Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 56
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : بھیجا ہم نے آپ کو اِلَّا مُبَشِّرًا : مگر خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اور ( اے پیغمبر) نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ کی دو باتوں کا ذکر کیا تھا۔ پہلی بات یہ تھی کہ وہ دو مختلف پانیوں کو اکٹھے چلا کر ان کے درمیان رکاوٹ کٹھ ہی کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ پانی آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے ۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ اس نے انسان کا سلسلہ نسب حقیرقطرہ آب سے چلایا ہے ۔ یہ دونوں باتیں کس کی قدرت کا نمونہ اور توحید کے دو پل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے مگر ان تمام تر دلائل و شواہد کے باوجود لوگ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان کرسکتی ہیں ۔ فرمایا یہ لوگ خدا کی طرف سے پست پھیر کر شیطان کے …بنے ہوئے ہیں۔ آج کے درس کی ابتدائی آیات میں رسالت کا ذکر ہے ، کفار و مشرکین حضور ﷺ سے من مانی نشانیاں طلب کرتے تھے جس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ آپ کا کام نشانیاں دکھانا نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ جب چاہے کوئی نشانی ظاہر کر دے ۔ آپ کے فرائض کے متعلق فرمایا۔ وما ارسلنک الا مبشرا و نذیرا اے پیغمبر ! تمہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوش خبری دینے والا اور ڈر سنانے والا جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا اور اس کی توحید کو مانے گا ۔ اس کے متعلق آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اسے خوش خبری سنا دیں اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ (یونس : 2) کہ ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سچائی کا پایہ ہے ، ان کے درجات بلند ہوں گے ۔ وہ خطیرۃ القدس کے ممبر بنیں گے اور بالآخر جنت میں پہنچ جائیں گے ۔ فرمایا آپ ایسے لوگوں کو خوش خبری دے دیں۔ اس کے بر خلاف جو لوگ کافر اور مشرک ہیں ۔ معاصی اور ظلموں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ان پر خدا کا غضب ہوگا ۔ جنت بسے گی اور وہ ناکام ہو کر جہنم رسید ہوں گے۔ آپ ان کو اس کے برے انجام سے ڈرا دیں ۔ غرضیکہ آپ کے ذمے نیکو کاروں کو خوش خبری دینا اور برے لوگوں کو ڈر سنانا ہے۔ بے لوث تبلیغ فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہ دین کہ میں جو کچھ اللہ کا پیغام تمہیں پہنچاتا ہوں اور جو تعلیم تمہیں دیتا ہوں ، یہ بےلوث اور بلا معاوضہ ہے ما اسئلکم علیہ من اجر میں اس پر تم سے کوئی اجرت مزدوری یا معاوضہ طلب نہیں کرتا ، مجھے تم سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ۔ میرا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں ، نہ میں تم سے اس سلسلہ میں کوئی فیس مانگتا ہوں ۔ ہاں میری غرض یہ ہے الا من شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلاً کہ تم میں سے جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنا ہے اور اس کی اطاعت کر کے اس کی رضا کے مقام تک پہنچ جائے۔ بلا معاوضہ خدمت کے پیش کش صرف حضور ﷺ تک ہی محدود نہ تھی ۔ بلکہ اللہ کے تمام انبیاء (علیہم السلام) یہی مشن لے کر آئے۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہ ِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ (النسائ : 561) تمام رسول خوش خبری دیتے رہے اور ڈر سناتے رہے تا کہ ان کے بعد لوگوں کے لیے کوئی محبت باقی نہ رہے ۔ تمام رسولوں نے یہی کہا وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ (الشعرائ : 901) لوگو ! میں پیغام خدا پہنچانے پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔ میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے ۔ وہی مجھے صلہ دے گا ۔ تم میری بات ماننے کی بجائے مجھ سے بد سلوکی سے پیش آتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے یہ بھی کہلوایا ہے کہ اے لوگو ! میں تم سے کوئی معاوضہ تو طلب نہیں کرتا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی (الشوریٰ : 32) کم از کم میری قرابت داری کا ہی خیال کرو ، میں بھی تمہارے خاندان اور برادری کا آدمی ہوں تمہارے فائدے کی بات کرتا ہوں مگر تم مجھ سے اس طرح بد سلوکی تو نہ کرو ۔ بعض مفسرین 1 ؎ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ تم نیکی اور تقرب کے کاموں کو اختیار کرو ۔ ظاہر ہے جو شخص اپنا کوئی ذاتی مفاد پیش نظر نہیں رکھتا ۔ اس کی سچی بات کی مخالفت کرنا شقاوت کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ توکل علی اللہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی بھی دی ہے کہ آپ کفار و مشرکین کی بد سلوکی پر دل برداشتہ نہ ہوں و توکل علی الحی الذی لا یموت بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس زندہ ذات پر بھروسہ رکھیں جس پر کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اور اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے چلے جائیں ۔ مخالفین آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ امام ابن ابی 2 ؎ دنیا نے اپنی کتاب ” توکل “ میں اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں عقبہ ابن ابی ثبیث کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ تورات میں یہ بات موجود ہے لا تتوکل علی بن اٰدم فان بن ادم لیس لذقوا ما آدم کے کسی بیٹے پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ آدم کے بیٹے کے لیے کوئی اثبات نہیں ہے۔ وہ تو فانی ہے ۔ اس کی ہر چیز مستعار ہے اس پر تم کیسے بھروسہ کرسکتے ہو ؟ ولکن تو کان علی لحی لدن لا تموث بلکہ توکل ہمیشہ اس ذات خداوندی پر کرو جو زندہ ہے اور جسے کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اسی لیے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہ کر اسباب کو اختیار کرو مگر ان پر بھروسہ نہ کرو ۔ بھروسہ صرف خدا کی ذات پر ہو چاہئے ۔ وہ چاہے گا تو اسباب کو موثر بنا دے گا ۔ ورنہ وہ (1 ؎ تفسیر کبیر ص 201 ج 42 ۔ 2 ؎ در منثور ص 47 ج 5 (فیاض) ویسے ہی دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ سورة آل عمرامن میں ہے علی اللہ فلیتوکل المومنون ( آیت : 01) مومن تو ہے جو اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں ۔ نیز فرمایا وَعَلَی اللہ ِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ( ابراہیم : 21) بھروسہ کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اے پیغمبر ! آپ اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ او دوسری بات یہ فرمائی وسبح بحمدہ اور اس کی تسبیح بیان کریں اس کی تعریف کے ساتھ ۔ وکفی بہ بذنون عبادہ خبیر اور کافی ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا ۔ تمام مجرم اس کی نگاہوں میں ہیں اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ تخلیق ارض و سما اگلی آیت کریمہ میں پھر توحید کے دلائل میں ارشاد ہوتا الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں کے وقفہ میں ۔ قرآن کی متعدد آیات میں آسمان و زمین کی چھ دنوں میں تخلیق کا ذکر آیا ہے۔ اور یہ ذکر تورات میں بھی بیان ہوا ہے ۔ البتہ یہودیوں نے تورات میں ایک بات بڑھا دی ہے جہاں زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا ذکر ہے وہاں آگے یہ اضافہ ہے ثم استراح یعنی ارض و سما کی تخلیق کے بعد اللہ نے آرام کیا گویا اللہ تعالیٰ یہ کام کر کے تھک گیا تھا جو اسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی العیاذ باللہ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ اور اس کا ارشاد ہے وما مسنا من لغوب (ق : 83) ہم نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ تو ایک لحظہ میں تمام چیزوں کو پیدا کرسکتا ہے۔ یہ چھ دن کا وقفہ تو اس کی خاص مصلحت پر مبنی ہے ۔ اس کی طرف تھکاوٹ کو منسوب کرنا تو کفر کی بات ہے۔ استوی علی العرش تخلیق ارض و سما کے بعد فرمایا ثم استوی علی العرش پھر اللہ تعالیٰ عرش پر ستوی ہوا ۔ بعض مفسرین استوی کا معنی کرتے ہیں ید بس الامر یعنی وہ معاملے کی تدبیر کرتا ہے۔ سورة الم السجدہ میں موجود ہے ید بن الامن من السما الی الارض (آیت : 5) وہ آسمان کی بلندیوں سے لیکر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر کرتا ہے۔ نوع انسانی کے متعلق خاص طور پر ارشاد ہے وھو القاھر فوق عبادہ ( الانعام : 16) وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ تفسیر جلالین والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے کما یلیق بشانہ جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ، وہ اس طرح عرش پر نہیں بیٹھا جیسا کہ ہم چار پائی یا کرسی پر بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ جسمیت اور جہت سے پاک ہے ۔ ہم اس کے استوی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی لیے بعض بزرگان دین فرماتے ہیں ۔ رب العزش فوق العرش لکن بلا وسواس التمکن والتصال عرش کا مالک عرش کے اوپر ہے لیکن ایسا نہیں جیسا کہ کوئی اوپر ٹکا ہوا ہو یعنی اتصال نہیں ہے۔ اتصال ماننے سے جسمیت لازم آئے گی مگر اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے۔ اس کا استوی علی العرش متشابات میں سے ہے اور انسانی عقل وفکر سے بعید ہے۔ استوی علی العرش کی مثال بھی ایسی ہے جیسے قرب خداوندی ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا فرمان ہے ۔ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ( ق : 61) ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں مگر وہ قرب بلا کیف ہے۔ اس کی کیفیت کو وہ خود ہی جانتا ہے۔ ہست رب الناس را با جان ناس اتصال بےتکلیف بےقیاس لوگوں کا پروردگار ان کی جانوں سے متصل ہے مگر اس کی کیفیت کو کوئی نہیں جانتا ۔ اسی طرح استوی علی العزش کے متعلق بھی یہی عقیدہ ہونا چاہئے کہ وہ عرش پر اسی طرح ستوی ہے جسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ فرمایا الرحمن وہ بڑا ہی مہربان ہے فسئل بہ خبیر پس پوچھ لیں آپ کسی غیر رکھنے والے سے نزول قرآن کے زمانہ میں تورات کے عالم موجود تھے۔ یہ نبی کی طرف اشارہ ہے کہ کم از کم ان سے پوچھ لیں وہ بھی بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ارض و سماء کو چھ دن کے وقفہ میں پیدا فرمایا عام مفسرین 1 ؎ بہ کی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف لوٹاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اہل علم سے دریافت کرلیں ۔ بعض مفسرین 2 ؎ بہ کا معنی منہ بھی کرتے ہیں یعنی آپ اس سے پوچھ لیں جو خبر رکھنے والا ہے کیونکہ دوسروں کو تو علم ہی نہیں ہے۔ رحمان کے سلسلہ سجدہ ارشاد ہوتا ہے واذا قیل لھم اسجدو اللرحمن جب ان کفار سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کروتو وہ اس سے بد کتے ہیں ۔ قالوا وما الرحمن کہتے ہیں رحمان کیا ہے ؟ ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے۔ واقعہ 3 ؎ حدیبیہ میں بھی معاملہ اسی بات پر آ کر رگ گیا تھا۔ صلح نامہ کی ابتداء میں جب حضور ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا ، تو مشرکوں نے فوراً اعتراض کردیا کہ ہم کسی رحمان اور رحیم کو نہیں جانتے ، لہٰذا بسمک اللھم لکھ جیسا پہلے لکھا کرتے تھے ، چناچہ ایسے ہی لکھا گیا ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ نبوت کا دعویدار ہمیں تو توحید کی دعوت دیتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ رحمان اور رحیم کو پکارنے کے لیے بھی کہتا ہے۔ اللہ نے اس اعترات کا جواب متعدد مقامات پر دیا ہے جیسے فرمایا وَ ِ اللہ ِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا (الاعراف : 081) (1 ؎۔ تفسیر کبیر ص 501 ج 42 ۔ 