Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ
: حرمت والا مہینہ
بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ
: بدلہ حرمت والا مہینہ
وَ
: اور
الْحُرُمٰتُ
: حرمتیں
قِصَاصٌ
: قصاص
فَمَنِ
: پس جس
اعْتَدٰى
: زیادتی کی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فَاعْتَدُوْا
: تو تم زیادتی کرو
عَلَيْهِ
: اس پر
بِمِثْلِ
: جیسی
مَا
: جو
اعْتَدٰى
: اس نے زیادتی کی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ
: ساتھ
المتَّقِيْنَ
: پرہیزگاروں
حرمت کا مہینہ حرمت کے مہینے کے مقابل ہے ، اور تمام حرمتوں کا بدلہ ہے ، پس جس شخص نے تم پر زیادتی کی ، تم بھی اس پر زیادتی کرو ، جیسی کہ اس نے زیادتی کی ہے تم پر ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے
گزشتہ سے پیوستہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد اور قتال کا حکم دیا تھا ، اور اس کی وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ مشرکین کے برپا کردہ فتنہ و فساد کو فرد کرنے اور ظلم و زیادتی کو ختم کرنے کے لیے جہاد ضروری قرار دیا گیا ہے ، یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ عام طور پر جہاد اپنے دفاع کے لیے کیا جائے ، البتہ اگر اغیار کے ظلم و ستم کی بناء پر مخلوق خدا کی جان و مال اور عزت و ناموس خطرے میں ہو تو جنگ میں پہل بھی کی جاسکتی ہے حرمت والے چار مہینوں کا ذکر بھی اجمالا ً آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق ارض و سماکے وقت سے ہی بارہ مہینوں کی تقویم مقرر کر رکھی ہے ۔ جس میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ ملت ابراہیمی میں یہ امر مسلم ہے کہ ان چار مہینوں میں مشرک بھی لڑائی نہیں کرتے تھے بلکہ عام راہزن بھی کسی مال نہیں لوٹتے تھے اور تجارتی قافلے پرامن گزر جاتے تھے ، ان مہینوں کا اس قدر احترام کیا جاتا تھا یہ چار مہینے رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحج اور محرم ہیں ۔ حدیبیہ کا واقعہ انہی محترم مہینوں میں سے ذی قعدہ 6ھ میں حضور نبی کریم ﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایا ، اس سفر میں چودہ سو کے قریب صحابہ ؓ آپ کے ہم سفر تھے ، جب مکہ کے نزدیک حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے شہر میں داخل ہونے سے روک دیا ، حالانکہ ہدی کے جانور صحابہ ؓ کے ہمراہ تھے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ قافلہ عمر ہ کے ارادہ سے آیا ہے ، نہ کہ جنگ وجدال کی نیت سے ، حرمت والا مہینہ تھا۔ صحابہ ؓ نے احرام باندھے ہوئے تھے ، مگر مشرکین نے آپ کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا ، آخر گفت و شنید ہوئی ، جس کے نتیجہ میں صلح کا معاہدہ لکھا گیا کہ اس سال مسلمان عمرہ ادا نہیں کریں گے ، بلکہ آئندہ سال انہیں اجازت ہوگی ، مگر تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کریں گے ۔ صحابہ ؓ اس معاہدہ کے حق میں نہ تھے ، انہوں نے عرض کی کہ حضور کیا نعوذ باللہ آپ کا خواب غلط ہوگیا ہے۔ آپ نے تو دیکھا تھا کہ ہم عمرہ ادا کر رہے ہیں حجامت بنوا رہے ہیں ، مگر ہماری یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ! فکر نہ کرو ، خواب بالکل سچا تھا ہم ضرو ر عمرہ کریں گے کیونکہ خواب میں تو واضح نہیں تھا۔ کہ ضرور اسی سال کریں گے ، عمرہ آئندہ سال بھی ہو سکتا ہے ، چناچہ ایسا ہی ہوا ۔ حضور ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ اگلے سال یعنی 7ھ میں تشریف لائے اور عمرہ کیا ، آپ کا یہ عمرہ عمرۃ القضاء کہ لایا کیونکہ پہلے سال احرام باندھ کر اس فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکے تھے اور بغیر عمرہ کیے احرام کھول دیے تھے۔ جنگ کی اجازت 7ھ میں جب حضور ﷺ عمرہ کے لیے دوبارہ تشریف لائے ، تو اس وقت بھی کفار مکہ کے بد عہدی کرنے اور عمرہ سے روک دینے کا امکان تھا ، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گزشتہ سال مشرکین نے محترم مہینوں کا ادب نہ کیا تو در گزر سے کام لیا گیا ، اب اگر ایسا کریں تو تمہیں لڑائی کی اجازت ہے ، ان سے پورا پورا مقابلہ کیا جائے اور انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا ۔ اس سال پھر ذی قعدہ کا حرمت والا مہینہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اب انہوں نے اس مہینہ کا احترام نہ کیا اور آمادہ ہوئے تو تم پر بھی ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ ادلے کا بدلہ فرمایا الشھر الحرام بالشھر الحرام حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے مقابلہ ہے۔ والحرمت قصاص اور تمام ادب والی چیزوں کا بدلہ ہے ، حرمت والی چیزوں میں بیت اللہ شریف ، مسجد الحرام تمام مساجد اور حرم کا پورا خطہ شامل ہے ، لہٰذا ان تمام چیزوں کا احترام کرنا چاہئے ، ان میں جنگ وجدال اور فتنہ و فساد برپا نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان کو بہر حال ان کا احترام کرتے ہیں ، البتہ اگر مشرکین ان کے ادب کو ملحوظ نہ رکھیں اور لڑائی پر آمادہ ہوں تو پھر مسلمانوں کو بھی اجازت ہے کہ ان کا بدلہ چکائیں ۔ مطلب یہ کہ فمن اعتدی علیکم جو کوئی تم پر زیادتی کرے ، فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو ، جس طرح اس نے تم پر کی ہے۔ یہی قانون اللہ تعالیٰ نے سورة نحل میں بھی بیان فرمایا ہے ، اگر ان کی تعدی کے عوض میں معاف کر دو ، تو تمہیں بڑا اجر ملے گا ۔ اور اگر بدلہ لینا ہے ، تو پھر انہیں اسی قدر ایذا پہنچائو ، جس قدر انہوں نے تمہیں پہنچائی ہے ، ان سے زیادتی نہ کرو۔ خوف خدا وتقوا اللہ اور اللہ سے ڈرتے ہو ، کہ اس کے قانون کے خلاف ورزی نہ ہونے پائے ، اور اگر تم خوف خدا کو دل میں جگہ دو گے تو پھر تمہیں خوشخبری ہو کہ واعلموا ان اللہ مع المتقین اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے ، یعنی اس کی رضا اور خوشنودی بھی ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہوتی ہے ، نہ کہ کافروں اور ظالموں کے ساتھ ، بہر حال مسلمانوں کو حکم دیا کہ لڑائی میں تم ابتداء نہ کرو اور حرمت والے مہینوں کا پورا پورا احترام کرو ، البتہ اگر مشرکین اس بات کی پروا نہیں کرتے تو پھر تمہیں بھی اپنا دفاع کر نیکی اجازت ہے ، مگر وہ بھی اس حد تک جس حد تکمدقمبال جائیں ، زیادتی نہیں کرنا۔ یہ مسلمان کے لئے دائمی قانون ہے۔ برخلفا اس کے کفار و مشرکین نے ہمیشہ عہد کو توڑا یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے قانون کی پروا نہ کی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ انہوں نے اللہ کا خوف نہ کھایا۔ میدان جنگ کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کیا۔ بوڑھوں پر ہاتھ اٹھایا۔ آج کی دنیا میں بھی امریکہ ہو یا برطانیہ روس ہو یا فرانس جب آتش انتقام بھڑکتی ہے۔ تو شہروں پر بمباری کرنے سے نہیں ہچکچانے کتنے شہری ہیں جو لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں جو جانبر نہیں ہو سکتے۔ آج کی دنیا کے یہ نام نہاد متمدن لوگ جب درنگدی پر اتر آتے ہیں۔ تو پھر تمام انسانی قدروں کو روند ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ یہ لوگ خوف خدا سے عاری ہیں۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنا جہاد جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے اخراجات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مال و دولت کے بغیر جہاد کا کوئی تصور نہیں ، اس لئے یہاں پر حکم ہوا۔ وانفقوا فی سبیل اللہ اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس آیت کو سمجھنے میں بعض صحابہ کو اشتباہ ہوا تھا اور حضرت ابوایوب انصاری نے اس عقدہ کو حل کیا تھا۔ یہ وہی جلیل القدر صحابی ہیں۔ جنہیں مدینہ طیبہ میں حضو ر (علیہ السلام) کی میزبانی کا شرف اولین حاصل ہوا تھا۔ یہ جہاں پر بیٹھ جائے گی۔ اسی کے ہاں میرا قیام ہوگا۔ چناچہ یہ سعادت حضرت ابو ایوب انصاری کے حصہ میں آئی اور وہ آپ کا جاوہ اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ جب تک مسجد نبوی اور آپ کا حجرہ تیار نہ ہوگیا ، آپ اسی صحابی کے ہاں مقیم رہے۔ حضرت ابو ایوب استنبول کے جہاد میں شریک ہوئے ۔ وہیں آپ کی وفات ہوئی اور استنبول کی دیوار کے قریب دفن ہوئے۔ حضور ﷺ نے اس جہاد کی پیش گوئی فرما دی تھی۔ کہ آخری زمانہ میں مسلمان استنبول جو ترکی کا دارالخلافہ ہے۔ کو فتح کریں گے ، پرانے زمانے میں اسے قسطنطنیہ کہتے تھے۔ پھر جب دجال کا زمانہ قریب آئے گا تو اس علاقہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر مسلمان غالب آجائیں گے۔ الغرض اس جہاد کی کمان مشہور سپہ سالار خالد بن ولید کے بھائی عبدالرحمٰن بن ولید کر رہے تھے۔ میدان جنگ کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ سامنے دشمن تھا۔ اور مسلمانوں کے پیچھے دیوار تھی ، گویا مسلمان گھرے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان جذبہ جہاد میں کفار کی صفوں میں گھس گیا ، بڑے زور شور سے حملہ کیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح یرموک کی لڑا ئی میں حضرت زبیر لاکھ سوا لاکھ کفار کی صفوں پر تن تنہا حملہ آور ہوئے تھے۔ اسی طرح یہ گھوڑا سوار صحابی دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے اور پھر ادھر سے حملہ آور ہو کر واپس آئے۔ اس موقع پر ایک شخص نے یہ آیت پڑھی ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو تن تنہا اتنے بڑے لشکر میں گھس جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری واں موجود تھے ، کہنے لگے بھئی اس کا یہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ آیت تو ہمارے یعنی انصار مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جاد کو ترک کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی اگر تم نے جہاد سے منہ موڑ لیا۔ تو من حیث القوم زندہ نہیں رہ سکو گے۔ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ہم نے مہاجرین کی میزبانی کی ، پھر سالام کی خاطر جنگیں بھی لڑیں ، پھر جب دین کو کافی حد تک غلبہ حاصل ہوگیا۔ تو ہم انصار نے خیال کیا کہ ہم مالی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں لہٰذا اب ہمیں اپنے کاروبار اور زمینوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بات سمجھا دی کہ کاروبار میں مصروف ہو کر جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کو ترک نہ کر بیٹھنا۔ اگر ایسا کیا تو ذلیل و خوار ہو جائو گے ، ہلاکت میں پڑ جائو گے۔ لہٰذا جہاد کے لئے ہر آن اور ہر لمحہ کمر بستہ رہو۔ مطلب یہ ہے کہ دشمن کی صفوں میں گھس جانا ہلاکت کا باعث نہیں بلکہ جہاد سے رو گردانی کرنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ اگر جہاد ترک کر دوں۔ آرام طلب بن جائو گے ، تو دشمن تم پر غالب آ کر تمہیں ہلاکت میں ڈال دے گا۔ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ اور آپ کے جلیل القدر شاگردوں نے بھی اس مسئلہ پر بحث کی ہے امام صاحب تابعین میں سے ہیں۔ آپ کی ملاقات آٹھ اصحاب رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ آپ کے علاوہ باقی تین آئمہ یعنی امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد میں سے کسی کو تابعی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ پیشہ کے لحاظ سے امام ابوحینفہ تاجر تھے آپ کے کارخانہ میں کپڑا تیار ہوتا تھا ، جس کی آپ وسیع پیمانے پر تجارت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مال بھی دیا تھا اور پھر اسے خرچ کرنے کا حوصلہ بھی عطا فرمایا تھا خصوصاً غریب طلباء کی اس طرح مدد کرتے تھے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا تھا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ، جن میں بڑے قابل لوگ ہوئے ہیں۔ خصوصاً امام ابو یوسف علم حدیث میں بڑی دسترس رکھتے تھے اور امام محمد …لغت دانی کے لحاظ سے بےمثال تھے ۔ آپ امام شافعی کے استاد تھے امام احمد کا قول ہے کہ جس مسئلہ پر امام ابوحنیفہ امام یوسف اور امام محمد جمع ہوجائیں ، تو پھر مخالفت نہیں ہو سکتی۔ ان تینوں کا اجماع گویا فقہ ، حدیث اور زبان کا اجماع ہے۔ دنیا میں فقہ حنفی کی اس قدر پذیرائی اما م صاحب کے قابل شاگردوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ امام ابو یوسف اپنے دور میں ساٹھ لاکھ مربع میل پر محیط سلطنت خلافت کے چیف جسٹس تھے اس وقت اسلامی مملکت ایک طرف خراسان تک اور دوسری طرف افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ امام لیث ابن سعد ، امام مالک کی طرح بڑے امام تھے مگر ان کے شاگردوں میں کوئی قابل ذکر ہستی نظر نہیں آتی۔ امام شافعی کے شاگرد بڑے قابل تھے ، لہٰذا ان کا مسلک دور دور تک پھیلا۔ امام احمد کے شاگردوں نے بڑی محنت کی جس کی وجہ سے آپ کا مسلک بھی پھیلا۔ قانون صلح و جنگ امام محمد نے سیر کبیر اور سیر صغیر دو مشہور کتابیں لکھی ہیں ان میں سیر کبیر اسلام کے قانون صلح و جنگ کے متعلق ہے۔ اسلام کے اس قانون کو سمجھنے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی کتاب نہیں۔ اس میں احادیث رسول مقبول ﷺ آثار صحابہ کر اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کی روشنی میں مسائل صلح و جنگ کو حل کیا گیا ہے۔ ان کے سامنے بھی یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر کفار کی کثیر تعداد سامنے موجود ہو ، تو اس کے ساتھ ایک تنہا مسلمان کو جنگ کرنا کس حد تک درست ہے۔ جب کہ اس کی جان تلف ہوجانے کا غالب گمان ہو۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ایسا کرنے سے دشمن کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، جس کا بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو فائدہ ہو ، تو اس قسم کی قربانی پیش کرنا روا ہے اور اگر ایسا کرنے سے نہ کفار کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، اور نہ ہی اسلام کو فائدہ ہو ، تو پھر محض جان کا ضیاع ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ انفاق فی سبیل اللہ یہاں پر مطلق حکم ہے۔ وانفقوا فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ اللہ کا راستہ کون سا ہے۔ قرآن پاک میں اس کی مختلف مدات بیان کی گئی ہیں۔ ” مما رزقنھم ینفقون “ میں بھی یہی بات ہے خرچ کریں مگر کہاں تو اس کی تشریح پہلے آ چکی ہے۔ سب سے پہلے زکوۃ ادا کرو ، پھر حج وعمرہ کا خرچہ ہے۔ غرباء و مساکین پر خرچ کرو۔ اس کے بعد دفاع کا ہے اور اسی مد میں جہاد فی سبیل اللہ بھی آتا ہے۔ اور پھر اللہ کے راستے کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ جیسے دین کی تعلیم کا شعبہ ہے تصنیف و تالیف کی مد ہے ، مجاہدین کی اعانت ہے۔ ان سب امور پر خرچ کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ، محض زکوۃ ادا کردینے سے سارے مالی حقوق ادا نہیں ہوجاتے بلکہ ان فی المال حقاً سوی الزکوۃ حضور ﷺ نے فرمایا زکواۃ کے علاوہ بھی ماحول میں حق باقی ہے۔ زکواۃ فرض ہے۔ اس کے بعد صدقہ فطر واجب ہے۔ قربانی بھی واجب ہے۔ اسی طرح اعزہ و اقارب پر خرچ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اخراجات سنت اور مستحب ہیں۔ ان سب میں خرچ کرنا چاہئے اور سب سے بڑھ کر جہاد کی مد ہے اگر اہل اسلام اس مد میں خرچ نہیں کریں گے تو دشمن غلبہ پا جائے گا اور مسلمان ذلیل و خوار ہوں گے اور پھر نہ صرف مال ضائع ہوگا بلکہ جانیں بھی تلف ہوگی۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ تاتاریوں کے حملوں کے بعد مسلمانوں کے قدم نہیں جم سکے۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں قربانی کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ غیر مسلم اقوام زیادہ خرچ کرتی ہیں۔ اسلحہ سازی اور دوسری ٹیکنالوجی پر جو کچھ امریکہ اور روس خرچ کر رہے ہیں۔ اس کی مثال کہاں ملے گی۔ فضول خرچی حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائپوری کی ایک مجلس میں یہ خبر موضوع بحث بنی کہ سجدے کی کسی امیر نے فرانس سے تین لاکھ ریال میں بنابنایا حمام منگوایا ہے۔ آپ نے بڑے افسوس سے فرمایا ، یہ مسلمانوں کی بدبختی ہے کہ حمام پر اتنا خرچ کردیا ہے۔ اگر اس رقم سے کوئی فیکٹری لگاتے تو ملک و قوم کا فائدہ ہوتا ہے۔ حمام تو محض نمود و نمائش اور عیاشی کا سامان ہے۔ اس سے قوم کو کیا فائدہ پہنچا۔ اس زمانے کی بڑی بڑی عمارتیں اور ان میں تعیش کا سامان مسلمانوں کے کون سے کردار کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بڑی بڑی قیمتی کاریں درآمد ہو رہی ہیں ، غیر ملکی عورتوں سے شادیاں ہو رہی ہیں لاکھوں روپیہ ننگ و ناموس کے نام پر برباد کیا جا رہا ہے۔ مگر کیا مسلمان دنیا میں باعزت زندگی بسر کر رہا ہے۔ نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کا دست نگر بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں انگریز نے کس قدر ذلیل کیا ہے۔ روس اور امریکہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس افرادی قوت ہے۔ بیشمار وسائل مہیا ہیں مگر سب عیاشی کی نذر ہو رہے ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کو ترک کردیا گیا ہے۔ ایک فیصد بھی صاحب ثروت آپ کو نہیں ملیں گے جو اپنے مال کا معقول حصہ دین کی حفاظت اور اس کی بقا کے لئے خرچ کر رہے ہوں۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں نواب نجیب الدولہ تھے اپنے دور میں پانچ سو علماء کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ یہ وظیفہ پانچ روپے سے لیکر پانچ سو روپے تک تھا۔ اس وقت کے پانچ سو روپے آج کے پانچ ہزار سے زیادہ حیثیت رکھتے تھے۔ یہ وظیفہ محض علم دین کی تحصیل کے لئے دیا گیا تھا اور وہ لوگ نواب کی کسی پالیسی کے پابند نہیں تھے۔ جیسا کہ آج کل بیورو کریسی کا شیوہ ہے کہ کسی کو چند ٹکے دیکر اس کا دین ایمان تک خرید لیا۔ ایسا نہیں تھا۔ آج مسلمان تبلیغ دین کے لئے کتنی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ عیسائیت کا راستہ بند کرنے کے لئے کیا تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور بطانیہ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے اربوں روپیہ خرچ کر رہا ہے۔ کہیں سکول کے نام پر ، کہیں کسی ہسپتال کی آڑ میں اور کہیں کسی اور رفاہی ادارہ کی صورت میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ مگر سچے دین کا داعی مسلمان ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ خدا کا فرمان ہے خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر ہم پر کوئی اثر نہیں۔ ایسی صورت حال میں دشمن غلبہ حاصل نہیں کرے گا ، تو اور کیا ہوگا۔ احسان کرو فرمایا ، واحسنوا یعنی مستحقین کے ساتھ احسان کرو۔ قربات داروں غریبوں مسکینوں ، بیوائوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ان اللہ یحب المحسنین بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اللہ کے راستے میں خرچ کر کے احسان جیسے اہم اصول پر عمل کرو۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کرنے والوں ، کفر و شرک اور بدعات کے مرتکبین کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔
Top