں بلکہ تمام حیوانات چرند ، پرند اور نباتات کی پیدائش مراد ہے۔ تم ان سب کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو۔ فلولا تذکرون پھر اس مشاہدہ سے نصیحت کیوں نہیں پکڑتے ؟ یاد رکھو ! پندار کے خوگر کو ناکام بھی دیکھو گے آغاز سے واقف ہو انجام بھی دیکھو گے بہرحال اللہ نے ہر چیز کی پہلی تخلیق کا ذکر کرکے دوبارہ تخلیق پر دلیل قائم کی ہے اگر انسان ذرا بھی غوروفکر کرکے تو اسے جزائے عمل کی بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ کھیتی باڑی بطور دلیل : آگے اللہ نے ایک اور دلیل بیان کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے افراء ما تحرثون بھلا بتلائو کہ تم جو کچھ زمین میں بوتے ہوء انتم تزرعون ام نحن الزارعون کیا یہ کھیتی باڑی تم کرتے ہو یا کرنے والے ہیں ؟ پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر کیا تھا کہ تم تو صرف نطفہ ٹپکادیتے ہو۔ پھر اس کو حسین و جمیل زندہ انسان کی صورت میں کون پیدا کرتا ہے ؟ اب یہاں نباتات کا ذکر کیا ہے کہ تم تو زمین تیار کرکے بیج ڈال کر چلے آتے ہو ، پھر زمین کو پھاڑ کر وہاں سے انگوریاں کون نکالتا ہے اور ان کو غلہ ، پھل ، پھول اور سبزیاں میں کون تبدیل کرتا ہے ؟ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو تمہارے لئے اور تمہارے جانوروں کے لئے خوراک اگاتا ہے۔ سورة عبس میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ ذرا اپنی خوراک کی طرف دیکھ کر غور کرے کہ بیشک ہم نے ہی آسمان سے پانی برسایا اور زمین کو قابل کاشت بنایا ثم ……………شقا (آیت 260) پھر ہم نے زمین کو چیر پھاڑا اور اس میں اناج اگایا۔ متاعا………ولانعامکم (آیت 32) جو تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے خوراک بنتا ہے۔ یہ ہماری مشیت پر منحصر ہے کہ ہم زمین سے غلہ ، انگور ، تر کاری ، زیتون ، کھجوریں ، گھنے باغات ، میوے ، اور چارہ پیدا کرتے ہیں۔ اور اگر ہم نہ چاہیں تو تمہاری کاشتکاری اور محنت کے باوجود کچھ پیدا نہ ہو۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ پانی منقطع کردیتا ہے۔ بارش نہ ہو یا دریائوں میں پانی کی وجہ سے نہریں بند ہوجائیں۔ ٹیوب ویل کام کرنا چھوڑ دیں تو فصل کیسے تیار ہوگا۔ اسی لئے فرمایا کہ ذرا سوچ کر بتلائو کہ کھیتی باڑی تم کرتے ہو یا ہم کرتے ہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو نہ ٹریکٹر کام دیتے ہیں اور نہ کھادیں مفید ثابت ہوتی ہیں ، بیج ، پانی ، کھاد سب بیکار ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ زمین تیار کرے ، بیج ڈالے ، کھاد اور پانی استعمال میں لائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتظار کرے تاکہ اس کی محنت ٹھکانے لگے اور تمام منازل طے کرنے کے بعد مطلوبہ فصل حاصل ہو۔ فرمایا لو نشاء لجعلنہ حطاما اگر ہم چاہیں تو کھیتی کو پامال شدہ بنادیں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے مگر کوئی ایسی آسمانی آفت آتی ہے جو اس کو جلا کر راکھ کردیتی ہے یا پکی پکائی فصل آندھی یا سیلاب کی نذر ہوجاتی ہے فظلتم تفکھون اور تم باتیں بناتے ہی رہ جاتے ہو ، اپنی فصل یا پھل کر برباد ہوتے دیکھ کر تم زبان سے اس پر افسوس کا اظہارہی کرسکتے ہو ، اپنی فصل یا پھل کو بربادہوتے دیکھ کر تم زبان سے اس پر افسوس کا اظہار ہی کرسکتے ہو ، تم میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ اپنی محنت کو رائیگاں جانے سے بچا سکو۔ اور پھر تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو ، انا لمغرمون کہ ہم پر تو تاوان ہی پڑگیا ہے کھاد ، پانی ، بیج ، محنت کا ثمرہ ملنے کی بجائے اپنے پاس سے خرچ کیا ہوا پیسہ بھی ضائع ہوگیا۔ گویا کہ تاوان پڑگیا۔ بل نحن محرومون ، بلکہ ہم تو کھیتی کے فوائد سے محروم ہوگئے ، ہمیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس طرح گویا سر پکڑ کر بیٹھ جائو اور یہی کہتے رہو کہ ہمیں تو بڑا نقصان ہوگیا۔ مگر اس افسوس کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے واقعات ہر روز پیش آتے رہتے ہیں ، اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ یہ فصلوں کو اگانے اور انہیں برداشت کرنے کا سہرا تم اپنے سر لینا چاہتے ہو ، بھلا سوچ کر بتائو کہ کھیتی کو منزل مقصود تک تم پہنچاتے ہو یا ہم پہنچاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ حقیقت میں کھیتی باڑی کرنے والے ہم ہیں جو اناج اور پھلوں کو تمہارے گھروں اور گوداموں تک پہنچاتے ہیں۔ نزول آب بطور دلیل : آگے اللہ نے اپنی واحدنیت ، قدرت اور وقوع قیامت کی ایک اور دلیل ذکر کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے افرء یتم الماء الذی تشربون بھلا اس پانی کو تو دیکھو جو تم روز مرہ پیتے ہو۔ اور سوچ کر بتائوء انتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون ، کیا تم نے اس پانی کو سفید بادلوں سے اتارا ہے یا ہم اس کو اتارنے والے ہیں۔ پانی ایک ایسی نعمت ہے جس پر تمام جانداروں کی زندگی اور نباتات کی نشونما کا انحصار ہے سورة الانبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وجعلنا…………حی (آیت 30) ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے۔ پانی کی بہم رسانی کا کنٹرول اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے آسمان کی طرف سے بارش ہوتی ہے جس کا پانی چشموں ، دریائوں اور نہروں کی صورت میں دوسرے مقامات پر پہنچتا ہے جس سے لوگ خودان کے جانور اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ کچھ پانی زیر زمین جمع ہوجاتا ہے جسے کنوئوں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ سورۃ الزمر میں اللہ نے یاد دلایا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے فسل کہ ینابیع فی الارض (آیت 21) پھر اسے چشموں کی صورت میں زمین میں بہا دیتا ہے جس سے کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ مطلب یہی ہے کہ پانی اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے جس سے اس کی مخلوق مستفید ہوتی ہے۔ اگر انسان اس پر ہی غور کرے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، قدرت اور وقوع قیامت کا مسئلہ سمجھ میں آسکتا ہے۔ فرمایا لونشاء جعلنہ اجاجا ، اگر ہم چاہیں تو اس پانی کو کھاری بنادیں جو نہ پینے کے کام آسکے اور نہ فصلوں کو سیراب کرسکے۔ اللہ نے تمہیں میٹھا پانی مہیا کرکے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے فلولا تشکرون پس تم اللہ تعالیٰ کے احسان کا کیوں شکر ادا نہیں کرتے ؟ حضور ﷺ نے پانی جیسی عظیم نعمت کے اعتراف میں یہ دعا بھی سکھلائی ہے الحمدللہ الذی سقنا عذبا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمیں اپنی رحمت سے میٹھا اور خوشگوار پانی پلایا ، اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے اسے کھاری نہیں بنادیا۔ آگ بطور دلیل قدرت : ارشاد ہوتا ہے افرئیتم النار التی تورن بھلا بتلائو تو یہ آگ جس کو تم سلگاتے ہو ع انتم انشاتم شجر تھا ام نحن المنشئون کیا اس آگ کو جلانے کے لئے درخت تم پیدا کرتے ہو یا ہم اس کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ آگ لکڑی جلانے سے پیدا ہوتی ہے ، اور لکڑی حاصل کرنے کے لئے درختوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے۔ لکڑی کے علاوہ معدنی کوئلہ بھی ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ بھی سخت قسم کے درخت تھے جو حوادثات کی وجہ سے زمین کے نیچے دب گئے اور پھر پتھری کوئلہ کی صورت میں تبدیل ہوگئے پھر ان پتھروں اور کوئلے کے درمیان حبس کی وجہ سے جو گیس پیدا ہوتا ہے آج کل اسے بھی سائنسی طریقہ سے نکال کر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ گیس پاکستان میں سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی ، لہٰذا اسے گیس کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ جوں جوں ایندھن کی ضروریات بڑھ رہی ہیں تیل اور گیس کی صورت میں نئے نئے وسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ غرضیکہ آگ جلانے کا عمومی ذریعہ لکڑی ہی ہے جس کے درختوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ آگ کے درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا ہم انہیں پیدا کرنے والے ہیں ؟ اب تو سورج کی شعائوں سے بھی انرجی حاصل کرنے کے لئے تجربات ہو رہے ہیں۔ اللہ نے سورج کی شکل میں بہت بڑا ایندھن جلا رکھا ہے جس کے گھریلو استعمال کے لئے بھی کوشش ہورہی ہے۔ کامیابی کی صورت میں سورج کی توانائی سے شہر اور دیہات روشن ہوں گے ، بڑے بڑے کارخانے ، موٹریں اور جہاز چلیں گے۔ یہ توانائی بھی اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کو یہ کارخانہ قدرت چلانا منظور ہے۔ اسی طرح نظام شمسی چلتا رہے گا۔ اور جب اس کی معیاد پوری ہوجائے گی۔ تو سارے نظام کے ساتھ ہی سورج کی توانائی بھی ختم ہوجائے گی اور اس طرح قیامت واقع ہوجائیگی۔ ابن ماجہ شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ آگ ، پانی اور گھاس تین ایسی مشترک اشیاء ہیں جن سے فائدہ اٹھانا ہر شخص کا حق ہے اور ان اشیاء سے استفادہ حاصل کرنے سے کسی شخص کو منع نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں۔ ان میں سے کوئی چیز اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہو تو پھر مالک کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ فرمایا نحن جعلنھا تذکرۃ ہم نے اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنادیا ہے دنیا کی آگ کو دیکھ کر انسان کو دوزخ کی آگ یاد آنی چاہیے جس کے متعلق فرمایا نارکم ھذہ جزء من سبعین جزائ ، یعنی دوزخ کی آگ دنیا کی آگ سے بہتر گناہ زیادہ گرم ہے ۔ جب یہ آگ ہی ناقابل برداشت ہے تو دوزخ کی آگ کس طرح برداشت ہوگی۔ انسان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور اس سے بچنے کا انتظام کرنا چاہیے۔ کفر ، شرک اور معصیت کی وجہ سے ہی لوگ جہنم میں جائیں گے ، لہٰذا ان چیزوں سے باز آکر نیکی ، ایمان اور توحید کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسی لحاظ سے اللہ نے آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا ، آگ کہ ہم نے یاد دہانی کا ذریعہ بنایا ہے ومتاعا للمقوین اور یہی آگ صحرائوں کے مسافروں کے لئے فائدے کا سامان بھی ہے۔ جنگلوں اور صحرائوں کے مسافر دوران سفر کھانا پکانا اور دوسری ضروریات کے لئے آگ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے مسافروں کے لئے مفید چیز قرار دیا ہے۔ اقویٰ کا معنی محتاج بھی ہوتا ہے۔ یہ معنی بھی درست ہے کیونکہ ضرورت مندوں کے لئے آگ بڑی اہم چیز ہے جس کی کاروبار زندگی میں ہر آن ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ بظاہر آ گ ہی ایندھن یا گرمی حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اگر اس کو وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو تیل ، گیس ، بجلی ، شمسی توانائی حتیٰ کہ ایٹمی توانائی سب آگ ہی کا حصہ ہیں اور آج ان چیزوں کی قدم قدم پر ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ آگ یا توانائی نہ ہو ، تو پوری دنیا گھپ اندھیر ہوجائے ، تمام کارخانے ، موٹر گاڑیاں ، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز بند ہوجائیں اور اس طرح پوری دنیا کا نظام ٹھپ ہوکررہ جائے۔ اسی لئے فرمایا کہ ضرورت مندوں کے لئے یہ آگ بہت بڑے فائدے کا سامان ہے۔ ان انعامات اور دلائل قدرت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا فسبح باسم ربک العظیم ، پس آپ عظمتوں والے پروردگار کے نام کی تسبیح بیان کریں۔ اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے عقیدے اور عمل کو درست کرلے گا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور وقع قیامت پر ایمان لے آئے گا اور جزائے عمل کو برحق جان کر اس کے لئے تیاری کرے گا۔
Top