Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقْرَبُوا : نہ نزدیک جاؤ الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْتُمْ : جبکہ تم سُكٰرٰى : نشہ حَتّٰى : یہاں تک کہ تَعْلَمُوْا : سمجھنے لگو مَا : جو تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو وَلَا : اور نہ جُنُبًا : غسل کی حالت میں اِلَّا : سوائے عَابِرِيْ سَبِيْلٍ : حالتِ سفر حَتّٰى : یہاں تک کہ تَغْتَسِلُوْا : تم غسل کرلو وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : مریض اَوْ : یا عَلٰي : پر۔ میں سَفَرٍ : سفر اَوْ جَآءَ : یا آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں مِّنَ : سے الْغَآئِطِ : جائے حاجت اَوْ : یا لٰمَسْتُمُ : تم پاس گئے النِّسَآءَ : عورتیں فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر تم نے نہ پایا مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : مسح کرلو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
اے ایمان والو ! نہ قریب جاؤ نماز کے اس حالت میں کہ تم نشے میں ہو جب تک کہ سمجھ نہ لو جو تم کہتے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ ) سوائے اس کے کہ راستے میں گزرنے والے ہو یہاں تک کہ تم غسل کرلو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص پست مقام (بیت الخلا) سے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو ، پھر تم پانی نہ پاؤ ۔ پس ارادہ کرو پاک زمین کا (طہارت حاصل کرنے کے لیے) پس ملو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو اس کے ساتھ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنیوالا اور بخشش کرنیوالا ہے
رابط آیات گزشتہ دروس میں اعبدواللہ کا بنیادی عقیدہ بیان ہوچکا ہے کہ عبادت صرف اللہ ہی کی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، اس کے بعد والدین ، قرابتداروں اور دیگر ایسے لوگوں کے حقوق کا تذکرہ ہواجن سے زندگی میں اکثر واسطہ پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے بخل کی مذمت بیان فرمائی۔ اور ریاکاری سے منع کیا۔ گزشتہ درس میں پھر ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کے تذکرہ کے بعد اللہ اور رسول کے ان نافرمانوں کی حسرت بیان کی گئی کہ قیامت کے دن وہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ مٹی ہوجاتے تو جہنم کے ابدی عذاب سے بچ جاتے۔ نماز کی اہمیت آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی کے سلسلہ میں نماز کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ عبادت میں نماز کو اولیت حاصل ہے نماز چونکہ نہایت اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے والی بات ہے تو اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ انسان نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہو۔ اور اگر یہ چیز پیدا نہ ہو۔ اور انسان کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے جو خشوع کے منافی ہو تو اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا۔ شاہ ولی اللہ محدیث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز کے ذریعے انسان میں خشوع اور عاجزی پیدا ہوتی ہے ، اعضاء کے ساتھ آدمی آداب بجا لاتا ہے اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی مناجات کرتا ہے۔ گویا نماز تکبر کے منافی ہے جس سے پہلے ہی منع کیا جا چکا ہے۔ اور اگر انسان نشے کی حالت میں ہوگا تو اس کے اندر خشوع نہیں ہوگا ، انسان کی عقل کا توازن ہی قائم نہیں رہ سکتا ، بےہنگم حرکات کرنے لگتا ہے۔ نشہ کی حالت میں انسان کے دل میں عاجزی کا پیدا ہونا ممکن نہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں نماز سے روک دیا ہے۔ طہارت شرط نماز ہے آج کے درس میں جو دوسری اہم بات بیان کی گئی ہے وہ طہارت ہے اور نماز جیسی اعلیٰ وارفع عبادت کرنے کے لیے طہارت شرط ہے ، انسان کا جسم پاک ہو ، لباس پاک ہو اور پھر وہ جگہ پاک ہو جہاں نماز ادا کرنا چاہتا ہے۔ حضور ﷺ نے یہ بات قانون 1 ؎ کے طور پر سمجھا دی لا تقبل صلوٰۃ بغیر طہور یعنی طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ اس آیت کریمہ میں جو جنابت کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ غایت درجہ کی ناپاکی ہے۔ لہٰذا جنابت کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے نماز کے قریب جانے سے منع فرما دیا۔ گزشتہ درس میں کفار کی حسرت کا ذکر تھا ، کاش وہ مٹی ہوجاتے اور آج کے درس میں طہارت کے لیے مٹی کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا گزشتہ درس کے ساتھ یہ بھی ایک مناسبت ہے۔ جنابت کی تعریف جنابت کا معنی دوری ہے اس حالت میں انسان فرشتوں اور خدا تعالیٰ کی تجلیات سے دور ہوجاتا ہے اس لیے ایسے شخص کو جنبی کہتے ہیں۔ عربی زبان میں قرابت سے دور والے شخص پر بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے عربی شاعر کہتا ہے : فلا تحرمنی نائلاعن جنابۃ فانی امرء وسط القباب غریب بھائی مجھے اپنے عطیے سے محض اس لیے محروم نہ کرنا کہ میں تمہارے ساتھ قریبی تعلق نہیں رکھتا اور میں اس بستی میں اجنبی ہوں۔ جنابت خدا کی طرف سے حکمی حالت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جنبی آدمی کے مسجد میں داخلے کو حلال نہیں سمجھتا۔ حیض والی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔ وہ بھی نہ مسجد میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ طواف کرسکتی ہے۔ حضور ﷺ کے الفاظ ہیں ولا احل لحائض ولاجنب ایسی حالت میں نہ قرآن پاک کو ہاتھ لگاسکتا ہے اور نہ زبانی تلاوت کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کی بھی ممانعت فرما دی ہے۔ شرعی جنابت مادہ منویہ کا اخراج یا نفسِ جماع ہے۔ مباشرت میں اگر بدخوابی میں بھی مادہ خارج ہوجائے تو انسان ناپاک ہوجاتا ہے بعض آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ انسان جنبی اس صورت میں ہوتا ہے جب مادہ منویہ اچھل کر خارج ہو۔ البتہ امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ مطلقاً مادہ خارج ہونے سے جنابت لازم آتی ہے خواہ یہ اخراج جریان کی وجہ سے ہو یا بدخوابی میں ہوجائے اور آدمی کو پتہ بھی نہ چلے کہ مادہ خارج ہوگیا ہے۔ اس صورت میں بھی غسل ضروری ہوجاتا ہے۔ الغرض ! یہ دونوں حالتیں نماز کے منافی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان نشے کی حالت میں ہو اور اسے پتہ ہی نہ ہو کہ کیا کر رہا ہے اور دوسریص ورت یہ ہے کہ جنبی ہوجائے یا ناپاک ہوجائے۔ نشہ آور اشیاء فرمایا یایھا الذین امنو اے ایمان والو لاتقربوا الصلوۃ نماز کے قریب نہ جاؤ و انتم سکری اس حالت میں کہ تم نشے میں ہو۔ یہاں کونسا نشہ مراد ہے ؟ بعض فرماتے ہیں کہ نشہ سے مراد حقیقی نشہ ہے جو شراب وغیرہ پینے سے آتا ہے۔ اس آیت کے نزول تک شراب کی قطعی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی البتہ اس سے قبل سورة بقرہ میں شراب اور جوئے کے حسن و قبح بیان ہوچکے تھے۔ یسئلونک عن الخمر والمیسر یعنی اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں ، آپ فرما دیں کہ ان میں بہت سا نقصان ہے تاہم لوگوں کے لیے کچھ فوائد بھی ہیں مگر ان میں نقصان کا پہلو زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی قباحت کے متعلق اس قدر اشارہ فرما دیا۔ آج کی آیت کی شان نزول کے متعلق ترمذی شریف اور مستدرک حاکم میں روایت موجود ہے کہ صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بعض دوسرے صحابہ ؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان میں حضرت علی ؓ بھی شامل تھے۔ کھانا کھانے کے بعد شراب کا دور بھی ہوا ، جس سے بعض کو نشہ چڑھ گیا۔ اُدھر نماز کا وقت بھی ہوگیا۔ حضرت علی ؓ کو امامت کے لیے آگے کھڑا کیا گیا ، انہوں نے نشہ کی حالت میں قرآن پاک پڑھنے میں یہ غلطی کی کہ لا اعبد ماتعبدون میں لاحذف کر گئے جس کی وجہ سے معنی بالکل ہب الٹ ہوگیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو ! نماز کے قریب نہ جاؤ اس حالت میں کہ تم نشہ میں ہو۔ حتی تعلموا ما تقولون یہاں تکہ تم سمجھ نہ لو جو کچھ تم کہتے ہو۔ گویا شراب کی خرابی کے متعلق یہ دوسرا حکم تھا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ اور اس کے بعد سورة مائدہ میں وہ قطعی حکم آ گیا جس کے مطابق شراب ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیدی گئی۔ مجازی نشہ بعض فرماتے ہیں کہ سکری سے مراد مجازی نشہ یعنی غفلت ہے۔ جب نیند کا غلبہ ہو یا غشی طاری ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نیند کے متعلق حضور ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ جب نیند کا غلبہ ہو اس وقت نماز نہ پڑھو بلکہ سو جاؤ ، جب نیند پوری کرلو تو پھر نماز پڑھو۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نیند کی حالت میں تم اللہ سے بخشش طلب کرنا چاہو مگر زبان سے اپنے آپ کو گالیاں دینے لگو۔ لہٰذا نیند کے غلبے میں نماز نہ پڑھو۔ اگر نماز کا وقت جا رہا ہے تو پھر اس کا علاج یہ ہے کہ تازہ وضو کرو یا کوئی ایسی اور حرکت کرو جس سے نیند کا غلبہ دور ہوجائے اور پھر نماز ادا کرلو۔ ہوش و حواس کی درستگی حتی تعلمھا میں بعض دیگر باتوں کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔ نماز میں قرآن پاک کی قرأت ضروری ہے۔ قرآن کریم وہ عہد ہے جو خداوند کریم اور بندے کے درمیان ہوچکا ہے اور بندہ اس عہد کو دہراتا رہتا ہے ایاک نعبدو ایاک نستعین عہد ہی تو ہے ، اگر کوئی شخص نشے کی حالت میں قرآن پاک پڑھے گا تو وہ کیا سمجھے گا کہ کیا کر رہا ہے۔ دنیا کے عہدو پیمان کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جب کوئی شخص کوئی اہم دستاویز تیار کرتا ہے ، کوئی ہبہ یا بیع کرتا ہے ، طلاق دیتا ہے ، وصیت کرتا ہے یا کوئی اقرار نامہ یا ایگریمنٹ کرتا ہے تو لکھتا ہے کہ میں یہ تحریر بقائمی ہوش و حواس کر رہا ہوں ، گویا کسی عہد کو دہراتے وقت عقل و خرد کا درست ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نشہ کے علاوہ نیند کی حالت میں بھی نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔ نشہ آور اشیاء میں سے شراب ایک معروف چیز ہے جسے عربی میں خمر کہتے ہیں اور خمر عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جب عقل اور ہوش و حواس ہی قائم نہیں ہوں گے تو اسے کیا معلوم ہوگا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں نماز سے منع فرما دیا گیا۔ عربی تعلیم کی ضرورت یہاں پر ایک اور بات بھی ضمناً ہوجائے جو اگرچہ ضروری تو نہیں ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اہم ضرور ہے۔ عربی زبان سے واقف آدمی جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ کیا پڑھ رہا ہے مگر ایک عجمی آدمی قرآن پاک کی پوری تلاوت کر کے بھی کچھ نہیں سمجھ پاتا لہٰذا ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قدر عربی تو سیکھ لے جس سے اسے علم ہو سکے کہ جو عہد وہ دہرا رہا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ انگریزی زبان سیکھنے کے لیے کتنی تگ و دو کی جاتی ہے۔ آج کل بچے کو ابتدا ہی سے انگریزی سکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے تاکہ وہ کچھ آئے یا نہ آئے اسے انگریزی پر دسترس حاصل ہوجائے۔ مگر نماز کے معاملہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی غفلت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا جو عہد دہرا رہے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ زیادہ نہیں تو سورة فاتحہ کے علاوہ ان چند ایک چھوٹی چھوٹی سورتوں کا تجمہ ہی پڑھ لینا چاہئے ، جو کوئی شخص اکثر نماز میں پڑھتا ہے بہرحال یہ لازم نہیں ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز ضرور پڑھنی چاہیے خواہ کوئی چیز سمجھ میں آئے یا نہ۔ اگر اس آیت میں تفہموا کا لفظ ہوتا ہے تو ہر نمازی کے لیے قرأت کو سمجھنا ضروری ہوجاتا۔ نماز کی ممانعت بہرحال فرمایا اے ایمان والو ! نماز کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ تم جان لو جو کچھ تم کہتے ہو۔ ولاجنباً اور جنبی آدمی بھی نماز کے قریب نہ جائے الا عابری سبیلٍ سوائے اس کے کہ وہ راستہ گزرنے والا ہو۔ اس کا ایک مطلب توی ہ ہے کہ کوئی شخص مسافر ہے ، غسل کی ضرورت پڑگئی ہے مگر پانی میسر نہیں یا اس پر قادر نہیں تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ اس وقت تک بغیر غسل کیے نماز پڑھ لے جب تک اسے غسل کے لیے پانی میسر نہیں آتا۔ عابری سبیل کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز کے محل یعنی مسجد میں داخل بھی نہ ہو۔ البتہ اگر وہاں سے بطور راستہ گزرنا ہو تو مسجد سے گزر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مسجد میں بدخوابی ہوگئی ہے تو مسجد سے گزر کر باہر چلے جانا جائز ہے۔ بہرحال فرمایا دو حالتوں میں نماز کے قریب نہ جاؤ ، اولاً یہ کہ تم نشے کی حالت میں ہو اور اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک کہ تمہارا نشہ زائل ہو کر تم سمجھنے نہ لگو کہ کیا کر رہے ہو۔ اور ثانیاً یہ کہ اگر جنبی ہوجاؤ تو اس وقت تک نماز کے قریب نہ جاؤ حتی تغتسلوا یہاں تک تم غسل کرلو۔ اب آیت کے اگلے حصے میں تیمم کا طریقہ بتایا جا رہا ہے جس کے ذریعہ جنبی آدمی وقتی طور پر (جب تک پانی میسر نہ ہو) طہارت حاصل کر کے نماز ادا کرسکتا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ آیت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمادی۔ ایک نشہ کی حالت میں ، جب تک کہ نشہ اتر نہ جائے ، اور انسان کے ہوش و حواس ٹھکانے نہ آجائیں اور دوسرا جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کرلیا جاوئے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے عبوری دور کے لیے طہارت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے کہ جب تک پانی میسر نہ ہو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ طہارت بذریعہ تیمم آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کا طریقہ بیان فرمایا ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ پانی سے طہارت کرنا ، تیمم یعنی مٹی سے طہارت حاصل کرنا ، اور خوشبو لگانا سب طہارت میں شمار ہوتے ہیں۔ پانی سے طہارت حاصل کرنا امر طبعی ہے اور ہر شخص اس کے اثرات کو محسوس کرتا ہے کیونکہ پانی سے میل کچیل اور جسم کی نجاست دور ہوجاتی ہے مگر مٹی سے طہارت ایک پوشیدہ طہارت ہے تاہم یہ بھی ایک ذریعہ طہارت ہے حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق تیمم اس امت کی خصوصیات میں سے ہے امت آخر الزمان (علیہ السلام) سے پہلے کسی امت کو تیمم کی اجازت نہیں تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کی آخری امت کے لیے اسے بھی ذریعہ طہارت بنا دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جعلت لنا ترب تھا طہوراً اگر پانی میسر نہ ہو یا کوئی شخص پانی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر مٹی کے ساتھ طہارت حاصل کرلے یہ طہارت ضروریہ کہلاتی ہے تاہم طہارت کا فطری ذریعہ پانی ہی ہے اللہ نے اس کی صفت بھی بیان فرمائی ہے وانزک نا من السماء ماء طھوراً ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ، جو خود بھی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرتا ہے۔ جسم ، کپڑا ، برتن وغیرہ پانی سے ہی پاک کیے جاتے ہیں اور جب پانی میسر نہ ہو تو پھر وقتی طور پر مٹی بھی ذریعہ طہارت بن جاتی ہے۔ ہاں ! بعض اوقات پانی کی موجودگی کے باوجود مٹی ذریعہ طہارت ہے۔ مثلاً اگر جوتے پر نجاست لگ گئی تو مٹی کے ساتھ کھرچنے سے نجاست دور ہو کر جوتا پاک ہوجائے گا بشرطیکہ نجاست جوتے کے اندر جذب نہ ہوچکی ہو۔ اسی طرح موزے ، آئینے ، تلوار یا چھری وغیرہ کو نجاست لگ جائے تو مٹی ملنے سے پاک ہوجاتی ہیں۔ گویا مٹی بھی ایک ذریعہ پاکیزگی ہے۔ بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک تو تیمم اس امت کی خصوصیات میں سے ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے جعلت لی الارض مسجداً میرے لیے پوری زمین کو مسجد بنا دیا گیا۔ بشرطیکہ جگہ پاک ہو۔ چند ایسی جگہوں کو جہاں عام طور پر نجاست ہوتی ہے۔ نماز کے منافی قرار دے دیا گیا ہے وگرنہ ساری زمین جہاں کوئی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ سابقہ امتوں کے لوگ صرف اپنے عبادت خانوں میں ہی عبادت کرسکتے تھے ، مگر اس امت کے لیے ہر پاک جگہ پر نماز پڑھنا ردا ہے۔ تیمم کی وجوہات اب اب حصہ آیت میں وہ وجوہات بیان کی جا رہی ہے جن کے پیدا ہونے پر کوئی شخص تیمم کے ذریعے پاکیزگی حاصل کرسکتا ہے بشرطیکہ اسے پانی میسر نہ ہو یا وہ پانی پر قادر نہ ہو۔ تیمم کرنے کے بعد کوئی شخص نمازپڑھ لے گا ، مسجد میں چلا جائے گا ، قرآن پاک کو ہاتھ لگا سکے گا یا کوئی دیگر عبادت انجام دے سکے گا۔ تو فرمایا فان کنتم مرضی اور اگر تم مریض ہو ، مرضیٰ مریض کی جمع ہے۔ یعنی تم میں سے کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس میں پانی کا استعمال بیماری میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ، یا ہلاکت کا خطرہ ہے ، توپ انی استعمال نہ کرے بلکہ تیمم کر کے نماز ادا کرے۔ دوسری صورت یہ ہے اوعلی سفرٍ یا تم سفر میں ہو۔ بعض اوقات سفر میں پانی میسر نہیں آتا۔ ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے اور میلوں دور تک پانی میسر نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بھی تیمم کیا جاسکتا ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ صحابہ ؓ کی ایک جماعت کے ہمراہ سفر پر تھے۔ پانی ختم ہوگیا۔ اتنے میں ایک عورت ملی جس کے اونٹ پر پانی لدا ہوا تھا۔ صحابہ ؓ نے اس عورت سے پانی کا مقام دریافت کیا ، تو اس نے بتایا کہ یہاں قرب و جوار کہیں پانی میسر نہیں۔ میں چوبیس گھنٹے کی مسافت سے پانی لائی ہوں۔ میری پرورش میں یتیم بچے ہیں جو پانی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میں یہ پانی ان کے لیے لیے جا رہی ہوں حضور ﷺ نے اس کی سواری کو بٹھایا اور صحابہ کو پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی ، چناچہ کچاوے کے مشکیزے کو نچلی طرف سے کھول کر پانی حاصل کیا گیا۔ حضور ﷺ نے دعا فرمائی اور عورت سے کہا کہ ہم نے تیرے پانی میں کوئی کمی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پانی اپنی مہربانی سے عطا فرمایا ہے ، تیرا کجاوہ اسی طرح بھرا ہوا ہے پھر صحابہ ؓ نے کچھ اناج اور کپڑے وغیرہ اکٹھا کر کے اس عورت کو دے دیے۔ وہ عورت خوش ہوگئی۔ اس واقعہ کا تذکرہ اس نے اپنے علاقہ میں جا کر کیا تو اللہ تعالیٰ نے وہاں کے تمام لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ بہرحال یہ ایک معجزہ تھا جو ظہور پذیر ہوا ، مگر کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض اوقات انسان ایسی جگہ سفر کرتا ہے جہاں دور دور تک پانی میسر نہیں ہوتا ، ریگستان ہے یا کوئی پہاڑی علاقہ ہے کہ ہر جگہ پانی موجود نہیں ہوتا ، تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے پاک مٹی سے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی۔ تیمم کے لیے تیسری وجہ فرمایا وجاء احد منکم من الفائط یا تم میں سے کوئی پست مقام سے آیا۔ غالط و پست یا نچلی جگہ کو کہتے ہیں اور مراد جائے قضائے حاجت ہے کیونکہ عام طور پر انسان قضائے حاجت کے لیے پست جگہ کی اوٹ لیتے ہیں تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ بہرحال اس کا معنی ہے استفراغ من البول والبراز یعنی بول و براز سے فراغت تو قضائے حاجت کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو تو تیمم کر کے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ تیمم کے جواز کی چوتھی وجہ یہ ہے۔ او لمستم النساء یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔ لمس کا لغوی معنی چھونا یا ہاتھ لگانا ہے۔ البتہ اس کے اصطلاحی معنی میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ لمس سے مراد مباشرت لیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے بھی یہی مسلک اختیار کیا۔ بعض دوسرے فقہائے کرام اسے لغوی معنوں پر ہی محمول کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو محض ہاتھ لگا دیا تو وضو ٹوٹ جائیگا۔ امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے مگر عبداللہ ابن عباس ؓ کے علاوہ عبداللہ ابن مسعود ؓ ، حضرت علی ؓ وغیرہ اس سے مباشرت ہی مراد لیتے ہیں۔ البتہ امام مالک (رح) کا تیسرا مسلک ہے کہ اگر مرد و زن ایک دوسرے کوش ہوت کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو وضو ٹوٹ جائیگا اور اگر بلا ارادہ اتفاقاً ہاتھ لگ جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ تیمم کا طریقہ بہرحال ان چار صورتوں میں کہ کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو یا قضائے حاجت کے بعد آیا ہو یا عورت کو چھوا ہو فلم تجدواماء پھر نہ پاؤ یعنی فوری طور پر پانی میسر نہیں ہے یا تم پانی پر قادر نہیں ہو فتیمموا صعیداً طیبا پس قصد کرو پاک مٹی کا یا پاک زمین کا۔ تیمم کا لفظی منیٰ قصد اور ارادے کا ہے اور مراد قصد الصعید للطہیر ہے۔ یعنی پاک مٹی سے طہارت حاصل کرنا۔ اور اس کا طریقہ یہ فرمایا فامسحوا بوجوہکم پس ملو اپنے چہروں کو وایدیکم اور اپنے ہاتھوں کو اس کے ساتھ۔ یعنی مٹی پر ہاتھ مار کر اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لو۔ یہ تیمم ہوجائیگا۔ البتہ اس معاملہ میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر چہرے اور ہاتھوں پر ملنا کافی ہے یا چہرے کے لیے اور ہاتھوں کیلئے علیحدہ علیحدہ یعنی دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارنا ہوگا۔ امام احمد (رح) اور بعض دیگر محدثین ایک ہی ضرب کے قائل ہیں کہ ایک دفعہ ہاتھ مارنے سے دونوں اعضاء پر پھیرلینا چاہئے۔ البتہ امام شافعی (رح) ، امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگر فقہائے کرام دو ضرب کا فتویٰ دیتے ہیں۔ پہلیدفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر چہرے کے اتنے حصے پر مل لیا جاوے جتنا حصہ وضو میں دھویا جاتا ہے۔ پھر دوسری دفعہ اتھ مار کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے لے کر کہنیوں سمیت مل لیاجاوے۔ بعض ہاتھوں کی کلائیوں تک ملنا کافی سمجھتے ہیں اور امام زہری (رح) وغیرہ بغلوں تک کہتے ہیں مگر صحیح قول پہلا ہی ہیں یعنی کہنیوں تک ملنا چاہیے۔ مستدرک حاکم کی روایت میں حضرت جابر ؓ کے مطابق ہر دو اعضاء کے لیے علیحدہ علیحدہ ضرب اور ہر فقین یعنی دونوں کہنیوں کے لفظ آتے ہیں۔ روایت اگرچہ درجہ دوم کی ہے مگر… قابل استدلال ہے اور وضو پر محمول کرتے ہوئے تیمم بھی کہنیوں تک کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ تیمم کا طریقہ بتا یدا گیا ہے اس کا تفصیلی ذکر اگلی سورة مائدہ میں بھی آئے گا۔ وضو کی ضرورت ہو یا غسل کی اتنا تیمم کرلینا کافی ہے۔ حضرت عمار ؓ کو تیمم کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ انہیں غسل کی ضرورت پڑی تو کپڑے اتار کر مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگئے۔ پھر جب حضور کی خدمت میں یہ عمل پیش کیا تو آپ نے فرمایا غسل کی طرح سارے جسم پر مٹی ملنا ضروری نہیں تھا بلکہ صرف چہرے اور ہاتھوں پر مل لیناکافی ہوتا ہے بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا کہ مٹی ذریعہ طہارت ہے اگر دس سال تک بھی پانی میسر نہ آئے تو مٹی سے طہارت حاصل ہوتی رہے گی۔ مٹی ذریعہ فلاح ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ خط لکھو تو اس پر مٹی مل لیا کرو کہ یہ ذریعہ کامیابی ہے۔ آج کل تو سپرٹ والی سیاہی استعمال ہوتی ہے جو فوراً خشک ہوجاتی ہے گزشتہ زمانے میں عام سیاہی سے خط لکھتے تھے ، جو جلدی خشک نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے اس کو سیاہی چوس سے چوس لیتے تھے یا اوپر مٹی ڈال کر خشک کرلیتے تھے۔ حضور کا یہ فرمان کہ فانہ انجح للحاجۃ مٹی ڈالنا ذریعہ فلاح ہے یہ دو طریق سے ہے۔ اولاً یہ کہ اگر خط لکھ کر فوراً خط کو لپیٹ دیا جائے تو حروف مٹ جاتے ہیں اور مطلب حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ سیاہی خشک کرلینے سے خط درست حالت میں منزل مقصود تک پہنچ کر کامیابی کا ضامن ہوتا ہے اور کامیابی کی دوسری توجیہہ محدثین کرام اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) بھی یہ فرماتے ہیں کہ مٹی کے استعمال میں عاجزی پائی جاتی ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ” خلقہ من ترابٍ “ اور اپنی اصل یعنی مٹی کی طرف رجوع کمال چیز ہے۔ مٹی میں عاجزی اور انکساری کا عنصر پایا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ لہٰذا یہ کامیابی کی دلیل ہے۔ اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے سے انسان کو طہارت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے پاکیزگی کے لیے مٹی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے یعنی تیمم کیا جاتا ہے۔ اشکال اور جواب بعض ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ پانی کے ذریعے تو طہارت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ پانی میل کچیل اور گندگی کو بہا لے جاتا ہے مگر مٹی سے کیونکر پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اس اشکال کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا تذکرہ فرمایا ان اللہ کان عفواً غفوراً بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ یعنی اے مخاطب ! اگر تمہیں طہارت میں کوئی خامی محسوس ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ طہارت بہرحال ہو جائیگی اور اگر کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تو اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے۔ وہ بخشش کرنے والا ہے ، لہٰذا اس معاملہ میں فکر نہ کرو۔ بعض حالات میں انسان مجبور ہوجاتا ہے۔ غسل کی ضرورت ہے مگر پانی میسر نہیں۔ اُدھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش بھی ہونا ہے ، مسجد میں جانا ہے ، قرآن پاک کی تلاوت کرنی ہے کوئی اور ایسا کام کرنا ہے جس کے لیے طہارت ضروری ہے تو فرمایا بغیر کسی وہم کے تیمم کرلو اور اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوجاؤ ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
Top