Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ : حرمت والا مہینہ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ : بدلہ حرمت والا مہینہ وَ : اور الْحُرُمٰتُ : حرمتیں قِصَاصٌ : قصاص فَمَنِ : پس جس اعْتَدٰى : زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر فَاعْتَدُوْا : تو تم زیادتی کرو عَلَيْهِ : اس پر بِمِثْلِ : جیسی مَا : جو اعْتَدٰى : اس نے زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ المتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں
حرمت کا مہینہ حرمت کے مہینے کے مقابل ہے ، اور تمام حرمتوں کا بدلہ ہے ، پس جس شخص نے تم پر زیادتی کی ، تم بھی اس پر زیادتی کرو ، جیسی کہ اس نے زیادتی کی ہے تم پر ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے
گزشتہ سے پیوستہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد اور قتال کا حکم دیا تھا ، اور اس کی وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ مشرکین کے برپا کردہ فتنہ و فساد کو فرد کرنے اور ظلم و زیادتی کو ختم کرنے کے لیے جہاد ضروری قرار دیا گیا ہے ، یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ عام طور پر جہاد اپنے دفاع کے لیے کیا جائے ، البتہ اگر اغیار کے ظلم و ستم کی بناء پر مخلوق خدا کی جان و مال اور عزت و ناموس خطرے میں ہو تو جنگ میں پہل بھی کی جاسکتی ہے حرمت والے چار مہینوں کا ذکر بھی اجمالا ً آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق ارض و سماکے وقت سے ہی بارہ مہینوں کی تقویم مقرر کر رکھی ہے ۔ جس میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ ملت ابراہیمی میں یہ امر مسلم ہے کہ ان چار مہینوں میں مشرک بھی لڑائی نہیں کرتے تھے بلکہ عام راہزن بھی کسی مال نہیں لوٹتے تھے اور تجارتی قافلے پرامن گزر جاتے تھے ، ان مہینوں کا اس قدر احترام کیا جاتا تھا یہ چار مہینے رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحج اور محرم ہیں ۔ حدیبیہ کا واقعہ انہی محترم مہینوں میں سے ذی قعدہ 6؁ھ میں حضور نبی کریم ﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایا ، اس سفر میں چودہ سو کے قریب صحابہ ؓ آپ کے ہم سفر تھے ، جب مکہ کے نزدیک حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے شہر میں داخل ہونے سے روک دیا ، حالانکہ ہدی کے جانور صحابہ ؓ کے ہمراہ تھے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ قافلہ عمر ہ کے ارادہ سے آیا ہے ، نہ کہ جنگ وجدال کی نیت سے ، حرمت والا مہینہ تھا۔ صحابہ ؓ نے احرام باندھے ہوئے تھے ، مگر مشرکین نے آپ کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا ، آخر گفت و شنید ہوئی ، جس کے نتیجہ میں صلح کا معاہدہ لکھا گیا کہ اس سال مسلمان عمرہ ادا نہیں کریں گے ، بلکہ آئندہ سال انہیں اجازت ہوگی ، مگر تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کریں گے ۔ صحابہ ؓ اس معاہدہ کے حق میں نہ تھے ، انہوں نے عرض کی کہ حضور کیا نعوذ باللہ آپ کا خواب غلط ہوگیا ہے۔ آپ نے تو دیکھا تھا کہ ہم عمرہ ادا کر رہے ہیں حجامت بنوا رہے ہیں ، مگر ہماری یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ! فکر نہ کرو ، خواب بالکل سچا تھا ہم ضرو ر عمرہ کریں گے کیونکہ خواب میں تو واضح نہیں تھا۔ کہ ضرور اسی سال کریں گے ، عمرہ آئندہ سال بھی ہو سکتا ہے ، چناچہ ایسا ہی ہوا ۔ حضور ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ اگلے سال یعنی 7؁ھ میں تشریف لائے اور عمرہ کیا ، آپ کا یہ عمرہ عمرۃ القضاء کہ لایا کیونکہ پہلے سال احرام باندھ کر اس فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکے تھے اور بغیر عمرہ کیے احرام کھول دیے تھے۔ جنگ کی اجازت 7؁ھ میں جب حضور ﷺ عمرہ کے لیے دوبارہ تشریف لائے ، تو اس وقت بھی کفار مکہ کے بد عہدی کرنے اور عمرہ سے روک دینے کا امکان تھا ، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گزشتہ سال مشرکین نے محترم مہینوں کا ادب نہ کیا تو در گزر سے کام لیا گیا ، اب اگر ایسا کریں تو تمہیں لڑائی کی اجازت ہے ، ان سے پورا پورا مقابلہ کیا جائے اور انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا ۔ اس سال پھر ذی قعدہ کا حرمت والا مہینہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اب انہوں نے اس مہینہ کا احترام نہ کیا اور آمادہ ہوئے تو تم پر بھی ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ ادلے کا بدلہ فرمایا الشھر الحرام بالشھر الحرام حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے مقابلہ ہے۔ والحرمت قصاص اور تمام ادب والی چیزوں کا بدلہ ہے ، حرمت والی چیزوں میں بیت اللہ شریف ، مسجد الحرام تمام مساجد اور حرم کا پورا خطہ شامل ہے ، لہٰذا ان تمام چیزوں کا احترام کرنا چاہئے ، ان میں جنگ وجدال اور فتنہ و فساد برپا نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان کو بہر حال ان کا احترام کرتے ہیں ، البتہ اگر مشرکین ان کے ادب کو ملحوظ نہ رکھیں اور لڑائی پر آمادہ ہوں تو پھر مسلمانوں کو بھی اجازت ہے کہ ان کا بدلہ چکائیں ۔ مطلب یہ کہ فمن اعتدی علیکم جو کوئی تم پر زیادتی کرے ، فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو ، جس طرح اس نے تم پر کی ہے۔ یہی قانون اللہ تعالیٰ نے سورة نحل میں بھی بیان فرمایا ہے ، اگر ان کی تعدی کے عوض میں معاف کر دو ، تو تمہیں بڑا اجر ملے گا ۔ اور اگر بدلہ لینا ہے ، تو پھر انہیں اسی قدر ایذا پہنچائو ، جس قدر انہوں نے تمہیں پہنچائی ہے ، ان سے زیادتی نہ کرو۔ خوف خدا وتقوا اللہ اور اللہ سے ڈرتے ہو ، کہ اس کے قانون کے خلاف ورزی نہ ہونے پائے ، اور اگر تم خوف خدا کو دل میں جگہ دو گے تو پھر تمہیں خوشخبری ہو کہ واعلموا ان اللہ مع المتقین اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے ، یعنی اس کی رضا اور خوشنودی بھی ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہوتی ہے ، نہ کہ کافروں اور ظالموں کے ساتھ ، بہر حال مسلمانوں کو حکم دیا کہ لڑائی میں تم ابتداء نہ کرو اور حرمت والے مہینوں کا پورا پورا احترام کرو ، البتہ اگر مشرکین اس بات کی پروا نہیں کرتے تو پھر تمہیں بھی اپنا دفاع کر نیکی اجازت ہے ، مگر وہ بھی اس حد تک جس حد تکمدقمبال جائیں ، زیادتی نہیں کرنا۔ یہ مسلمان کے لئے دائمی قانون ہے۔ برخلفا اس کے کفار و مشرکین نے ہمیشہ عہد کو توڑا یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے قانون کی پروا نہ کی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ انہوں نے اللہ کا خوف نہ کھایا۔ میدان جنگ کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کیا۔ بوڑھوں پر ہاتھ اٹھایا۔ آج کی دنیا میں بھی امریکہ ہو یا برطانیہ روس ہو یا فرانس جب آتش انتقام بھڑکتی ہے۔ تو شہروں پر بمباری کرنے سے نہیں ہچکچانے کتنے شہری ہیں جو لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ کتنے بیمار ہیں جو جانبر نہیں ہو سکتے۔ آج کی دنیا کے یہ نام نہاد متمدن لوگ جب درنگدی پر اتر آتے ہیں۔ تو پھر تمام انسانی قدروں کو روند ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ یہ لوگ خوف خدا سے عاری ہیں۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنا جہاد جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے اخراجات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مال و دولت کے بغیر جہاد کا کوئی تصور نہیں ، اس لئے یہاں پر حکم ہوا۔ وانفقوا فی سبیل اللہ اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس آیت کو سمجھنے میں بعض صحابہ کو اشتباہ ہوا تھا اور حضرت ابوایوب انصاری نے اس عقدہ کو حل کیا تھا۔ یہ وہی جلیل القدر صحابی ہیں۔ جنہیں مدینہ طیبہ میں حضو ر (علیہ السلام) کی میزبانی کا شرف اولین حاصل ہوا تھا۔ یہ جہاں پر بیٹھ جائے گی۔ اسی کے ہاں میرا قیام ہوگا۔ چناچہ یہ سعادت حضرت ابو ایوب انصاری کے حصہ میں آئی اور وہ آپ کا جاوہ اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ جب تک مسجد نبوی اور آپ کا حجرہ تیار نہ ہوگیا ، آپ اسی صحابی کے ہاں مقیم رہے۔ حضرت ابو ایوب استنبول کے جہاد میں شریک ہوئے ۔ وہیں آپ کی وفات ہوئی اور استنبول کی دیوار کے قریب دفن ہوئے۔ حضور ﷺ نے اس جہاد کی پیش گوئی فرما دی تھی۔ کہ آخری زمانہ میں مسلمان استنبول جو ترکی کا دارالخلافہ ہے۔ کو فتح کریں گے ، پرانے زمانے میں اسے قسطنطنیہ کہتے تھے۔ پھر جب دجال کا زمانہ قریب آئے گا تو اس علاقہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر مسلمان غالب آجائیں گے۔ الغرض اس جہاد کی کمان مشہور سپہ سالار خالد بن ولید کے بھائی عبدالرحمٰن بن ولید کر رہے تھے۔ میدان جنگ کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ سامنے دشمن تھا۔ اور مسلمانوں کے پیچھے دیوار تھی ، گویا مسلمان گھرے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان جذبہ جہاد میں کفار کی صفوں میں گھس گیا ، بڑے زور شور سے حملہ کیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح یرموک کی لڑا ئی میں حضرت زبیر لاکھ سوا لاکھ کفار کی صفوں پر تن تنہا حملہ آور ہوئے تھے۔ اسی طرح یہ گھوڑا سوار صحابی دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے اور پھر ادھر سے حملہ آور ہو کر واپس آئے۔ اس موقع پر ایک شخص نے یہ آیت پڑھی ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو تن تنہا اتنے بڑے لشکر میں گھس جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری واں موجود تھے ، کہنے لگے بھئی اس کا یہ مطلب نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ آیت تو ہمارے یعنی انصار مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جاد کو ترک کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی اگر تم نے جہاد سے منہ موڑ لیا۔ تو من حیث القوم زندہ نہیں رہ سکو گے۔ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ہم نے مہاجرین کی میزبانی کی ، پھر سالام کی خاطر جنگیں بھی لڑیں ، پھر جب دین کو کافی حد تک غلبہ حاصل ہوگیا۔ تو ہم انصار نے خیال کیا کہ ہم مالی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں لہٰذا اب ہمیں اپنے کاروبار اور زمینوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے بات سمجھا دی کہ کاروبار میں مصروف ہو کر جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کو ترک نہ کر بیٹھنا۔ اگر ایسا کیا تو ذلیل و خوار ہو جائو گے ، ہلاکت میں پڑ جائو گے۔ لہٰذا جہاد کے لئے ہر آن اور ہر لمحہ کمر بستہ رہو۔ مطلب یہ ہے کہ دشمن کی صفوں میں گھس جانا ہلاکت کا باعث نہیں بلکہ جہاد سے رو گردانی کرنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ اگر جہاد ترک کر دوں۔ آرام طلب بن جائو گے ، تو دشمن تم پر غالب آ کر تمہیں ہلاکت میں ڈال دے گا۔ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ اور آپ کے جلیل القدر شاگردوں نے بھی اس مسئلہ پر بحث کی ہے امام صاحب تابعین میں سے ہیں۔ آپ کی ملاقات آٹھ اصحاب رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ آپ کے علاوہ باقی تین آئمہ یعنی امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد میں سے کسی کو تابعی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ پیشہ کے لحاظ سے امام ابوحینفہ تاجر تھے آپ کے کارخانہ میں کپڑا تیار ہوتا تھا ، جس کی آپ وسیع پیمانے پر تجارت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مال بھی دیا تھا اور پھر اسے خرچ کرنے کا حوصلہ بھی عطا فرمایا تھا خصوصاً غریب طلباء کی اس طرح مدد کرتے تھے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا تھا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ، جن میں بڑے قابل لوگ ہوئے ہیں۔ خصوصاً امام ابو یوسف علم حدیث میں بڑی دسترس رکھتے تھے اور امام محمد …لغت دانی کے لحاظ سے بےمثال تھے ۔ آپ امام شافعی کے استاد تھے امام احمد کا قول ہے کہ جس مسئلہ پر امام ابوحنیفہ امام یوسف اور امام محمد جمع ہوجائیں ، تو پھر مخالفت نہیں ہو سکتی۔ ان تینوں کا اجماع گویا فقہ ، حدیث اور زبان کا اجماع ہے۔ دنیا میں فقہ حنفی کی اس قدر پذیرائی اما م صاحب کے قابل شاگردوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ امام ابو یوسف اپنے دور میں ساٹھ لاکھ مربع میل پر محیط سلطنت خلافت کے چیف جسٹس تھے اس وقت اسلامی مملکت ایک طرف خراسان تک اور دوسری طرف افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ امام لیث ابن سعد ، امام مالک کی طرح بڑے امام تھے مگر ان کے شاگردوں میں کوئی قابل ذکر ہستی نظر نہیں آتی۔ امام شافعی کے شاگرد بڑے قابل تھے ، لہٰذا ان کا مسلک دور دور تک پھیلا۔ امام احمد کے شاگردوں نے بڑی محنت کی جس کی وجہ سے آپ کا مسلک بھی پھیلا۔ قانون صلح و جنگ امام محمد نے سیر کبیر اور سیر صغیر دو مشہور کتابیں لکھی ہیں ان میں سیر کبیر اسلام کے قانون صلح و جنگ کے متعلق ہے۔ اسلام کے اس قانون کو سمجھنے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی کتاب نہیں۔ اس میں احادیث رسول مقبول ﷺ آثار صحابہ کر اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کی روشنی میں مسائل صلح و جنگ کو حل کیا گیا ہے۔ ان کے سامنے بھی یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر کفار کی کثیر تعداد سامنے موجود ہو ، تو اس کے ساتھ ایک تنہا مسلمان کو جنگ کرنا کس حد تک درست ہے۔ جب کہ اس کی جان تلف ہوجانے کا غالب گمان ہو۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ایسا کرنے سے دشمن کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، جس کا بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو فائدہ ہو ، تو اس قسم کی قربانی پیش کرنا روا ہے اور اگر ایسا کرنے سے نہ کفار کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، اور نہ ہی اسلام کو فائدہ ہو ، تو پھر محض جان کا ضیاع ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ انفاق فی سبیل اللہ یہاں پر مطلق حکم ہے۔ وانفقوا فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ اللہ کا راستہ کون سا ہے۔ قرآن پاک میں اس کی مختلف مدات بیان کی گئی ہیں۔ ” مما رزقنھم ینفقون “ میں بھی یہی بات ہے خرچ کریں مگر کہاں تو اس کی تشریح پہلے آ چکی ہے۔ سب سے پہلے زکوۃ ادا کرو ، پھر حج وعمرہ کا خرچہ ہے۔ غرباء و مساکین پر خرچ کرو۔ اس کے بعد دفاع کا ہے اور اسی مد میں جہاد فی سبیل اللہ بھی آتا ہے۔ اور پھر اللہ کے راستے کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ جیسے دین کی تعلیم کا شعبہ ہے تصنیف و تالیف کی مد ہے ، مجاہدین کی اعانت ہے۔ ان سب امور پر خرچ کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ، محض زکوۃ ادا کردینے سے سارے مالی حقوق ادا نہیں ہوجاتے بلکہ ان فی المال حقاً سوی الزکوۃ حضور ﷺ نے فرمایا زکواۃ کے علاوہ بھی ماحول میں حق باقی ہے۔ زکواۃ فرض ہے۔ اس کے بعد صدقہ فطر واجب ہے۔ قربانی بھی واجب ہے۔ اسی طرح اعزہ و اقارب پر خرچ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اخراجات سنت اور مستحب ہیں۔ ان سب میں خرچ کرنا چاہئے اور سب سے بڑھ کر جہاد کی مد ہے اگر اہل اسلام اس مد میں خرچ نہیں کریں گے تو دشمن غلبہ پا جائے گا اور مسلمان ذلیل و خوار ہوں گے اور پھر نہ صرف مال ضائع ہوگا بلکہ جانیں بھی تلف ہوگی۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ تاتاریوں کے حملوں کے بعد مسلمانوں کے قدم نہیں جم سکے۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں قربانی کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ غیر مسلم اقوام زیادہ خرچ کرتی ہیں۔ اسلحہ سازی اور دوسری ٹیکنالوجی پر جو کچھ امریکہ اور روس خرچ کر رہے ہیں۔ اس کی مثال کہاں ملے گی۔ فضول خرچی حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائپوری کی ایک مجلس میں یہ خبر موضوع بحث بنی کہ سجدے کی کسی امیر نے فرانس سے تین لاکھ ریال میں بنابنایا حمام منگوایا ہے۔ آپ نے بڑے افسوس سے فرمایا ، یہ مسلمانوں کی بدبختی ہے کہ حمام پر اتنا خرچ کردیا ہے۔ اگر اس رقم سے کوئی فیکٹری لگاتے تو ملک و قوم کا فائدہ ہوتا ہے۔ حمام تو محض نمود و نمائش اور عیاشی کا سامان ہے۔ اس سے قوم کو کیا فائدہ پہنچا۔ اس زمانے کی بڑی بڑی عمارتیں اور ان میں تعیش کا سامان مسلمانوں کے کون سے کردار کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بڑی بڑی قیمتی کاریں درآمد ہو رہی ہیں ، غیر ملکی عورتوں سے شادیاں ہو رہی ہیں لاکھوں روپیہ ننگ و ناموس کے نام پر برباد کیا جا رہا ہے۔ مگر کیا مسلمان دنیا میں باعزت زندگی بسر کر رہا ہے۔ نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کا دست نگر بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں انگریز نے کس قدر ذلیل کیا ہے۔ روس اور امریکہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس افرادی قوت ہے۔ بیشمار وسائل مہیا ہیں مگر سب عیاشی کی نذر ہو رہے ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کو ترک کردیا گیا ہے۔ ایک فیصد بھی صاحب ثروت آپ کو نہیں ملیں گے جو اپنے مال کا معقول حصہ دین کی حفاظت اور اس کی بقا کے لئے خرچ کر رہے ہوں۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں نواب نجیب الدولہ تھے اپنے دور میں پانچ سو علماء کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا۔ یہ وظیفہ پانچ روپے سے لیکر پانچ سو روپے تک تھا۔ اس وقت کے پانچ سو روپے آج کے پانچ ہزار سے زیادہ حیثیت رکھتے تھے۔ یہ وظیفہ محض علم دین کی تحصیل کے لئے دیا گیا تھا اور وہ لوگ نواب کی کسی پالیسی کے پابند نہیں تھے۔ جیسا کہ آج کل بیورو کریسی کا شیوہ ہے کہ کسی کو چند ٹکے دیکر اس کا دین ایمان تک خرید لیا۔ ایسا نہیں تھا۔ آج مسلمان تبلیغ دین کے لئے کتنی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ عیسائیت کا راستہ بند کرنے کے لئے کیا تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور بطانیہ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے اربوں روپیہ خرچ کر رہا ہے۔ کہیں سکول کے نام پر ، کہیں کسی ہسپتال کی آڑ میں اور کہیں کسی اور رفاہی ادارہ کی صورت میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ مگر سچے دین کا داعی مسلمان ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ خدا کا فرمان ہے خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر ہم پر کوئی اثر نہیں۔ ایسی صورت حال میں دشمن غلبہ حاصل نہیں کرے گا ، تو اور کیا ہوگا۔ احسان کرو فرمایا ، واحسنوا یعنی مستحقین کے ساتھ احسان کرو۔ قربات داروں غریبوں مسکینوں ، بیوائوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ان اللہ یحب المحسنین بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اللہ کے راستے میں خرچ کر کے احسان جیسے اہم اصول پر عمل کرو۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کرنے والوں ، کفر و شرک اور بدعات کے مرتکبین کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔
Top