Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 271
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ١ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
اِنْ : اگر تُبْدُوا : ظاہر (علانیہ) دو الصَّدَقٰتِ : خیرات فَنِعِمَّا : تو اچھی بات هِىَ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُخْفُوْھَا : تم اس کو چھپاؤ وَتُؤْتُوْھَا : اور وہ پہنچاؤ الْفُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) فَھُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَيُكَفِّرُ : اور دور کرے گا عَنْكُمْ : تم سے مِّنْ : سے، کچھ سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے گناہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
اگر تم صدقات کو ظاہر کرو ، تو یہ اچھی بات ہے ، اور اگر ان کو چھپائو اور ( پوشیدہ طور پر) فقرا کو دے دو ، تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے برائیاں دور کرے گا ، اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو ، اس کی خبر رکھتا ہے
ربط آیات اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صدقات و خیرات کے متعلق سات اصول بیان کیے ہیں ، جن میں سے چار کا ذکر گزشتہ آیات میں آ چکا ہے۔ آج کے درس میں پانچویں بات کا بیان ہے کہ صدقات و خیرات ظاہری طور پر بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور باطنی پوشیدہ طور پر بھی ، تا ہم خفیہ طور پر دنیا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے بعد چھٹی بات کا ذکر ہے کہ صدقہ و خیرات غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ ساتویں بات کا ذکر آئندہ درس میں آئے گا ۔ ابدایا اخفا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ صدقہ خیرات سے متعلق سب سے اہم چیز دینے والے کی نیت ہے اگر خدا نخواستہ نیت میں فتور آ گیا ہے کسی کو احسان جتلانے یا ایذا پہنچانے کے لیے یاریا کاری کے طور پر دیا تو صدقہ باطل ہوجائے گا تا ہم نیک نیتی کے ساتھ ظاہراً یا باطنا ً دونوں طرح دینا جائز ہے ، البتہ اس کی افضلیت کے متعلق فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ فرض صدقات یعنی زکوٰۃ اور عشر کو ظاہر کر کے دینا چاہئے اور نفلی صدقات کو پوشیدہ طور پر دینا بہتر ہے ۔ بر خلاف اس کے امام حسن بصری (رح) ، امام رازی (رح) ، مولانا شاہ اشرفعلی تھانوی (رح) اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صدقات کو پوشیدہ طور پر ادائیگی کو افضل فرمایا ہے ۔ خواہ وہ صدقہ فرض ہو یا نفلی مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ افضلیت اس بناء پر ہے کہ خفیہ دینے سے ایک تو ریا کا امکان باقی نہیں رہتا دوسرے لینے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے بہتر قرار دیا ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کے مال کو ظاہر نہ کرنے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اگر زکوٰۃ ظاہر کر کے دی جائے تو کل مال کا علم ہوجاتا ہے ، لہٰذا اس لحاظ سے خفیہ دنیا بہتر ہے۔ البتہ ظاہر کر کے دینے میں ایک مصلحت بھی ہے کہ دیکھنے والے کو بھی شوق پیدا ہو کہ وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے ، اگر اس نیت سے کھلے طور پر صدقہ خیرات کرے تو یہ مناسب ہوگا ۔ بایں ہمہ اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خفیہ طور پر خرچ کرنا افضل ہے۔ اس کی تصدیق صحیحین کی روایت سے بھی ہوتی ہے ، جن سات آدمیوں کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ان کو رب العزت کے عرش کے نیچے جگہ ملے گی ۔ ان میں سے ایک آدمی وہ ہے تصدق بیمینہ حتی لا تعلم شمالہ کہ دائیں ہاتھ سے صدقہ کرتا ہے مگر بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی ، اس قدر خفیہ طور پر خرچ کرتا ہے۔ الغرض فرمایا ان تبدوا الصدقت فنعما ھی اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو یہ اچھی بات ہے کہ اس میں اقتداء کا پہلو نکلتا ہے کہ اس کو دیکھ کر دوسرا بھی انفاق فی سبیل اللہ کے لیے تیار ہوجائے اور اگر زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو کرنے لگ جائے ۔ اس کے علاوہ ایسا شخص لوگوں کو طعن وتشنیع سے بھی بچ جائیگا ۔ جب وہ لوگوں کے سامنے صدقہ خیرات کریگا تو کنجوس کہلوانے سے بچ جائے گا ۔ وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء اور اگر تم اسے چھپائو اور فقراء کو دے دو ۔ فھو خیر لکم تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ اس سے نہ تو ریا کاری لازم آئے گی اور نہ لینے والے کی عزت نفس مجروح ہوگی ۔ پھر صدقہ و خیرات کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ۔ ویکفر عنکم من سیاتکم اس وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہاری کچھ برائیاں تم سے دور کردیگا ، تمہارے بعض گناہ معاف کر دیگا کیونکہ سارے گناہ صدقہ سے معاف نہیں ہوتے حدیث شریف میں آتا ہے ان الصدقۃ لتطفی غضب الرب صدقہ و خیرات اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ جب کوئی انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ جب کوئی انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوجاتا ہے۔ احسان جتلانے والے کے متعلق آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی یہ حالت ہوتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ ایسے شخص کو نظرشفقت سے نہیں دیکھے گا اور عذاب الیم میں ڈالے گا ، مگر صدقہ و خیرات اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کو ٹھنڈاکر دیتے ہیں ۔ مسند احمد میں نبی (علیہ السلام) کا یہ فرمان بھی موجود ہے۔ ان الصدقۃ ظل المومن یوم القیمۃ قیامت کے دن صدقہ مومن کے حق میں بمنزلہ سایہ کے ہوگا ، جب میدان محشر میں انتہا درجے کی تپش ہوگی اس وقت صدقہ اپنے دینے والے کے سر پر سایہ کریگا ۔ صدقہ و خیرات کی اس قدر فضلیت ہے اور اس کی اس قدر برکات ہیں ، واللہ بما تعملون خبیر اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ، اس کے پیچھے کیا نیت کار فرما ہے ، پھر جیسی نیت ہوگی ۔ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ بدلہ عطا کرے گا ، بہر حال صدقہ سے متعلق یہ پانچویں بات بھی آگئی۔ غیر مسلم کے لیے صدقہ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدقہ خیرات غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ یہ اس ضمن میں چھٹی بات ہے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں حضور ﷺ نے صرف مسلمانوں کو صدقہ خیرات دینے کا حکم دیا تھا۔ حدیث شریف میں مختلف الفاظ آتے ہیں ، مثلاً آپ نے فرمایا تصدقوا علی اھل دینکم یعنی صرف اہل دین مسلمانوں پر صدقہ کیا کرو ۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے لا تصدقوا الا علی اھل الاسلام یعنی اہل سلام کے سوا دوسروں ( غیر مسلموں) پر صدقہ نہ کیا ۔ اس لیے آپ کے صحابہ کرام ؓ غیر مسلموں کو صدقہ دینے سے گریز کرتے تھے۔ پھر جب 6؁ھ میں کفار مکہ سے صلح کا معاہدہ ہوگیا ۔ تو مکہ اور مدینے والے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے لگے ، اس دوران میں حضرت آسمائ ؓ 1 ؎ نے حضور ﷺ سے عرض کیا ۔ حضور ! میری ماں آئی ہے۔ وھی مشرکۃ اور وہ مشرکہ ہے تو کیا ایسی حالت میں میں اسے صلہ رحمی کروں ۔ وہ محتاج بھی ہے۔ کہا میں اس کو کچھ صدقہ و خیرات دے سکتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا ، ہاں اجازت ہے ، تو گویا اللہ کے رسول نے غیر مسلموں کو صدقہ خیرات دینے کی اجازت دے دی ، لہٰذاثابت ہوا کہ صدقہ کا مال غیر مسلموں کو دیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر بھی اجر عطا کرے گا ، یاد رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیوی ام رومان ؓ تو شروع ہی سے اسلام لے آئی تھیں مگر آپ کی دوسری بیوی یعنی اسماء ؓ کی والدہ نتیلہ بنت عبد العزیٰ اسلام نہیں لائی تھیں ۔ البتہ زکوٰۃ اور عشر غیر مسلموں کو نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ یہ فرض ہے اور اس کے متعلق بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب حضور ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا ، تو دیگر احکامات کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم بھی دیا اور واضح کیا توخذ من اغنیا ئھم فترد علی فقرائھم 1 ؎۔ تفسیر کبیر ص 82 ج 7 ( فیاض) یعنی زکوٰۃ مسلمانوں کے اعتبار سے وصول کی جائیگی اور انہیں کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ زکوٰۃ و عشر کسی غیر مسلم کو نہیں دیا جاسکتا ، یہ ناجائز اور حرام ہے۔ ہاں نفل صدقہ ، صدقہ فطر کفارہ کا صدقہ جیسے نذر ، قسم یا ظہار کا کفارہ ہے ، وہ بھی غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ محتاج ہو۔ حربی غیر مسلم محروم ہے یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ صدقہ وغیرہ ذمی غیر مسلم کو تو دیا جاسکتا ہے ۔ مگر حربی کافر ، مشرک وغیرہ کو دینا جائز نہیں ۔ یعنی ایسے غیر مسلم جو اہل اسلام کے ساتھ برسر پیکار ہوں ، وہ اگر محتاج بھی ہوں تو وہ صدقہ کے حق دار نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورة ممتحنہ میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ لَا یَنْہٰکُمُ اللہ ُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ یعنی جو لوگ تم سے لڑائی نہیں کرتے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتے ، البتہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع فرماتے ہیں ، جو تم سے لڑائی لڑیں اور تمہیں گھروں سے نکال دیں اور جو کوئی ایسے لوگوں سے راہ و رسم بڑھائے گا تو ان کا شما ر ظالموں میں ہوگا ۔ ہدایت دہندہ صرف اللہ ہے جہاں تک کفار کو راہ راست پر لانے کا تعلق ہے تو یہ صرف اور صرف منشائے ایزدی پر منحصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ، اے پیغمبر (علیہ السلام) لیس علیک ھدھم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا آپ کے ذمے نہیں ہے ، ولکن اللہ یھدی من یشاء بلکہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے ہدایت دیدے ، یہ سراسر اللہ جل شانہٗ کے اختیار میں ہے۔ حضور ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی بڑی خدمت کی ، ہر مشکل وقت میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ، مگر حضور کی انتہائی خواہش کے باوجود ابو طالب کو ایمان نصیب نہ ہوا ، اور وہ کفر کی حالت میں مرا ۔ حضور ﷺ کو اس بات کو بڑا افسوس تھا ، مگر اس معاملہ میں آپ بھی مجبور تھے کہ ہدایت تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ابو طالب کے فرزند حضرت علی ؓ کم سنی میں ایمان سے مشرف ہوجاتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے داماد ، جلیل القدر صحابہ اور خلفائے راشدین ؓ میں سے ہیں ، مگر باپ کو کلمہ نصیب نہیں ہوا ۔ کیونکہ ولکن اللہ یھدی من یشاء دوسرے مقام پر یوں آتا ہے۔ افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین کیا آپ لوگوں کو مجبور کردیں گے کہ وہ ضرور ہی ایمان لے آئیں ، بلکہ فانما علیک البلاغ وعلینا الحساب آپ کے ذمے دین کو پہنچانا ہے ۔ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لائے ، حساب تو ہمارے ذمے ہے۔ پورا پورا بدلہ فرمایا وما تنفقوا من خیر فلا نفسکم اور تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو ، یہ تمہارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے ، اللہ تعالیٰ کو تمہارے مالوں کی ضرورت نہیں ہے ، وہ تمہیں اجر عطا کریگا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں بنی نوع انسان کے لیے ہمدردی پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اجر وثواب سے نوازنا چاہتا ہے۔ وما تنفقون الا ابتغاء وجہ اللہ اور تم نہیں خرچ کرتے مگر محض رضا الٰہی کے لیے ، اسمیں کوئی دیگر مقصد نہیں ہے ، اگر کوئی دوسرا مقصد ہوگا ، مثلاً کوئی اپنا مفاد وابستہ ہو ، ریا کاری پائی جائے یا کسی کو ایذا دینا مقصود ہو تو ایسی صورت میں صدقہ ضائعہو جائے گا ۔ لہٰذا محض اللہ کی رضا کے لیے صدقہ و خیرات کرنا چاہئے ، اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنا چاہئے ، محتاجوں کی حاجت براری کرنی چاہئے ، یہ سب رضا الٰہی کے ذرائع ہیں ۔ وما تنفقوا من خیر اور تم جو بھی خرچ کرو گے ، نیکی کرو گے ، کسی کے ساتھ بھلائی کرو گے ۔ یوف الیکم اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مسلمان محتاج کو دینے سے پورا اجر ملے اور کافر کو دینے سے کم ملے ، بلکہ پورا بدلہ دیا جائیگا ۔ اس بات میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہونا چاہئے خالص نیت کے ساتھ جو بھی خرچ کیا جائیگا ۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں بڑھا چڑھا کردیں گے ، البتہ فضلیت اس بات میں ہے کہ محتاجوں میں سے بہتر محتاج کو دیا جائے ۔ مثلاً ایک نمازی ہے اور دوسرا بےنماز ہے تو نمازی کو دینا زیادہ اجر وثواب کا موجب ہے ، مگر جہاں مجبوری کا معاملہ ہو ، وہاں کم تر آدمی کو بھی دینا چاہئے ، اگر کوئی بےنمازی بھوکا مر رہا ہے تو اسے پہلے دینا چاہئے ، اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ وانتم لا تظلمون اور کسی شخص پر ذرہ بھر زیادتی نہیں کی جائیگی ، اللہ تعالیٰ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا ۔ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ، یہ تو اس کے قانون کے خلاف ہے کہ کسی ادنیٰ یا ادنیٰ نیکی کو بھی نظر اندازکر دے۔
Top