Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ
: ان کے کفر کے سبب
وَقَوْلِهِمْ
: اور ان کا کہنا (باندھنا)
عَلٰيُ
: پر
مَرْيَمَ
: مریم
بُهْتَانًا
: بہتان
عَظِيْمًا
: بڑا
اور بوجہ ان (یہودیوں) کے کفر کرنے اور بوجہ ان کے کہنے کے حضرت مریم ؓ پر بہتان عظیم
گزشتہ آیات میں اہل کتاب کے عناد کا ذکر تھا ، اللہ نے ان کے اعتراض کو بیان فرمایا ، خصوصا یہودی کہتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور قرآن پاک اللہ کی کتاب ہے تو پھر یہ بیک وقت لکھی لکھائی آسمان سے کیوں نازل نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر تختیوں کی صورت میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ان کی بعض قباحتوں کا تذکرہ فرمایا تھا اور حضور ﷺ کو بایں الفاظ تسلی دی تھی کہ یہ عنادی لوگ ہیں ، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کئے ، لہذا آپ دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ صبر کریں۔ آج کے درس کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی دیگر خرابیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ ان کی انہی خرابیوں کی وجہ سے یہ لوگ مستحق لعنت ٹھہرے ہیں۔ ان قباحتوں کے تذکرے کے بعد پھر آگے ان کے اصل سوال کا جواب آئے گا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک یکبارگی کیوں نہیں نازل فرمایا۔ حضرت مریم ؓ پر بہتان آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی یہ قباحت بیان فرمائی ہے۔ وبکفرھم اور ان کے کفر کی وجہ سے۔ اس کفر کا تذکرہ گزشتہ آیات میں ہوچکا ہے کہ یہودیوں نے بچھڑے کی پوجا کی ، نزول کتاب کا مطالبہ کیا ، رویت الٰہی کی خواہش ظاہر کی ، سجدے کا حکم ہوا تو اکڑ گئے ، ہفتے کے دن تعدی کی اور انبیاء کو ناحق قتل کیا یہ سب کفر کی باتیں تھیں تو فرمایا ان کے کفر کی وجہ سے وقولھم علی مریم بھتانا عظیما اور ان کے اس قول کی وجہ سے جس کے ذریعے انہوں نے حضرت مریم پر عظیم افترا باندھا ، حضرت مریم تو اللہ کی مقبول بندی اور صدیقہ تھیں جب وہ بچہ گود میں لئے آئیں تو کہنے لگے یمریم لقد جنت شیئا فریا تو یہ بری چیز کہاں سے لے آئی ہے انہوں نے حضرت مریم پر زنا کا الزام لگاتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولدالزنا قرار دیا۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے اپنے بندے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا اور نبوت کا تاج ان کے سر پر رکھا۔ فرمایا ان سب خباثتوں کی وجہ سے ہم نے اہل کتاب کو لعنت کا مستحق ٹھہرایا۔ قتل انبیاء فرمایا وقولھم ان کی اس بات کی وجہ سے کہ انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا یا رسول اللہ جو اللہ کا رسول کہلاتا تھا۔ یہودی حضرت مسیح کو خود تو اللہ کا رسول نہیں مانتے تھے۔ اس لئے وہ کہتے تھے کہ ہم نے اس مسیح کو قتل کردیا ہے جو اللہ کا رسول کہلاتا ہے۔ ان بدبختوں کا حال تو یہ ہے کہ جن کو اللہ کا رسول مانتے تھے ان کو بھی قتل کیا ، جیسے پہلے گزرچکا وقتلھم الانبیاء بغیر حق انہوں نے اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کیا۔ قتل انبیا تو بہت ہی بری خصلت ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مغضوب ترین شخص وہ ہے جس کو اللہ کا نبی قتل کرتا ہے یا جو اللہ کے نبی کو قتل کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا نبی اسی بدبخت کو قتل کرتا ہے جو نہایت ہی سرکش ہو اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے نبی کو قتل کرتا ہے۔ اسی لئے انبیاء کے ناحق قتل کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا۔ قتل مسیح بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے لغوعقیدہ قتل مسیح کا رد کرتے ہوئے رفمایا وما قتلوہ وما صلبوہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے نہ تو مسیح (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی دی ولکن شبہ لھم بلکہ ان کے لئے بات مشتبہ کردی گئی۔ انہوں نے اشتباہ میں پڑ کر غلط عقیدہ قائم کرلیا و ان الذین اختلفوا فیہ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا لفی شک منہ وہ شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر حقیقت حال واضح نہیں ہوسکی مالھم بہ من علمٍ انہیں اس کے متعلق کچھ علم نہیں الا اتباع الظن سوائے گمان کی پیروی کرنے کے۔ یعنی وہ تو محض اپنے گمان سے اٹکل پچو باتوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، اصل حقیقت سے ہرگز واقف نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاکیزہ بندے کو ان کے گندے ہاتھوں سے کیسے محفوظ کھا۔ اس کا ذکر سورة آل عمران میں بھی آ چکا ہے ” اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافع الی ومطہرک من الذین کفروا یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اس دنیا کی مدت پوری کرنے کے بعد تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا اور کفار کی صحبت سے پاک کر دوں گا۔ ان کے ناپاک ہاتھ تم تک نہیں پہنچیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا ” ومکروا و مکر اللہ “ یہودیوں نے آپ کو قتل کرنے کی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھنے کا منصوبہ بنایا اور پھر ” واللہ خیر الماکرین “ کے مصداق اللہ کی تدبیر ہی کامیاب ہوئی۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ قتل کرسکے اور نہ سولی پر چڑھا سکے اور ان کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ فرمایا اب یہ اپنے گمان کی پیروی میں لایعنی باتیں کرتے ہیں۔ وما قتلوہ یقینا یہ یقینی بات ہے کہ یہودی مسیح (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکے۔ وما قتلوہ یقینا یہ یقینی بات ہے کہ یہودی مسیح (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکے۔ بل رفعہ اللہ الیہ برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ وکان اللہ عزیزاً حکیماً اور اللہ تعالیٰ عزیز ہے۔ وہ کمال قدرت کا مالک ہے اور حکیم ہے کہ کمال حکمت کا مالک بھی وہی ہے۔ رفع مسیح پہلی روایت ہمارے مفسرین میں سے عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد امام ضحاک (رح) کا بیان تفسیروں میں موجود ہے جسے آپ حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن تھے ، کیونکہ وہ ان کے تعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی کا رد کرتے تھے۔ ان کے علما نے شریعت کو بگاڑ دیا تھا اور اخلاقی لحاظ سے نہایت پست ہوچکے تھے۔ جوں جوں مسیح (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے صحیح دین کی تبلیغ کرتے توں توں یہودی آپ کے جانی دشمن بنتے چلے گئے۔ انجیل میں موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) یہودیوں کی غلط باتیں دیکھ کر برداشت نہ کرتے اور سخت الفاظ میں ان کی تردید کرتے۔ یہودیوں کے علما اور پیر غلط ملط تاویلوں کے ذریعے اپنے غلط عقائد کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے مگر اللہ کا نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی تمام کرتوتوں کو ظاہر کردیتا چناچہ یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور اس کام کے لیے حکومت کی امداد حاصل کریں گے۔ اس زمانے میں شام و فلسطین رومیوں کے زیرنگیں تھے اور رومیوں کا گورنر اس علاقے میں تعینات تھا ، جو وہاں کے معاملات نمٹاتا تھا۔ یہ بالکل اسی طرح کا انتظام تھا جس طرح انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں ہندوستان میں انگریزوں کا وائسرائے یا نائب رہتا تھا۔ تو یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو حکومت وقت کی معرفت قتل کروانا چاہتے تھے اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے یہ لوگ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بھی قتل کرچکے تھے۔ اور اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے پڑے ہوئے تھے چناچہ منصوبہ کے تحت چار ہزاریہودیوں نے اس مکان کا محاصرہ کرلیا جس میں مسیح (علیہ السلام) اپنے حواریوں سمیت مقیم تھے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس محاصرہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ یہ لوگ میری جان کے درپے ہیں ، تم میں سے کون آدمی ہے جو میری جگہ باہر نکل کر قتل ہوجائے ، ایسا شخص جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ اس پر ایک حواری نے لبیک کہا۔ مسیح (علیہ السلام) نے اپنی پگڑی اور کرتہ اسے پہنایا ، اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر مسیح (علیہ السلام) کی شبیہ بھی ڈال دی ، وہ شخص باہر نکلا تو یہودیوں نے اسے مسیح سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اس مکان کے روزن سے فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا۔ دوسری روایت دوسری روایت یہ ہے کہ محاصرین نے اپنے میں سے ایک آدمی کو اس مکان کے اندر بھیجا جس میں مسیح (علیہ السلام) مقیم تھے تاکہ آپ کو گرفتار کیا جاسکے۔ جب یہ شخص مکان میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر مسیح (علیہ السلام) کی شبیہ ڈال دی اور اس کی شکل و صورت بالکل عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہوگئی۔ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو تو آسمان کی طرف اٹھا لیا ، مگر جب وہ جاسوس باہر نکلا تو محاصرین نے اسے مسیح سمجھ کر پکڑ لیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اس کے باوجود ان لوگوں کو تسلی نہ ہوئی۔ اور ولکن شبد لہم کے مطابق وہ اس شبہ میں مبتلا ہوگئے کہ مسیح (علیہ السلام) کو تو ہم نے قتل کردیا ، مگر ہمارا وہ آدمی کہاں گیا جسے پتہ کرنے کے لیے ہم نے مکان کے اندر بھیجا تھا۔ اور اگر ہم نے اپنے ہی آدمی کو مسیح کے شبہ میں قتل کردیا تو پھر مسیح (علیہ السلام) کہاں گئے۔ بہرحال وہ تردد میں پڑگئے اور آج تک پڑے ہوئے ہیں۔ بعض کو اس قدر شبہ ہوگیا کہ وہ کہتے کہ جس شخص کو ہم نے سولی پر چڑھایا ہے ، اس کی شکل و صورت تو مسیح جیسی تھی اور باقی جسم ان کے مشابہ نہیں تھا۔ تیسری روایت تیسری روایت اناجیل کے بیان پر مشتمل ہے۔ مؤرخین نے انسائیکلو پیڈیا آف رلیجنز (Encyclopaedia of Religions) میں لکھا ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) کے خلاف شورو غوغا بہت بڑھ گیا تو رومی وائسرائے نے اپنے مرکز کو لکھا کہ یہاں کے لوگ ایک بےگناہ کے سخت خلاف ہوگئے ہیں ، مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ وہاں سے حکم آیا کہ ایسے شخص کو کچھ نہ کہا جائے۔ وائسرائے نے دوبارہ مرکز سے رابطہ قائم کی ، تو پھر وہی جواب آیا۔ اس اثنا میں مخالفت حد سے بڑھ گئی اور بغاوت کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ تو مقامی حاکم نے تیسری دفعہ اپنی حکومت کو لکھا کہ اب تو حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس پر ہیڈ کو ارٹر سے یہ حکم آیا کہ شورش کو ختم کرو۔ خواہ اس شخص کو قتل کرنا پڑے۔ چناچہ مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور پھر ان کے لیے سزائے موت کا حکم ہوا۔ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سولی پانے والے شخص کو سولی کا شہتیر خود اٹھا کر سولی کے مقام تک پہنچانا ہوتا تھا چناچہ یہ وزنی شہتیر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اٹھوایا گیا۔ ان کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا اور (العیاذ باللہ) آپ کے منہ پر تھوکا گیا۔ لوگوں کا جم غفیر اور رومی پولیس آپ کے ہمراہ چل رہی تھی۔ بھاری شہتیر کا اٹھانا مسیح (علیہ السلام) کی طاقت سے باہر ہو رہا تھا چناچہ یہ شہتیر ایک شخص شمعون قرینی کے کندھے پر رکھ دیا گیا تاکہ سولی کے مقام تک پہنچایا جاسکے۔ اس دوران میں رومی پولیس کے آدمیوں کی ڈیوٹی بدل گئی اور نئی نفری آگئی۔ نئی پولیس نے رواج کے مطابق سولی اٹھانے والے شخص کو ہی مجرم سمجھا اور اسے سولی پر لٹکادیا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچانا تھا ، وہ ہجوم میں ادھر ادھر ہوگئے۔ روایت ہے کہ اس دوران شمعون کی شکل و صورت بھی حضرت مسیح جیسی اللہ نے بنا دی ، جس کی وجہ سے شمعون کو سزائے موت دے دی گئی۔ اور مسیح (علیہ السلام) کو اللہ نے بچا لیا۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اس دن جمعہ کا دن تھا۔ آگے ہفتہ یہودیوں کی تعطیل کا دن آ رہا تھا ، جس دن انہیں کوئی کام نہ کرنے کا حکم تھا۔ لہٰذا انہوں نے کوشش کی کہ مسیح (علیہ السلام) کام آج ہی تمام کردیا جائے تاکہ پھر اتوار تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ یہ افراتفری بھی مسیح (علیہ السلام) کو بچانے اور شمعون قرینی کو سولی پر لٹکانے کا باعث بنی۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ یہودی نہ تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قتل کرسکے اور نہ انہیں سولی پر لٹکا سکے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ دیگر نظریات اس ضمن میں قادیانیوں نے ایک نیا نظریہ قائم کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کے بیان کے مطابق عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ سولی پر لٹکایا گیا ، بلکہ آپ طبعی موت مرے اور آپ کی روح کو اوپر اٹھا لیا گیا۔ اس طرح اس گروہ نے قرب قیامت میں نزول مسیح کا بھی انکار کردیا ہے۔ مولانا مودودی نے مسیح (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کو مشتبہات میں شمار کیا ہے۔ حالانکہ یہی آیت اس مسئلہ میں صریح نص ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کی زندگی اور دوبارہ نزول کا ذکر قرآن پاک میں اجمالاً موجود ہے اور احادیثِ نبوی اس کی مکمل تصریح کرتی ہے۔ اس آیت کے الفاظ انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ واضح کرتے ہیں کہ جس ہستی کو قتل کرنے کے یہودی دعویدار تھے ، وہ مسیح ، عیسیٰ ابن مریم ، اللہ کے رسول ہیں۔ ظاہر ہے کہ قتل کا دعویٰ محض روح کے لیے نہیں بلکہ جسم و روح دونوں کے لیے تھا۔ اور انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نہ تو انہیں قتل کیا گیا اور نہ سولی دیا گیا بلکہ ان (یہودیوں) پر شبہ ڈال دیا گیا۔ پھر اسی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا۔ تو جب قتل کا تعلق جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ اسی عمل کی تردید فرما رہے ہیں تو پھر رفع الی السماء کا تعلق بھی جسم و روح دونوں کے ساتھ ہے۔ نہ کہ صرف روح کے ساتھ۔ لہٰذایہ آیت مسیح (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کی صریح نص ہے۔ حضرت مولانا انور صاحب کشمیری (رح) نے ” التصریح بما تواتر بہ نزول المسیح “ عربی اور اردو میں کتاب لکھی ہے جو دمشق سے بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس میں آپ نے ڈیڑھ سو کے قریب احادیث نقل کی ہیں جن میں مسیح (علیہ السلام) کی زندگی اور دوبارہ نزول کا ذکر ہے۔ صحیحین کی روایت میں یہ بھی موجود ہے لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً یعنی وہ وقت بھی آئیگا جب مسیح (علیہ السلام) تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر اتریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ آپ کے دور میں ملت اسلامیہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہیگا۔ قرآن پاک کی آیت ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مسیح (علیہ السلام) کا تذکرہ آپ کو قیامت کی نشانیوں میں سے ظاہر کرتا ہے جس سے ان کا قرب قیامت میں ظہور ثابت ہوتا ہے۔ اہل کتاب کا ایمان لانا فرمایا : وان من اہل الکتب اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہے۔ الا لیومننن بہ قبل موتہ مگر یہ کہ ایمان لائیگا حضرت مسیح پر آپ کی موت سے قبل۔ موتہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھی راجع ہوتی ہے اور ہر ہر فرد اہل کتاب کی طرف بھی۔ اور اگر اس سے کتابی مراد ہے یعنی ہر یہودی اور نصرانی مرنے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا تو اس وقت کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیگا۔ موت سے پہلے جب فرشتے نظر آنے لگتے ہیں اور پردہ غیب اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اگر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ولدالزنا اور دجال تک کے لقب دیے تھے ، تو اس وقت ان کا ایمان کچھ مفید نہ ہوگا۔ عیسائیوں نے بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور تین خداؤں میں تیسرا کہا تھا حالانکہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ اگر مرتے وقت ان پر بھی حقیقت آشکارا ہوجائے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے تو اس وقت کی توبہ تو قبول ہی نہیں ہوگی لہٰذا ان کی موت بھی کفر پر ہی آئے گی۔ مسلم شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل موتہ سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی موت سے قبل ہر کتابی آپ پر ایمان لائے گا۔ تو حقیقی موت تو اس وقت آئے گی جب آپ دوبارہ نازل ہو کر زندگی کے چالیس یا ساٹھ سال گزار چکیں گے۔ اس وقت سے پہلے پہلے جو کتابی ایمان نہیں لائے گا ، وہ موت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا ، نہ کوئی یہودی باقی رہے گا اور نہ نصرانی۔ اس بارے میں سو سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) دوبارہ نازل ہوں گے۔ مسلم شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ وہ وقت بھی آئے گا جب عیسیٰ (علیہ السلام) فج روحاء کے مقام سے حج یا عمرہ کا احرام باندھیں گے۔ زمین پر حکومت کریں گے۔ انصاف قائم کریں گے اور پھر ان کے زندہ رکھنے کی خاص مصلحت دجال کا مقابلہ ہے اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے ، یاجوج ماجوج کا فتنہ برپا ہوگا ، اس کے لیے دعا کریں گے تو ہ فتنہ بھی ختم ہوجائے گا۔ آپ شادی بھی کریں گے ، زمین پر چالیس یا ساٹھ سال کا عرصہ گزار کر وفات پائیں گے اور پھر دفن ہوں گے۔ یہ سب باتیں نزول کے بعد وارد ہونے والی ہیں اور آپ کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کی طرف دلالت کرتی ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے۔ اہل حق میں سے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ متواتر اور صحیح احادیث اس کثرت سے ہیں کہ انکا انکار کفر ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ اس آیت میں یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے قبل آپ پر ایمان لے آئے گا۔ ویوم القیمۃ اور قیامت والے دن یکون علیہم شہیداً مسیح (علیہ السلام) اہل کتاب پر گواہ ہوں گے۔ آپ اللہ کے ہاں گواہی دیں گے کہ یہود و نصاریٰ نے دنیا میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ایک گروہ نے سرے سے تکذیب کردی آپ کے مخالف ہوگئے حتیٰ کہ سزائے موت دلوانے کی کوشش کی ، اور دوسرے گروہ نے انہیں خدا کا بیٹا بنا دیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ سب باتیں ہوں گی۔
Top