Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 42
اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا١ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَتَوَفَّى : قبض کرتا ہے الْاَنْفُسَ : (جمع) جان۔ روح حِيْنَ : وقت مَوْتِهَا : اس کی موت وَالَّتِيْ : اور جو لَمْ تَمُتْ : نہ مرے فِيْ : میں مَنَامِهَا ۚ : اپنی نیند فَيُمْسِكُ : تو روک لیتا ہے الَّتِيْ : وہ جس قَضٰى : فیصلہ کیا اس نے عَلَيْهَا : اس پر الْمَوْتَ : موت وَيُرْسِلُ : وہ چھوڑ دیتا ہے الْاُخْرٰٓى : دوسروں کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : ایک وقت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کھینچتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور وہ جان جو نہیں مرتی نیند میں ، پس روک دیتا ہے اس کو جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا ہے ، اور چھوڑ دیتا ہے دوسری کو ایک مقررہ وقت تک ، بیشک البتہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی تردید فرمائی ، کچھ دلائل قدرت بیان کیے ہیں اور پیغمبر (علیہ السلام) پر طعن کرنے والوں کا رد کیا ، پھر فرمایا کہ نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے لہذا اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے ، پھر آگے تنبیہہ فرمائی کہ تم اپنی جگہ پر کام کرتے رہو میں اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف ہوں تمہیں عنقریب پتہ چل جائے گا کہ صحیح راستے پر کون ہے اور گمراہی میں کون بھٹک رہا ہے نیز یہ بھی کہ دائمی عذاب کس پر مسلط ہوتا ہے اور کون اس سے بچتا ہے پھر قرآن پاک کی ہدایت اور راہنمائی کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو نازل فرمایا ہے جو اس سے ہدایت پائے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے ، اور جو گمراہ ہوگا تو اس کا نقصان بھی اسی کو ہوگا ، پھر پیغمبر (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ ان کے مسلسل انکار پر آپ افسوس نہ کریں کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ یہ ایمان کیوں نہیں لائے بلکہ اپنی کار کزاری کے یہ خود ذمہ دار ہیں اور قیامت کو جواب دہ ہوں گے۔ (انسان کی موت وحیات) اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی موت وحیات کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے اور اس ضمن میں اپنے مکمل اختیار کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو وفات دیتا ہے جانوں کو انکی موت کے وقت یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے حکم سے مقررہ وقت پر کسی انسان کی جان کھینچ لیتے ہیں سورة الانعام میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے (آیت) ” توفتہ رسلنا “۔ (آیت ۔ 61) تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان قبض کرلیتے ہیں یہ تو عام طبعی موت کا حال ہے کہ انسان بیداری کی حالت میں اپنے عزیز و اقارب کے سامنے جان دے دیتا ہے ، موت کی ایک دوسری صورت بھی ہے ۔ (آیت) ” والتی لم تمت “۔ جس کو بیداری کی حالت میں عام موت نہیں آتی (آیت) ” فی منامھا “۔ وہ اپنی نیند کے دوران موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے چناچہ (آیت) ” فیمسک التی قضی علیھا الموت “۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ موت کا فیصلہ کرتا ہے اس کی روح کی نیند کی حالت میں روک لیتا ہے یعنی نیند کے دوران ہی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ، چناچہ مدرہ فرقانیہ لکھنو کے معلم قاری عبدالمالک (رح) جو لاہور میں مقیم تھے ان کی موت نیند کی حالت میں ہی واقع ہوگئی تھی ، خود ہمارے شیخ ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) دوپہر کے وقت قیلولہ کی حالت میں ہی وفات پاگئے تھے ، اسی طرح کے کئی واقعات پیش آتے رہتے ہیں ، اسی لیے حضور ﷺ نے دعا سکھائی ہے (1) (بخاری ص 934 ، ج 2 ، مسند احمد ص 154 ج 5 و بخاری ص 1100 ج 2) بسمک اللھم اموت واحی “۔ اے اللہ ! میں تیرے نام پر ہی مرتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں ، اسی طرح آپ نے بیداری کے وقت کی دعا بھی سکھلائی ہے ” الحمدللہ الذی احیانی بعد ما اماتنی “۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے موت طاری کرنے کے بعد پھر زندگی بخشی ۔ بہرحال فرمایا کہ جس کے متعلق موت کا فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کو نیند کی حالت میں ہی روک لیتا ہے (آیت) ” ویرسل الاخری الی اجل مسمی “۔ اور دوسری جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کہ لیے واپس بھیج دیتا ہے پھر جب ان کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو اللہ کے فرشتے ان کو وفات دے دیتے ہیں ۔ (روح اور جسم کا تعلق) نیند اخت الموت یعنی موت کی بہن کہلاتی ہے جب انسان پر نیند طاری ہوتی ہے تو اس سے روح کھینچ لی جاتی ہے ، البتہ اس کی سانس اور نبض چلتی رہتی ہے ، اس ضمن میں دو قسم کی توجہیات پائی جاتی ہیں ، امام بغوی (رح) نے حضرت علی ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نیند کے دروان انسان کی جان اس کے جسم سے کھینچ لی جاتی ہے مگر اس کا تعلق جسم کے ساتھ بھی قائم رکھا جاتا ہے ، اس کی مثال سورج کا زمین کے ساتھ تعلق ہے کہ لاکھوں کروڑوں میل دور ہونے کے باوجود سورج کی شعائیں اس کی روشنی اور حرارت زمین تک پہنچاتی رہتی ہیں ، اسی طرح روح کا تعلق بھی جسم کے ساتھ قائم رہتا ہے اگرچہ نیند کے وقت اسے جسم سے نکال لیا جاتا ہے ۔ شاہ عبدالقادر (رح) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین اور محققین فرماتے ہیں کہ ہر انسان کی دو روحیں ہوتی ہیں ، ایک روح حیوانی ہے ، جو شکم مادر میں انسان تخلیق کے روز اول سے انسان جسم کے ساتھ منسلک رہتی ہے اوپر دوسری روح روح الہی یا روح آسمانی ہے جو حمل کے چوتھے ماہ میں انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے ، روح حیوانی زندگی پھر جسم میں موجود رہتی ہے ، یہ ایک لطیف قسم کا دھواں یا بخاری ہوتا ہے جو موت کے وقت انسانی جسم سے نکل جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی روح اس کے جسم سے پرواز کرگئی ہے البتہ روح الہی نیند کی حالت میں جسم سے الگ ہوجاتی ہے اور بعض اوقات اس کی ملاقات دوسری زندگی اور مردہ روحوں کے ساتھ بھی ہوجاتی ہے ، اور خواب میں انسان کی ملاقات دور دراز کے رہنے والے یا مر جانے والے عزیزوں اور دوستوں سے بھی ہوجاتی ہے ، الغرض ! اس نظریہ کے تحت روح حیوانی تو نیند میں بھی انسانی جسم میں موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کی سانس اور نبض چلتی رہتی ہے اور روح الہی کو نکال لیا جاتا ہے ، اسی چیز کے متعلق یہاں فرمایا ہے کہ نیند کی حالت میں روح کو کھینچ لیا جاتا ہے ، پھر جب اس کی موت کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو اس کی روح الہی کو باہر ہی روک لیا جاتا ہے یعنی جسم میں واپس نہیں لوٹایا جاتا اور جس کے متعلق فوری موت کا فیصلہ نہیں ہوتا ، اس کی روح کو واپس جسم میں ایک مقررہ وقت تک لوٹا دیا جاتا ہے ، اور مقررہ وقت وہی ہے جو اس کی موت کے لیے مقرر ہے جب وہ وقت آجاتا ہے ، تو پھر اس روح کو نہیں لوٹایا جاتا ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی روح الہی ہر روز کھینچی جاتی ہے اور لوٹائی جاتی ہے حتی کہ موت کا وقت آپہنچتا ہے اور پھر روح الہی اور روح حیوانی دونوں ۔۔۔۔۔۔۔ ہوجاتی ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون “۔ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور فکر کرتے ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہوئے اس کی قدرت کو سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے موت وحیات کے اس نظام میں دلائل قدرت میں جب وہ غور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے کیسے تغیرات اور تصرفات کرتا ہے کس طرح روح کو داخل کرتا اور نکالتا ہے تو انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر یقین آجاتا ہے ۔ (سفارش کا غلط عقیدہ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ام اتخذوا من دون اللہ شفعآئ “۔ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو سفارش بنا رکھا ہے ؟ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ہمارے معبودان باطلہ ضرور ہی ہماری سفارش کرکے ہمیں غضب الہی سے بچا لیں گے ، سفارش کا یہی عقیدہ باطل ہے عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے خود سولی پر لٹک کر ہمیں بخشوا لیا ہے لہذا ہمیں کوئی فکر نہیں ستارہ پرست ستاروں کے متعلق اور قبر پرست اہل قیود کے متعلق ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ یہ باطل عقیدہ ہے ، اس قسم کی کوئی سفارش قابل قبول نہیں ہوگی ۔ فرمایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے ” قل “ کہہ دیجئے (آیت) ” اولو کانوا لایملکون شیئا ولا یعقلون “۔ اگرچہ نہ وہ کسی چیز کے مالک ہوں اور نہ ہی سمجھ رکھتے ہوں ، ان کے سفارشی بعض تو بےجان اشیاء بت ، درخت وغیرہ میں جنہیں کسی قسم کا شعور ہی نہیں ، بھلا وہ کیا سفارش کریں گے ؟ اور بعض انسان ، فرشتے یا جنات میں تو وہ بھی بےاختیار میں سفارش تو وہاں ہوئی جہاں اللہ راضی ہوگا (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “۔ (البقرہ : 255) اس کی اجازت کے بغیر کون سفارش کرسکتا ہے ؟ ہاں ! جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو تو اللہ کے نبی ، فرشتے ، شہداء دیگر انبیاء لوگ سفارش کرسکیں گے ، پھر آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کی سفارش قبول کرتا ہے یا نہیں تاہم مشرکوں کی نہ ۔۔۔۔ جبری اور قہری سفارش سراسر باطل ہے ۔ فرمایا ” قل اللہ الشفاعۃ جمیعا “۔ اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ سفارش تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے (آیت) ” لہ ملک السموت والارض “۔ جس کی بادشاہی آسمانوں اور زمین پر ہے (آیت) ” ثم الیہ ترجعون “ ۔ پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، قیامت والے دن ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگی ، پھر حساب کتاب ہوگا ، اور جزائے عمل کی منزل آئے گی اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بھگتنا کرنا ہوگا ، جب تک اللہ کی رضا نہ ہوگی کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکے گا اور سفارش اس کے حق میں ہوگی جس کا ایمان اور ۔۔۔۔۔ صحیح ہوگی ، وہاں جبری سفارش کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ (ذکر الہی اور ذکر اغیار) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی ایک اور گندی ذہنیت کا تذکرہ فرمایا ہے (آیت) ” واذا ذکر اللہ وحدہ اشمازت قلوب الذین لا یؤمنون بالاخرۃ “۔ جب ان کے پاس اکیلے اللہ وحدہ لاشریک کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل بدکتے ہیں اور سکڑ جاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، گویا وہ اللہ تعالیٰ کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتے ۔ (آیت) ” واذا ذکر الذین من دونہ اذا ھم یستبشرون “۔ اور جس وقت اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں ، مشرک کی یہ بہت بڑی علامت ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال ، اس کی شان و شوکت اور اس کی ذات وصفات کا بیان تو پسند نہیں آتا ، مگر جب دیوی دیوتاؤں کا ذکر ہو ، شجر وحجر کی بات ہو ، گنبد ومینار کا ذکر کیا جائے ، اولیاء اللہ کے ساتھ خود ساختہ کرامات منسوب کی جائیں تو یہ لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں اور نعرے مارتے ہیں ، دوسری جگہ فرمایا کہ اگر اللہ وحدہ لاشریک کا ذکر کیا جائے تو قریب ہے کہ مشرک لوگ ذکر کرنے والوں پر حملہ کردیں۔ مشرکین کا یہ خاصہ آج کل کے نام نہاد مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے ، خدا کی قدرت ، عظمت ، علم اور لامحدود وسعت کا ذکر ہو تو ان کے چہروں پر انقباض ہوجاتا ہے اور ان کے دل سکڑنے لگتے ہیں مگر جب کسی پیر فقیر کی جھوٹی کرامات بیان کی جائیں تو دل میں خوش کے جذبات اور چہرے پر رونق آجاتی ہے آج کل شرک نواز لوگ دنیا میں کثرت سے ہیں ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جو شخص اولیاء اللہ کے ساتھ جھوٹی سچی باتیں منسوب نہیں کرتا اور ان کی تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلابے نہیں ملاتا ، وہ اولیاء اللہ کا منکر ہے ، حقیقت یہ ہے کہ خود اولیائے کرام اور بزرگان دین اپنی مجالس میں اللہ کی عظمت اور مواعظ حسنہ ہی کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی عظمت و جلال ہی کی طرف دعوت دیتے ہیں مگر آج ان کے نام لیوا انہی کی بات کو سننا تک پسند نہیں کرتے اس سے زیادہ بےانصافی کی بات کیا ہو سکتی ہے ؟ (اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ) ارشاد ہوتا ہے ” قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیں (آیت) ” اللھم فاطر السموت والارض “۔ اے جو پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا (آیت) ” علم الغیب “۔ جو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے ، پوشیدہ چیزوں سے مراد وہ اشیاء ہیں جو مخلوق کے اعتبار سے مخفی ہیں وگرنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے ، (آیت) ” وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السمآء “۔ (یونس : 61) تیرے پروردگار سے تو زمین وآسمان میں ایک ذرے کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے ، تو فرمایا جو جاننے والا ہے چھپی ہوئی اشیاء کو (آیت) ” والشھادۃ “ اور ان چیزوں کو بھی جو مخلوق کے سامنے کھلی ہیں ، یعنی تو ظاہر اور مخفی ہر چیز سے واقف ہے ، (آیت) ” انت تحکم بین عبادک فی ماکانوا فیہ یختلفون “۔ تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان چیزوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ۔ مطلب یہ کہ آج تو مشرک اپنے شرک پر ڈٹے ہوئے ہیں اور الٹا اہل توحید کو گستاخ اور بےادب کہتے ہیں ، مگر جب قیامت کا دن آئے گا تو اے اللہ ! تمام مختلف فیہ باتوں میں تیرا ہی فیصلہ ہی حتمی فیصلہ ہوگا ، اسی حقیقت کے پیش نظر حضور ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے ، ” اللہم فاطر السموت والارض علم الغیب الشھادۃ انت تحکم بین عبادک فی ماکانوا فیہ یختلفون ، اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم “۔ (اے اللہ ! تو ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ، مختلف فیہ چیزوں میں میری حق کے ساتھ راہنمائی فرما کیونکہ راہ راست کی طرف تو ہی راہنمائی کرتا ہے جس کی چاہتا ہے ۔ (آخرت میں جان کا فدیہ) آگے اللہ تعالیٰ نے محاسبہ اعمال کا ذکر اس انداز میں کیا ہے (آیت) ” ولو ان للذین ظلموا مافی الارض جمیعا و مثلہ معہ “ جب قیامت والے دن ظالم لوگ پکڑے جائیں گے ، پھر اگر ان کے پاس زمین کی جملہ چیزیں ہوں اور اس سے دوگنی بھی ، اور وہ جان بخشی کے لیے یہ سب کچھ فدیہ کے طور پر دنیا چاہیں گے (آیت) ” لافتدوا بہ من سوء العذاب یوم القیمۃ “ تو قیامت والے دن کے برے عذاب سے بچاؤ کے لیے یہ فدیہ بھی کفایت نہیں کرے گا ۔ (آیت) ” وبدالھم من اللہ مالم یکونوا یحتسبون “۔ اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ چیز ظاہر ہوجائے گی جس کا انہیں گمان تک نہ تھا یعنی ایسی گرفت آئیگی ، جس کے متعلق انہوں نے کبھی سوچا تک نہ تھا ، (آیت) ” وبدالھم سیات ماکسبوا “۔ اور ان کی وہ تمام برائیاں بھی ظاہر ہوجائیں گی جو وہ انجام دیتے رہے انہیں اپنے کرتوت نظر آنے لگیں گے اور ان کا نتیجہ بھی ان کی نظروں میں گھومنے لگے گا ، (آیت) ” وحاق بھم ماکانوا بہ یستھزء ون “۔ اور جن چیزوں کے ساتھ وہ ٹھٹا کیا کرتے تھے ، وہ سب ان کو گھیر لیں گی دنیا میں رہ کر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نبیوں ، خدا کے کلام اور وحی ، وقوع قیامت ، اور جزائے عمل کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ سب خود ساختہ باتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی نبی بھیجا ہے اور نہ کتاب ، نہ کوئی قیامت ہے نہ حساب کتاب اور نہ جزائے عمل فرمایا انہی باتوں کے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عذاب انہیں ہر طرف سے گھیر لے گا ۔ (انسان کی ناشکر گزاری) فرمایا عام طور پر انسان اس قدر ناشکر گزار ہے (آیت) ” فاذا مس الانسان ضر دعانا “۔ کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پھر ہمیں پکارتا ہے جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو نہایت عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا کر خدائے وحدہ لا شریک کو پکارتا ہے اور مصیبت کے ازالے کے لیے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے ، جب ہر قسم کے ظاہری اسباب منقطع ہوجاتے ہیں تو انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے (آیت) ” ثم اذا خولنہ نعمۃ منا “۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت عطا کردیتے ہیں تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ (آیت) ” قال انما اوتیتہ علی علم “۔ تو کہتا ہے کہ یہ نعمت مجھے میرے علم لیاقت اور استعداد کی بناء پر حاصل ہوتی ہے ۔ میں کو الیفائیڈ ہوں ، میں نے اس طرح منصوبہ بندی کی ، فلاں تجارت میں مال لگایا ، فلاں کارخانہ کھولا تو مجھے یہ سب کچھ حاصل ہوگیا ، یہی اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی علامت ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی نہ فرماتا تو نہ وہ مصیبت سے چھوٹ سکتا تھا اور نہ اسے نعمت حاصل ہوسکتی تھی قارون نے بھی یہی کہا تھا (آیت) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ (القصص ، 78) یہ مال و دولت تو مجھے میرے علم وہنر اور استعداد و قابلیت کی وجہ سے حاصل ہوا ہے بڑے بڑے مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی انعامات کو اپنی قابلیت پر محمول کرتے تھے ، مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” بل ھی فتنۃ “۔ بلکہ یہ تو آزمائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ تنگدستی کے ذریعے بھی آزماتا ہے اور خوشحالی کے ذریعے بھی جو اس آزمائش پر پورا اترے ، انعامات الہیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے اس کا شکر ادا کرے وہ کامیاب ہوجاتا ہے ، اور جو اسے اپنی استعداد کا مرہون منت سمجھ لے وہ ناکام ہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو آزمائش ہوتی ہے (آیت) ” ولکن اکثرھم لایعلمون “۔ مگر اکثر لوگ بےسمجھ ہیں جو خدا کی نعمت کی قدر دانی نہیں کرتے ۔ فرمایا (آیت) ” قد قالھا الذین من قبلھم “۔ تحقیق ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسی ہی بات کی ، وہ بھی اپنے مال و دولت پر اترانے لگے انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیا (آیت) ” فما اغنی عنھم ماکانوا یکسبون “۔ مگر ان کی کمائی کسی کام نہ آئی اس مال نے انہیں بچانے کی بجائے مزید سزا میں مبتلا کردیا پھر فرمایا (آیت) ” فاصابھم سیات ماکسبوا “۔ پھ پہنچیں ان کو وہ برائیاں جو انہوں نے دنیا میں رہ کر کمائی تھیں ، بالآخر ان کو اپنے گناہوں کی سزا مل کر رہی یہ سابقہ لوگوں کی بات تھی (آیت) ” والذین ظلموا من ھؤلآء “ اور اس دور کے لوگوں میں سے بھی جنہوں نے ظلم کیا یعنی کفر ، شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا (آیت) ” سیصیبھم سیات ماکسبوا “۔ ان کو بھی ان کی اکتساب شدہ برائیاں ضرور پہنچیں گی انہیں بھی اپنے اعمال کی سزا بھگتنا ہوگی (آیت) ” وما ھم بمعجزین “۔ اور وہ خدا تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکیں گے یعنی نہ تو اس کو تھکا سکیں گے اور نہ اس کی گرفت سے بھاگ کر کہیں جاسکیں گے ، جس طرح پہلے لوگوں کو سزا ملی اسی ان کو بھی مل کر رہے گی ۔ آخر میں پھر اللہ تعالیٰ کے تصرف کا ذکر کیا گیا ہے کہ مال و دولت یا روزی کسی انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے جو وہ اپنی حکمت کے تحت انسان کی مصلحت کی خاطر کرتا ہے اس میں انسان کی ذاتی کاوش و محنت کو کوئی داخل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہوتی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” اولم یعلموا ان اللہ یبسط الرزق لمن یشآء ویقدر “۔ ان لوگوں نے اس بات کو نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ ہی روزی کشادہ کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کی چاہے روزی کا مدار نہ تو علم اور کم علمی پر ہے اور نہ عقل اور بےعقلی پر ، اس میں انسان کی ذاتی استعداد و ذہانت کو کچھ داخل نہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے کہ علم اور بیوقوف لاکھوں میں کھیلتے ہیں مگر بڑے بڑے صاحب علم ، فلاسفر اور دانشور عسرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ، رزق کی تقسیم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ہی اس کی مصلحت کو جانتا ہے ، فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یؤمنون “۔ اس میں البتہ نشانیاں اور دلائل ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والے ان نشانات قدرت سے مستفید ہوتے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ کا مزید قرب حاصل ہوتا ہے مگر کفار ومشرکین ان دلائل سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے اور ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں ۔
Top