Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 56
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَمَآ
: اور نہیں
اَرْسَلْنٰكَ
: بھیجا ہم نے آپ کو
اِلَّا مُبَشِّرًا
: مگر خوشخبری دینے والا
وَّنَذِيْرًا
: اور ڈرانے والا
اور ( اے پیغمبر) نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ کی دو باتوں کا ذکر کیا تھا۔ پہلی بات یہ تھی کہ وہ دو مختلف پانیوں کو اکٹھے چلا کر ان کے درمیان رکاوٹ کٹھ ہی کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ پانی آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے ۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ اس نے انسان کا سلسلہ نسب حقیرقطرہ آب سے چلایا ہے ۔ یہ دونوں باتیں کس کی قدرت کا نمونہ اور توحید کے دو پل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے مگر ان تمام تر دلائل و شواہد کے باوجود لوگ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان کرسکتی ہیں ۔ فرمایا یہ لوگ خدا کی طرف سے پست پھیر کر شیطان کے …بنے ہوئے ہیں۔ آج کے درس کی ابتدائی آیات میں رسالت کا ذکر ہے ، کفار و مشرکین حضور ﷺ سے من مانی نشانیاں طلب کرتے تھے جس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ آپ کا کام نشانیاں دکھانا نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ جب چاہے کوئی نشانی ظاہر کر دے ۔ آپ کے فرائض کے متعلق فرمایا۔ وما ارسلنک الا مبشرا و نذیرا اے پیغمبر ! تمہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوش خبری دینے والا اور ڈر سنانے والا جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا اور اس کی توحید کو مانے گا ۔ اس کے متعلق آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اسے خوش خبری سنا دیں اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ (یونس : 2) کہ ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سچائی کا پایہ ہے ، ان کے درجات بلند ہوں گے ۔ وہ خطیرۃ القدس کے ممبر بنیں گے اور بالآخر جنت میں پہنچ جائیں گے ۔ فرمایا آپ ایسے لوگوں کو خوش خبری دے دیں۔ اس کے بر خلاف جو لوگ کافر اور مشرک ہیں ۔ معاصی اور ظلموں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ان پر خدا کا غضب ہوگا ۔ جنت بسے گی اور وہ ناکام ہو کر جہنم رسید ہوں گے۔ آپ ان کو اس کے برے انجام سے ڈرا دیں ۔ غرضیکہ آپ کے ذمے نیکو کاروں کو خوش خبری دینا اور برے لوگوں کو ڈر سنانا ہے۔ بے لوث تبلیغ فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہ دین کہ میں جو کچھ اللہ کا پیغام تمہیں پہنچاتا ہوں اور جو تعلیم تمہیں دیتا ہوں ، یہ بےلوث اور بلا معاوضہ ہے ما اسئلکم علیہ من اجر میں اس پر تم سے کوئی اجرت مزدوری یا معاوضہ طلب نہیں کرتا ، مجھے تم سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ۔ میرا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں ، نہ میں تم سے اس سلسلہ میں کوئی فیس مانگتا ہوں ۔ ہاں میری غرض یہ ہے الا من شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلاً کہ تم میں سے جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی طرف راستہ بنا ہے اور اس کی اطاعت کر کے اس کی رضا کے مقام تک پہنچ جائے۔ بلا معاوضہ خدمت کے پیش کش صرف حضور ﷺ تک ہی محدود نہ تھی ۔ بلکہ اللہ کے تمام انبیاء (علیہم السلام) یہی مشن لے کر آئے۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہ ِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ (النسائ : 561) تمام رسول خوش خبری دیتے رہے اور ڈر سناتے رہے تا کہ ان کے بعد لوگوں کے لیے کوئی محبت باقی نہ رہے ۔ تمام رسولوں نے یہی کہا وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ (الشعرائ : 901) لوگو ! میں پیغام خدا پہنچانے پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔ میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے ۔ وہی مجھے صلہ دے گا ۔ تم میری بات ماننے کی بجائے مجھ سے بد سلوکی سے پیش آتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے یہ بھی کہلوایا ہے کہ اے لوگو ! میں تم سے کوئی معاوضہ تو طلب نہیں کرتا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی (الشوریٰ : 32) کم از کم میری قرابت داری کا ہی خیال کرو ، میں بھی تمہارے خاندان اور برادری کا آدمی ہوں تمہارے فائدے کی بات کرتا ہوں مگر تم مجھ سے اس طرح بد سلوکی تو نہ کرو ۔ بعض مفسرین 1 ؎ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ تم نیکی اور تقرب کے کاموں کو اختیار کرو ۔ ظاہر ہے جو شخص اپنا کوئی ذاتی مفاد پیش نظر نہیں رکھتا ۔ اس کی سچی بات کی مخالفت کرنا شقاوت کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ توکل علی اللہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی بھی دی ہے کہ آپ کفار و مشرکین کی بد سلوکی پر دل برداشتہ نہ ہوں و توکل علی الحی الذی لا یموت بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس زندہ ذات پر بھروسہ رکھیں جس پر کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اور اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے چلے جائیں ۔ مخالفین آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ امام ابن ابی 2 ؎ دنیا نے اپنی کتاب ” توکل “ میں اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں عقبہ ابن ابی ثبیث کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ تورات میں یہ بات موجود ہے لا تتوکل علی بن اٰدم فان بن ادم لیس لذقوا ما آدم کے کسی بیٹے پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ آدم کے بیٹے کے لیے کوئی اثبات نہیں ہے۔ وہ تو فانی ہے ۔ اس کی ہر چیز مستعار ہے اس پر تم کیسے بھروسہ کرسکتے ہو ؟ ولکن تو کان علی لحی لدن لا تموث بلکہ توکل ہمیشہ اس ذات خداوندی پر کرو جو زندہ ہے اور جسے کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اسی لیے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہ کر اسباب کو اختیار کرو مگر ان پر بھروسہ نہ کرو ۔ بھروسہ صرف خدا کی ذات پر ہو چاہئے ۔ وہ چاہے گا تو اسباب کو موثر بنا دے گا ۔ ورنہ وہ (1 ؎ تفسیر کبیر ص 201 ج 42 ۔ 2 ؎ در منثور ص 47 ج 5 (فیاض) ویسے ہی دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ سورة آل عمرامن میں ہے علی اللہ فلیتوکل المومنون ( آیت : 01) مومن تو ہے جو اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں ۔ نیز فرمایا وَعَلَی اللہ ِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ( ابراہیم : 21) بھروسہ کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اے پیغمبر ! آپ اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ او دوسری بات یہ فرمائی وسبح بحمدہ اور اس کی تسبیح بیان کریں اس کی تعریف کے ساتھ ۔ وکفی بہ بذنون عبادہ خبیر اور کافی ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا ۔ تمام مجرم اس کی نگاہوں میں ہیں اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ تخلیق ارض و سما اگلی آیت کریمہ میں پھر توحید کے دلائل میں ارشاد ہوتا الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں کے وقفہ میں ۔ قرآن کی متعدد آیات میں آسمان و زمین کی چھ دنوں میں تخلیق کا ذکر آیا ہے۔ اور یہ ذکر تورات میں بھی بیان ہوا ہے ۔ البتہ یہودیوں نے تورات میں ایک بات بڑھا دی ہے جہاں زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا ذکر ہے وہاں آگے یہ اضافہ ہے ثم استراح یعنی ارض و سما کی تخلیق کے بعد اللہ نے آرام کیا گویا اللہ تعالیٰ یہ کام کر کے تھک گیا تھا جو اسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی العیاذ باللہ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ اور اس کا ارشاد ہے وما مسنا من لغوب (ق : 83) ہم نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ تو ایک لحظہ میں تمام چیزوں کو پیدا کرسکتا ہے۔ یہ چھ دن کا وقفہ تو اس کی خاص مصلحت پر مبنی ہے ۔ اس کی طرف تھکاوٹ کو منسوب کرنا تو کفر کی بات ہے۔ استوی علی العرش تخلیق ارض و سما کے بعد فرمایا ثم استوی علی العرش پھر اللہ تعالیٰ عرش پر ستوی ہوا ۔ بعض مفسرین استوی کا معنی کرتے ہیں ید بس الامر یعنی وہ معاملے کی تدبیر کرتا ہے۔ سورة الم السجدہ میں موجود ہے ید بن الامن من السما الی الارض (آیت : 5) وہ آسمان کی بلندیوں سے لیکر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر کرتا ہے۔ نوع انسانی کے متعلق خاص طور پر ارشاد ہے وھو القاھر فوق عبادہ ( الانعام : 16) وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ تفسیر جلالین والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے کما یلیق بشانہ جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ، وہ اس طرح عرش پر نہیں بیٹھا جیسا کہ ہم چار پائی یا کرسی پر بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ جسمیت اور جہت سے پاک ہے ۔ ہم اس کے استوی کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی لیے بعض بزرگان دین فرماتے ہیں ۔ رب العزش فوق العرش لکن بلا وسواس التمکن والتصال عرش کا مالک عرش کے اوپر ہے لیکن ایسا نہیں جیسا کہ کوئی اوپر ٹکا ہوا ہو یعنی اتصال نہیں ہے۔ اتصال ماننے سے جسمیت لازم آئے گی مگر اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے۔ اس کا استوی علی العرش متشابات میں سے ہے اور انسانی عقل وفکر سے بعید ہے۔ استوی علی العرش کی مثال بھی ایسی ہے جیسے قرب خداوندی ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا فرمان ہے ۔ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ( ق : 61) ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں مگر وہ قرب بلا کیف ہے۔ اس کی کیفیت کو وہ خود ہی جانتا ہے۔ ہست رب الناس را با جان ناس اتصال بےتکلیف بےقیاس لوگوں کا پروردگار ان کی جانوں سے متصل ہے مگر اس کی کیفیت کو کوئی نہیں جانتا ۔ اسی طرح استوی علی العزش کے متعلق بھی یہی عقیدہ ہونا چاہئے کہ وہ عرش پر اسی طرح ستوی ہے جسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ فرمایا الرحمن وہ بڑا ہی مہربان ہے فسئل بہ خبیر پس پوچھ لیں آپ کسی غیر رکھنے والے سے نزول قرآن کے زمانہ میں تورات کے عالم موجود تھے۔ یہ نبی کی طرف اشارہ ہے کہ کم از کم ان سے پوچھ لیں وہ بھی بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ارض و سماء کو چھ دن کے وقفہ میں پیدا فرمایا عام مفسرین 1 ؎ بہ کی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف لوٹاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اہل علم سے دریافت کرلیں ۔ بعض مفسرین 2 ؎ بہ کا معنی منہ بھی کرتے ہیں یعنی آپ اس سے پوچھ لیں جو خبر رکھنے والا ہے کیونکہ دوسروں کو تو علم ہی نہیں ہے۔ رحمان کے سلسلہ سجدہ ارشاد ہوتا ہے واذا قیل لھم اسجدو اللرحمن جب ان کفار سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کروتو وہ اس سے بد کتے ہیں ۔ قالوا وما الرحمن کہتے ہیں رحمان کیا ہے ؟ ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے۔ واقعہ 3 ؎ حدیبیہ میں بھی معاملہ اسی بات پر آ کر رگ گیا تھا۔ صلح نامہ کی ابتداء میں جب حضور ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا ، تو مشرکوں نے فوراً اعتراض کردیا کہ ہم کسی رحمان اور رحیم کو نہیں جانتے ، لہٰذا بسمک اللھم لکھ جیسا پہلے لکھا کرتے تھے ، چناچہ ایسے ہی لکھا گیا ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ نبوت کا دعویدار ہمیں تو توحید کی دعوت دیتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ رحمان اور رحیم کو پکارنے کے لیے بھی کہتا ہے۔ اللہ نے اس اعترات کا جواب متعدد مقامات پر دیا ہے جیسے فرمایا وَ ِ اللہ ِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا (الاعراف : 081) (1 ؎۔ تفسیر کبیر ص 501 ج 42 ۔ 