Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَرِثُوا : کہ وارث بن جاؤ النِّسَآءَ : عورتیں كَرْهًا : زبردستی وَلَا : اور نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : انہیں روکے رکھو لِتَذْهَبُوْا : کہ لے لو بِبَعْضِ : کچھ مَآ : جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : ان کو دیا ہو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّاْتِيْنَ : مرتکب ہوں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی مُّبَيِّنَةٍ : کھلی ہوئی وَعَاشِرُوْھُنَّ : اور ان سے گزران کرو بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِنْ : پھر اگر كَرِھْتُمُوْھُنَّ : وہ ناپسند ہوں فَعَسٰٓى : تو ممکن ہے اَنْ تَكْرَهُوْا : کہ تم کو ناپسند ہو شَيْئًا : ایک چیز وَّيَجْعَلَ : اور رکھے اللّٰهُ : اللہ فِيْهِ : اس میں خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت
اے ایمان والو ! تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم وارث بن جائو عورتوں کے زبردستی اور نہ روکو ان کو تاکہ تم بعض وہ چیزیں لے جائو جو تم نے ان کو دی ہیں سوائے اس کے کہ وہ بےحیائی کی کھلی بات کریں اور ان عورتوں سے میل جو رکھو دستور کے مطابق پس اگر تم ان کو ناسند کرو اور شاید کہ سم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت سی بہتری بنادے
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں مردوں اور عورتوں کی اخلاقی بےحیائی کا ذکر تھا ، اور اس کی سزا کا تعین بھی تھا پھر درمیان میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کا وقت تواب اور رحیم کا تذکرہ فرمایا۔ توبہ کی شرائط کا بیان آیا ، نیز یہ بھی کہ توبہ کی قبولیت کا وقت نزع کی حالت شروع ہونے سے پہلے پہلے ہے۔ جب دوسرے جہان کی چیزیں نظر آنے لگیں۔ انسان قریب المرگ ہوجائے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں ، اسی طرح جو لوگ کفر کی حالت پر ہی مرجائیں ان کی توبہ بھی قبول نہیں۔ البتہ ان حالات سے پہلے پہلے جو شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کہا تھا کہ اے پروردگار ! میں انسانوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا ، جب تک ان کے جسموں میں جان باقی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا جب تک میرے بندے مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔ میں ان کو معاف کرتا رہوں گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو بندے کے لیے آخری وقت تک ذریعہ نجات بنادیا ہے۔ اب اگلی آیات میں پھر عورتوں کے مسائل آرہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جو بدسلوکی اور ناانصافی ہوتی تھی ، اس کا دوبارہ تذکرہ آرہا ہے یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے وقت مروجہ رسم و رواج کی تردید فرمائی ہے اور صحیح راستے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے بعد نکاح کے ضمن میں ان عورتوں کا ذکر ہے جو محرمات نکاح میں شمار ہوتی ہیں اور جن کے ساتھ کسی شخص کا نکاح جائز نہیں ہوتا۔ شان نزول صحیح احادیث میں آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں فوت شدہ شخص کے پیچھے اگر اس کا سوتیلا بیٹا ہوتا تھا تو وہ اپنے باپ کی بیوہ یعنی سوتیلی ماں پر قبضہ کرلیتا تھا۔ بیوہ عورت کو بھی مرنے والے کا ترکہ سمجھ کر اس کے ساتھ وراثت جیسا سلوک ہی کیا جاتا تھا۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس زمانے میں وراثت کا کلی حقدار مرنے والے کا بڑا بیٹا یا بھائی یا بھتیجا وغیرہ ہوتے تھے۔ چھوٹے بچوں اور عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ چونکہ بیوہ کو بھی وراثت ہی کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ لہٰذا مرنے والے کا وارث یا تو اس عورت سے خود نکاح کرلیتا تھا یا مہر اور مال وغیرہ حاصل کرکے اس کا نکاح کسی دوسری جگہ کردیتا تھا۔ اور اس کی بدترین صورت یہ تھی کہ اگر وارث مرنے والے کا دوسری بیوی سے سوتیلا بیٹا ہے تو وہ خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا تھا۔ ایسی عورتوں کے ساتھ ایک اور بدترین سلوک یہ کیا جاتا تھا کہ بعض اوقات اگر بوجوہ وارث اس عورت کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے دوسری جگہ نکاح کرنا ے کی اجازت بھی نہیں دیا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر عورت نے دوسرا نکاح کرلیا تو وہ اپنے ساتھ اپنا مال بھی لے جائے گی اور مرنے والے کا وارث اس عورت کے علاوہ اس کے مال سے بھی محروم ہوجائے گا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا حضور ! میرا خاوند مرچکا ہے اور دوسری بیوی سے اس کا جو بیٹا ہے اسنے مجھے گھر میں ڈال رکھا ہے نہ وہ مجھ سے اچھا سلوک کرتا ہے اور نہ مجھے آزاد کرتا ہے کہ دوسری جگہ نکاح کرلوں۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں نبی (علیہ السلام) نے فرمایا تم گھر میں بیٹھو اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں یقینا کوئی حکم نازل فرمائیں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیات اسی ضمن میں نازل ہوئیں۔ عورت بطورمال وراثت ارشاد خداوندی ہییایھا الذین امنوا اے ایمان والو۔ لایحل لکم ان ترثوا النساء کرھاً تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن بیھٹو ، جس بےچاری کا خاوند فوت ہوگیا ہے تم اس کو بھی مال وراثت کا حصہ سمجھ کر اس پر قبضہ کرلو۔ اور ان سے من مانا سلوک کرو۔ یہ بھی فرمایا ولا تعضلوھن اور نہ روک رکھو ان عورتوں کو لتذھبوا ببعض ما اتیتموھنمحض اس لیے کہ تم نے انہیں جو چیزیں بطور مال یا عطیہ دی تھیں ان میں سے کچھ چیزیں واپس لے سکو۔ فرمایا یہ بھی تمہارے لیے روا نہیں۔ کہ محض اس وجہ سے انہیں دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہ دو کہ ان کے ساتھ ان کا مال بھی جائے گا۔ فرمایا یہ بیوہ عورتوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ ایسا مت کرو۔ بے حیائی کی صورت میں ہاں ان کو روک رکھنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہیالا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ کہ وہ کسی صریح بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔ اس کے متعلق گزشتہ دروس میں ذکر آچکا ہے کہ اگر کوئی عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے گھر میں تازیست قید کردو۔ یہ ابتدائی حکم تھا ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے سو کوڑوں اور رجم کی سزائیں نافذ کرکے قید وبند والا حکم منسوخ فرمادیا ، تو فرمایا ایسی صورت تم عورتوں کو روک سکتے ہو ، وگرنہ عدت کے بعد عورت آزاد ہے وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ سورة بقرہ میں بھی یہ احکام گزر چکے ہیں کہ ایسی عورتیں اپنے متعلق بہتر رائے قائم کرنے کی مجاز ہیں۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ غرضیکہ فرمایا بیوہ عورتوں پر کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں ایسی عورتوں سے گلوخلاصی کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے خلع کا موقع پیدا کردو۔ اگر کوئی عورت بےحیائی کا ارتکاب کرتی ہے۔ تو ایک نیک اور متدین آدمی کے لیے اس سے نباہ مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں عورت کو خلع کے ذریعہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ خلع کے لیے تم ان کو ادا کرو وہ مہر ومال یا اس سے زیادہ کا مطالبہ بھی کرسکتے ہو کیونکہ قصور عورت کا ہے۔ البتہ یاد رکھو ! وعاشروھن بالمعروفان عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق گزران کرو۔ ان سے بہتر طریقہ پر میل جول رکھو۔ کسی قسم کی زیادتی نہ کرو۔ ان کے حقوق ان کو اد کرو۔ ان کی کسی بھی صورت میں حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔ پسند اور ناپسند فرمایا فن کرھتموھن اگر تم ان عورتوں کو ناپسند کرتے ہو فعسی ان تکرھواشیاً پس ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیرا اور اللہ تعالیٰ اس (ناپسندیدہ چیز) میں بہت سی بہتری رکھ دے۔ ظاہر ہے کہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی عورت میں کوئی خامی ہے جس کی وجہ سے تم اسے ناپسند کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ اس میں بعض خوبیاں بھی ہوں۔ اگر عورت شکل و صورت کے لحاظ سے اچھی نہیں ہے تو ہوسکتا ہے اس کا اخلاق بہت اچھا ہو یا وہ ہنر مند اور سلیقہ شعار ہو۔ بعض اوقات عورتیں خود تو بظاہر کسی خوبی کی مالک نہیں ہوتیں مگر ان سے پیدا ہونے والی اولاد اعلیٰ اقدار کی حامل ہوتی ہے جو مرد کے لیے بیش قیمت سرمایہ بن جاتی ہے۔ بعض عورتیں صابر وشاکر اور دین دار ہوتی ہیں اور بعض خوبصورت مگر جھگڑالو قسم کی ہوتی ہیں اس لیے فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں کوئی فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کرو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اللہ نے اسی میں تمہارے لیے خیر کثیر کا پہلو رکھا ہو ایک شاعرنے خوب کہا ہے ؎ نعم الا لہ علی العباد کثیرۃ واجلھن نجابۃ الاولاد اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں اس کے بندوں پر ہیں مگر اس کے لیے سب سے اعلیٰ نعمت یہ ہے کہ اسے اچھی اولاد میسر آجائے۔ بدشکل عورت سے خوبصورت اولاد کا پیدا ہوجانا بعیدازقیاس نہیں۔ اَن پڑھ اور بےسلیقہ عورت سے سلیقہ شعار اور ہنرمند اولاد بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ عورت میں اگر کوئی خامی ہے تو اس میں کوئی دوسری خوبی بھی موجود ہوگی۔ لہٰذا پسند اور ناپسند کا فیصلہ اس کے تمام قبائح اور محاسن کو سامنے رکھ کر کرو۔ عورت کی تبدیلی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کے متعلق یہ بھی فرمایا وان اردتم استبدال زوج مکان زوج اگر تم ایک عورت کی جگہ پر دوسری عورت تبدیل کرنا چاہتے ہو۔ یعنی تمہاراپہلی بیوی کے ساتھ بطریق احسن نباہ نہیں ہوسکتا۔ اور تم اسے ڈھیر مال بطور مہر یا عطیہ ادا کرچکے ہو۔ یعنی مہر کی رقم ہی بہت زیادہ تھی یا اس کے علاوہ کوئی عطیہ دے چکے ہو اور اس کے بعد علیحدگی کی صورت پیدا ہوگئی ہے تو فرمایا فلاتاخذوامنہ شیاً اس ادا شدہ مال میں سے کچھ بھی واپس نہ لو خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو قنطار بہت سے مال کو کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں دس ہزار درہم یا دینار کو ڈھیر مال تصور کیا جاتا تھا۔ قنطار کا لفظ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ہے انسان کی مرغوب چیزوں کی فہرست میں القناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی سونے چاندی پر مشتمل ڈھیروں مال انسان کی مرغوب ومقصود اشاء میں سے ہے۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ اگر تم اپنی عورتوں کو بہت زیادہ مال بھی دے چکے ہو تو بوقت طلاق ان سے کوئی چیز واپس نہ لو۔ یہ اخلاقی لحاظ سے نہایت بری بات ہے۔ طلاق کے مسائل سورة بقرہ میں بیان ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مسائل سورة احزاب اور سورة طلاق میں بھی آئیں گے۔ حضور ﷺ نے 1 ؎ جامع صغیر ص 241 ، ج 2 ومستدرک ص 691 ج 2 (فیاض) طلاق کو ابغض المباحات الی اللہ فرمایا ہے یعنی جائز چیزوں میں اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔ لہٰذا اس سے حتی الامکان بچنا چاہیے اور نباہ کی کوشش کرنا چاہیے۔ اور اگر ایسی کوئی صورت باقی نہ رہے تو پھر علیحدگی کی بھی اجازت ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت میں ایسی کوئی گنجائش نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے لیے یہ صورت بھی پیدا فرمادی۔ کہ ساری عمر گھٹن کی زندگی بسر کرنے کی بجائے میاں بیوی میں علیحدگی کی ضرورت ہو تو اس کے لیے طلاق کی گنجائش بھی ہے جس کے اپنے احکام اور شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ الغرض ! فرمایا کہ طلاق دینے کی صورت میں عورتوں کو ادا کردہ مال واپس مت لو۔ آگے تاکیداً فرمایا اتاخذونہ بھتانا واثمامبینا کیا تم یہ مال ان پر بہتان لگاکر اور صریح گناہ کی شکل میں لینا چاہتے ہو۔ فرمایا محض حیلے بہانے سے ان کو ادا کردو مال واپس لینے کی اجازت نہیں ہے یہ سخت گناہ کی بات ہے۔ مال کی واپسی کی ایک ہی جائز صورت خلع ہے اگر میاں بیوی میں نباہ نہیں ہوسکتا اور خاوند طلاق بھی نہیں دینا چاہتا تو ایسی صورت میں عورت خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کے لیے وہ خاوند کے مطالبہ پر مہر یا دیگر مال واپس کرسکتی ہے جو دونوں کے درمیان طے پاجائے اس کے علاوہ عورت پر جھوٹا الزام لگا کر اس سے مال کا مطالبہ کرنا بہت بری بات ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مہر اور خلوت صحیحہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مہر کی ادائیگی سے متعلق ایک ضروری قانون بتایا ہے اور وہ یہ کہ زوجین کی خلوص صحیحہ کے بعد پورے کا پورا مہر ادا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ فرمایا وکیف تاخذونہ اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو وقد افضی بعضکم الی بعض جب تم میں سے بعض کے ساتھ مل چکے ہیں۔ یعنی میاں بیوی مباثرت کرچکے ہیں۔ واخذن متکم میثاقاً غلیظا اور عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ مقصد یہ کہ جب ایجاب و قبول کے ذریعے تمہارا نکاح ہوچکا ہے ، مہر مقرر ہوا ہے تم نے ایک دوسرے سے فائدہ بھی اٹھالیا ہے یعنی ہم بستری کرلی ہے تو اب مہر کو روکنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ یہ تمہیں پورے کا پورا ادا کرنا ہوگا اب اگر تم بیوی کو طلاق دینا چاہو تو پورا مہر ادا کرو۔ کسی حیلے بہانے سے اسے مکمل طور پر روکنے یا اس میں کمی کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اکثر آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ مہر کی مکمل ادائیگی کے لیے میاں بیوی کے درمیان ہم بستری ضروری ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہم بستری ہوجاتی ہے۔ اگر زوجین کو خلوت صحیحہ حاصل ہوگئی ہے تو مہر کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے۔ اور خلوص صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی کسی ایسی جگہ اکٹھے ہوجائیں کہ ان کے درمیان کوئی چیز ہم بستری میں مانع نہ رہے ، اگرچہ فی الحقیقت ہم بستری واقع نہ ہوئی ہو۔ میثاق غلیظ کے متعلق حضور ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا واوستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ یعنی اللہ کے حکم اور قانون سے عورتیں تم پر حلال ہوئی ہیں۔ تمہارے ساتھ ان کا عقد نکاح ہوا ہے لہٰذا تم عورتوں کے حقوق سے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو اور ان کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ ان پر بہتان لگاکر ان کی حق تلفی نہ کرو جب وہ تمہارے عقد میں آچکیں اور تم نے ان سے پورا فائدہ ٹھالیا تو اب ان کے مہر ان کو لوٹادو۔ اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرو کسی شاعر نے بھی اسے یوں بیان کیا ہے۔ بتنا وما بینی وبینک ثالث کزوج حمام اوکغضین ھذا (ہم آپس میں اکٹھے رہ چکے ہیں۔ جب کہ درمیان میں کوئی چیز باعث رکاوٹ نہ تھی۔ ہمارے درمیان ایسی محبت تھی جیسے کبوتر اور کبوتری کے درمیان ہوتی ہے) عرب شعراء کے نزدیک کبوتر کے جوڑے کی محبت ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے جس کا ذکر ان کے اشعار میں اکثر ملتا ہے۔ متنبی نے اس محبت کو درخت کی دوٹہنیوں سے بھی تشبہیہ دی ہے جو اپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں وہ کہتا ہے ؎ یحید الحمام ولو وجید شجر الاراک مع الحمام تنوح (میرا غم اتنا بڑھا ہوا ہے کہ اگر کبوتر بھی میرے جتنا غم کرنے لگے جس درخت پر وہ بیٹھا ہے کبوتر کے ساتھ وہ درخت بھی رونے لگے) پھر کہتا ہے ؎ فمن بعد ھذا الوصل والود کلہ اکان جمیلا منک تحجر ھکذا (اس محبت اور میل ملاقات کے بعد تمہارے لیے یہ کس طرح روا ہوگا کہ تم اس طریقے سے قطع تعلقی کرلو ، جس میں ظلم اور زیادتی ہو اور دیا ہوا مال چھین لو) یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بات فرمائی ہے کہ کیف تاخذونہ تم اسے کیسے واپس لوگے جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ خلوت صحیحہ میں مل چکے ہو۔ ایک دوسرے سے واقف ہوچکے ہو اور پختہ عہد یعنی ایجاب و قبول بھی ہوچکا ہے تم ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرچکے ہو ، اب کسی قسم کی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ مقدار مہر مہر کا مسئلہ اس سورة کی ابتدا میں بھی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اس آیت میں آمدہ لفظ قنطاراً سے مفسرین نے یہ بات اخذ کی ہے کہ عورت کے مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ مہر کی کم ازکم مقدار میں ائمہ کرام کا اختلاف رائے ہے امام شافعی (رح) لوہے کی ایک انگوٹھی یا مٹھی بھر کھجوروں کو بھی مہر تسلیم کرتے ہیں جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دس درہم سے کم مہر نہیں ہوتا۔ امام صاحب کا استدلال ضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی روایت سے ہے لامھراقل من عشر دراھم دس درہم اڑھائی تولہ یا کچھ زیادہ چاندی کے برابر ہوتے ہیں اور موجودہ زمانے میں اتنی چاندی کی قیمت ڈیڑھ پونے دو سو روپے بنتی ہے۔ لہٰذا اس رقم سے کم مہر نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ پرانے اور سستے زمانے کی چاندی کے حساب سے 32 روپے مہر مقرر کرتے ہیں جو درست نہیں۔ البتہ زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں ہزارروں اور لاکھوں روپے نقد یا جائیداد کی صورت میں مہر مقرر ہوسکتا ہے۔ البتہ مہر میں مبالغہ کرنا ناپسندیدہ نہیں۔ یعنی بہت زیادہ مہر لکھ کر پھرا دا نہ کرنا۔ یہ درست نہیں ۔ مہر ہمیشہ حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ کی اکثر نبات اور ازواج کا مہر پانچ سو درہم سے زیادہ نہیں تھا۔ البتہ ام حبیبہ ؓ کا مہرچار ہزار درہم تھا جو نجاشی بادشاہ حبشہ نے ادا کیا تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ کا مہر بھی اسی مقدار کا تھا ، باقی سب بیویوں اور بیٹیوں کے مہر پانچ سو درہم تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ لوگو ! مہر میں مبالغہ نہ کیا کرو ، اگر یہ پسندیدہ فعل ہوتا تو اللہ کا نبی ایسا کرتا مگر آپ نے نہیں کیا مہر جتنا کم رکھوگے ادائیگی میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔ بہرحال اگر علیحدگی تک نوبت پہنچ جائے تو علیحدگی خوش اسلوبی سے انجام دو ۔ دیا ہوا مال واپس نہ لو۔ اگلی آات میں محرمات کا تذکرہ ہے۔ سوتیلی ماں کے علاوہ باقی محرمات کا بیان بھی آرہا ہے۔
Top