Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کرے وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : ان میں وَ : اور ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا اور اس کے رسول کی۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنتوں میں داخل کرے گا جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی ان میں ہمیشہ بسنے والے ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے
حدود اللہ کی پابندی وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا تلک حدود اللہ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدی ہیں۔ مثلاً وراثت ہی کے متعلق اللہ نے یہ حدیں مقرر کی ہیں کہ مرنے والے کے بعض اقرباذوی الفروض کہلاتے ہیں۔ اور وہ ایسے رشتہ دار ہیں جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے مقررفرمادیے ہیں۔ جیس آٹھواں ، چھٹا ، چوتھا ، دو تہائی ایک تہائی وغیرہ ان کا ذکر مختلف آیات میں آگیا ہے اس کے علاوہ دوسرے رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو عصبہ کہلاتے ہیں ان میں بیٹا ، پوتا یا باپ دادا وغیرہ جن کا تعلق میت کے باپ کی طرف ہو۔ چچا یا اس کی اولاد بھی اسی میں آتے ہیں۔ ذوی الفروض کے بعد جو مال بچتا ہے وہ عصبہ میں تقسیم ہوتا ہے۔……… اور اگر عصبہ موجود نہ ہو تو بقیہ مال ذوی الارحام کو مل جاتا ہے جو میت کی ماں کی طرف سے رشتہ دار ہوں جیسے ماموں یا اس کی اولاد وغیرہ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے الخال وارث من لاوارث لہ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔ تاہم امام شافعی (رح) کے مطابق اگر ذوی الفروض اور عصبہ موجود نہ ہوں تو ترکہ بیت المال میں جمع ہوجاتا ہے۔ وراثت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام نکاح طلاق وغیرہ میں بھی حدیں مقرر کی ہیں اسی لیے فرمایا کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ حقیقی فلاح ومن یطع اللہ ورسولہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا۔ اللہ کی مقرر کی گئی حدوں کی حفاظت کرے گایدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھار اللہ اسے ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے سامنے نہریں بستی ہیں۔ ان کا جنتوں میں داخلہ کسی خاص مدت کے لیے نہیں ہوگا بلکہ خلدین فیھا ان میں ہمیشہ رہنا ہوگا جو ایک دفعہ جنت میں داخل ہوگیا پھر اس کی نعمتوں سے کبھی محروم نہیں ہوگا۔ فرمایا وذلک الغوز العظیم یہ بہت بڑی کامیابی ہے جسے یہ مقام حاصل ہوگیا وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقام میں چلا گیا۔ سورة آل عمران کے آخر میں گزر چکا ہے من زحزح عن النا وادخل الجنۃ فقد فاز جو دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہ سب سے بڑی اور حقیقی کامیابی ہے کہ انسان حظیرۃ القدوس ، علین اور بہشت کا ممبر بن جائے۔ اس کے علاوہ جو بھی کامیابی ہے وہ عارضی ہے ۔ حقیقی کامیابی یہی ہے کہ انسان جنت میں داخل ہوجائے گا۔
Top