Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے کہا داخل ہوجاؤ اس بستی میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں بھی تم چاہو کشادگی سے۔ اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے۔ اور کہو بخشش۔ ہم بخش دیں گے تمہاری غلطیوں کو۔ اور زیادہ دیں گے ہم نیکی کرنے والوں کو
ربط آیات : جس طرح ابتداء رکوع میں بنی اسرائیل سے خطاب تھا۔ “ یبنی اسراء یل اذکروا نعمت التی انعمت علیکم ” اسی طرح ان آیات کے مخاطب بھی بنی اسرائیل ہی ہیں۔ جہاں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کے تم کو سرکشی اور نافرمانی کا حال بھی بیان ہو رہا ہے۔ انعامات میں سے فرعون کی غلامی سے آزادی کتاب توراۃ کا حصول اور من و سلوٰی کا ذکر ہوا۔ پھر ان کی نافرمانی کا ذکر ہوا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بےادبی کی۔ جس پر انہیں سزا بھی ملی۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے معاف بھی کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم جہاد کی تیاری کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں شام و فلسطین کا وہ علاقہ واپس دلادیں گے جو تمہارے آباؤ اجداد کا مسکن رہا ہے۔ مگر بنی اسرائیل نے انکار کردیا۔ کہنے لگے وہاں پر بڑے سخت لوگ ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر وہ خود بخود اس بستی سے نکل جائیں ۔ تو ہم وہاں جانے کو تیار ہیں۔ اس کی مکمل تفصیلات تو سورة مائدہ میں ہیں۔ تاہم کچھ باتیں سورة بقرہ میں بھی آرہی ہیں۔ ان کی نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل ستر سال تک تیہہ کے بیابان میں سرگردان پھرتے رہے۔ بستی میں داخلہ : اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے تمرد اور سرکشی کا حال بیان فرما کر دوسرے لوگوں کو متنبہ کردیا ہے کہ سرکشی کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت آتی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو من و سلوٰی کھاتے ہوئے کئی سال گزر گئے بعض روایات (1 ۔ ) میں اٹھارہ سال کا ذکر آتا ہے۔ تو انہوں نے بعض دوسری چیزوں کا مطالبہ شروع کردیا ۔ جس کا ذکر اگلے رکوع میں آئے گا۔ کہ ہم ایک ہی طرح کا کھانا کھا کر تنگ آگئے ہیں۔ من و سلوٰی کی بجائے سبزیاں اور دال وغیرہ کھانے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ اگر تم ایسا ہی چاہتے ہو تو اس بستی میں چلے جاؤ وہاں پر یہ چیزیں تمہیں میسر آجائیں گی۔ وہ کون سے بستی تھی جس میں بنی اسرائیل کو داخلے کا حکم ہوا تھا۔ اس کے متعلق مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض مفسرین (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 98) اسے بیت المقدس سے منسوب کرتے ہیں ۔ مگر یہ درست نہیں زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ وہ اریحا نامی بستی تھی (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 253) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بستی کے لوگوں سے جہاد کرو۔ تو اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرے گا۔ اس معاملہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ مذکوہ بستی میں داخلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں واقع ہوا یا ان کے بعد ۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ وہ بستی موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد فتح ہوئی۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کی نئی نسل جہاد پر آمادہ ہوئی۔ تو انہیں شام و فلسطین پر غلبہ حاصل ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ من و سلوٰی کی بجائے دوسری خوراک کی طلب ہے تو اس اریحا نامی بستی میں داخل ہوجاؤ۔ وہاں تمہیں تمہاری مطلوبہ چیزیں میسر آئیں گی۔ فرمایا “ واذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ ” اور اس وقت کو یاد کرو۔ جب اے بنی اسرائیل ! ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ “ فکلوا منھا حیث شئتم رغدا ” کھاؤ اس میں کھلے طور پر وسعت کے ساتھ تمہیں اس معاملہ میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ہاں یہ بات یاد رکھو۔ کہ “ وادخلوا الباب سجدا ” اور اس بستی کے دروازے میں داخل ہو سجدہ کرتے ہوئے ۔ سجدہ شکر : بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ کرنے سے مراد سجدہ شکر ادا کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں فتح عطا کی ہے۔ اس بستی کا قبضہ دلایا ہے۔ تو اس کے بدلے غرور وتکبر نہ کرنا بلکہ عاجزی اور انکساری کرتے ہوئے سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا کرنا انبیاء (علیہم السلام) کا عمل اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ مستدرک حاکم ج 3 ص 47 ، سیرت ابن ہشام ج 2 ص 405) کہ جب مکہ معظمہ فتح ہوا۔ تو حضور ﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ اور داخلے کے وقت آپ سر کو جھکائے ہوئے تھے۔ آپ اکڑ کر داخل نہیں ہوئے۔ بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر آپ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نماز ادا کی یہ چاشت کا وقت تھا۔ اسی طرح جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایران کا پایہ تخت مدائن فتح کیا۔ اور آپ نے اس قلعہ میں جا کر آٹھ رکعت نماز ادا کی یہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر تھا۔ جو فتح و کامیابی پر پیش کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل کو بھی یہی حکم تھا کہ جب فتح حاصل ہوجائے۔ اور اس بستی میں داخل ہونے لگو تو نخوت وتکبر کی بجائے عاجزی دکھاتے ہوئے اور سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہو۔ کیونکہ یہ آسمانی تعلیمات کا اہم اصول ہے۔ معرکہ بدر میں بڑے بڑے کفار مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی تو اہل ایمان نے شکرانہ کے طور پر دو نفل پڑھے۔ اور اس بات پر اللہ رب العزت کا شکر یہ ادا کیا۔ کہ ا س نے اہل ایمان کو ظالموں سے نجات دلائی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بحر قلزم سے باہر نکالا اور لشکر فرعون کو غرق کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔ کیونکہ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے کہ جب کوئی نعمت ملے تو سجدہ زکر بجا لاتے ہیں شریعت محمدیہ میں سجدہ شکر کی بجا آوری نہایت مستحسن فعل ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں (2 ۔ حاشیہ مغوۃ ص 131 بحوالہ لمحات) کہ سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز نفل ادا کرنی چاہئے ۔ تاہم صرف سجدہ کرلینا بھی درست ہے۔ استغفاری برکات : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دو احکام دیے تھے۔ ایک تو یہ کہ اس بستی میں سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ “ وقولوا حطۃ ” اور زبان سے یوں کہیں کہ اے اللہ ! ہماری غلطیوں کو معاف فرما دے۔ حطہ کا لفظی معنی گرا دینا ہے۔ ہماری خطاؤں کو گرا دے۔ لفظ حطۃ دراصل “ احطط عنا حطا ” کا مخفف ہے بمعنی ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں اور خطاؤں کو مٹا دے ، معاف کر دے یا درگزر فرما۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سجدہ اور استغفار کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر تم اپنی خواہش کے مطابق خوراک حاصل کرنا چاہتے ہو تو ان دو شرائط کے ساتھ بستی اریحا میں داخل ہوجاؤ۔ بزرگ فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ ہر چیز کی کوئی ابتداء ہوتی ہے۔ “ واول الخیر الاستغفار ” اور خیر کی ابتداء استغفار سے ہوتی ہے۔ یعنی انسان اپنی غلطیوں کی معافی طلب کرے۔ ابن ماجہ اور ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے (2 ۔ ابن ماجہ ص 313) “ وخیر الخطاء ین التوابون ” ہر شخص خطا کار ہے غلطیان سرزد ہوتی رہتی ہیں مگر بہترین خطا کار وہ ہیں جو تو بہ کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے (2 ۔ ابن ماجہ ص 313) کہ “ التائب من الذنب لمن لاذنب لہ ” گناہ سے توبہ کرلینے والا ایسا ہی ہے جیسا اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ فرمایا جب تم استغفار کر لوگے مجھ سے معافی مانگ لوگے۔ تو پھر میں اس کا صلہ یہ دوں گا۔ کہ “ نغفرلکم خطیکم ” ہم تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو بخشش دیں گے۔ معاف کردیں گے۔ اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ “ وسنزید المحسنین ” نیکوکاروں کو مزید اجر عطا فرمائیں گے۔ حکم خداوندی میں تبدیلی : بنی اسرائیل کی طبیعتوں میں تمرد اور سرکشی گھر کرچکی تھی وہ معمولی سے معمولی حکم بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ “ فبدل الذین ظلموا ” پس تبدیل کردی ان لوگوں نے جنہوں نے ظلم کیا “ قولا غیر الذی قیل لھم ” وہ بات جو انہیں کہی گئی تھی۔ یعنی انہیں حکم تو یہ تھا کہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے جائیں۔ وہ اکڑتے ہوئے اور چوتڑ گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اسی طرح حکم یہ تھا کہ زبان سے استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں۔ مگر انہوں نے لفظ “ حطۃ ” کی بجائے “ حنطۃ ” کہنا شروع کردیا (1 ۔ بخاری ج 2 ص 643 ، مسلم ج 2 ص 415 ، معالم التنزیل ج 1 ص 29 ، روح المعانی ج 1 ص 266 ، ابن کثیر ج 1 ص 99) کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ اے اللہ ہمیں معاف کر دے۔ “ حطۃ ” مگر انہوں نے کہا “ حبۃ فی شعرۃ ” یعنی ہمیں تو خوشے کے اندر گندم چاہئے۔ ایسی ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگے۔ جو کہ حد درجے کی بےادبی ، گستاخی اور سرکشی تھی۔ یہاں پر لفظ “ ظلموا ” کہہ کر اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ احکام کو تبدیل کرنے والے سارے کے سارے بنی اسرائیل نہیں تھے ۔ بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ظلم کیا۔ جس طرح بچھڑے کی پوجا کرنے والے بھی سارے کے سارے لوگ نہیں تھے۔ اسی طرح احکام میں تبدیلی کے مرتکب بھی کچھ لوگ تھے۔ چناچہ آگے ان کی سزا کا ذکر بھی آتا ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کی نص میں تبدیلی کی جو کہ بہت بری بات ہے۔ انہیں تو اتباع کرنا چاہئے تھا۔ انسان مامور ہے۔ لہٰذا اسے اللہ تعالیٰ کے ہر فرمان پر سرتسلیم خم کرلینا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جو کوئی بھی احکام خداوندی میں تغیر و تبدل کا باعث بنے گا ۔ وہ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوگا۔ عائلی قوانین اور حق شفعہ : اسلامی اصولوں میں تغیر و تبدیل ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ اس دور میں ہمارے ہاں بھی بعض تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ جنرل ایوب خاب کے زمانے میں عائلی قوانین نافذ ہوئے۔ علمائے کرام نے ہر چند احتجاج کیا۔ کہ اس کی بعض شقیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں مگر حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ قوانین آج تک نافذ چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح شفعہ کا قانون بنایا گیا ۔ احادیث کی رو سے شفعہ صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے روا ہے۔ یعنی شفعہ کا وہ شخص حقدار ہے جو یا تو جائیداد کی ملکیت میں شریک ہو یا حق میں شریک ہو یا پڑوسی ہو۔ مگر اب دو قسمیں اور بھی ملا کی گئی ہیں۔ حالانکہ امام شافعی تو پڑوسی کے حق کے بھی قائل نہیں (2 ۔ ہدایہ اخیرین ص 328 کتاب الشفعہ) مگر اس زمانے میں مزارع اور بائع کے لڑکے وغیرہ کو بھی حق شفعہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ خدائی قانون میں ترمیم نہیں تو اور کیا ہے ۔ وراثت میں لڑکی کا حصہ : لڑکیوں کی وراثت سے محرومی بھی خدائی احکام میں تبدیلی کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لڑکوں اور لڑکیوں ہر دو کو وراثت میں حصہ دیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس میں بھی ردوبدل ہوا ہے۔ لڑکیوں کی وراثت کے اکثر لوگ قائل نہیں اس ملک میں انگریز آیا تو اس نے خود لوگوں سے پوچھا کہ تم اپنے معاملات کو شریعت کی رو سے نپٹانا چاہتے ہو۔ یا رواج کے مطابق تو بعض اضلاع کے لوگوں نے رواج کے مطابق تقسیم کو قبول کیا۔ چناچہ یہ قانون آج تک موجود ہے کہ وراثت کی تقسیم رواج کے مطابق کی جاتی ہے۔ جس سے لڑکی محروم ہوجاتی ہے۔ صوبہ سرحد میں یہ قانون ڈاکٹر خان کی وزارت میں نافذ ہوا۔ مال کا سارا عملہ اس قانون کا پابند تھا۔ افسر مال ، تحصیلدار ، پٹواری وغیرہ اسی کے مطابق انتقال چڑجاتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہاں پر ایک شخص کا چھ مربع میل پہاڑی رقبہ تھا۔ اس نے ساری جائیدار دو لڑکوں کے نام ہبہ کرکے لڑکیوں کو محروم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا پر ہی یہ سزا دی کہ لقوے کی بیماری میں مبتلا ہوا وہ جب تک زندہ رہا اس کا منہ ٹیڑھا رہا۔ دونوں لڑکے بھی آپس میں لڑتے پھرتے رہے۔ ایک نے دوسرے پر گولی چلادی اور اسکا بازوکٹ گیا۔ اس طرح گویا اس شخص کو اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرکے سکھ نصیب نہ ہوسکا۔ ظالموں کا حشر : بہرحال خدا تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام میں ردوبدل بہت بری بات ہے اور قابل عذاب ہے۔ مگر بنی اسرائیل کے بعض ظالم لوگوں نے اس بات کو بدل دیا جو انہیں کہی گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ “ فانزلنا علی الذین ظلموا ” جن لوگوں نے ظلم کیا۔ ہم نے ان پر نازل کیا “ رجز من السماء ” آسمان سے عذاب ، مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ ص 258 ، تفسیر ابو السعود ج 1 ص 83 ، روح المعانی ج 1 ص 267) کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کی بیماری کی صورت میں عذاب نازل کیا صرف ایک دن میں چوبیس ہزار اشخاص لقمہ اجل ہوئے۔ اور کل ستر ہزار آدمی اس عذاب میں مبتلا ہو کر اپنے انجام کو پہنچے ، دو چار دن کے اندر اس بیماری نے اپنا کام کیا اور بنی اسرائیل کا صفایا ہوگیا۔ فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ “ بما کانوا لفسقون ” وہ لوگ فسق کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی نافرمانی کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ اگر آج بھی کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ تو وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی زد میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مہلت دے دے تو یہ اس کی حکمت ہے۔ ورنہ اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ زمین کی آبادی اور بربادی : امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 23) کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کی آبادی نیکی اور اطاعت سے ہوتی ہے اور مخلوق کی برائیوں کی وجہ سے اس کی بربادی ہوتی ہے۔ فسق و فجور کو آپ بیشک ترقی کا نام دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کھیل تماشہ ، لہو و لعب ، بدکاری ، فحاشی ، زنا ، سود خواری وغیرہ سب بگاڑ کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ زمین میں فساد پھیلانا ہے آبادی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ کیونکہ زمین کی آبادی تو بہرحال نیکی اور خدا تعالیٰ کی اطاعت سے ہوگی۔ جس قدر سکھ چین نصیب ہوگا۔ اسی قدر آبادی ہوگی۔ جس قدر گناہوں میں اضافہ ہوگا۔ اتنی ہی بےچینی بڑھے گی۔ لوگ اضطراب اور طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوں گے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ نافرمانی بہت بری چیز ہے۔ اس سے بچنا چاہئے ان آیات میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ہم سب کے لئے تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے کہ نیکی اور بدی میں تمیز کریں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں ، نافرمانی سے پرہیز کریں۔
Top