Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَرْسَلَ الرِّيٰحَ
: بھیجیں ہوائیں اس نے
بُشْرًۢا
: خوشخبری
بَيْنَ يَدَيْ
: آگے
رَحْمَتِهٖ
: اپنی رحمت
وَاَنْزَلْنَا
: اور ہم نے اتارا
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مَآءً طَهُوْرًا
: پانی پاک
اور اللہ کی ذات وہی ہے جس نے چلائی ہیں ہوائیں خوش خبری لانے والی اس کے باران رحمت سے پہلے ، اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاک کرنے والا
ربطہ آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے دلائل توحید کے سلسلے میں سائے کا ذکر کیا کہ اس کا تعلق سورج کے ساتھ ہے ۔ سورج اس کی رہنمائی کرتا ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ پھر اللہ نے رات اور دن کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی قدرت ِ الٰہی کے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے رات کو بمنزلہ لباس قرار دیا ، اور نیند کو آرام کو ذریعہ بنایا ۔ پھر دن کے وقت کا روبار اور محنت مزدوری کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر اس کی توحید سمجھ میں آتی ہے۔ باران رحمت کی دعائیں اب دلائل قدرت ہی کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے ہوا اور پانی کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وھو الذی ارسل الریح بشرا بین یدی رحمتہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جو چلاتا ہے خوش خبری دینے والی ہوائوں کو اس کو باران رحمت سے قبل ، ظاہر ہے کہ بارش سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں جن کے دوش پر پانی سے لبریز بادل اٹھتے ہیں ۔ پھر جہاں اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا مطلوب ہوتا ہے ، ہوائیں بادلوں کو وہاں لے جاتی ہیں ۔ ان ہوائوں کو دیکھ کر ہی انسان پر امید ہوتے ہیں کہ اب اللہ کی رحمت بارش کی صورت میں نازل ہوگی اور خطے کی خشک سالی دور ہوگی انسانوں اور جانوروں کی حیات کا سامان ہوگا ۔ اور کھیتیاں اور درخت پھل پیدا کردیں گے۔ گھاس پھونس ہوگا اور اس طرح انسانوں اور جانوروں کے لیے اکل و شرب کا انتظام ہوگا ۔ گویا یہ ہوائیں ہیں جو بارش کی آمد سے پہلے بارش کی خوش خبری دیتی ہیں۔ پاکیزہ پانی کا نزول ارشاد ہوتا ہے وانزلنا من السماء ماء اور ہم نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا ۔ آسمان کا اطلاق بادل ، فضا ، ہوا اور ہر بلندی پر ہوتا ہے۔ بظاہر تو پانی اللہ تعالیٰ بادلوں میں سے اتارتا ہے ۔ مگر یہ صرف بادلوں کا کمال نہیں بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی شامل ہوتا ہے۔ چونکہ باران رحمت کے نزول کا فیصلہ اوپر ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کے نزول کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ فرمایا ہم نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا جو کہ طھہور ا خود پاک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرتا ہے چناچہ پانی کے علاوہ کسی دوسری چیز سے طہارت حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ مثال کے طور پر دودھ ، عرق ، کیوڑا ، پٹرول وغیرہ خود پاک اشیاء ہیں مگر ان کے ذریعے دوسری چیزوں کو پاک نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کو ازالہ نجاست کے لیے بوقت مجبوری استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کپڑے کو نجاست لگ گئی اور پانی میسر نہیں تو اس نجاست کو پٹرول غیرہ سے دور کیا جاسکتا ہے مگر ان سے وضو یا غسل نہیں کیا جاسکتا ۔ پانی کا بدل اللہ نے مٹی کو قرار دیا ہے۔ جیسے فرمایا فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئًَ فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (النسائ : 34) اگر پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے جو وضو یا غسل کا بدل ہوگا ۔ تا ہم جونہی پانی میسر آجائے وضو با غسل ضروری ہوجائے گا ۔ طہور بالغے کا صیغہ ہے یعنی یہ پانی خوراک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا ہے چناچہ ہم روز مرہ کپڑے ، برتن ، جسم ، فرش غرضیکہ ہر چیز پانی ہی ہے پاک صاف کرتے ہیں اور یہی اس کی صفت ہے۔ پانی کی افادیت آگے اللہ تعالیٰ نے پانی کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے کہ اللہ کی یہ نعمت انسان ، حیوان اور نباتات کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ اللہ نے اس کو بقائے حیات کا ذریعہ بنایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے پاکیزہ پانی کو نازل رفمایا لنجی بہ بلدۃ میتا تا کہ ہم اس کے ساتھ مردہ شہر یا خشک زمین کو زندہ کریں ۔ جب زمین بالکل خشک ہو کر سبزہ اگانے کے قابل نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ باران رحمت کے ذریعے پانی بہم پہنچاتا ہے ۔ اور زمین نرم ہو کر روئیدگی کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس میں سبزیاں ، پھل اور اناج پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا پانی کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے زمین سیراب ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ ونسقیہ مما خلقنا انعاما وانا ستی کثیرا تا کہ ہم پلائیں یہ پانی اپنے پیدا کردہ مویشوں اور بہت سے انسانوں کو جیسا کہ پہلے عرض کیا پانی انسانوں ، حیوانوں اور نباتات کے لیے بنیادی ضرورت ہے نباتات کا ذکر آیت کے پہلے حصہ میں ہوا کہ پانی کے ذریعہ ہم مردہ زمین کو زندگی بخشتے ہیں ۔ اور انسانوں اور حیوانوں کا ذکر اس حصہ آیت میں آ گیا ہے کہ یہ دونوں انواع پانی کی محتاج ہیں ۔ اگرچہ پانی کی ضرورت ہر قسم کے حیوانات کے لیے مسلم ہے مگر یہاں پر مویشوں کا ذکر انسانوں کی مناسبت سے کیا ہے کہ ان کو پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ مویشی انسان سے زیادہ مانوس ہیں ۔ انسان کے خادم ہیں اور انسان ان کا دودھ پیتے ہیں ۔ سورة المائدہ میں ان کو لھیمۃ الانعام یعنی چوپائے جانور کہا گیا ہے ۔ اور سورة الانعام میں ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ ثمینۃ زواج یعنی آٹھ جوڑے ہیں ۔ ان میں بھیڑ ، بکری ، گائے اور اونٹ کے زیادہ شامل ہیں ۔ تا ہم باقی تمام جانوروں ، درندوں ، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو بھی پانی کی ضرورت ہے اور ان کی زندگی کا انحصار بھی پانی پر ہے۔ البتہ بعض جانور ایسے ہیں جنہیں پانی کی فوری ضرورت نہیں پڑتی ۔ بعض جاندار چھ چھ ماہ بعد پانی پیتے ہیں ۔ جیسے گوہ ہے جو مٹی میں رہتی ہے اور کبھی کبھار پانی استعمال کرتی ہے ۔ تا ہم مذکورہ مویشی دن میں کئی کئی مرتبہ پانی پیتے ہیں اس لیے اللہ نے بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ۔ پانی اس کی غذا کا لازمی حصہ ہے۔ انسان جو بھی غذا اسعتمال کرتا ہے وہ خون پیدا کرتی ہے اور خون میں اسی فیصد پانی اور باقی بیس فیصددیگر اجزاء مثلاً نمک ، چربی ، پروٹین ، لحمیات ، شکر ، پنیر وغیرہ ہوتے ہیں ۔ گویا انسانوں کے لیے بھی پانی ضرروی ہے۔ پانی کی فراہمی سپلائی انسان کے لیے سب سے ضروری چیز ہوا ہے ۔ اس کے بغیر انسان چند لمحے کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر پانی ہے اللہ نے اس کو بھی باافراط پیدا کیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی ضرورت ہے جو مفت مہیا ہونی چاہئے ، ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کے لیے پانی کی فری سپلائی کا بندوست کرے ۔ ہوا اور پانی کے بعد غذا ضروری چیز ہے جس کے حصول کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ پھر لباس اور رہائش کا حصول ہے۔ یہ بھی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ انسان کی بنیادی ضرورت میں صحت بھی شامل ہے۔ ہر ایک کو مناسب علاج معالجے کی سہولت حاصل ہونی چاہئے۔ اور تعلیم بھی کم از کم اتنی تو لازمی ہے کہ انسان کو اپنے فرائض کا علم ہو سکے۔ یہ ہر انسان پر فرض عین کا درجہ رکھتی ہے۔ غرضیکہ پانی انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے مگر اکثر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور اسے ضائع کرتے رہتے ہیں ، پانی کی قدر ان علاقوں میں ہے جہاں یہ مشکل سے دستیاب ہوتا ہوے ۔ خود ہمارے ملک میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں پورے ایک دن کی مسافت سے پانی لانا پڑتا ہے۔ لہٰذا جہاں پانی وافر دستیاب ہے ، اس کی قدر کرنی چاہئے اور جہاں نایاب ہے وہاں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فرمایا ولقد صرفنہ بینھم ہم نے پانی کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے یعنی پانی کی فراہمی کو تمام خطوں میں یکساں نہیں رکھا بلکہ کہیں با افراط موجود ہے ، کہیں مشقت سے حاصل ہوتا ہے اور کہیں نایاب ہے ۔ زیر زمین پانی عام طور پر میٹھا ہوتا ہے ۔ مگر بعض علاقوں میں کھاری بھی ہے۔ بارش ، ندی ، نالے اور دریائوں کا پانی انسانی زندگی میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر کھاری پانی تمام معمولات میں استعمال نہیں ہو سکتا بعض جگہوں پر پانی بالکل کڑوا ہے جو نہ پینے کے کام آتا ہے اور نہ کھیتی باڑی کے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمندرہ ہے مگر وہ پینے کے قابل نہیں ہے۔ بڑے بڑے صحرائوں میں پانی بالکل نایاب ہے۔ اب جدید دور میں سمندر کے پانی کو صاف کر کے قابل استعمال بنایا جا رہا ہے ، مگر اس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ بہر حال اللہ نے فرمایا کہ ہم نے پانی کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا لیذکرو ا تا کہ وہ نصیحت پکڑیں ، مگر حقیقت یہ ہے فابی اکثر الناس الا کفوراً مگر اکثر لوگوں نے انکار کیا اور اس نعمت کی ناقدری کی ، لوگوں کو چاہئے تھا کہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے مگر انہوں نے نعمت کا حق ادا نہیں کیا ۔ اللہ نے یہ شکوہ بھی کیا ہے۔ منذرین کی بعثت کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اللہ نے ہر ہر بستی اور ہر ہر مقام پر اپنے رسول کیوں نہیں بھیجے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ہے ولوشئنا لبعثنا فی کل قریۃ نذیراً اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والے بھیج دیتے ۔ یہ کام ہماری قدرت سے باہر نہیں ہے مگر یہ ہماری حکمت کے خلاف ہے ۔ اللہ نے مختلف علاقوں میں خاص خاص لوگوں میں اپنے رسول بھیجے۔ ان پر وحی نازل کی اور اس طرح لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام فرمایا ۔ اور پھر آخر میں اقوام عالم اور تمام بنی نوع انسان بلکہ جنات کے لیے اپنا آخری رسول کو مبعوث فرماتا ۔ لا نذرکم بہ ومن ابلغ ( الانعام : 91) تا کہ وہ اس قرآن کے ذریعہ اپنے مخاطبین اور تمام ان لوگوں کو ڈرائے جن تک یہ قرآن پہنچے۔ اللہ نے اپنے نبی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے بیہودہ اعتراض کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ جہاد کبیر آخر میں اللہ نے فرمایا ہے فلا نطع الکفرین آپ کافروں کی بات نہ مانیں بلکہ ان کے خلاف قرآن پاک کے ذریعہ ایک ضروری کام یہ ہے کہ وجاھد ھم بہ جھاد کبیرا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ جہاں کبیر کریں۔ 1 ؎ بہ کام جمع قرآن ہے کہ اس کے ذریعے آپ بڑا جہاد کریں آپ جس طرح اللہ نے بارش نازل فرما کر انسان کی جسمانی ضرورت پوری کیں ۔ اسی طرح وحی الٰہی کے ذریعے قرآن نازل فرما کر انسان کی روحانی اور عقلی ضرورتوں کی تکمیل کی اور اس کی روحانی پیاس کو بجھا یا ۔ گویا اللہ نے قرآن نازل فرما کر انسان کی ہدایت کا سامان مہیا فرمایا۔ جہاد اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اس سے مراد محض جنگ نہیں بلکہ جنگ بھی جہاد کا ایک حصہ ہے۔ جہاں سے مراد اپنی تمام ظاہری اور باظنی قوتوں کو دشمن کے مقابلے میں صرف کرنا ہے۔ جہاں کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ جاھد والکفار والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی کافروں اور مشرکوں سے اپنے مالوں ، اپنی زبانوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ مطلب یہ کہ جہا د صرف قتال کا نام نہیں بلکہ زبان کے ذریعہ فریضہ تبلیغ ادا کرنا ، دین کے احکام لوگوں تک پہنچانا ۔ لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنا ۔ بوقت ضرورت بحث مباحثہ کرنا ۔ تصنیف و تالیف کے ذریعے لوگوں تک علم پہنچانا ، مال خرچ کرنا ، سب جہاد میں آتا ہے۔ مگر قرآن کی تبلیغ کو اللہ نے جہاد کبیر سے موسوم کیا ہے۔ حضور ﷺ جب کسی جنگ کے لیے جاتے تو دیگر دعائوں کے علاوہ یہ دعا بھی فرماتے اللھم منزل الکتب و محری السحاب و ھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم سے بادلوں کو اٹھانے والے ، کتاب کو نازل کرنے والے اللہ ! مخاطب لشکروں کو شکست دے اور ہماری مدد فرما کر ہمیں غلبہ عطا فرما ۔ ہمارا مقصد ملک گیری نہیں بلکہ اس کتاب کے پروگرام کو آگے چلانا ہے تا کہ لوگوں کی فکر پاک ہوجائے اور ان (1 ؎۔ معالم التنزیل ص 59 ج 3 فخازن 501 ج 5 ) (فیاض) کے اعمال درست ہوجائیں ۔ شاہ عبد العزیز (رح) فرماتے ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں ظاہری ، باطنی ، مالی اور جانی قویٰ کو صرف کرنا جہاد کا ایک حصہ ہے۔ اعدائے دین دین کے چار مسلمہ دشمن ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن نے تعلیم دی ہے۔ سب سے پہلا دشمن دین خود نفس انسانی ہے جس کے متعلق فرمایا اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمہارا بڑا دشمن تو خود تمہارا نفس ہے جو تمہارے دو پہلوئوں کے درمیان ہے اور انسان کو ہمیشہ برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ نفس کا مقابلہ عبادت و ریاضت سے ہوتا ہے ۔ جو شخص عبادت الٰہی میں مصروف ہوتا ہے اس کا نفس مغلوب ہوجاتا ہے۔ فرمایا دین کا دوسرا دشمن شیطان ہے۔ قرآن نے اس کو انہ لکم عدومبین ( البقرہ : 861) کہا ہے یعنی یہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ شیطان کا مقابلہ اللہ کے ذکر کے ذریعے سے ہوتا ہے ۔ جب خدا تعالیٰ کا کثر سے ذکر کرو گے تو شیطان دفع ہوگا ۔ فرمایا دین کا تیسرا دشمن کافر ہے جو خدا تعالیٰ کی توحید اور شریعت کا انکار کرتا ہے اور اس کو مٹانے کو کوشش کرتا ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ (الانفال : 06) ان دشموں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرو ۔ تیر کمان سے لے کر ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک جتنے بھی وسائل میسر ہوں سب کو بروئے کار لائو ۔ پھر فرمایا کہ دین کا چوتھا دشمن منافق ہے جو اندرونی طور پر ریشہ دوانیاں کر کے جماعت المسلمین اور ان کے دین کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا جاھد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم (التوبہ : 37) اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو۔ ان کی شرارتوں اور سازشوں کو بےنقاب کرو اور انہیں خوب رسوا کروتا کہ کہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں بہر حال ان چاروں دشمنان دین کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ جہاد مسلسل دشمن کے خلاف جہاد تو وقتی طور پر ہوتا ہے جو بالآخر ہوجاتا ہے مگر قرآن کے ذریعے جس جہاد کا حکم دیا گیا ہے وہ مسلسل اور دائمی ہے ۔ جب تک پوری دنیا کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی سے پاک نہ ہوجائے جب تک لوگوں کی فکر پاک نہ ہوجائے ، جب تک ظلم و ناانصافی کا خاتمہ نہ ہوجائے ۔ یہ جہاد جاری رہے گا ۔ مخالفین قرآن بھی اپنی تگ و دو جاری رکھیں گے ۔ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط پراپیگنڈہ کریں گے ۔ ان سب کے خلاف جہاد کرنا جہاد کبیر ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ جب تک دنیا میں کفر ، شرک ، بد عملی اور بد اخلاقی پائی جاتی ہے۔ ان کی اصلاح کرنا اور توحید کا پرچم بلند کرنا ، فسق و فجور اور جہالت کو دور کرنا اور نیکی کو پھیلانا ضروری ہے۔ قرآن کو یہ آیات چیخ چیخ کر جہاد کبیر کی دعوت دے رہی ہے جب تک برائی کو ختم نہیں کرو گے تم فلاح نہیں پا سکتے ۔ آج مسلمان اسی فریضہ کو ترک کرنے کی وجہ سے ذلت کی پستی میں جا گرے ہیں ۔ آج بھی دنیا کی پانچ ارب آبادی میں چار ارب لوگ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں اور باقی ایک ارب بھی برائے نام توحید پرست ہیں ۔ ان میں سے بھی بہت قلیل تعداد راہ راست پر ہے۔ بہر حال برائی کے خلاف قرآن کے ذریعے جہا د ہر وقت جاری ہے اور جاری رہے گا ۔
Top