Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب وَقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا (باندھنا) عَلٰيُ : پر مَرْيَمَ : مریم بُهْتَانًا : بہتان عَظِيْمًا : بڑا
اور بوجہ ان (یہودیوں) کے کفر کرنے اور بوجہ ان کے کہنے کے حضرت مریم ؓ پر بہتان عظیم
گزشتہ آیات میں اہل کتاب کے عناد کا ذکر تھا ، اللہ نے ان کے اعتراض کو بیان فرمایا ، خصوصا یہودی کہتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور قرآن پاک اللہ کی کتاب ہے تو پھر یہ بیک وقت لکھی لکھائی آسمان سے کیوں نازل نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر تختیوں کی صورت میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ان کی بعض قباحتوں کا تذکرہ فرمایا تھا اور حضور ﷺ کو بایں الفاظ تسلی دی تھی کہ یہ عنادی لوگ ہیں ، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کئے ، لہذا آپ دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ صبر کریں۔ آج کے درس کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی دیگر خرابیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ ان کی انہی خرابیوں کی وجہ سے یہ لوگ مستحق لعنت ٹھہرے ہیں۔ ان قباحتوں کے تذکرے کے بعد پھر آگے ان کے اصل سوال کا جواب آئے گا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک یکبارگی کیوں نہیں نازل فرمایا۔ حضرت مریم ؓ پر بہتان آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی یہ قباحت بیان فرمائی ہے۔ وبکفرھم اور ان کے کفر کی وجہ سے۔ اس کفر کا تذکرہ گزشتہ آیات میں ہوچکا ہے کہ یہودیوں نے بچھڑے کی پوجا کی ، نزول کتاب کا مطالبہ کیا ، رویت الٰہی کی خواہش ظاہر کی ، سجدے کا حکم ہوا تو اکڑ گئے ، ہفتے کے دن تعدی کی اور انبیاء کو ناحق قتل کیا یہ سب کفر کی باتیں تھیں تو فرمایا ان کے کفر کی وجہ سے وقولھم علی مریم بھتانا عظیما اور ان کے اس قول کی وجہ سے جس کے ذریعے انہوں نے حضرت مریم پر عظیم افترا باندھا ، حضرت مریم تو اللہ کی مقبول بندی اور صدیقہ تھیں جب وہ بچہ گود میں لئے آئیں تو کہنے لگے یمریم لقد جنت شیئا فریا تو یہ بری چیز کہاں سے لے آئی ہے انہوں نے حضرت مریم پر زنا کا الزام لگاتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولدالزنا قرار دیا۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے اپنے بندے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا اور نبوت کا تاج ان کے سر پر رکھا۔ فرمایا ان سب خباثتوں کی وجہ سے ہم نے اہل کتاب کو لعنت کا مستحق ٹھہرایا۔ قتل انبیاء فرمایا وقولھم ان کی اس بات کی وجہ سے کہ انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا یا رسول اللہ جو اللہ کا رسول کہلاتا تھا۔ یہودی حضرت مسیح کو خود تو اللہ کا رسول نہیں مانتے تھے۔ اس لئے وہ کہتے تھے کہ ہم نے اس مسیح کو قتل کردیا ہے جو اللہ کا رسول کہلاتا ہے۔ ان بدبختوں کا حال تو یہ ہے کہ جن کو اللہ کا رسول مانتے تھے ان کو بھی قتل کیا ، جیسے پہلے گزرچکا وقتلھم الانبیاء بغیر حق انہوں نے اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کیا۔ قتل انبیا تو بہت ہی بری خصلت ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مغضوب ترین شخص وہ ہے جس کو اللہ کا نبی قتل کرتا ہے یا جو اللہ کے نبی کو قتل کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا نبی اسی بدبخت کو قتل کرتا ہے جو نہایت ہی سرکش ہو اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے نبی کو قتل کرتا ہے۔ اسی لئے انبیاء کے ناحق قتل کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا۔ قتل مسیح بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے لغوعقیدہ قتل مسیح کا رد کرتے ہوئے رفمایا وما قتلوہ وما صلبوہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے نہ تو مسیح (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی دی ولکن شبہ لھم بلکہ ان کے لئے بات مشتبہ کردی گئی۔ انہوں نے اشتباہ میں پڑ کر غلط عقیدہ قائم کرلیا و ان الذین اختلفوا فیہ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا لفی شک منہ وہ شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر حقیقت حال واضح نہیں ہوسکی مالھم بہ من علمٍ انہیں اس کے متعلق کچھ علم نہیں الا اتباع الظن سوائے گمان کی پیروی کرنے کے۔ یعنی وہ تو محض اپنے گمان سے اٹکل پچو باتوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، اصل حقیقت سے ہرگز واقف نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاکیزہ بندے کو ان کے گندے ہاتھوں سے کیسے محفوظ کھا۔ اس کا ذکر سورة آل عمران میں بھی آ چکا ہے ” اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافع الی ومطہرک من الذین کفروا یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اس دنیا کی مدت پوری کرنے کے بعد تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا اور کفار کی صحبت سے پاک کر دوں گا۔ ان کے ناپاک ہاتھ تم تک نہیں پہنچیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا ” ومکروا و مکر اللہ “ یہودیوں نے آپ کو قتل کرنے کی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھنے کا منصوبہ بنایا اور پھر ” واللہ خیر الماکرین “ کے مصداق اللہ کی تدبیر ہی کامیاب ہوئی۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ قتل کرسکے اور نہ سولی پر چڑھا سکے اور ان کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ فرمایا اب یہ اپنے گمان کی پیروی میں لایعنی باتیں کرتے ہیں۔ وما قتلوہ یقینا یہ یقینی بات ہے کہ یہودی مسیح (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکے۔ وما قتلوہ یقینا یہ یقینی بات ہے کہ یہودی مسیح (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکے۔ بل رفعہ اللہ الیہ برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ وکان اللہ عزیزاً حکیماً اور اللہ تعالیٰ عزیز ہے۔ وہ کمال قدرت کا مالک ہے اور حکیم ہے کہ کمال حکمت کا مالک بھی وہی ہے۔ رفع مسیح پہلی روایت ہمارے مفسرین میں سے عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد امام ضحاک (رح) کا بیان تفسیروں میں موجود ہے جسے آپ حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن تھے ، کیونکہ وہ ان کے تعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی کا رد کرتے تھے۔ ان کے علما نے شریعت کو بگاڑ دیا تھا اور اخلاقی لحاظ سے نہایت پست ہوچکے تھے۔ جوں جوں مسیح (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے صحیح دین کی تبلیغ کرتے توں توں یہودی آپ کے جانی دشمن بنتے چلے گئے۔ انجیل میں موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) یہودیوں کی غلط باتیں دیکھ کر برداشت نہ کرتے اور سخت الفاظ میں ان کی تردید کرتے۔ یہودیوں کے علما اور پیر غلط ملط تاویلوں کے ذریعے اپنے غلط عقائد کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے مگر اللہ کا نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی تمام کرتوتوں کو ظاہر کردیتا چناچہ یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور اس کام کے لیے حکومت کی امداد حاصل کریں گے۔ اس زمانے میں شام و فلسطین رومیوں کے زیرنگیں تھے اور رومیوں کا گورنر اس علاقے میں تعینات تھا ، جو وہاں کے معاملات نمٹاتا تھا۔ یہ بالکل اسی طرح کا انتظام تھا جس طرح انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں ہندوستان میں انگریزوں کا وائسرائے یا نائب رہتا تھا۔ تو یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو حکومت وقت کی معرفت قتل کروانا چاہتے تھے اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے یہ لوگ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بھی قتل کرچکے تھے۔ اور اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے پڑے ہوئے تھے چناچہ منصوبہ کے تحت چار ہزاریہودیوں نے اس مکان کا محاصرہ کرلیا جس میں مسیح (علیہ السلام) اپنے حواریوں سمیت مقیم تھے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس محاصرہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ یہ لوگ میری جان کے درپے ہیں ، تم میں سے کون آدمی ہے جو میری جگہ باہر نکل کر قتل ہوجائے ، ایسا شخص جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ اس پر ایک حواری نے لبیک کہا۔ مسیح (علیہ السلام) نے اپنی پگڑی اور کرتہ اسے پہنایا ، اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر مسیح (علیہ السلام) کی شبیہ بھی ڈال دی ، وہ شخص باہر نکلا تو یہودیوں نے اسے مسیح سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اس مکان کے روزن سے فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا۔ دوسری روایت دوسری روایت یہ ہے کہ محاصرین نے اپنے میں سے ایک آدمی کو اس مکان کے اندر بھیجا جس میں مسیح (علیہ السلام) مقیم تھے تاکہ آپ کو گرفتار کیا جاسکے۔ جب یہ شخص مکان میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر مسیح (علیہ السلام) کی شبیہ ڈال دی اور اس کی شکل و صورت بالکل عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہوگئی۔ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو تو آسمان کی طرف اٹھا لیا ، مگر جب وہ جاسوس باہر نکلا تو محاصرین نے اسے مسیح سمجھ کر پکڑ لیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اس کے باوجود ان لوگوں کو تسلی نہ ہوئی۔ اور ولکن شبد لہم کے مطابق وہ اس شبہ میں مبتلا ہوگئے کہ مسیح (علیہ السلام) کو تو ہم نے قتل کردیا ، مگر ہمارا وہ آدمی کہاں گیا جسے پتہ کرنے کے لیے ہم نے مکان کے اندر بھیجا تھا۔ اور اگر ہم نے اپنے ہی آدمی کو مسیح کے شبہ میں قتل کردیا تو پھر مسیح (علیہ السلام) کہاں گئے۔ بہرحال وہ تردد میں پڑگئے اور آج تک پڑے ہوئے ہیں۔ بعض کو اس قدر شبہ ہوگیا کہ وہ کہتے کہ جس شخص کو ہم نے سولی پر چڑھایا ہے ، اس کی شکل و صورت تو مسیح جیسی تھی اور باقی جسم ان کے مشابہ نہیں تھا۔ تیسری روایت تیسری روایت اناجیل کے بیان پر مشتمل ہے۔ مؤرخین نے انسائیکلو پیڈیا آف رلیجنز (Encyclopaedia of Religions) میں لکھا ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کے خلاف شورو غوغا بہت بڑھ گیا تو رومی وائسرائے نے اپنے مرکز کو لکھا کہ یہاں کے لوگ ایک بےگناہ کے سخت خلاف ہوگئے ہیں ، مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ وہاں سے حکم آیا کہ ایسے شخص کو کچھ نہ کہا جائے۔ وائسرائے نے دوبارہ مرکز سے رابطہ قائم کی ، تو پھر وہی جواب آیا۔ اس اثنا میں مخالفت حد سے بڑھ گئی اور بغاوت کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ تو مقامی حاکم نے تیسری دفعہ اپنی حکومت کو لکھا کہ اب تو حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس پر ہیڈ کو ارٹر سے یہ حکم آیا کہ شورش کو ختم کرو۔ خواہ اس شخص کو قتل کرنا پڑے۔ چناچہ مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور پھر ان کے لیے سزائے موت کا حکم ہوا۔ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سولی پانے والے شخص کو سولی کا شہتیر خود اٹھا کر سولی کے مقام تک پہنچانا ہوتا تھا چناچہ یہ وزنی شہتیر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اٹھوایا گیا۔ ان کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا اور (العیاذ باللہ) آپ کے منہ پر تھوکا گیا۔ لوگوں کا جم غفیر اور رومی پولیس آپ کے ہمراہ چل رہی تھی۔ بھاری شہتیر کا اٹھانا مسیح (علیہ السلام) کی طاقت سے باہر ہو رہا تھا چناچہ یہ شہتیر ایک شخص شمعون قرینی کے کندھے پر رکھ دیا گیا تاکہ سولی کے مقام تک پہنچایا جاسکے۔ اس دوران میں رومی پولیس کے آدمیوں کی ڈیوٹی بدل گئی اور نئی نفری آگئی۔ نئی پولیس نے رواج کے مطابق سولی اٹھانے والے شخص کو ہی مجرم سمجھا اور اسے سولی پر لٹکادیا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچانا تھا ، وہ ہجوم میں ادھر ادھر ہوگئے۔ روایت ہے کہ اس دوران شمعون کی شکل و صورت بھی حضرت مسیح جیسی اللہ نے بنا دی ، جس کی وجہ سے شمعون کو سزائے موت دے دی گئی۔ اور مسیح (علیہ السلام) کو اللہ نے بچا لیا۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اس دن جمعہ کا دن تھا۔ آگے ہفتہ یہودیوں کی تعطیل کا دن آ رہا تھا ، جس دن انہیں کوئی کام نہ کرنے کا حکم تھا۔ لہٰذا انہوں نے کوشش کی کہ مسیح (علیہ السلام) کام آج ہی تمام کردیا جائے تاکہ پھر اتوار تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ یہ افراتفری بھی مسیح (علیہ السلام) کو بچانے اور شمعون قرینی کو سولی پر لٹکانے کا باعث بنی۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ یہودی نہ تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قتل کرسکے اور نہ انہیں سولی پر لٹکا سکے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ دیگر نظریات اس ضمن میں قادیانیوں نے ایک نیا نظریہ قائم کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کے بیان کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ سولی پر لٹکایا گیا ، بلکہ آپ طبعی موت مرے اور آپ کی روح کو اوپر اٹھا لیا گیا۔ اس طرح اس گروہ نے قرب قیامت میں نزول مسیح کا بھی انکار کردیا ہے۔ مولانا مودودی نے مسیح (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کو مشتبہات میں شمار کیا ہے۔ حالانکہ یہی آیت اس مسئلہ میں صریح نص ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کی زندگی اور دوبارہ نزول کا ذکر قرآن پاک میں اجمالاً موجود ہے اور احادیثِ نبوی اس کی مکمل تصریح کرتی ہے۔ اس آیت کے الفاظ انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ واضح کرتے ہیں کہ جس ہستی کو قتل کرنے کے یہودی دعویدار تھے ، وہ مسیح ، عیسیٰ ابن مریم ، اللہ کے رسول ہیں۔ ظاہر ہے کہ قتل کا دعویٰ محض روح کے لیے نہیں بلکہ جسم و روح دونوں کے لیے تھا۔ اور انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نہ تو انہیں قتل کیا گیا اور نہ سولی دیا گیا بلکہ ان (یہودیوں) پر شبہ ڈال دیا گیا۔ پھر اسی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا۔ تو جب قتل کا تعلق جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ اسی عمل کی تردید فرما رہے ہیں تو پھر رفع الی السماء کا تعلق بھی جسم و روح دونوں کے ساتھ ہے۔ نہ کہ صرف روح کے ساتھ۔ لہٰذایہ آیت مسیح (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کی صریح نص ہے۔ حضرت مولانا انور صاحب کشمیری (رح) نے ” التصریح بما تواتر بہ نزول المسیح “ عربی اور اردو میں کتاب لکھی ہے جو دمشق سے بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس میں آپ نے ڈیڑھ سو کے قریب احادیث نقل کی ہیں جن میں مسیح (علیہ السلام) کی زندگی اور دوبارہ نزول کا ذکر ہے۔ صحیحین کی روایت میں یہ بھی موجود ہے لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً یعنی وہ وقت بھی آئیگا جب مسیح (علیہ السلام) تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر اتریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ آپ کے دور میں ملت اسلامیہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہیگا۔ قرآن پاک کی آیت ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مسیح (علیہ السلام) کا تذکرہ آپ کو قیامت کی نشانیوں میں سے ظاہر کرتا ہے جس سے ان کا قرب قیامت میں ظہور ثابت ہوتا ہے۔ اہل کتاب کا ایمان لانا فرمایا : وان من اہل الکتب اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے۔ الا لیومننن بہ قبل موتہ مگر یہ کہ ایمان لائیگا حضرت مسیح پر آپ کی موت سے قبل۔ موتہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھی راجع ہوتی ہے اور ہر ہر فرد اہل کتاب کی طرف بھی۔ اور اگر اس سے کتابی مراد ہے یعنی ہر یہودی اور نصرانی مرنے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا تو اس وقت کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیگا۔ موت سے پہلے جب فرشتے نظر آنے لگتے ہیں اور پردہ غیب اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اگر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ولدالزنا اور دجال تک کے لقب دیے تھے ، تو اس وقت ان کا ایمان کچھ مفید نہ ہوگا۔ عیسائیوں نے بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور تین خداؤں میں تیسرا کہا تھا حالانکہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ اگر مرتے وقت ان پر بھی حقیقت آشکارا ہوجائے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے تو اس وقت کی توبہ تو قبول ہی نہیں ہوگی لہٰذا ان کی موت بھی کفر پر ہی آئے گی۔ مسلم شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل موتہ سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی موت سے قبل ہر کتابی آپ پر ایمان لائے گا۔ تو حقیقی موت تو اس وقت آئے گی جب آپ دوبارہ نازل ہو کر زندگی کے چالیس یا ساٹھ سال گزار چکیں گے۔ اس وقت سے پہلے پہلے جو کتابی ایمان نہیں لائے گا ، وہ موت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا ، نہ کوئی یہودی باقی رہے گا اور نہ نصرانی۔ اس بارے میں سو سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) دوبارہ نازل ہوں گے۔ مسلم شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ وہ وقت بھی آئے گا جب عیسیٰ (علیہ السلام) فج روحاء کے مقام سے حج یا عمرہ کا احرام باندھیں گے۔ زمین پر حکومت کریں گے۔ انصاف قائم کریں گے اور پھر ان کے زندہ رکھنے کی خاص مصلحت دجال کا مقابلہ ہے اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے ، یاجوج ماجوج کا فتنہ برپا ہوگا ، اس کے لیے دعا کریں گے تو ہ فتنہ بھی ختم ہوجائے گا۔ آپ شادی بھی کریں گے ، زمین پر چالیس یا ساٹھ سال کا عرصہ گزار کر وفات پائیں گے اور پھر دفن ہوں گے۔ یہ سب باتیں نزول کے بعد وارد ہونے والی ہیں اور آپ کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کی طرف دلالت کرتی ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے۔ اہل حق میں سے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ متواتر اور صحیح احادیث اس کثرت سے ہیں کہ انکا انکار کفر ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ اس آیت میں یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے قبل آپ پر ایمان لے آئے گا۔ ویوم القیمۃ اور قیامت والے دن یکون علیہم شہیداً مسیح (علیہ السلام) اہل کتاب پر گواہ ہوں گے۔ آپ اللہ کے ہاں گواہی دیں گے کہ یہود و نصاریٰ نے دنیا میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ایک گروہ نے سرے سے تکذیب کردی آپ کے مخالف ہوگئے حتیٰ کہ سزائے موت دلوانے کی کوشش کی ، اور دوسرے گروہ نے انہیں خدا کا بیٹا بنا دیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ سب باتیں ہوں گی۔
Top