Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پس آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے رجوع کیا آدم کی طرف مہربانی کے ساتھ۔ بیشک وہ رجوع کرنے والا بیحد مہربان ہے
گزشتہ سے پیوستہ : جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ جس سے انہوں منع کیا گیا تھا۔ تو ان سے انعام و اکرام لے لئے گئے۔ اور انہیں حکم ہوا کہ زمین پر اتر جاؤ۔ بعض تمہارے بعض کے دشمن ہیں۔ اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے۔ اور تمہیں ایک وقت تک فائدہ اٹھانا ہوگا۔ اب آدم (علیہ السلام) کو بڑی پریشانی ہوئی۔ کہ انہیں زمین پر اتر نے کا حکم مل گیا ہے۔ بعض روائتوں میں یہ بھی آتا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 182) کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) آئے اور آدم (علیہ السلام) کے سر سے تاج اتار لیا اور ان کے جسم سے بہشت کا لباس بھی اتار لیا اور انہیں برہنہ کردیا۔ چناچہ انہوں نے ستر ڈھانپنے کیے جنت کے پتے استعمال کیے۔ کیونکہ دوسروں کے سامنے ستر کا کھلنا خلافِ فطرت ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ : اس کے بعد کیا ہوا۔ “ فتلقی ادم من ربہ کلمت ” پس آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے۔ تلقی کا معنی پانا یا سیکھنا ہے۔ ان کلمات کا اللہ تعالیٰ نے الہام کیا یا آدم (علیہ السلام) کے دل میں ڈالا۔ ان کلمات کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کی ۔ جیسا کہ سورة اعراف میں آتا ہے۔ “ قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین ” یعنی اے پروردگار ! بیشک ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اگر تم ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا۔ تو ہم نقصان اٹھانے والے ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ حدیث میں ان دعائیہ کلمات کا ذکر ہے جن کے ذریعے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی نتیجہ یہ ہوا۔ کہ “ فتاب علیہ ” اللہ تعالیٰ نے رجوع کیا۔ آدم (علیہ السلام) کی طرف مہربانی کے ساتھ “ تاب ” کا معنی رجوع کرنا ہے۔ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے رجوع کیا اپنی عاجزی کے اعتراف کے ساتھ اور برائی کے ترک کرنے کے ساتھ ۔ گویا توبہ کی صفت کا تعلق خالق اور مخلوق دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں “ توبوا الہ اللہ ” تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دو اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ اس سے معافی مانگو۔ “ انہ ھو التواب الرحیم ”۔ بیشک وہ رجوع کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش کو معاف کردیا۔ امام بیہقی (رح) نے اپنی مشہور کتاب شعب الایمان میں روایت کی ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 15) کہ اپنی لغزش پر آدم (علیہ السلام) اس قدر روئے کہ “ لووزن دموع ادم بجمیع دموع ولدہ لرجح دموعہ علی جمیع دموع ولدہ ” 185 بحوالہ بیہقی شعب الایمان) یعنی آدم (علیہ السلام) نے جس قدر آنسو بہائیے اگر ان کا مقابلہ ان کی قیامت تک آنے والی ساری اولاد کے ساتھ کیا جائے تو آدم (علیہ السلام) کے آنسو غالب آجائیں۔ اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت بھی مروی ہے (2 ۔ درمنثور ج 1 ص 54 بحوالہ بہیتی شعب الایمان) ۔ “ ما حملک علی ان اکلت من الشجرۃ ” اے آدم ! تم کو اس درخت کا پھل کھانے پر کس نے امادہ کیا۔ “ التی نھیتک ” جس سے میں نے منع کیا۔ “ قال یا رب زینتہ لی حوآء ” اے اللہ ! اس کو میرے لیے حوا نے مزین کیا۔ یعنی اس درخت کا پھل کھانے کے لیے حوا ؓ نے مجھے ترغیب دی تھی ۔ تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جائیں گے۔ یہ شیطان کا وسوسہ تھا۔ حضور ﷺ کی حضرت آدم (علیہ السلام) پر فضیلت : خطیب بغدادی نے روایت بیان کی ہے۔ اور بیہقی (رح) نے دلائل النبوۃ میں اس کو نقل کیا ہے کہ حضور بنی کریم ﷺ نے فرمایا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 152 اللہ تعالیٰ نے مجھے آدم (علیہ السلام) پر دو باتوں میں برتری عطا فرمائی ہے ۔ اول یہ کہ ہر آدمی کے ساتھ قرین اور شیطان مقرر ہے۔ جو اسے بہکاتا ہے۔ مگر میرا قرین اور شیطان “ کان شیطانی مسلما ” وہ مطیع اور منقاد ہے۔ صحیح روایت میں آتا ہے (2 ۔ مسلم ج 2 ص 376) “ فلا یامرنی الا نحیر ” وہ مجھے برائی کا حکم نہیں دیتا بلکہ بھلائی کی دعوت ہی دیتا ہے۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ابلیس تھا۔ اس نے وسوسہ اندازی کی جس سے حضرت حوا ؓ ابھی متاثر ہوئیں۔ اور انہوں نے آدم (علیہ السلام) کو درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی۔ فرمایا (3 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 192) آدم (علیہ السلام) پر مجھے دوسری فضیلت یہ ہے کہ ان کی بیوی نے برائی کی طرف ترغیب دی۔ جب کہ میری ازواج دین کے معاملے میں میرے ساتھ تعاون کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ازواج مطہرات کی تعریف فرمائی ہے۔ ایک موقع پر ان سے معمولی سی لغزش ہوئی تھی۔ جب انہوں نے زیادہ خرچہ کا مطالبہ کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی جس پر وہ اپنے مطالبہ سے دست بردار ہوگئیں۔ اور دنیا کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آخرت کو اختیار کیا۔ گویا حضور ﷺ کی بیویاں آپ کے امور میں معاون تھیں۔ ویسے بھی آپ کا فرمان ہے (4 ۔ ) کہ وہ انسان نیک بخت ہے۔ جس کی بیوی دین کے معاملہ میں اس کی معاون ہو۔ زمین پر اترنے کا حکم : صحاح ستہ کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (5 ۔ بخاری ج 1 ص 465 ، مسلم ج 1 ص 405) “ لولا بنواسرائیل ” اگر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے نبی کے حکم میں خیانت نہ کرتے۔ یعنی نبی نے حکم دیا تھا ۔ کہ من اور سلویٰ کھاؤ پیو۔ مگر اسے ذخیرہ نہ کرنا۔ مگر انہوں نے ذخیرہ کرنا شروع کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا یہ دی کہ گوشت گلنا سڑنا شروع ہوگیا۔ آج کل گرمی کے موسم میں تو ایک دو دن سے زیادہ گوشت نہیں رہ سکتا۔ بدبو آنے لگتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر بنی اسرائیل اپنے نبی کے حکم کی پاسداری کرتے۔ گوشت کو ذخیرہ نہ کرتے تو یہ کبھی خراب نہ ہوتا۔ خواہ کتنا ہی عرصہ پڑا رہتا۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی “ لولا حوآء لہ تخن انثی زوجھا ”۔ یعنی اگر حوا اپنے خاوند کی خیانت نہ کرتی ۔ تو دنیا کی کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خائن نہ ہوتی۔ حوا کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے آدم (علیہ السلام) کو درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی تھی۔ بہرحال جب آدم (علیہ السلام) نے پھل کھالیا۔ اور برہنہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا۔ “ قلنا اھبطوا منھا جمیعا ” تم سب زمین پر اتر جاؤ۔ یہ حکم شیطان آدم (علیہ السلام) اور حوا ؓ سب کے لیے تھے۔ تو یہ تو قبول ہوگئی مگر زمین پر اتر جانے کا حکم صادر ہوگیا۔ بائبل اور بعض تاریخی روایات (1 ۔ درمنثور ج 1 ص 53 ، معالم التنزیل ج 1 ص 22 ، ابو السعود ج 1 ص 73) میں مور اور سانپ کا ذکر بھی آتا ہے کہ وہ بھی آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنے میں معاون ہوئے تھے۔ اور یہ کہ شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہوگیا تھا۔ مگر یہ روایت درست نہیں ہے صحیح بات یہی ہے کہ شیطان نے جنت کے باہر وسوسہ اندازی کی تھی۔ اس نے دروازے سے باہر جنیہ سے مباشرت کی تھی۔ جسے آدم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے۔ اور اس کی بات بھی سن رہے تھے۔ اسی بات سے آپ کو وسوسہ پیدا ہوا اور آپ نے وہ کام کرلیا۔ جس سے منع کیا گیا تھا۔ لہٰذا آپ کو زمین پر اترنے کا حکم ہوگیا۔ آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا ؓ کی حاجات : آدم (علیہ السلام) نے پھل کھایا ہوا تھا۔ ادھر زمین پر اتارا گیا۔ آپ کو بول و براز کی حاجت ہوئی۔ پیٹ میں درد پیدا ہوا۔ آپ پریشان ہوگئے کہ اس سے پہلے یہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ آپ کی پریشانی دیکھ کر جبرائیل (علیہ السلام) آئے۔ اور آپ کو بتایا کہ اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس طریقے سے فراغت حاصل کریں۔ آپ نے ایس اہی کیا تو براز سے بدبو آنے لگی۔ آپ کو اور پریشانی ہوئی۔ رونے لگے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ ستر دن تک روتے رہے۔ اس واقعہ کو ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 193) اور امام دار قطنی نے بھی کتاب الافراد میں حضرت عمر ؓ سے بیان کیا ہے (2 ۔ درمنثور ج 1 ص 54 بحوالہ کتاب الاذاد) کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اس وقت بھیجا جب حضرت حوا ؓ کو حیض کی حاجت ہوئی ۔ جنت میں تو ہر طرح کی پاکیزگی حاصل تھی۔ زمین پر آکر یہ پریشانی لاحق ہوگئی مائی حوا ؓ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دی۔ کہ دیکھو یہ کیا معاملہ ہے ۔ مجھے وقفہ وقفہ سے خون آرہا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا۔ اے حوا ؓ ! یہ بات تم پر اور تمہاری بنات پر ہمیشہ کے لیے مسلط رہے گی۔ بخاری اور مسلم کی روایت میں آتا ہے (3 ۔ بخاری ج 1 ص 43 ، مسلم ج 1 ص 311) کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو ایام حج میں حیض کی حالت لاحق ہوگئی۔ آپ نے احرام باندھا ہوا تھا۔ حیض آنے پر سخت افسردہ ہوئیں اور رونے لگیں۔ حضور ﷺ تشریف لائے۔ تو آپ سے بیان کیا آپ نے فرمایا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ “ ھذا شیء کتبہ اللہ علی بنات آدم ” یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں پر لازم کردیا ہے۔ الغرض ! جبرائیل (علیہ السلام) نے حوا ؓ کو یہی کہا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیٹیوں پر یہ چیز لازم کردی ہے۔ یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔ اور تمہارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے عورت جسمانی طور پر صحت حاصل کرتی ہے۔ اور اگر نیک بخت ہے تو باطنی طور پر بھی اس کو طہارت نصیب ہوگی۔ جنت کے تحفے : جب حضرت آدم (علیہ السلام) زمین پر اترے تو بعض روایات (4 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 152) کے مطابق تیس قسم کے پھلوں کے بیج ان کے ساتھ آئے۔ بعض دوسری روایات (5 ۔ ) میں ہزار قسم کا ذکر آتا ہے۔ بعض روایات میں خوشبو کا تذکرہ ملتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ خوشبو جنت کا تحفہ ہے اگر کوئی پھول یا گلدستہ پیش کرے تو اس کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ “ فانہ خرج من الجنۃ (6 ۔ شمائل مع ترمذی ص 582) کیونکہ یہ جنت سے آئی ہوئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 152) میں آتا ہے کہ سدن ، چمٹا اور ہتھوڑا بھی آدم (علیہ السلام) کے ساتھ نازل ہوا ۔ تاکہ دنیا میں کام کاج کرسکیں۔ حجر اسود بھی جنت سے اترا۔ پہلے اس کو جبل ابو قبیس پر رکھا گیا۔ یہ دودھ کی طرح سفید تھا۔ اور رات کو سورج کی طرح چمکتا تھا آہستہ آہستہ انسانوں کے گناہوں کی تاریکیوں سے اس پتھر کو سیاہ کردیا ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا مقام نزول : حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت (2 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 80) میں آتا ہے۔ کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان کی سرزمین شرق الہند میں اترے تھے۔ چناچہ سبحۃ المرجان فی اثار ہندوستان کے مصنف لکھتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کا نزول شرق الھند میں اور حضرت حوا ؓ کا نزول جدہ میں ہوا۔ جدہ کا لفظی معنی دادی یا نانی ہے۔ غالباً اسی مناسبت سے اس مقام کا نام جدہ مشہور ہوگیا۔ صاحب سبحۃ المرجان بڑے پائے کے محدث اور عالم تھے۔ اور امام شاہ ولی اللہ (رح) کے ہم عصر تھے۔ بعض انبیاء (علیہ السلام) کے پیشے : حضرت آدم (علیہ السلام) کھیتی باڑی کرتے تھے اور کپڑے بننے کا کام بھی آپ ہی سے شروع ہوا۔ دراہم اور اشرفیاں بھی حضرت آدم (علیہ السلام) نے بنائیں۔ دیگر انبیاء (علیہم السلام) میں سے حضرت نوح (علیہ السلام) بخاری یعنی بڑھی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) درزی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ہود اور صالح (علیہما السلام) تاجر تھے۔ حضرت ابراہیم اور لوط (علیہما السلام) نے کھیتی باڑی کا پیشہ اختیار کیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) مویشی پالتے تھے۔ اور ان کا دودھ اور اون وغیرہ فروخت کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیشہ گلہ بانی تھا۔ داؤد (علیہ السلام) ذرہ بناتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) روئے زمین کی عظیم سلطنت کے بادشاہ ہونے کے باوجود اپنی گزراوقات کے لیے ٹوکریاں اور زنبیلیں بناتے تھے (3 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 192) توبہ کی قبولیت : امام بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں روایت نقل کی ہے (4 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 184) کہ جب آدم (علیہ السلام) سے لغزش سرزد ہوئی تو وہ بہت نادم ہوئے۔ انہوں نے عرش پر نگاہ کی۔ تو وہاں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا پایا۔ آپ نے خیال کیا کہ جس شخص کا نام اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ یہ ضرور کوئی عظیم شخصیت ہے۔ چناچہ انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ معافی مانگی۔ “ اسئلک بحق محمد الاغفرت لی ”۔ اے اللہ ! میں حضرت محمد (ﷺ) کے طفیل سے دعا کرتا ہوں کہ میری لغزش کو معاف فرما دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! تمہیں کیا علم کہ محمد (ﷺ ) کون ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ مولا کریم ! میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ تیرے نام کے ساتھ محمد (ﷺ) نام لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! تیری اولاد میں یہ آخری نبی ہوں گے۔ اور میری پوری مخلوق میں ان کی فضلیت کو کوئی خاطر ان کو قبول کرلیا جاتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی لغزش کو معاف کردیا۔ بیہقی کے علاوہ یہ روایات طبرانی ، حاکم اور ابو نعیم میں بھی موجود ہیں۔ اور روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو دنیا میں ابو البشر کی کنیت سے پکارا جاتا ہے۔ اور قیامت کے دن حضور ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہو ابو محمد کی کنیت سے پکارا جائے گا۔ گویا آپ کو ابو البشر اور ابو محمد دونوں اعزاز حاصل ہیں۔ بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ص 108 ، بخاری ج 2 ص 971) کہ قیامت کے روز جب لوگ آدم (علیہ السلام) کے پا س جائیں گے تو کہیں گے کہ اے آدم “ انت ابو البشر ” آپ تمام نسل انسانی کے جد امجد ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حساب کتاب شروع کریں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) انکار کردیں گے اور کہیں گے لو میں یہ کام نہیں کرسکتا حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 188) کہ حضور بنی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) خدا تعالیٰ کے نبی تھے۔ فرمایا ہاں۔ “ بنیا رسولا کلمہ اللہ ” آپ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا۔ آپ پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اول الانبیاء ادم اور خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ توبہ کی تین شرائط : توبہ ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان کی سابقہ کوتاہیوں کی معافی ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ۔ ابن ماجہ ص 313) التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ مگر توبہ کی قبولیت کے لیے بعض شرائط بھی ہیں۔ اگر ان شرائط کے ساتھ توبہ کی ہے تو قبول ہوگی ورنہ نہیں ۔ توبہ میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی علم حال اور عمل۔ علم سے مراد یہ ہے کہ آدمی جانتا ہے کہ میں نے واقعی یہ غلط کام کیا ہے۔ اور اس کے ارتکاب پر گناہ اور اس کے ضرر کا احساس ہوتا ہے۔ حال کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس غلط کام کو ترک کر دے۔ اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے یہ عمل ہے۔ اس ضمن میں ندامت کا ذکر بھی آتا ہے (2 ۔ ابن ماجہ ص 313 فیص القدیر ، شرح جامع صغیر ج 3 ص 285) التوبۃ الندم اور اگر کچھ فرائض رہ گئے ہوں تو ان کو ادا کیا جائے۔ کوئی حقوق تلف ہوئے ہوں تو ان کو پورا کیا جائے۔ تب انسان کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ امام دار قطنی نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 196) جس میں آدم (علیہ السلام) سے متعلق مختلف باتیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مسجد خیف میں (جو کہ منیٰ میں واقع ہے) حضرت آدم (علیہ السلام) کی نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ تھی۔ اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو لحد میں دفن کیا گیا۔ اور ان کی قبر کو بان دار بنائی گئی۔ جیسا کہ عام طور پر آج کل بنائی جاتی ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے (4 ۔ درمنثور ج 1 ص 56 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 197) کہ آدم (علیہ السلام) نے ہندوستان کی سرزمین سے چالیس حج پیدل کیے۔ زمین پر اتارنے کی حکمت : ان آیات میں اھبطوا یعنی اتر جاؤ کا لفظ دو دفعہ آیا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (5 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 82) کہ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے اتر جانے کا عام حکم دیا تھا۔ مگر جب اس حکم کی فوری تعمیل نہ ہوئی تو دوبارہ سخت آرڈر ہوا کہ فوراً زمین پر اتر جاؤ۔ یہاں پر یہ نکتہ قابل غور ہے کہ زمین پر اترنے کا حکم کسی سزا کے طور پر نہیں تھا۔ بلکہ اس میں بھی حکمت خداوندی تھی۔ تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا “ انی جاعل فی الارض خلیفۃ ” کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔ چناچہ اس ارادے کی تکمیل یعنی خلافت ارضی کے لیے حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا گیا۔ آپ نے نیابت کے کام کی ابتداء کی ۔ اور پھر یہ فرض آپ کی آنے والی اولاد میں منتقل ہوگیا۔ گویا زمین پر اترنے کا حکم سزا نہیں بلکہ ایک اعزاز تھا۔ جو آدم (علیہ السلام) کے حصے میں آیا کہ انہیں نیابت الٰہی کا فریضہ سونپا گیا۔ خوفِ محشر کی حقیقت : حضرت آدم (علیہ السلام) کے حصے میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مزید حکم یہ دیا کہ “ فاما یاتینکم منی ھدی ” جب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے۔ یعنی جب انبیاء (علیہم السلام) میرا پیغام اور ہدایت لے کر آئیں “ فمن تبع ھدای ” تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی۔ “ فلا خوف علیہم ” ان پر انجام کے لحاظ سے کوئی خوف نہیں ہوگا “ ولاھم یحزنون ” اور نہ وہ غم کھائیں گے۔ یہاں پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تو بہت زیادہ خوف ہوگا۔ عام انسانوں کا تو کیا حال ہوگا۔ خود نبیوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ “ نفسی نفسی ” پکاریں گے۔ اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 191) کہ ظاہری طور پر تو یہ واقعی خوف ہوگا۔ مگر انجام کے اعتبار سے بالکل خوف نہیں ہوگا ۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی قہری صفات کا ظہور ہوگا۔ تو خوف و ہراس طاری ہوگا۔ جیسے کسی مقدمہ میں ملزم بڑا گھبراتا ہے۔ مگر وکیل مقدمے کی مثل دیکھ کر کہہ دیتا ہے کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ۔ تسلی رکھو۔ آخر کار انجام بخیر ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آمدہ ہدایت کی پیروی کریں گے۔ انہیں اگرچہ قیامت کے دن وقتی طور پر خوف پیدا ہوگا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخر کار انہیں خوف نہیں ہوگا۔ ہدایت کے متبعین : ہدایت اصل میں دین کی روح اور حکمت کو کہا جاتا ہے ۔ اور دین حق دائمی قانون کا نام ہے۔ جو انسانیت کے اصلی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اسی ہدایت کے مفصلات میں نبی ، رسول ، بینات ، معجزات ، کتب سماویہ اور شریعت وغیرہ آتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا اتباع ہی ہدایت کا اتباع ہے۔ قرآن پاک میں “ بینات ” کا لفظ لاتعداد مقامات پر آیا ہے۔ اور ہدایت کا لفظ بھی آیات ہے۔ “ بینات ” وہ ہوتے ہیں ۔ جو بالکل واضح اور بدیہہ ہوں۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننا بینات میں سے ہے۔ اسی طرح صبر و شکر کرنا اور خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا بینات ہیں۔ ہدایت وہ چیز ہوتی ہے جس کی تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً شعائر اللہ کی تعظیم ، احکام شرع میں استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ چیزیں تعلیم کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ چناچہ یہ کتابیں ، انبیاء (علیہم السلام) وغیرہ ہدایت میں شامل ہیں۔ اسی لیے فرمایا ۔ جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ۔ نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ کفار و مکذیبن : والذین کفروا اور جنہوں نے کفر کیا۔ وکذبوا بایتنا اور ہماری آیات کو جھٹلایا “ اولئک اصحب النار ” وہ دوزخ والے ہیں “ ھم فیھا خلدون ” اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 191) کہ انسان کی سعادت اور شفاوت کا دار و مدار ایمان اور کفر پر ہے۔ یا ہدایت و رضالت پر ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ “ انما الاعمال بالخوائیم ” (2 ۔ بخاری ج 2 ص 977) اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے۔ جس کا ایمان پر خاتمہ ہوگیا۔ یعنی جو ایمان کی دولت ساتھ لے گیا وہ مومن ہے۔ اور جس کا خاتمہ کفر پر ہوا۔ وہ کافر ہوگیا اب قانون یہ مقرر ہوگیا کہ ایک دفعہ جنت سے نکلنے کے بعد اب دوبارہ داخلہ ایمان اور نیکی کی بناء پر ہوگا۔ اس کے بغیر جنت میں دوبارہ داخلے کی کوئی صورت نہیں۔
Top