2 ؎ کبیر ص 501 ج 42 تفسیر ابن کثیر ص 323 ج 3) (فیاض) خدا کی ذات تو ایک ہی ہے البتہ اس کے اسمائے پاک اور صفات بہت سی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو جس نام سے بھی پکارو گے ۔ وہ راضی ہوگا وہ رحمان ، رحیم ، ستار ، غفار اور رازق ہے ۔ اس کے تمام نام بھلے ہیں اور اسے کسی بھی نام سے … سکتا ہے ۔ اور صرف اسی کے سامنے سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا کسی کے لیے سجدہ روا نہیں ۔ اللہ نے سورة حم سجدہ میں صراحتاً فرمایا ہے لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْـقَمَرِ وَاسْجُدُوْا ِ اللہ ِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ (آیت : 73) نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ ان کے خالق اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۔ ابن ابی حاتم محدث نے روایت 1 ؎ بیان کی ہے جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ مدینے کی کسی گلی بازار میں جا رہے تھے ۔ راستے میں حضرت سلیمان فارسی ؓ ملے ۔ ایران کے لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے تھے ، تو سلمان فارسی ؓ نے حضور ﷺ کو سجدہ کیا ۔ اس پر آپ نے اس کو سمجھایا لا تسجد لی یا سلمان واسجد للحی الذی لا یموت اے سلمان ! مجھے سجدہ نہ کرو بلکہ اس زندہ جاوید ہستی کو سجدہ کرو جس کو موت نہیں ۔ دوسری حدیث میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے کیونکہ اللہ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔ آج کل کی مغربی تہذیب والے زن و شوہر کی مساوات کا فرض دار پیٹتے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاوند کو بیوی پر فضلیت عطا کی ۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : حضور ! ہم غیر ممالک میں جا کر دیکھتے ہیں کہ وہاں لوگ اپنے ملوک کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو آپ تو اس کے زیادہ حق دار ہیں ، پھر کیوں نہ ہم آپ کے سامنے سجدہ کیا کریں۔ (1 ؎۔ تفسیر بن کثیر ص 333 ج 3 ) (فیاض) آپ نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اگر تمہارا گزر میری قبر پر سے ہوا تو کیا میری قبر پر بھی سجدہ کرو گے ؟ اس نے عرض کیا ، حضور ! ایسا تو نہیں ہوگا ۔ فرمایا جس طرح میری قبر پر سجدہ روا نہیں اسی طرح میری زندگی میں بھی میرے سامنے سجدہ روا نہیں ۔ سجدہ صرف اللہ کے سامنے کرو۔ اس زمانے میں لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں جو کہ شرک اور قطعی حرام ہے مرید اپنے پیروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ۔ حالانکہ خود حضور ﷺ نے اپنے سامنے سجدہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ کسی ہندو پیر کے متعلق اخبار میں آیا تھا کہ وہ کرسی پر بیٹھ جاتا اور اس کے چیلے اس کے سامنے آ کر سجدہ کرتے یہ تو انسانیت کی توہین ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کو نافع اور ضار سمجھ کر سجدہ کرتا ہے تو وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا ۔ اور ایسا نہیں سمجھتا تو سجدہ بہر حال حرام ہے ، اس آخری امت میں نہ عبادت کا سجدہ روا ہے اور نہ تعظیمی سجدہ ۔ فرمایا جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کے سامنے سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے اور ساتھ یہ بھی انسجد لماتا مرنا کیا ہم اس کے لیے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے ؟ کافر اور مشرک لوگ جہالت میں مبتلا تھے ۔ وہ خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کرنے سے بدکتے تھے مگر انسانوں اور بتوں کے سامنے جھکنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے تھے وزاد ھم نفورا اور خدا تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے متعلق ان کی نفرت مزید بڑھ جاتی تھی ۔ قرآن پاک میں کل چودہ آیات سجدہ ہیں جن کو پڑھنے سننے سے سجدہ لازم آتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے۔ تمام سامعین بعد میں سجدہ کرلیں ۔
Top