Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا
: اور جب ہم نے کہا
ادْخُلُوْا
: تم داخل ہو
هٰذِهِ
: اس
الْقَرْيَةَ
: بستی
فَكُلُوْا
: پھر کھاؤ
مِنْهَا
: اس سے
حَيْثُ شِئْتُمْ
: جہاں سے تم چاہو
رَغَدًا
: با فراغت
وَادْخُلُوْا
: اور تم داخل ہو
الْبَابَ
: دروازہ
سُجَّدًا
: سجدہ کرتے ہوئے
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
حِطَّةٌ
: بخش دے
نَغْفِرْ
: ہم بخش دیں گے
لَكُمْ
: تمہیں
خَطَايَاكُمْ
: تمہاری خطائیں
وَسَنَزِيْدُ
: اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے
الْمُحْسِنِیْنَ
: نیکی کرنے والوں کو
اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے کہا داخل ہوجاؤ اس بستی میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں بھی تم چاہو کشادگی سے۔ اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے۔ اور کہو بخشش۔ ہم بخش دیں گے تمہاری غلطیوں کو۔ اور زیادہ دیں گے ہم نیکی کرنے والوں کو
ربط آیات : جس طرح ابتداء رکوع میں بنی اسرائیل سے خطاب تھا۔ “ یبنی اسراء یل اذکروا نعمت التی انعمت علیکم ” اسی طرح ان آیات کے مخاطب بھی بنی اسرائیل ہی ہیں۔ جہاں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کے تم کو سرکشی اور نافرمانی کا حال بھی بیان ہو رہا ہے۔ انعامات میں سے فرعون کی غلامی سے آزادی کتاب توراۃ کا حصول اور من و سلوٰی کا ذکر ہوا۔ پھر ان کی نافرمانی کا ذکر ہوا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بےادبی کی۔ جس پر انہیں سزا بھی ملی۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے معاف بھی کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم جہاد کی تیاری کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں شام و فلسطین کا وہ علاقہ واپس دلادیں گے جو تمہارے آباؤ اجداد کا مسکن رہا ہے۔ مگر بنی اسرائیل نے انکار کردیا۔ کہنے لگے وہاں پر بڑے سخت لوگ ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر وہ خود بخود اس بستی سے نکل جائیں ۔ تو ہم وہاں جانے کو تیار ہیں۔ اس کی مکمل تفصیلات تو سورة مائدہ میں ہیں۔ تاہم کچھ باتیں سورة بقرہ میں بھی آرہی ہیں۔ ان کی نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل ستر سال تک تیہہ کے بیابان میں سرگردان پھرتے رہے۔ بستی میں داخلہ : اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے تمرد اور سرکشی کا حال بیان فرما کر دوسرے لوگوں کو متنبہ کردیا ہے کہ سرکشی کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت آتی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو من و سلوٰی کھاتے ہوئے کئی سال گزر گئے بعض روایات (1 ۔ ) میں اٹھارہ سال کا ذکر آتا ہے۔ تو انہوں نے بعض دوسری چیزوں کا مطالبہ شروع کردیا ۔ جس کا ذکر اگلے رکوع میں آئے گا۔ کہ ہم ایک ہی طرح کا کھانا کھا کر تنگ آگئے ہیں۔ من و سلوٰی کی بجائے سبزیاں اور دال وغیرہ کھانے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ اگر تم ایسا ہی چاہتے ہو تو اس بستی میں چلے جاؤ وہاں پر یہ چیزیں تمہیں میسر آجائیں گی۔ وہ کون سے بستی تھی جس میں بنی اسرائیل کو داخلے کا حکم ہوا تھا۔ اس کے متعلق مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض مفسرین (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 98) اسے بیت المقدس سے منسوب کرتے ہیں ۔ مگر یہ درست نہیں زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ وہ اریحا نامی بستی تھی (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 253) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بستی کے لوگوں سے جہاد کرو۔ تو اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرے گا۔ اس معاملہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ مذکوہ بستی میں داخلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں واقع ہوا یا ان کے بعد ۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ وہ بستی موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد فتح ہوئی۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کی نئی نسل جہاد پر آمادہ ہوئی۔ تو انہیں شام و فلسطین پر غلبہ حاصل ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ من و سلوٰی کی بجائے دوسری خوراک کی طلب ہے تو اس اریحا نامی بستی میں داخل ہوجاؤ۔ وہاں تمہیں تمہاری مطلوبہ چیزیں میسر آئیں گی۔ فرمایا “ واذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ ” اور اس وقت کو یاد کرو۔ جب اے بنی اسرائیل ! ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ “ فکلوا منھا حیث شئتم رغدا ” کھاؤ اس میں کھلے طور پر وسعت کے ساتھ تمہیں اس معاملہ میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ہاں یہ بات یاد رکھو۔ کہ “ وادخلوا الباب سجدا ” اور اس بستی کے دروازے میں داخل ہو سجدہ کرتے ہوئے ۔ سجدہ شکر : بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ کرنے سے مراد سجدہ شکر ادا کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں فتح عطا کی ہے۔ اس بستی کا قبضہ دلایا ہے۔ تو اس کے بدلے غرور وتکبر نہ کرنا بلکہ عاجزی اور انکساری کرتے ہوئے سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا کرنا انبیاء (علیہم السلام) کا عمل اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ مستدرک حاکم ج 3 ص 47 ، سیرت ابن ہشام ج 2 ص 405) کہ جب مکہ معظمہ فتح ہوا۔ تو حضور ﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ اور داخلے کے وقت آپ سر کو جھکائے ہوئے تھے۔ آپ اکڑ کر داخل نہیں ہوئے۔ بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر آپ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نماز ادا کی یہ چاشت کا وقت تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایران کا پایہ تخت مدائن فتح کیا۔ اور آپ نے اس قلعہ میں جا کر آٹھ رکعت نماز ادا کی یہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر تھا۔ جو فتح و کامیابی پر پیش کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل کو بھی یہی حکم تھا کہ جب فتح حاصل ہوجائے۔ اور اس بستی میں داخل ہونے لگو تو نخوت وتکبر کی بجائے عاجزی دکھاتے ہوئے اور سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہو۔ کیونکہ یہ آسمانی تعلیمات کا اہم اصول ہے۔ معرکہ بدر میں بڑے بڑے کفار مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی تو اہل ایمان نے شکرانہ کے طور پر دو نفل پڑھے۔ اور اس بات پر اللہ رب العزت کا شکر یہ ادا کیا۔ کہ ا س نے اہل ایمان کو ظالموں سے نجات دلائی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بحر قلزم سے باہر نکالا اور لشکر فرعون کو غرق کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔ کیونکہ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے کہ جب کوئی نعمت ملے تو سجدہ زکر بجا لاتے ہیں شریعت محمدیہ میں سجدہ شکر کی بجا آوری نہایت مستحسن فعل ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں (2 ۔ حاشیہ مغوۃ ص 131 بحوالہ لمحات) کہ سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز نفل ادا کرنی چاہئے ۔ تاہم صرف سجدہ کرلینا بھی درست ہے۔ استغفاری برکات : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دو احکام دیے تھے۔ ایک تو یہ کہ اس بستی میں سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ “ وقولوا حطۃ ” اور زبان سے یوں کہیں کہ اے اللہ ! ہماری غلطیوں کو معاف فرما دے۔ حطہ کا لفظی معنی گرا دینا ہے۔ ہماری خطاؤں کو گرا دے۔ لفظ حطۃ دراصل “ احطط عنا حطا ” کا مخفف ہے بمعنی ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں اور خطاؤں کو مٹا دے ، معاف کر دے یا درگزر فرما۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سجدہ اور استغفار کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر تم اپنی خواہش کے مطابق خوراک حاصل کرنا چاہتے ہو تو ان دو شرائط کے ساتھ بستی اریحا میں داخل ہوجاؤ۔ بزرگ فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ ہر چیز کی کوئی ابتداء ہوتی ہے۔ “ واول الخیر الاستغفار ” اور خیر کی ابتداء استغفار سے ہوتی ہے۔ یعنی انسان اپنی غلطیوں کی معافی طلب کرے۔ ابن ماجہ اور ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے (2 ۔ ابن ماجہ ص 313) “ وخیر الخطاء ین التوابون ” ہر شخص خطا کار ہے غلطیان سرزد ہوتی رہتی ہیں مگر بہترین خطا کار وہ ہیں جو تو بہ کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے (2 ۔ ابن ماجہ ص 313) کہ “ التائب من الذنب لمن لاذنب لہ ” گناہ سے توبہ کرلینے والا ایسا ہی ہے جیسا اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ فرمایا جب تم استغفار کر لوگے مجھ سے معافی مانگ لوگے۔ تو پھر میں اس کا صلہ یہ دوں گا۔ کہ “ نغفرلکم خطیکم ” ہم تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو بخشش دیں گے۔ معاف کردیں گے۔ اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ “ وسنزید المحسنین ” نیکوکاروں کو مزید اجر عطا فرمائیں گے۔ حکم خداوندی میں تبدیلی : بنی اسرائیل کی طبیعتوں میں تمرد اور سرکشی گھر کرچکی تھی وہ معمولی سے معمولی حکم بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ “ فبدل الذین ظلموا ” پس تبدیل کردی ان لوگوں نے جنہوں نے ظلم کیا “ قولا غیر الذی قیل لھم ” وہ بات جو انہیں کہی گئی تھی۔ یعنی انہیں حکم تو یہ تھا کہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے جائیں۔ وہ اکڑتے ہوئے اور چوتڑ گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اسی طرح حکم یہ تھا کہ زبان سے استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں۔ مگر انہوں نے لفظ “ حطۃ ” کی بجائے “ حنطۃ ” کہنا شروع کردیا (1 ۔ بخاری ج 2 ص 643 ، مسلم ج 2 ص 415 ، معالم التنزیل ج 1 ص 29 ، روح المعانی ج 1 ص 266 ، ابن کثیر ج 1 ص 99) کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ اے اللہ ہمیں معاف کر دے۔ “ حطۃ ” مگر انہوں نے کہا “ حبۃ فی شعرۃ ” یعنی ہمیں تو خوشے کے اندر گندم چاہئے۔ ایسی ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگے۔ جو کہ حد درجے کی بےادبی ، گستاخی اور سرکشی تھی۔ یہاں پر لفظ “ ظلموا ” کہہ کر اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ احکام کو تبدیل کرنے والے سارے کے سارے بنی اسرائیل نہیں تھے ۔ بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ظلم کیا۔ جس طرح بچھڑے کی پوجا کرنے والے بھی سارے کے سارے لوگ نہیں تھے۔ اسی طرح احکام میں تبدیلی کے مرتکب بھی کچھ لوگ تھے۔ چناچہ آگے ان کی سزا کا ذکر بھی آتا ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کی نص میں تبدیلی کی جو کہ بہت بری بات ہے۔ انہیں تو اتباع کرنا چاہئے تھا۔ انسان مامور ہے۔ لہٰذا اسے اللہ تعالیٰ کے ہر فرمان پر سرتسلیم خم کرلینا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جو کوئی بھی احکام خداوندی میں تغیر و تبدل کا باعث بنے گا ۔ وہ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوگا۔ عائلی قوانین اور حق شفعہ : اسلامی اصولوں میں تغیر و تبدیل ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ اس دور میں ہمارے ہاں بھی بعض تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ جنرل ایوب خاب کے زمانے میں عائلی قوانین نافذ ہوئے۔ علمائے کرام نے ہر چند احتجاج کیا۔ کہ اس کی بعض شقیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں مگر حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ قوانین آج تک نافذ چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح شفعہ کا قانون بنایا گیا ۔ احادیث کی رو سے شفعہ صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے روا ہے۔ یعنی شفعہ کا وہ شخص حقدار ہے جو یا تو جائیداد کی ملکیت میں شریک ہو یا حق میں شریک ہو یا پڑوسی ہو۔ مگر اب دو قسمیں اور بھی ملا کی گئی ہیں۔ حالانکہ امام شافعی تو پڑوسی کے حق کے بھی قائل نہیں (2 ۔ ہدایہ اخیرین ص 328 کتاب الشفعہ) مگر اس زمانے میں مزارع اور بائع کے لڑکے وغیرہ کو بھی حق شفعہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ خدائی قانون میں ترمیم نہیں تو اور کیا ہے ۔ وراثت میں لڑکی کا حصہ : لڑکیوں کی وراثت سے محرومی بھی خدائی احکام میں تبدیلی کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لڑکوں اور لڑکیوں ہر دو کو وراثت میں حصہ دیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس میں بھی ردوبدل ہوا ہے۔ لڑکیوں کی وراثت کے اکثر لوگ قائل نہیں اس ملک میں انگریز آیا تو اس نے خود لوگوں سے پوچھا کہ تم اپنے معاملات کو شریعت کی رو سے نپٹانا چاہتے ہو۔ یا رواج کے مطابق تو بعض اضلاع کے لوگوں نے رواج کے مطابق تقسیم کو قبول کیا۔ چناچہ یہ قانون آج تک موجود ہے کہ وراثت کی تقسیم رواج کے مطابق کی جاتی ہے۔ جس سے لڑکی محروم ہوجاتی ہے۔ صوبہ سرحد میں یہ قانون ڈاکٹر خان کی وزارت میں نافذ ہوا۔ مال کا سارا عملہ اس قانون کا پابند تھا۔ افسر مال ، تحصیلدار ، پٹواری وغیرہ اسی کے مطابق انتقال چڑجاتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہاں پر ایک شخص کا چھ مربع میل پہاڑی رقبہ تھا۔ اس نے ساری جائیدار دو لڑکوں کے نام ہبہ کرکے لڑکیوں کو محروم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا پر ہی یہ سزا دی کہ لقوے کی بیماری میں مبتلا ہوا وہ جب تک زندہ رہا اس کا منہ ٹیڑھا رہا۔ دونوں لڑکے بھی آپس میں لڑتے پھرتے رہے۔ ایک نے دوسرے پر گولی چلادی اور اسکا بازوکٹ گیا۔ اس طرح گویا اس شخص کو اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرکے سکھ نصیب نہ ہوسکا۔ ظالموں کا حشر : بہرحال خدا تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام میں ردوبدل بہت بری بات ہے اور قابل عذاب ہے۔ مگر بنی اسرائیل کے بعض ظالم لوگوں نے اس بات کو بدل دیا جو انہیں کہی گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ “ فانزلنا علی الذین ظلموا ” جن لوگوں نے ظلم کیا۔ ہم نے ان پر نازل کیا “ رجز من السماء ” آسمان سے عذاب ، مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ ص 258 ، تفسیر ابو السعود ج 1 ص 83 ، روح المعانی ج 1 ص 267) کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کی بیماری کی صورت میں عذاب نازل کیا صرف ایک دن میں چوبیس ہزار اشخاص لقمہ اجل ہوئے۔ اور کل ستر ہزار آدمی اس عذاب میں مبتلا ہو کر اپنے انجام کو پہنچے ، دو چار دن کے اندر اس بیماری نے اپنا کام کیا اور بنی اسرائیل کا صفایا ہوگیا۔ فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ “ بما کانوا لفسقون ” وہ لوگ فسق کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی نافرمانی کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ اگر آج بھی کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ تو وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی زد میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مہلت دے دے تو یہ اس کی حکمت ہے۔ ورنہ اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ زمین کی آبادی اور بربادی : امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 23) کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کی آبادی نیکی اور اطاعت سے ہوتی ہے اور مخلوق کی برائیوں کی وجہ سے اس کی بربادی ہوتی ہے۔ فسق و فجور کو آپ بیشک ترقی کا نام دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کھیل تماشہ ، لہو و لعب ، بدکاری ، فحاشی ، زنا ، سود خواری وغیرہ سب بگاڑ کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ زمین میں فساد پھیلانا ہے آبادی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ کیونکہ زمین کی آبادی تو بہرحال نیکی اور خدا تعالیٰ کی اطاعت سے ہوگی۔ جس قدر سکھ چین نصیب ہوگا۔ اسی قدر آبادی ہوگی۔ جس قدر گناہوں میں اضافہ ہوگا۔ اتنی ہی بےچینی بڑھے گی۔ لوگ اضطراب اور طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوں گے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ نافرمانی بہت بری چیز ہے۔ اس سے بچنا چاہئے ان آیات میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ہم سب کے لئے تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے کہ نیکی اور بدی میں تمیز کریں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں ، نافرمانی سے پرہیز کریں۔
Top