Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 17
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُهُمْ : وہ انہیں جمع کریگا وَمَا : اور جنہیں يَعْبُدُوْنَ : وہ پرستش کرتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا ءَ اَنْتُمْ : کیا تم اَضْلَلْتُمْ : تم نے گمراہ کیا عِبَادِيْ : میرے بندے هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں۔ ان اَمْ هُمْ : یا وہ ضَلُّوا : بھٹک گئے السَّبِيْلَ : راستہ
اور جس دن وہ ( اللہ تعالیٰ ) اکٹھا کرے گا ان کو اور ان کو جن کی یہ اللہ کے سوا پوجا کرتے تھے ، پس فرمائے گا ، کیا تم نے گمراہ کیا میرے ان بندوں کو یا یہ خود راستے سے گمراہ ہوگئے
ربطہ آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے بطور وحی منزل من اللہ ہونے کا ذکر کیا ۔ اس سے پہلے توحید کا بیان ہوا ۔ رسالت کے باب میں ان معترضین کے اعتراضات کا جواب دیا جو کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو اس کی تصدیق کرے ۔ اس رسول کے پاس خزانے اور باغات کیوں نہیں ، بعض بد بخت آدمی رسول کو سحر زدہ کہنے سے بھی نہ چوکتے ۔ اللہ نے ان تمام اعتراضات کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ اگر اللہ چاہے تو اپنے نبی کو معترضین کی فرمائش سے بڑھ کر بھی عطا کر دے ۔ مگر ان لوگوں کا اعتراض محض اس وجہ سے ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے وہ ایمان کے باقی اجزاء کا بھی منکر ہوتا ہے۔ پھر اللہ نے قیامت والے دن کی سختی اور تلخی کا ذکر فرمایا اور یہ بھی کہ منکرین توحید ، رسالت اور وحی الٰہی کا اس دن بہت برا حال ہوگا ۔ اب آج کی ابتدائی آیات میں قیامت والے دن خود ساختہ معبود ان اور ان کے متبعین سے سوال و جواب کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ویوم یحشرھم وما یعبدون من دون اللہ اور جس دن اللہ تعالیٰ ان کو اور اللہ کے اور ان کے خود ساختہ معبود سب میدان محشر میں جمع کیے جائیں گے۔ اللہ کے سوا معبودوں میں انبیاء ، اولیاء ، فرشتے اور جنات بھی ہوں گے ۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہوگا فیقول اور کہے گاء انتھم اضللتھم عبادی ھولاء کیا دنیا میں تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا ۔ یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے ، کیا تم نے اپنی پوجا کا حکم دیا تھا ، اور انہیں شرک میں مبتلا کیا تھا ؟ امر ھم ضلوا السبیل کا یا ۔ لوگ از خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے ۔ سورة مائدہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست اس قسم کے سوال کا ذکر بھی آتا ہے۔ واذ قال اللہ یعسی ابن مریمء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ (آیت : 611) اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے سوال کریں گے کہ کیا تو نے ان لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو ۔ تو حضرت مسیح (علیہ السلام) نہایت عاجزی کے ساتھ جواب دیں گے کہ پروردگار ! تیری ذات پاک ہے ، بھلا میں وہ بات کیسے کرسکتا ہوں جس کے کرنے کا مجھے حق نہیں ہے۔ تو یہاں بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عابدوں اور معبودوں کو جمع کر کے جب معبودوں سے سوال کریں گے قالوا تو وہ جواب میں کہیں گے سبحنک پروردگار ! تیری ذات پاک ہے ما کان ینبغی لنا ان نتخذ من دونک من اولیاء یہ بات ہمارے لائق نہیں ہے کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو کار ساز بنائیں ۔ ہم تو خود تجھے ہی اپنا کار ساز مانتے رہے ہیں پھر بھلا ہم ان سے کیسے کہہ سکتے تھے کہ وہ ہمیں اپنا کار ساز تسلیم کرلیں ۔ مطلب یہ کہ مشرک لوگ دنیا میں جن مقربین الٰہی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے رہے ، وہ قیامت والے دن اپنی معبودیت کا صاف انکار کردیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے تو ان کو نہیں کہا تھا کہ ہمیں اپنا معبود بنا لو ۔ انہوں نے تو شیطان کے بہکاوے میں آ کر اور اپنی نفسانی خواہش کی بناء پر ہمیں اپنا کار ساز بنا لیا ۔ اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں یہ ۔ پھر وہ مقربین بارگاہ الٰہی میں مزید عرض کریں گے کہ مولا کریم ! اصل بات یہ ہے کہ ولکن متعتھم واباء ھم کہ تو نے ان کو اور ان کے آبائو اجداد کو دنیا میں طرح طرح کا فائدہ پہنچایا ۔ ان کو اپنی نعمتوں سے نوازا ، اسباب معیشت مہیا کیے ، مال و متاع کی فروانی دی اور دنیا کی زندگی میں ان کو خوشحال بنایا حتیٰ نسو الذکر یہاں تک کہ یہ تیری یاد کو ہی بھول گئے ۔ یہ لوگ دنیا کی آسودگی اور عیش و عشرت میں اس قدر منہمک ہوگئے کہ اپنے پروردگار کو بھی بھلا بیٹھے وکانوا قوما بوراً اور یہ تباہ و برباد ہونے والے لوگ بن گئے ۔ انہوں نے انبیاء کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ، کسی کو نصیحت پر کان نہ دھرا ۔ تیری نعمتوں اور مہربانیوں کا غلط فائدہ اٹھاتے رہے۔ ان کے حصے میں ہلاکت کے سوا کچھ نہی آیا۔ بور کا معنی اس آیت میں آمدہ الفاظ قوما بورا کا ترجمہ ہلاک ہونے والے لوگ کیا ہے۔ ان معانی کی تصدیق بعض دوسرے ذرائع سے بھی ہوتی ہے مثلاً حضور ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا میں یہ الفاظ آتے ہیں اللھم انی اعوذ بک من بورا الاقیم اے اللہ میں رانڈ ہونے کی تباہی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ عبد اللہ ابن زبعری ؓ عرب کا شاعر تھا۔ پہلے سخت مخالفین میں سے تھا مگر بعد میں اللہ نے ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ اس کے بعض اشعار میں بھی بورکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کہتا ہے 1 ؎ یا رسول الملیک ان لسانی راتق ما فتقت اذا اناابور اے اللہ کے پیغمبر اور بر حق رسول ! میری زبان اب ان چیزوں کو جوڑنے والی ہے ۔ جن کو میں توڑتا رہا ہوں جب کہ میں ہلاکت میں مبتلا تھا ۔ گویا جاہلیت میں نبی کی شان میں جو گستاخی کرتا تھا ، توحید کے خلاف مات کرتا تھا ، اب میں اپنے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا ہوں ۔ اب میری زبان سے حق و صداقت کی بات نکلے گی جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے والی بات ہو کی کہتا ہے کہ میں یہ اس وقت کی بات کر رہا ہوں۔ اذا جادی الشیطن فی سنن الغنی و من مال میلہ مشبور جب میں شیطان کے ساتھ گمراہی کے راستے پر چل رہا تھا۔ اور ان لوگوں نے راستے پر چل رہا تھا۔ جن کا میلان ہلاکت میں ڈال ہوا تھا۔ یعنی جو لوگ حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف چلے گئے تھے میں بھی ان کے پیچھے جا رہا تھا ، بہر حال بور کا معنی ہلاکت اور تباہی ہے۔ معبودان کا اعلان بیزاری جب مشرکین کے خود ساختہ معبودان اپنے متبعین سے اظہار بیزاری کردیں گے تو اللہ تعالیٰ ان متبعین سے فرمائے گا فقد کذبوکم بما تقولون تمہارے ان معبودان نے تمہاری بات کو جھٹلا دیا ہے تم کہا کرتے تھے کہ یہ تمہاری مدد کریں گے یا سفارش کر کے تمہیں بچا لیں گے اللہ نے ان کو اختیار دے رکھا ہے اور یہ لوگوں کی مشکلات حل کرتے ہیں ۔ انہوں نے تو آ ج تمہیں جھٹلا دیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ ہم تو خود اللہ کے سوا کسی کو کار ساز نہیں مانتے ، بھلا ہم دوسروں کو کیسے کہہ سکتے تھے کہ تم ہمیں کار ساز تسلیم کرلو ۔ فما تستطیعون صرفا آج حالت یہ ہے کہ تم اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے کہ اپنے آپ سے کسی تکلیف کو ہٹا سکو ۔ اس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی گرفت کو دوسری طرف نہیں پھیر سکتے۔ ولا نصرا اور نہ ہی تم ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہو ، اور نہ کوئی دوسرا مختاری مدد کرسکتا ہے۔ تمہارے معبودان نے بھی تم سے بیزاری کا اعلان کردیا ہے۔ خود ساختہ معبودان کا اپنے متبعین سے بیزاری کا مضمون قرآن پاک کے مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سورة بقرہ میں ہے اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا (آیت 661) جب کہ متبوع اپنے متبعین سے برأت کا اظہار کردیں گے ، اور وہ عذاب کر دیکھیں گے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے ۔ متبوع صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ ہمیں الٰہ تسلیم کرلو ۔ تم نے تو از خود یہ کام کیا ، لہٰذا آج نتائج کے ذمہ دار بھی تم خود ہو ۔ اس دن شیطان کا اتباع کرنے والے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ وہ بھی کہہ دے گا فلا تلوا مونی ولو موانفسکم ( ابراہیم : 22) آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ میرا تم پر کوئی تسلط تو نہیں تھا ، میں تو نہیں برائی کی طرف ترغیب دیتا تھا۔ دوسری طرف اللہ کے نبی تمہیں نیکی کی ترغیب دیتے تھے اور عذاب الٰہی سے ڈراتے تھے ، مگر تم نے ان کی بات نہ مانی اور میرے جھانسے میں آگئے ۔ اب اپنی کار گزاری کا مزا چکھو ۔ فرمایا ومن بظلم منکم نذقہ عذاباً کبیر تم میں سے جو کوئی ظلم کا ارتکاب کریگا ۔ ہم اس کو بڑا عذاب چکھائیں گے ۔ ظلم میں ہر قسم کی تعدی شامل ہے مگر یہاں پر خاص طور پر عقیدے کا ظلم یعنی کفر اور شرک مراد ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے والکفرون ھم الظمون ( البقرہ : 452) کفر کرنے والے ہی برے ظالم ہیں نیز فرماں ان الشرک لظم عظیم (لقمان : 31) شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ مقصدیہ کہ اگرچہ حق بمعنی …نا حق جیسے بڑے بڑے ظلم ہیں مگر عقیدے کا ظلم ایسا ہے۔ جسکی کوئی معانی نہیں ۔ اسی لیے فرمایا کہ ہم ظالم کو بڑا عذاب چکھائیں گے۔ بشریت اب کلی آیت اس سابقہ آیت کے جواب میں ہے جس میں معترضین نے اعتراض کیا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا ، پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ تو اللہ نے فرمایا تو اللہ نے فرمایا وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون الطعام و یمشون فی الاسواق آپ سے پہلے ہم نے کوئی ایسے رسول نہیں بھیجے مگر وہ کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، مشرک اور کافر لوازمات بشریہ کو رسالت کے منافی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری طرح کھانے پینے اور چلنے پھرنے والا رسول کیسے ہو سکتا ہے ، مگر اللہ نے ان کے اس باطل خیال کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ تمام انبیاء اور رسل انسان تھے اور ان میں تمام انسانی لوازمات منجملہ کھانا پینا ، سونا جاگنا ، صحت بیماری ، بیوی ، بچے ، رونا ہنسنا وغیرہ پائے جاتے تھے۔ اللہ نے سورة مائدہ میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کا ذکر کر کے فرمایا ہے کا تا یا کلن الطعام ( آیت : 57) دونوں کھانا کھاتے تھے جو کھانا کھاتا ہے اس کو قضائے حاجت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ تو یہ سب چیزیں لوازمات ِ بشریت میں سے ہیں جو تمام رسولوں میں پائی جاتی تھیں ۔ انبیاء ان چیزوں سے مستثنیٰ نہیں ہیں سورة الکہف میں صاف موجود ہے ۔ اللہ نے حضور ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے قل انما انا بشر مثلکم ( آیت : 011) آپ ان لوگوں پر واضح کردیں کہ میں تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ میں اپنے والدین کے گھر پیدا ہوا ۔ میرے بیوی بچے ہیں ، میں کام کاج کرتا ہوں ، بازار سے سودا سلف خریدتا ہوں۔ اس میں کون سی عیب والی بات ہے۔ ہاں میری خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے تمام امت پر شرف عطاء فرمائے ہے۔ مجھے معصوم عن الخطاء اور پاکیزہ کردار کا مالک بنایا ہے۔ اللہ نے سارے نبیوں کو خطاب فرمایا ہے یایھا الرسل کلوا من الطیب واعملوا صالحا ً ( المومنون : 15) کہ اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور نیک اعمال انجام دو ۔ یہی صفت اللہ نے ایمان والوں کی بھی بتلائی ہے کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ وَاشْکُرُوْا ِ اللہ ِ (البقرہ : 271) لوگو ! ہماری عطا کردہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ بازار میں جانا بازار میں جانا بذاتہٖ کوئی عیب والی بات نہیں ۔ ضرورت کے مطابق دکانداری کے لیے سودا سلف خریدنے کے لیے بازار میں جانا ہے تو اس میں کوئی حروج نہیں ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ بازار کے مقابلے میں اللہ نے مسجد کو بہت زیادہ فضلیت عطا فرمائی ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ نے یوں فرمایا ہے شر البقاع اسوا قھا و خیر البقاع مساجد ھا ( مسند احمد) یعنی بد تر خطے بازار ہیں اور بہترین خطے مساجد ہیں ۔ بازاروں کی قباحت اس وجہ سے ہے کہ وہاں تجارت کے دوران دھوکہ کا فریب اور غلط بیانی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ وگرنہ ضرورت کے تحت بازار میں جانا معیوب نہیں ہے۔ امام ترمذی نے حضرت عمر ؓ سے یہ روایت بیان کی ہے جسے ابو دائود طیاسی نے بھی روایت کی ہے۔ کہ جس شخص نے بازار میں داخل ہو کر یہ دعا پڑھی لا الہ اللہ وحدہٗ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت و ھو حتیٰ لا یموت بیدہ الخیر وھوعلی کل شی قدیر تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکی لکھ دیگا ۔ اس کے ایک لاکھ چھوٹے گناہ معاف کر دے گا اور ایک لاکھ درجات بلند فرمائے گا گویا بازار میں داخل ہو کر انسان اتنی نیکیاں بھی کما سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اپنے ایک شاگرد کے ہمراہ بازار جانے کے لیے تیار ہوئے تو شاگرد نے عرض کیا ، حضرت ! آپ نے کوئی خریداری تو کرنی نہیں ، پھر یہیں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام کریں ۔ فرمانے لگے ۔ (1 ؎ قرطبی ص 71 ج 31) (فیاض) تمہیں سمجھ نہیں ، ہم بازار میں سودا خریدنے کے لیے نہیں جاتے بلکہ وہاں ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں جن کو ہم سلام کرتے ہیں ایک دفعہ السلام علیکم رحمتہ اللہ و برکاتہٗ کہنے سے تیس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں ، لہٰذا یہ کوئی برا سودا نہیں ہے اگر کوئی شخص بازار میں غلط کام کے لیے جاتا ہے تو وہ اس کے لیے باعث وبال ہوگا ۔ ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ آگے ارشاد ہے۔ وجعلنا بعضکم لبعض فتنۃ ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے ذریعہ آزمائش بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے مثلا ً اللہ کے نبی منکرین کے لیے آزمائش کا ذریعہ ہیں اور وہ نبی کے لیے ذریعہ آزمائش ہیں ۔ جب کافر اور مشرک طعن اور تشنیع اور بیہودہ اعتراض کرتے ہیں ۔ توہین آمیز باتیں کرتے ہیں تو یہ چیزیں اللہ کے نبی اور اہل ایمان کے لیے آززائش ہوتی ہیں کہ وہ کس حد تک صبر سے کام لیتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ کے نبی اور اہل ایمان نافرمانوں کے لیے ذریعہ آزمائش ہیں کہ وہ ان کی اطاعت کر کے اپنے لیے آخرت کا سامان پیدا کرتے ہیں یا نافرمانی کرکے ہمیشہ کی ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح فقیر دولت مند کے لیے آزمائش کا ذریعہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں ۔ اور فقیر اس لحاظ سے مبتلائے آزمائش ہوتا ہے کہ وہ اس حالت میں صبر کا دامن تھامتا ہے یا جزع فزع کرتا ہے ۔ چناچہ بیمار تندرست کے لیے اور صحت مند مریض کے لیے ذریعہ آزمائش ہے۔ بادشاہ رعیت کے لیے اور رعیت حاکم کے لیے آزمائش کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اب یہ تم پر موقوف ہے کہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتے ہو۔ فرمایا : اس آزمائش کا مقصد یہ دیکھنا ہے اتصبرون کہ کیا تم صبر کرتے ہو ؟ ہر شخص کسی نہ کسی طرح امتحان سے گزر رہا ہے ۔ کیا اہل ایمان کفار کی ایذا رسانیوں پر صبر کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور کیا عام لوگ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت پر اس کا شکر یہ بھی ادا کرتے ہیں یا نہیں ؟ غرضیکہ کوئی بھی شخص آزمائش سے مستثنیٰ نہیں ۔ فرمایا وکان ربک بصیر ًتیرا پروردگار تجھے ہر آن دیکھ رہا ہے ۔ تمہارا ہر عمل اور کائنات کی ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے وہ انسانوں کی نیت اور ارادے کو بھی جانتا ہے اور پھر وہ ہر ایک کے ساتھ اس کے عقیدے اور عمل کے مطابق ہی سلوک کریگا۔ نظریہ مساوات اس آیت سے موجودہ زمانے کا نظریہ مساوات بھی باطل ثابت ہوتا ہے اللہ نے انسانوں کی صلاحیت اور استعداد یکساں نہیں رکھی ، اسی لیے ان کے اشغال بھی یکساں نہیں ، جب ان کی ذہانت بھی یکساں نہیں تو پھر ان میں مساوات کیسے قائم کی جاسکتی ہے ؟ اصل مسئلہ معیشت کا ہے جسے قرآن اور حضور ﷺ کی سنت نے بیان کیا ہے کہ ہر انسان بلکہ ہر جاندار کو حق معیشت حاصل ہونا چاہیے اور کوئی بھی اس حق سے محروم نہیں رہنا چاہئے کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے ۔ کوئی انسان بھوکا کا ننا نہیں رہنا چاہئے۔ ہر ایک کو مکان ، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات ملنی چاہیں ۔ تا ہم جہاں تک درجات کا تعلق ہے یہ برابر نہیں ہو سکتے ۔ ہر شخص کو اس کی قابلیت کے مطابق ہی مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بنی نوع انسان کی تمام ارواح کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے حاضر کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا ، پروردگار ! لولا سویت بین عبادک تو نے اپنے بندوں کے درمیان مساوات کیوں نہیں قائم کی ۔ کوئی بھاری بھر کم ہے ، کوئی کمزور ، کوئی صحت مند اور کوئی بیماری ، کوئی امیر ہے اور کوئی غریب ، کوئی گورا ہے اور کوئی کالا ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اگر میں ان سب کو برابر کردیتا تو مجھے پہنچاننے والا کوئی نہ ہوتا بلکہ سب کے سب نافرمان ہوجاتے ۔ حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ (معالم التنزیل ص 19 ج 3 و خازن ص 79 ج 5 ( فیاض) مبارک ہے اذا نظر احد کم الیٰ من فض علیہ فی المسال و الجسم جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو تم میں مال اور جسم میں فضلیت رکھتا ہے ، یعنی اللہ نے اس کو مال بھی زیادہ دیا ہے اور صحت بھی اچھی عطا کی ہے ، تو فرمایا فلینظر الی من ھو اسفل منہ تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے سے کم تر آدمی کی طرف دیکھے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو الا تذدروا نعمۃ اللہ اللہ کی نعمت کو حقیر نہیں سمجھو گے ۔ بلا شبہ تم سے اعلیٰ حیثیت کے لوگ بھی ہیں مگر تم سے کمزور ، نادار اور مفلس لوگ بھی تو ہیں ۔ ان کی طرف دیکھو گے تو اپنی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرو گے ، اور اگر اوپر والوں کی طرف ہی دیکھتے رہے تو پھر ناشکر گزاری میں مبتلا ہو کر اللہ کی نعمتوں سے محروم ہو سکتے ہو۔
Top