Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
لَا يَحِلُّ
: حلال نہیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ تَرِثُوا
: کہ وارث بن جاؤ
النِّسَآءَ
: عورتیں
كَرْهًا
: زبردستی
وَلَا
: اور نہ
تَعْضُلُوْھُنَّ
: انہیں روکے رکھو
لِتَذْهَبُوْا
: کہ لے لو
بِبَعْضِ
: کچھ
مَآ
: جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: ان کو دیا ہو
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
يَّاْتِيْنَ
: مرتکب ہوں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی
مُّبَيِّنَةٍ
: کھلی ہوئی
وَعَاشِرُوْھُنَّ
: اور ان سے گزران کرو
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
فَاِنْ
: پھر اگر
كَرِھْتُمُوْھُنَّ
: وہ ناپسند ہوں
فَعَسٰٓى
: تو ممکن ہے
اَنْ تَكْرَهُوْا
: کہ تم کو ناپسند ہو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّيَجْعَلَ
: اور رکھے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْهِ
: اس میں
خَيْرًا
: بھلائی
كَثِيْرًا
: بہت
اے ایمان والو ! تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم وارث بن جائو عورتوں کے زبردستی اور نہ روکو ان کو تاکہ تم بعض وہ چیزیں لے جائو جو تم نے ان کو دی ہیں سوائے اس کے کہ وہ بےحیائی کی کھلی بات کریں اور ان عورتوں سے میل جو رکھو دستور کے مطابق پس اگر تم ان کو ناسند کرو اور شاید کہ سم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت سی بہتری بنادے
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں مردوں اور عورتوں کی اخلاقی بےحیائی کا ذکر تھا ، اور اس کی سزا کا تعین بھی تھا پھر درمیان میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کا وقت تواب اور رحیم کا تذکرہ فرمایا۔ توبہ کی شرائط کا بیان آیا ، نیز یہ بھی کہ توبہ کی قبولیت کا وقت نزع کی حالت شروع ہونے سے پہلے پہلے ہے۔ جب دوسرے جہان کی چیزیں نظر آنے لگیں۔ انسان قریب المرگ ہوجائے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں ، اسی طرح جو لوگ کفر کی حالت پر ہی مرجائیں ان کی توبہ بھی قبول نہیں۔ البتہ ان حالات سے پہلے پہلے جو شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کہا تھا کہ اے پروردگار ! میں انسانوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا ، جب تک ان کے جسموں میں جان باقی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا جب تک میرے بندے مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔ میں ان کو معاف کرتا رہوں گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو بندے کے لیے آخری وقت تک ذریعہ نجات بنادیا ہے۔ اب اگلی آیات میں پھر عورتوں کے مسائل آرہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جو بدسلوکی اور ناانصافی ہوتی تھی ، اس کا دوبارہ تذکرہ آرہا ہے یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے وقت مروجہ رسم و رواج کی تردید فرمائی ہے اور صحیح راستے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے بعد نکاح کے ضمن میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو محرمات نکاح میں شمار ہوتی ہیں اور جن کے ساتھ کسی شخص کا نکاح جائز نہیں ہوتا۔ شان نزول صحیح احادیث میں آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں فوت شدہ شخص کے پیچھے اگر اس کا سوتیلا بیٹا ہوتا تھا تو وہ اپنے باپ کی بیوہ یعنی سوتیلی ماں پر قبضہ کرلیتا تھا۔ بیوہ عورت کو بھی مرنے والے کا ترکہ سمجھ کر اس کے ساتھ وراثت جیسا سلوک ہی کیا جاتا تھا۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس زمانے میں وراثت کا کلی حقدار مرنے والے کا بڑا بیٹا یا بھائی یا بھتیجا وغیرہ ہوتے تھے۔ چھوٹے بچوں اور عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ چونکہ بیوہ کو بھی وراثت ہی کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ لہٰذا مرنے والے کا وارث یا تو اس عورت سے خود نکاح کرلیتا تھا یا مہر اور مال وغیرہ حاصل کرکے اس کا نکاح کسی دوسری جگہ کردیتا تھا۔ اور اس کی بدترین صورت یہ تھی کہ اگر وارث مرنے والے کا دوسری بیوی سے سوتیلا بیٹا ہے تو وہ خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا تھا۔ ایسی عورتوں کے ساتھ ایک اور بدترین سلوک یہ کیا جاتا تھا کہ بعض اوقات اگر بوجوہ وارث اس عورت کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے دوسری جگہ نکاح کرنا ے کی اجازت بھی نہیں دیا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر عورت نے دوسرا نکاح کرلیا تو وہ اپنے ساتھ اپنا مال بھی لے جائے گی اور مرنے والے کا وارث اس عورت کے علاوہ اس کے مال سے بھی محروم ہوجائے گا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا حضور ! میرا خاوند مرچکا ہے اور دوسری بیوی سے اس کا جو بیٹا ہے اسنے مجھے گھر میں ڈال رکھا ہے نہ وہ مجھ سے اچھا سلوک کرتا ہے اور نہ مجھے آزاد کرتا ہے کہ دوسری جگہ نکاح کرلوں۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں نبی (علیہ السلام) نے فرمایا تم گھر میں بیٹھو اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں یقینا کوئی حکم نازل فرمائیں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیات اسی ضمن میں نازل ہوئیں۔ عورت بطورمال وراثت ارشاد خداوندی ہییایھا الذین امنوا اے ایمان والو۔ لایحل لکم ان ترثوا النساء کرھاً تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن بیھٹو ، جس بےچاری کا خاوند فوت ہوگیا ہے تم اس کو بھی مال وراثت کا حصہ سمجھ کر اس پر قبضہ کرلو۔ اور ان سے من مانا سلوک کرو۔ یہ بھی فرمایا ولا تعضلوھن اور نہ روک رکھو ان عورتوں کو لتذھبوا ببعض ما اتیتموھنمحض اس لیے کہ تم نے انہیں جو چیزیں بطور مال یا عطیہ دی تھیں ان میں سے کچھ چیزیں واپس لے سکو۔ فرمایا یہ بھی تمہارے لیے روا نہیں۔ کہ محض اس وجہ سے انہیں دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہ دو کہ ان کے ساتھ ان کا مال بھی جائے گا۔ فرمایا یہ بیوہ عورتوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ ایسا مت کرو۔ بے حیائی کی صورت میں ہاں ان کو روک رکھنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہیالا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ کہ وہ کسی صریح بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔ اس کے متعلق گزشتہ دروس میں ذکر آچکا ہے کہ اگر کوئی عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے گھر میں تازیست قید کردو۔ یہ ابتدائی حکم تھا ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے سو کوڑوں اور رجم کی سزائیں نافذ کرکے قید وبند والا حکم منسوخ فرمادیا ، تو فرمایا ایسی صورت تم عورتوں کو روک سکتے ہو ، وگرنہ عدت کے بعد عورت آزاد ہے وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ سورة بقرہ میں بھی یہ احکام گزر چکے ہیں کہ ایسی عورتیں اپنے متعلق بہتر رائے قائم کرنے کی مجاز ہیں۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ غرضیکہ فرمایا بیوہ عورتوں پر کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں ایسی عورتوں سے گلوخلاصی کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے خلع کا موقع پیدا کردو۔ اگر کوئی عورت بےحیائی کا ارتکاب کرتی ہے۔ تو ایک نیک اور متدین آدمی کے لیے اس سے نباہ مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں عورت کو خلع کے ذریعہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ خلع کے لیے تم ان کو ادا کرو وہ مہر ومال یا اس سے زیادہ کا مطالبہ بھی کرسکتے ہو کیونکہ قصور عورت کا ہے۔ البتہ یاد رکھو ! وعاشروھن بالمعروفان عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق گزران کرو۔ ان سے بہتر طریقہ پر میل جول رکھو۔ کسی قسم کی زیادتی نہ کرو۔ ان کے حقوق ان کو اد کرو۔ ان کی کسی بھی صورت میں حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔ پسند اور ناپسند فرمایا فن کرھتموھن اگر تم ان عورتوں کو ناپسند کرتے ہو فعسی ان تکرھواشیاً پس ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیرا اور اللہ تعالیٰ اس (ناپسندیدہ چیز) میں بہت سی بہتری رکھ دے۔ ظاہر ہے کہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی عورت میں کوئی خامی ہے جس کی وجہ سے تم اسے ناپسند کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ اس میں بعض خوبیاں بھی ہوں۔ اگر عورت شکل و صورت کے لحاظ سے اچھی نہیں ہے تو ہوسکتا ہے اس کا اخلاق بہت اچھا ہو یا وہ ہنر مند اور سلیقہ شعار ہو۔ بعض اوقات عورتیں خود تو بظاہر کسی خوبی کی مالک نہیں ہوتیں مگر ان سے پیدا ہونے والی اولاد اعلیٰ اقدار کی حامل ہوتی ہے جو مرد کے لیے بیش قیمت سرمایہ بن جاتی ہے۔ بعض عورتیں صابر وشاکر اور دین دار ہوتی ہیں اور بعض خوبصورت مگر جھگڑالو قسم کی ہوتی ہیں اس لیے فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں کوئی فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کرو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اللہ نے اسی میں تمہارے لیے خیر کثیر کا پہلو رکھا ہو ایک شاعرنے خوب کہا ہے ؎ نعم الا لہ علی العباد کثیرۃ واجلھن نجابۃ الاولاد اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں اس کے بندوں پر ہیں مگر اس کے لیے سب سے اعلیٰ نعمت یہ ہے کہ اسے اچھی اولاد میسر آجائے۔ بدشکل عورت سے خوبصورت اولاد کا پیدا ہوجانا بعیدازقیاس نہیں۔ اَن پڑھ اور بےسلیقہ عورت سے سلیقہ شعار اور ہنرمند اولاد بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ عورت میں اگر کوئی خامی ہے تو اس میں کوئی دوسری خوبی بھی موجود ہوگی۔ لہٰذا پسند اور ناپسند کا فیصلہ اس کے تمام قبائح اور محاسن کو سامنے رکھ کر کرو۔ عورت کی تبدیلی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کے متعلق یہ بھی فرمایا وان اردتم استبدال زوج مکان زوج اگر تم ایک عورت کی جگہ پر دوسری عورت تبدیل کرنا چاہتے ہو۔ یعنی تمہاراپہلی بیوی کے ساتھ بطریق احسن نباہ نہیں ہوسکتا۔ اور تم اسے ڈھیر مال بطور مہر یا عطیہ ادا کرچکے ہو۔ یعنی مہر کی رقم ہی بہت زیادہ تھی یا اس کے علاوہ کوئی عطیہ دے چکے ہو اور اس کے بعد علیحدگی کی صورت پیدا ہوگئی ہے تو فرمایا فلاتاخذوامنہ شیاً اس ادا شدہ مال میں سے کچھ بھی واپس نہ لو خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو قنطار بہت سے مال کو کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں دس ہزار درہم یا دینار کو ڈھیر مال تصور کیا جاتا تھا۔ قنطار کا لفظ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ہے انسان کی مرغوب چیزوں کی فہرست میں القناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی سونے چاندی پر مشتمل ڈھیروں مال انسان کی مرغوب ومقصود اشاء میں سے ہے۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ اگر تم اپنی عورتوں کو بہت زیادہ مال بھی دے چکے ہو تو بوقت طلاق ان سے کوئی چیز واپس نہ لو۔ یہ اخلاقی لحاظ سے نہایت بری بات ہے۔ طلاق کے مسائل سورة بقرہ میں بیان ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مسائل سورة احزاب اور سورة طلاق میں بھی آئیں گے۔ حضور ﷺ نے 1 ؎ جامع صغیر ص 241 ، ج 2 ومستدرک ص 691 ج 2 (فیاض) طلاق کو ابغض المباحات الی اللہ فرمایا ہے یعنی جائز چیزوں میں اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔ لہٰذا اس سے حتی الامکان بچنا چاہیے اور نباہ کی کوشش کرنا چاہیے۔ اور اگر ایسی کوئی صورت باقی نہ رہے تو پھر علیحدگی کی بھی اجازت ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت میں ایسی کوئی گنجائش نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے لیے یہ صورت بھی پیدا فرمادی۔ کہ ساری عمر گھٹن کی زندگی بسر کرنے کی بجائے میاں بیوی میں علیحدگی کی ضرورت ہو تو اس کے لیے طلاق کی گنجائش بھی ہے جس کے اپنے احکام اور شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ الغرض ! فرمایا کہ طلاق دینے کی صورت میں عورتوں کو ادا کردہ مال واپس مت لو۔ آگے تاکیداً فرمایا اتاخذونہ بھتانا واثمامبینا کیا تم یہ مال ان پر بہتان لگاکر اور صریح گناہ کی شکل میں لینا چاہتے ہو۔ فرمایا محض حیلے بہانے سے ان کو ادا کردو مال واپس لینے کی اجازت نہیں ہے یہ سخت گناہ کی بات ہے۔ مال کی واپسی کی ایک ہی جائز صورت خلع ہے اگر میاں بیوی میں نباہ نہیں ہوسکتا اور خاوند طلاق بھی نہیں دینا چاہتا تو ایسی صورت میں عورت خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کے لیے وہ خاوند کے مطالبہ پر مہر یا دیگر مال واپس کرسکتی ہے جو دونوں کے درمیان طے پاجائے اس کے علاوہ عورت پر جھوٹا الزام لگا کر اس سے مال کا مطالبہ کرنا بہت بری بات ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مہر اور خلوت صحیحہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مہر کی ادائیگی سے متعلق ایک ضروری قانون بتایا ہے اور وہ یہ کہ زوجین کی خلوص صحیحہ کے بعد پورے کا پورا مہر ادا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ فرمایا وکیف تاخذونہ اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو وقد افضی بعضکم الی بعض جب تم میں سے بعض کے ساتھ مل چکے ہیں۔ یعنی میاں بیوی مباثرت کرچکے ہیں۔ واخذن متکم میثاقاً غلیظا اور عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ مقصد یہ کہ جب ایجاب و قبول کے ذریعے تمہارا نکاح ہوچکا ہے ، مہر مقرر ہوا ہے تم نے ایک دوسرے سے فائدہ بھی اٹھالیا ہے یعنی ہم بستری کرلی ہے تو اب مہر کو روکنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ یہ تمہیں پورے کا پورا ادا کرنا ہوگا اب اگر تم بیوی کو طلاق دینا چاہو تو پورا مہر ادا کرو۔ کسی حیلے بہانے سے اسے مکمل طور پر روکنے یا اس میں کمی کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اکثر آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ مہر کی مکمل ادائیگی کے لیے میاں بیوی کے درمیان ہم بستری ضروری ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہم بستری ہوجاتی ہے۔ اگر زوجین کو خلوت صحیحہ حاصل ہوگئی ہے تو مہر کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے۔ اور خلوص صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی کسی ایسی جگہ اکٹھے ہوجائیں کہ ان کے درمیان کوئی چیز ہم بستری میں مانع نہ رہے ، اگرچہ فی الحقیقت ہم بستری واقع نہ ہوئی ہو۔ میثاق غلیظ کے متعلق حضور ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا واوستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ یعنی اللہ کے حکم اور قانون سے عورتیں تم پر حلال ہوئی ہیں۔ تمہارے ساتھ ان کا عقد نکاح ہوا ہے لہٰذا تم عورتوں کے حقوق سے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو اور ان کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ ان پر بہتان لگاکر ان کی حق تلفی نہ کرو جب وہ تمہارے عقد میں آچکیں اور تم نے ان سے پورا فائدہ ٹھالیا تو اب ان کے مہر ان کو لوٹادو۔ اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرو کسی شاعر نے بھی اسے یوں بیان کیا ہے۔ بتنا وما بینی وبینک ثالث کزوج حمام اوکغضین ھذا (ہم آپس میں اکٹھے رہ چکے ہیں۔ جب کہ درمیان میں کوئی چیز باعث رکاوٹ نہ تھی۔ ہمارے درمیان ایسی محبت تھی جیسے کبوتر اور کبوتری کے درمیان ہوتی ہے) عرب شعراء کے نزدیک کبوتر کے جوڑے کی محبت ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے جس کا ذکر ان کے اشعار میں اکثر ملتا ہے۔ متنبی نے اس محبت کو درخت کی دوٹہنیوں سے بھی تشبہیہ دی ہے جو اپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں وہ کہتا ہے ؎ یحید الحمام ولو وجید شجر الاراک مع الحمام تنوح (میرا غم اتنا بڑھا ہوا ہے کہ اگر کبوتر بھی میرے جتنا غم کرنے لگے جس درخت پر وہ بیٹھا ہے کبوتر کے ساتھ وہ درخت بھی رونے لگے) پھر کہتا ہے ؎ فمن بعد ھذا الوصل والود کلہ اکان جمیلا منک تحجر ھکذا (اس محبت اور میل ملاقات کے بعد تمہارے لیے یہ کس طرح روا ہوگا کہ تم اس طریقے سے قطع تعلقی کرلو ، جس میں ظلم اور زیادتی ہو اور دیا ہوا مال چھین لو) یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بات فرمائی ہے کہ کیف تاخذونہ تم اسے کیسے واپس لوگے جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ خلوت صحیحہ میں مل چکے ہو۔ ایک دوسرے سے واقف ہوچکے ہو اور پختہ عہد یعنی ایجاب و قبول بھی ہوچکا ہے تم ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرچکے ہو ، اب کسی قسم کی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ مقدار مہر مہر کا مسئلہ اس سورة کی ابتدا میں بھی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اس آیت میں آمدہ لفظ قنطاراً سے مفسرین نے یہ بات اخذ کی ہے کہ عورت کے مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ مہر کی کم ازکم مقدار میں ائمہ کرام کا اختلاف رائے ہے امام شافعی (رح) لوہے کی ایک انگوٹھی یا مٹھی بھر کھجوروں کو بھی مہر تسلیم کرتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دس درہم سے کم مہر نہیں ہوتا۔ امام صاحب کا استدلال ضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی روایت سے ہے لامھراقل من عشر دراھم دس درہم اڑھائی تولہ یا کچھ زیادہ چاندی کے برابر ہوتے ہیں اور موجودہ زمانے میں اتنی چاندی کی قیمت ڈیڑھ پونے دو سو روپے بنتی ہے۔ لہٰذا اس رقم سے کم مہر نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ پرانے اور سستے زمانے کی چاندی کے حساب سے 32 روپے مہر مقرر کرتے ہیں جو درست نہیں۔ البتہ زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں ہزارروں اور لاکھوں روپے نقد یا جائیداد کی صورت میں مہر مقرر ہوسکتا ہے۔ البتہ مہر میں مبالغہ کرنا ناپسندیدہ نہیں۔ یعنی بہت زیادہ مہر لکھ کر پھرا دا نہ کرنا۔ یہ درست نہیں ۔ مہر ہمیشہ حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ کی اکثر نبات اور ازواج کا مہر پانچ سو درہم سے زیادہ نہیں تھا۔ البتہ ام حبیبہ ؓ کا مہرچار ہزار درہم تھا جو نجاشی بادشاہ حبشہ نے ادا کیا تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ کا مہر بھی اسی مقدار کا تھا ، باقی سب بیویوں اور بیٹیوں کے مہر پانچ سو درہم تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ لوگو ! مہر میں مبالغہ نہ کیا کرو ، اگر یہ پسندیدہ فعل ہوتا تو اللہ کا نبی ایسا کرتا مگر آپ نے نہیں کیا مہر جتنا کم رکھوگے ادائیگی میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔ بہرحال اگر علیحدگی تک نوبت پہنچ جائے تو علیحدگی خوش اسلوبی سے انجام دو ۔ دیا ہوا مال واپس نہ لو۔ اگلی آات میں محرمات کا تذکرہ ہے۔ سوتیلی ماں کے علاوہ باقی محرمات کا بیان بھی آرہا ہے۔
Top