2 ؎ کبیر ص 501 ج 42 تفسیر ابن کثیر ص 323 ج 3) (فیاض) خدا کی ذات تو ایک ہی ہے البتہ اس کے اسمائے پاک اور صفات بہت سی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو جس نام سے بھی پکارو گے ۔ وہ راضی ہوگا وہ رحمان ، رحیم ، ستار ، غفار اور رازق ہے ۔ اس کے تمام نام بھلے ہیں اور اسے کسی بھی نام سے … سکتا ہے ۔ اور صرف اسی کے سامنے سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا کسی کے لیے سجدہ روا نہیں ۔ اللہ نے سورة حم سجدہ میں صراحتاً فرمایا ہے لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْـقَمَرِ وَاسْجُدُوْا ِ اللہ ِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ (آیت : 73) نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ ان کے خالق اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائو۔ ابن ابی حاتم محدث نے روایت 1 ؎ بیان کی ہے جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ مدینے کی کسی گلی بازار میں جا رہے تھے ۔ راستے میں حضرت سلیمان فارسی ؓ ملے ۔ ایران کے لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے تھے ، تو سلمان فارسی ؓ نے حضور ﷺ کو سجدہ کیا ۔ اس پر آپ نے اس کو سمجھایا لا تسجد لی یا سلمان واسجد للحی الذی لا یموت اے سلمان ! مجھے سجدہ نہ کرو بلکہ اس زندہ جاوید ہستی کو سجدہ کرو جس کو موت نہیں ۔ دوسری حدیث میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے کیونکہ اللہ نے خاوند کا بڑا حق رکھا ہے۔ آج کل کی مغربی تہذیب والے زن و شوہر کی مساوات کا فرض دار پیٹتے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاوند کو بیوی پر فضلیت عطا کی ۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : حضور ! ہم غیر ممالک میں جا کر دیکھتے ہیں کہ وہاں لوگ اپنے ملوک کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو آپ تو اس کے زیادہ حق دار ہیں ، پھر کیوں نہ ہم آپ کے سامنے سجدہ کیا کریں۔ (1 ؎۔ تفسیر بن کثیر ص 333 ج 3 ) (فیاض) آپ نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اگر تمہارا گزر میری قبر پر سے ہوا تو کیا میری قبر پر بھی سجدہ کرو گے ؟ اس نے عرض کیا ، حضور ! ایسا تو نہیں ہوگا ۔ فرمایا جس طرح میری قبر پر سجدہ روا نہیں اسی طرح میری زندگی میں بھی میرے سامنے سجدہ روا نہیں ۔ سجدہ صرف اللہ کے سامنے کرو۔ اس زمانے میں لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں جو کہ شرک اور قطعی حرام ہے مرید اپنے پیروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ۔ حالانکہ خود حضور ﷺ نے اپنے سامنے سجدہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ کسی ہندو پیر کے متعلق اخبار میں آیا تھا کہ وہ کرسی پر بیٹھ جاتا اور اس کے چیلے اس کے سامنے آ کر سجدہ کرتے یہ تو انسانیت کی توہین ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کو نافع اور ضار سمجھ کر سجدہ کرتا ہے تو وہ کافر اور مرتد ہوجائے گا ۔ اور ایسا نہیں سمجھتا تو سجدہ بہر حال حرام ہے ، اس آخری امت میں نہ عبادت کا سجدہ روا ہے اور نہ تعظیمی سجدہ ۔ فرمایا جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کے سامنے سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم کسی رحمان کو نہیں جانتے اور ساتھ یہ بھی انسجد لماتا مرنا کیا ہم اس کے لیے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے ؟ کافر اور مشرک لوگ جہالت میں مبتلا تھے ۔ وہ خدائے رحمان کے سامنے سجدہ کرنے سے بدکتے تھے مگر انسانوں اور بتوں کے سامنے جھکنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے تھے وزاد ھم نفورا اور خدا تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے متعلق ان کی نفرت مزید بڑھ جاتی تھی ۔ قرآن پاک میں کل چودہ آیات سجدہ ہیں جن کو پڑھنے سننے سے سجدہ لازم آتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے۔ تمام سامعین بعد میں سجدہ کرلیں ۔
Top