Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھتے ہیں ، پس میں قریب ہوں ۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے پس چاہئے کہ یہ لوگ یہ میرا حکم مانیں اور چاہئے کہ یہ مجھ پر یقین رکھیں ، تا کہ یہ ٹھیک راہ پا جائیں
شان نزول آیت زیر درس سے ما قبل اور ما بعد آیات روزہ سے متعلق ہیں ۔ پہلی آیات میں معذور لوگوں کو حاصل ہونے والی رعایت کا ذکر تھا اور بعد والی آیت میں روزے کے احکام ہیں ۔ اس درمیانی آیت میں اس دعا کا ذکر ہے ، جو بندہ اپنے رب کے حضور کرتا ہے گزشتہ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور اس کا شکریہ ادا کرنے کا بیا ن تھا۔ اس ضمن میں بعض حضرات نے حضور نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو کس طرح پکارنا چاہئے ، کیا وہ انسان کے قریب ہے یا بعید ، اگر قریب ہے تو اس کے ساتھ سر گوشی سے مناجات کریں اور اگر وہ دور ہے تو زور سے پکاریں ، اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا واذا سالک عبادی عنی جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں ، فانی قریب تو میں ان کے بالکل قریب ہوں ۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان میں دعا کرنے والے کو دعا کو سنتا ہوں ، جب وہ دعا کرتا ہے اور مجھے پکارتا ہے۔ رمضان اور قبولیت روحانیت کے لحاظ سے رمضان کا مہینہ ایسے ہی ہے۔ جیسے سال بھر کے موسموں میں موسم بہار ہوتا ہے۔ جب ہر چیز اپنے جوبن پر ہوتی ہے ، اسی طرح رمضان شریف میں دوسرے مہینوں کی نسبت نیکی کی قدر و قیمت اور وقعت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ نفل فرض کے برابر ہوجاتا ہے اور ایک فرض سترفرضوں کے اجر کے برابر ہوتا ہے ، ترمذی شریف میں امام زہری (رح) کا قول ہے فرماتے ہیں تسبیحۃ فی رمضان خیر من الف تسبیحۃ فیما سواہ رمضان المبارک میں اخلاص کے ساتھ کی گئی ایک تسبیح غیر رمضان کی ایک ہزار تسبیح سے بڑھ جاتی ہے ، گویا یہ مہینہ تکمیل روحانیت کے لیے موسم بہار کا درجے رکھتا ہے ، لہٰذا قبولیت دعا کے لیے بھی یہ مبارک مہینہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ دعا کی قبولیت میں زمان اور مکان کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اس لحاظ سے رمضان کا مہینہ ایسا مبارک مہینہ ہے۔ جس میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ زمان کے لحاظ سے حضور نے جوف اللیل الاخر یعنی رات کے آخری حصہ کا ذکر فرمایا کہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے جمعۃ المبارک کے متعلق بھی فرمایا کہ اس روز ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے ، جس میں دعا ضرو ر قبول ہوجاتی ہے ۔ مکان کے لحاظ سے ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں کی گئی دعائیں لازمی قبول ہوتی ہیں جیسے مقامات مقدسہ منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ ، صفا و مرہ ، بیت اللہ شریف ، ملتزم حطیم وغیرہ ۔ ایک حدیث میں یوں آتا ہے کہ جو شخص رمضان المبارک میں مانگتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو ناکام نہیں لوٹاتا ، دعا ہمارے دین کا اہم حصہ ہے ، عبادتک ایک اہم اصول ہے۔ الدعا ھو العبادۃ دعا عبادت ہی ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے ، قرآن پاک میں آتا ہے ان الذین یستکبرون عن عبادتی جو لوگ میرے سامنے دعا کرنے سے تکبر کرتے ہیں ، وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں ہونگے ، مستدرک حاکم کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں ۔ الدعا نور المومن سلاح المومن السموات والارض ، عماد الدین یعنی دعا مومن کا نور ہے ، مومن کا ہتھیار ہے۔ زمین و آسمان کا نور اور دین کا ستور ہے۔ آداب دعا اللہ تعالیٰ کا ذکر آہستہ آواز سے کرنا چاہئے یا بلند آواز سے اس کا بیا ن آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ میں بندے سے بالکل قریب ہوں ، ایک موقع پر سفر کی حالت تھی ، صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کے ہمرکاب تھے اور بلند آواز سے ذکر الٰہی یعنی تکبر و تہلیل میں مصروف تھے ، آپ نے ارشاد فرمایا اربعوا علی انفسکم لوگو ! اپنی جانوں پر نرمی اختیار کرو۔ تم جس ذات کو پکار رہے ہو ، وہ بعید نہیں ہے۔ وہ تو قریب ہے ، لہٰذا بلند آواز سے چیخ و پکار نہ کرو۔ ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے اور قرآن کریم میں یہ بھی موجود ہے ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ہم تو انسان کے رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں ، لہٰذا اسے آہستگی سے پکارو اور اس کے سامنے آہستہ اور خاموشی سے دعا کرو ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ اپنے رب کو عاجزی سے پوشیدہ اور گڑ گڑا کر پکارو۔ البتہ اونچی آواز سے دعا کرنا بھی جائز ہے ، لیکن بلند آواز اس جگہ پر ہوگی جہاں کسی کو تکلیف نہ پہنچتی ہو۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ آواز بلند کرنے سے اگر کسی کی نماز میں خلل ہوتا ہو یا تلاوت متاثر ہوتی ہو تو پھر بلند آواز سے دعا کرنا بھی مکرو ہ ہے ، لہٰذا آہستہ آواز سے پکارنا ہی بہتر ہے اگرچہ بآواز بلند بھی روا ہے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بیان میں خود قرآن پاک کا ارشاد ہے اذا ادی ربہ ندا خفیا جب کہ وہ چپکے چپکے اپنے رب کے سامنے دعا کر رہے تھے۔ حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے ۔ خیر الذکر ما یخفی بہتر ذکر وہ ہے جو مخفی ہو دوسری جگہ فرمایا خیر الذکر الخفی و خیر الرزق ما یکفی بہتر ین ذکر وہ ہے جو پوشیدہ ہو اور بہترین روزی وہ ہے جو کفایت کر جائے۔ غرضیکہ مخفی ذکر ہیں ایک تو دوسرے کی ایذا رسانی ہوتی اور دوسرے ریا کاری سے بچ جاتا ہے ، لوگ بلند آواز سے ذکر و اذکار کرتے ہیں اور درود شریف پڑھتے ہیں ، لائوڈ سپیکر کھول کر اہل محلہ بیماروں اور دیگر عبادت گزاروں کے لیے ایذا رسانی کا باعث بنتے ہیں۔ دوسروں کی عبادت میں خلل انداز ہوتے ہیں ، یہ اچھی علامت نہیں ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں ، حالانکہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہو رہی ہے ، ایسی صورت میں آپ کی عبادت اللہ کی بارگاہ میں باعث گناہ ہو سکتی ہے۔ بہر حال ماہ رمضان سے متعلق دو آیات کے درمیان دعا کا ذکر اس لیے ہوا کہ اس ماہ مبارک میں دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کے میرے بندے جب بھی مجھے پکاریں ، میں قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں اور اسے قبول کرتا ہوں مگر دو شرائط کے ساتھ ایک یہ کہ دعا کرنے والا میرے حکم کو مانے اور دوسری یہ کہ وہ ایمان رکھتا ہو۔ خاندان شاہ ولی اللہ (رح) شاہ ولی اللہ (رح) دہلوی کا خاندان برصغیر پاک و ہند کا مشہور خاندان ہے ، اس خاندان کے علمی کارنامے ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔ آپ کے والد بزرگوار مولانا شاہ عبد الرحیم (رح) بڑے پائے کے بزرگ تھے۔ آپ ان پانچ سو علماء کی مجلس کے رکن تھے جنہیں اور نگ زیب عالمگیر (رح) نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ سارے علماء بادشاہ سے تنخواہ پاتے تھے ، مگر شاہ عبد الرحیم (رح) کو یہ چیز کھٹکتی تھی ، ان کا ضمیر تنخواہ لینا پسند نہیں کرتا تھا ، جب عالمگیر (رح) نے آپ کا نام اس مجلس سے خارج کردیا ، تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے انہیں اس معاوضے سے بچا لیا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے اس کے بعد آپ نے مدرسہ قائم کر کے درس و تدریس کا کام شروع کردیا۔ آپ امام مجدد الف ثانی (رح) کے مریدوں کے مرید تھے۔ شاہ ولی اللہ (رح) بارہویں صدی کے مجدد تھے ۔ آپ نے دی اور علم کی تجوید کی آپ نے سب سے پہلے فارسی زبا ن میں فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن کے نام سے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا ۔ اس وقت فارسی ہی دفتری زبان تھی ، لہٰذا اس زبان میں استفادہ کا زیادہ امکان تھا۔ اس وقت اردو زبان بھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھی ۔ تا ہم آپ کے فرزند ارجمند شاہ رفیع الدین (رح) نے اردو زبان میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ کیا ، اگرچہ آج وہ زبان پرانی ہوچکی ہے ، تا ہم یہ لفظی ترجمہ کمال درجے کا ہے آپ نے قرآن پاک کی تفسیر و تشریح کا سلسلہ بھی شروع کیا ، اور آپ کے ایک شاگرد نے آپ کے ارشادات نوٹ کر کے سورة بقرہ کا حصہ شائع بھی کیا ۔ شاہ عبد العزیز (رح) کی تفسیر عزیزی بھی اپنی نوعیت کی بہترین تفاسیر میں سے ہے ، یہ تفسیر شاہ صاحب نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھی ، اپ تو نابینا ہوچکے تھے۔ اس لیے یہ خدمت آپ کے شاگردوں نے انجام دی ۔ آپ تو زبانی تفسیر بیان کرتے تھے ، ہفتہ میں ایک دن وعظ بھی کرتے تھے ، جس میں ہزاروں لوگ شریک ہو کر فیضاب ہوتے تھے ۔ بعض اوقات غیر مسلم بھی اس پاکیزہ مجلس میں شریک ہوتے اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر جاتے ، وعظ اتنا موثر ہوتا تھا کہ اپنا محاورہ درست کرنے کے لیے شاعر لوگ بھی مجلس وعظ میں بیٹھ جاتے ۔ اس زمانے میں مومن خان مومن بڑا مشہور شاعر ہوا ہے۔ صحیح العقیدہ آدمی تھا ، شاہ صاحب کی محفل میں شریک تھا ، کسی نے پوچھا آپ تو وعظ وغیرہ کے شائق نہیں ہیں ۔ آپ کیسے تشریف لائے تو وہ کہنے لگا کہ شاہ صاحب کی زبان کی شستگی حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتا ہوں ، آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہم لوگ محاورہ میں استعمال کر کے اپنی شاعری کو چمکاتے ہیں ۔ مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ اگر یہ تفسیر مکمل ہوجاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ امت نے قرآن پاک کا حق ادا کردیا ہے ، غرضیکہ یہ تفسیر پر مغز ، با محاورہ اور حکمت آمیز تفسیر ہے ، یہ تفسیر پاک کے آخری دو پاروں اور دوسرے پارہ میں کتب علیکم الصیام تک ہے ۔ اس کے بعد شاہ صاحب وفات پا گئے اور یہ سلسلہ یہیں رک گیا ، بہر حال جتنا حصہ بھی میسر ہے ، حکیمانہ تفسیر کے لحاظ سے بہترین تفسیر ہے۔ شاہ عبد القادر (رح) نے بھی قرآن پاک کا اردو ترجمہ کیا۔ جس حضرت مولانا احمدلاہوری (رح) نے مزید سلیس کیا ہے۔ مولانا شیخ الہند (رح) کا ترجمہ جو میرے سامنے ہے ، وہ شاہ عبد القادر (رح) کے ترجمہ کی آسان صورت ہے۔ آپ نے ایڈورڈ روڈ دہلی کی اکبرمسجد میں بارہ سال تک اعتکاف کیا اور یہ ترجمہ لکھا جو بالکل با محاورہ اور سلیس ترین ہے ، تاج کمپنی اور دیگر اداروں نے اس کے بیشمار ایڈیشن شائع کیے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) ے بھی آج سے اسی برس قبل قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر لکھی ۔ آپ نے ترجمہ قرآن کو زیادہ آسانی کرنے کی کوشش کی ۔ اپنی نوعیت کی یہ بھی کمال درجے کی کاوش ہے ، اس کے بعد اور بھی بہت سے خطرات نے قرآن پاک کے تراجم لکھے ہیں ۔ قرب خداوندی الغرض ! شاہ رفیع الدین (رح) تفسیر رفیقی ہے۔ فانی قریب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرب خداوندی کی کئی ایک صورتیں ہیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ با اعتبارذات قریب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں کوئی ایک ذرہ بھی ایسا نہیں ، جس کا قیام اور بقا خدا تعالیٰ کے وجود کے بغیر حاصل ہو ۔ خدا تعالیٰ کی صفت قیومیت کی وجہ سے ہرچیز کو وجود حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ وجود اور ذات کے اعتبار سے قریب ہے۔ علم اور قدرت کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ قریب ہے ، کیونکہ اس کے علم ، ارادے اور تاثیر کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محبت اور حمایت کے اعتبار سے بھی قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ تجلی کے اعتبار سے بھی قریب ہے ، جب انسان اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے ، تو ادھر سے تجلی پڑتی ہے اسی طرح عبدیت کے ربط کے اعتبار سے بھی خداوند تعالیٰ قریب ہے انبیاء (علیہ السلام) کو بارگاہ خداوندی کے ساتھ براہ راست رابطہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ رابطہ وحی کی صورت میں ہوتا ہے ، عام لو گ بندگی کے ذریعے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسکی عبدیت کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم تیرے محتاج بندے ہیں ، تو ان کو بھی قرب الٰہی حاصل ہوئی ہے ، یہ قرب کی مختلف صورتیں ہیں ۔ بعض چیزیں قرب خداوندی کے منافی ہوتی ہے ، مثلاً شہوات قرب الٰہی سے محروم کردیتی ہیں ، جو شخص خواہشات میں مبتلا ہوگیا ، وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوگیا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شریعت میں ایسے احکام مقرر فرمائے ہیں جنکی بجا آوری سے بندوں کو اللہ کا قرب ملتا رہتا ہے ، نماز ہی کرلے لیجئے ، یہ ایسی عبادت ہے جس کی ادائیگی سے دنیاوی خواہشات زائل ہو کر قرب خداوندی کا سبب بنتی ہے زکوٰۃ ا یادا کرنے سے مال کی محبت دل سے نکل جاتی ہے ، ایسا شخص مال خرچ کرنے پر دلیر ہوجاتا ہے ، جسکی وجہ سے اسے قرب خداوندی حاصل ہوتا ہے ، روزہ کے ذریعے انسان خوردو نوش کی خواہشات سے قابو پاتا ہے ، اور قرب الٰہی حاصل کرتا ہے حج کا فریضہ ادا کرنے سے انسان کی خوش پوشی کی خواہش کو دھچکا لگتا ہے ، کیونکہ احرام کی حالت میں ہر شاہ و گدا ایک ہی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں ، یہ بھی قرب خداوندی کی نشانی ہے ، جہاد جیسی عبادت سے لذات اور تنعمات سب ختم ہوجاتے ہیں اور قرب الٰہی حاصل ہوجاتا ہے یہ قرب خداوندی کی مختلف شکلیں اور اس کے درمیان رکاوٹیں ہیں ۔ قبولیت دعا دعا کی قبولیت کے ضمن میں دو باتیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک بات دعا کرنے کے متعلق ہے اور دوسری اس کے مبادی کے سلسلہ میں ہے ، پہلی چیز تو یہ ہے کہ دعا کی قبولیت رزق حلال کے ساتھ مشروط ہے ، حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ حلال رزق کھائو گے تو دعا قبول ہوگی ، دوسری چیز یہ ہے کہ دل کی پوری توجہ ساتھ ہونی چاہئے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے ان اللہ لا یقبل دعاء من قلب لاہ غافل یعنی اللہ تعالیٰ اسی دعا کو قبول فرماتے ہیں کہ جو عاجزی کے ساتھ دل کی گہرائیوں اور پوری توجہ کے ساتھ کی گئی ہو ، جو غافل ہے لہو و لعب میں مشغول ہے ، اس کی دعا قبول نہیں کی جاتی ، نیز یہ بھی آتا ہے کہ دعا جب پورے یقین کے ساتھ کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ ضرو ر قبول فرمائیں گے ۔ حضرت یحییٰ معاذ رازی (رح) بڑے پائے کے بزرگ ہوئے ہیں ، ایک موقع پر فرمایا کیف ادعوک وانا اثم یعنی پروردگار ! میں تجھ سے کیسے دعا کروں ، کیونکہ میں تو گناہ گار ہوں ، پھر جلدی سے فرمایا کیف لا ادعوک وانت کریم میں تیرے سامنے کس طرح نہ دعا کروں کیونکہ تو کریم ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے وہ حیا کرتا ہے ، جب اس کا بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ بندے کے ہاتھ خالی لوٹا دے لہٰذا اس کی دعا قبول کرلیتا ہے اور حدیث شریف میں ایسی دعا سے پناہ مانگی گئی ہے جو قبول نہ ہو ۔ دعا کی قبولیت کا معنی بھی سمجھ لینا چاہئے ، قبولیت دعا صرف اسی چیز کا نام نہیں کہ انسان جو مانگے فوراً مل جائے بلکہ کسی چیز کا حاصل ہونا تو حکمت خداوندی کے مطابق ہوتا ہے اور بعض اوقات انسانی ذہن بالکل بچوں والی حرکات کر بیٹھتا ہے وہ اللہ سے ایسی چیز طلب کرتا ہے جو اس کی حکمت کے مطابق انسان کے لیے بہتر نہیں ہوتی ، لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسی چیز اس کے مقدر میں نہیں کرتا ، انسان سمجھتا ہے کہ ا س کی دعا قبول نہیں حالانکہ اس چیز کا نہ ملنا اس کی خیر خواہی میں ہوتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ناسمجھ بچہ اصرار کرے کہ آگ کا انگارہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے ، مگر کون عقل مند ہوگا جو بچے کی یہ خواہش پوری کریگا ، اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کی دعا قبول ضرو ر کرتا ہے مگر اپنی مصلحت کے مطابق ، حضور ﷺ نے قبولیت دعا کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں ۔ جب دعا مصلحت خداوندی کے مطابق ہوتی ہے ، تو وہ فوراً قبول کرلی جاتی ہے اور بندہ کو اسکی مطلوبہ چیز دے دی جاتی ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ مطلوبہ شے تو بندہ کو نہیں ملتی مگر اس دعا کی برکت سے بندہ پر نازل ہونے والی کوئی مصیبت ٹال دی جاتی ہے ، حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جب بندہ کی دعا نکلتی ہے ، تو وہ آنے والی مصیبت کے ساتھ ٹکراتی ہے ، اور وہ اسے نیچے نہیں آنے دیتی حتیٰ کہ صور اسرافیل پھونکا جائے ۔ فرمایا دعا کی قبولیت کی تیسری صورت یہ ہے کہ اسے دعا کرنے والے کے لیے ذخیرہ آخرت بنا کر رکھ دیا جاتا ہے ، قیامت کے دن دعا گو کو پتہ چلے گا کہ دعائوں کے کتنے ذخیرہ اس کے لیے موجود ہیں ۔ اس دن بندہ خواہش کرے گا ، کاش کہ دنیا میں اس کی کوئی دعا قبول ہی نہ ہوتی اور وہ سب کو سب اس کے لیے آخرت کا ذخیرہ ہی بن جاتی ۔ فرمایا جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں تو قریب ہوں میں ہر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں ، جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔ فلیستجیبوالی پس چاہئے کہ وہ میرے حکم کی تعمیل کریں ۔ والیومنوا بی اور چاہئے کہ وہ مجھ پر یقین رکھیں مجھ پر ایمان کامل رکھیں لعلھم یرشیدون تا کہ راہ پائیں یعنی انہیں نیک راہ اس وقت نصب ہوگی جب وہ تعمیل حکم کریں گے اور ایمان لائیں گے۔
Top