Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 53
وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ۚ وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے مَرَجَ : ملایا الْبَحْرَيْنِ : دو دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ : شیریں فُرَاتٌ : خوشگوار وَّھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ : تلخ بدمزہ وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بَرْزَخًا : ایک پردہ وَّحِجْرًا : اور آڑ مَّحْجُوْرًا : مضبوط آڑ
اور وہ اللہ تعالیٰ وہی ذات ہے جس نے ملا دیا ہے دو دریائوں کو ، ایک میٹھا ہے اور خوشگوار یعنی پیاس بجھانے والا ، اور دوسرا کھاری اور کروڑا ہے اور بنا دی ہے ان دونوں کے درمیان ایک آڑ روک بنائی ہوئی
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نمونے اور توحید کے دلائل بیان فرمائے پہلے سائے کا ذکر ہوا ، پھر شب و روز کے تغیر و تبدل اور ہوائوں کے چلنے کا ذکر ہوا ۔ اللہ نے خاص طور پر پانی کے نزول اور اس کی افادیت کا ذکر کیا ، پھر کافروں کی مذمت بیان ہوئی اور اللہ نے اپنے پیغمبر کو نافرمانوں کے ساتھ بڑا جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ معترضین کے رسالت کے متعلق اعتراضات کا ثباتی جواب بھی دیا ۔ اب آج کی آیات بھی خدا تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل ہیں۔ دو متضاد پانیوں کا ملاپ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی پہلی دلیل یہ بیان فرمائی ہے وھو الذی مرج البحرین کمال قدرت کی مالک وہ ذات خداوندی ہے جس نے دو پانیوں کو ملا دیا ہے۔ مرج کا معنی خلط ملط کردیا ہے اور آپس میں ملا دینا ہوتا ہے۔ اس لیے عربی زبان میں مروج سبزہ زار کو کہا جاتا ہے جہاں مختلف قسم کے پودے اور گھاس وغیرہ ملے ہوتے ہیں۔ صحیح 1 ؎ حدیث میں حضور ﷺ کا فرمان ہے لا تقوم لساعۃ حتی تسیر ارض العرب مروجاو انھا ا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک عرب کی سرزمین میں سبز ہ زار اور نہریں نہ جاری ہوجائیں ۔ اور فرمایا اس وقت عرب کا علاقہ وسیع ریگستان اور لا متنازعی سلسلہ کوہ پر مشتمل ہے مگر ایک وقعت آنے والا ہے جب بہت سے مقامات پر سبزہ زار ہوں گے اور وہاں پر نہریں چلیں گی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے دو دریائوں ، دو سمندروں یا دو پانیوں کو اکٹھا چلا دیا اور عجب شان ہے کہ ان دو پانیوں میں ھذا عذب ثرت ایک پانی میٹھا اور پیاس بجھانے کے لیے خوشگوار ہے وھذا ملج حاج اور دوسرا کھاری اور کڑوا ہے جو کہ پینے کے قابل نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کی دلیل ہے ۔ یہاں پر دو مختلف دریا سمندر یا ندی نالے مراد نہیں جن کے پانی کا ذائقہ مختلف ہو ، بلکہ اس حقیقت کا اظہار مغصو ہے کہ اللہ تعالیٰ (1 ؎۔ مسلم ص 623 ج 1 (فیاض) نے بعض مقامات پر ایسے پانیوں کو اکٹھا رواں دواں کیا ہے کہ جن کے ذائقے مختلف ہیں اور عجب بات یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کے پانی اکٹھا بہنے کے باوجود آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے بلکہ اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ الگ رہتے ہیں اللہ نے فرمایا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وجعل بینھما برزخا ہم نے ان کے درمیان ایک آڑ قائم کردی ہے وحجرا محجورا اور ایک رکاوٹ کھڑی کردی ہے جو دونوں قسم کے پانیوں ک خلط ملط ہونے سے روکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر میٹھا اور کڑوا پانی آپس میں خلط ملط ہوجائیں تو سارے کا سارا پانی ہی کڑوا ہوجائے ۔ دنیا کے تمام دریائوں کا پانی میٹھا ہے اور جہاں جہاں سے یہ گزرتے ہیں لوگ اس پانی کو پیتے ہیں اور اس سے کھیتی باڑی کرتے ہیں ۔ بر خلاف اس کے کہ سمندر کا پانی کڑوا ہے اور جونہی کسی دریا کا پانی سمندر میں جا کر گرتا ہے تو وہ بھی ویسا ہی کڑوا ہوتا ہے مگر اللہ نے اپنے جس شاہکار کا یہاں ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایک دریا ، سمندر یا ندی نالے میں دو مختلف الذائقہ پانی اکٹھے چلتے ہیں مگر آپس میں مل کر ان کے ذائقہ میں فرق نہیں آتا اور ان کی اپنی اپنی نوعیت قائم رہتی ہے۔ مشاہدات قدرت اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین نے بعض مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ کی اس بیان کردہ حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے ۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نے اپنے ایک بنگالی شاگرد کو لکھا کہ بنگال چونکہ دریائوں اور سمندروں کا علاقہ ہے۔ لہٰذا آپ وہاں کسی دریا وغیرہ کے حالات لکھیں جہاں مختلف خواص کے پانی اکٹھے بہتے ہوں ۔ تو انہوں نے دو معتبرعلماء کی شہادتیں لے کر مولانا تھانوی کو آگاہ کیا جس کو آپ نے اپنی تفسیر بیان القرآن میں نوٹ کیا ہے لکھتے 1 ؎ ہیں کہ بنگال میں ارکان سے لیکر چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں دو مختلف نوعیت کے پانی چلتے ہیں ۔ ایک پانی سفید ہے ، جب کہ دوسرا سیاہ ، سفید پانی میٹھا ہے۔ (1 ؎۔ بیان القرآن ص 55 ج 8 (فیاض) اور سیاہ پانی کڑوا ہے۔ سیاہ پانی میں سمندر ی کی طرح تلاطمہہوتا ہے۔ جب کہ سفید پانی ساکن چلتا ہے کشتی رانی بھی سفید پانی میں ہی ہوسکتی ہے تو اس طرح کو ایک دریا میں دو مختلف الانواع پانی الگ الگ نظر آتے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ دریا ہیں حالانکہ وہ دوکناروں کے درمیان اکٹھے بہہ رہے ہیں ۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے حاشیہ قرآن 1 ؎ میں لکھا ہے کہ بنگال کے ضلع باریسال کے بعض طلباء نے میرے سامنے یہ حقیقت بیان کی کہ ان کے علاقہ میں دو ندیاں ایک ہی منبع سے نکلتی ہیں مگر ایک کا پانی کڑوا اور ناقابل استعمال ہے جب کہ دوسرے کا شریں اور لذیز ہے ۔ آپ سورت میں بھی مقیم رہے ہیں ۔ آپ وہاں کے حالات لکھتے ہیں کہ صوبہ گجرات میں ضلع سورت کے مقام دھابیل سملک سے سمندر تقریباً بارہ میل کے فاصلے پر ہے ۔ جب سمندر میں مد آتا ہے تو اس کا پانی سمندر میں گرنے والی ندی میں چڑھ آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سمندر کا کڑوا پانی ندی کے میٹھے پانی کے اوپر تہہ کی صورت میں آجاتا ہے اور دونوں پانی آپس میں خلط ملط بھی نہیں ہوتے۔ کڑوا پانی اوپر بہتا ہے اور میٹھا نیچے ، پھر جب جذر ہوتا ہے تو کھاری پانی سمندر میں واپس چلا جاتا ہے ۔ جب کہ ندی کا میٹھا پانی باقی رہ جاتا ہے ۔ وہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ سمندر کا پانی ندی میں کئی کئی میل تک چلا جاتا ہے مگر دونوں پانیوں کا آپس میں ختلائو نہیں ہوتا ۔ یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ زیر زمین پانی کہیں کھاری ہے اور کہیں میٹھا کسی ایک ہی بستی میں کھاری اور میٹھے پانی کے کنوئیں قریب قریب ہوتے ہیں ۔ مگر یہ پانی آپس میں خلط ملط نہیں ہوتا ۔ مدینہ طیبہ کے اکثر کنوئوں کا پانی کھاری تھا ، مگر بیئر روسہ کا پانی میٹھا تھا جو یہودیوں کی ملکیت تھا ۔ حضور ﷺ کے ترغیب دلانے پر حضرت عثمان ؓ نے یہ کنواں پینتیس ہزار دینار میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا یہ بھی کمال قدرت کا نمونہ ہے ۔ اللہ نے اپنا احسان جتلاتے ہوئے فرمایا ہے ۔ لو تشاء جعلنا احاجا فلق لا تشکرون (الواقعہ : 07) (1 ؎۔ تفسیر عثمانی ص 274 ) (فیاض) اگر ہم چاہتے تو سارے پانی کو کڑو بنا دیتے اور تم مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ۔ تم میٹھا پانی پا کر اللہ کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے ؟ فرمایا اس پانی کی بہم رسانی ہمارے ذمے ہے۔ بھلا بتائوئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ (الواقعہ : 95) کیا تم نے اس پانی کو بادلوں سے اتارا ہے یا ہم اس کے اتارنے والے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ آسمان کی طرف سے میٹھا اور قابل استعمال پانی نازل فرماتا ہے ، مخلوق میں یہ طاقت کہاں ہے ؟ سمندر کا پانی کڑوا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے خاص مصلحت رکھی ہے اس کی کڑواہٹ کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اس میں مختلف قسم کے نمکیات اور دیگر کیمیائی مادے رکھے ہیں جن کی وجہ سے یہ گلنے سڑنے اور تعفن پیدا کرنے سے محفوظ ہے ، اگر تمام سمندروں کا پانی میٹھا ہوتا ، تو اس میں تعفن پیدا ہو کر انسانوں اور جانوروں کے لیے وبال جان بن جاتا ، آبی جانوروں کی گندگی اور ان کے مردے بھی اتنی نمکیات کی وجہ سے گل سڑجاتے ہیں مگر بد بو پیدا نہیں ہوتی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا ایک نمونہ ہے۔ پانی پینے کی دعا حضور ﷺ نے میٹھا پانی پینے کے بعد یہ دعا بھی سکھلائی ہے ۔ الحمد للہ الذی سقانا عذبا فاتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس پانی کو میٹھا بنایا ہے اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے اسے کڑوا نہیں کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے گناہوں کا اثر مختلف چیزوں پر پڑتا ہے۔ چناچہ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ ہے کہ حجر اسود جب جنت سے اترا تھا تو یہ بالکل سفید تھا ۔ پھر ابن آدم کے گناہوں نے اسے بیاہ کردیا ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی نعمتیں کھا کر اور ٹھنڈاپانی پی کر اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور الحمد اللہ کہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ قطرہ آب سے تخلیق انسانی اللہ نے اپنی دوسری دلیل قدرت یہ بیان فرمائی ہے وھو الذی خلق من الماء بشرا اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے قطرہ آب سے انسان جیسی ہستی کو پیدا کیا ۔ اور وہ قطرہ بھی ایسا کہ کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا نا پاک ہوجائے ۔ اللہ نے اسی قطرہ آب کے متعلق فرمایا ہے اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ ( المرسلات : 02) کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ اللہ نے اس نا پاک قطرہ سے حسین و جمیل انسان کو پیدا کیا جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہے۔ اللہ نے اس کو بہت سی قوتیں اور حواس بخشے فجعلہ نسبا و صہد پھر انسان کا سلسلہ نسب اور سلسلہ مصاہرت قائم کیا ۔ اس کی مختلف گرتیں اور خاندنا بنائے بیٹوں سے نسبی سلسلہ چلتا ہے اور بیٹوں سے سسرالی اس طرح اللہ نے سلسلہ انسانی کو پھیلا دیا ۔ یہ سارا آدم (علیہ السلام) پر منتہی ہوتا ہے ۔ گویا پوری نسل انسانی کا سلسلہ مٹی کے ساتھ جا کر جڑ جاتا ہے ۔ اسی لیے فرمایا کلکم ابناء آدم و آدم من تواب تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی ۔ غرضیکہ یہ سارا سلسلہ اللہ نے قطرہ آب سے پلایا ۔ وکان ربک قدیرا اور تیرا پروردگار کمال قدرت کا مالک ہے۔ یہ سارا سلسلہ اس نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ بنایا ہے۔ غیر اللہ کی عبادت فرمایا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اس قدر دلائل کے باوجود حالت یہ ہے ویعبدون من دون اللہ یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں مالا ینفہم ولا یضرھم جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ النافع اور انصار تو فقط ذات خداوندی ہے۔ بھلادوسری کون سی ذات ہے جو نفع نقصان کی مالک ہو۔ پرستش کے لائق تو وہ ذات ہے جو علیم کل اور قادر مطلق ہے۔ اللہ کے سوا باقی سب عاجز مخلوق ہے ، لہٰذا ان صفات کا حامل بھی کوئی نہیں تو ایسی ہستیوں کی عبادت کرنا اور ان کو خدا کا شریک بنانا کتنی بےعقلی کی بات ہے ۔ وہ تو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں ، بھلا وہ دوسروں کی حاجت براری کیسے کرسکتے ہیں ؟ فرمایا وکان الح کافر علی ربہ ظھیرا دیکھو ! کافر آدمی کس طرح اپنے رب سے پشت پھیر کر شیطان کا مدد گار بنا ہوا ہے ۔ شرکیہ امور میں ملوث ہونا شیطان کی اتباع کے مترادف ہے۔ شیطان کفر اور شرک کو پسند کرتا ہے اور اسی کی ترغیب دیتا ہے ، لہٰذا شیطان کے بہکاوے میں آ کر غیر اللہ کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں ، لہٰذا اس سے بچنا چاہئے۔
Top