Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
فرض کی گئی ہے تمہارے اوپر جس وقت کہ ائٓے تم میں سے کسی کے پاس موت اگر اس نے مال چھوڑا ہے ، تو وصیت والدین کے حق میں اور قرابت داروں کے حق میں دستور کے مطابق یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر
حفاظت جان کا قانون گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ قصاص کا قانون تقویٰ کا ایک جزو ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون جاری فرما کر انسانی جانوں کی حفاظت نے یہ قانون نافذ کردیا کہ اگر عدل و انصاف کا دامن تھامے رکھو گے ، تو جانیں محفوظ ہوجائیں گی اور تم کو صحیح زندگی نصیب ہوگی۔ اس کے ساتھ قانون دیت بھی حفاظت جان ہی کا ایک حصہ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے قوانین نافذ کئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ قتل ناحق اکبر الکبائر میں سے ہے۔ یعنی سات بڑے گناہوں میں سے پہلا نمبر شرک کا ہے اور دوسرا قتل ناحق کا ہے۔ قتل النفس التی حرم اللہ حضرت عثمان کی روایت میں آتا ہے کہ ایک تو جہاد میں جان کا اتلاف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صرف تین صورتوں میں جان کو تلف کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان تین صورتوں کے علاوہ کسی کی جان لے گا ، تو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ پہلی صور تقصاص کی ہے۔ کسی شخص کو قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے ، تو وہ جائز ہوگا۔ دوسرا قتل اس مرد یا عورت کا جائز ہے۔ جسے زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا ہو اور تیسرا قتل اس شخص کا جائزہ ہے۔ جو دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔ الغرض گزشتہ درس میں حفاظت جان کا قانون بیان کیا گیا تھا۔ اسلام کا ضابطہ دیوانی ضابطہ فوجداری کی طرح اسلام نے ضابطہ دیوانی یعنی مال کا قانون بھی عطا کیا ہے جس کی تفصیلات قرآن و سنت میں موجود ہیں اس سے پہلے قصاص یعنی فوجداری قانون کا بیا ن آ چکا ہے۔ دیوانی قانون کی بنیاد کے متعلق قرآن پاک میں جگہ جگہ آیا ہے۔ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھائو۔ خبردار کسی حرام یا مشکوک ذریعے سے مال مت حاصل کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو کمال سے محروم ہو جائو گے اور جب مال جائز طریقے سے حاصل کرلو ، تو اس کو غلط اور ناجائز امور پر خرچ نہ کرو۔ اگر بیجا تصرف کرو گے تو ظالم اور گنہگار بن جائو گے۔ الغرض مالی امور کے متعلق بھی اسلام نے پورا ضابطہ عطا کیا ہے فوجداری قانون میں انسانی جان کے تحفظ کی ضمانت تھی ، اس دیوانی قانون میں مال کے تحفظ کے اصول بتلائے ہیں اور دونوں قوانین کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ اسلامی قانون حکمت پر مبنی ہے امام شاطبی کا تعلق اندلس سے ہے۔ آپ مالکی مسلک کے بہت بڑے امام گزرے ہیں۔ آپ نے ” موافقات “ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کا سارا قانون حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی کوئی شق حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں بڑی بڑی باریکیاں اور حکیمانہ مصلحتیں رکھی ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی ایک ایک آیت میں اس قدر حکمتیں ، مصلحتیں اور باریکیاں موجود ہیں کہ دنیا کے تمام انسان مل کر سوچیں ، تو اس کے برابر نہیں سوچ سکتے۔ آپ ” فیوض الحرمین “ میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات جب میں بعض آیات پر غور کرتا ہوں تو ان کی تہ میں مجھ پر بجز بیکراں جیسے وسیع انکشافات ہوتے ہیں۔ جو عام انسانوں کی سوچ و بچار سے باہر ہوتے ہیں۔ تحفظ نفس اسلام نے جہاں دیگر تحفظات دیئے ہیں ، وہاں تحفظ نفس کی بھی ضمانت دی ہے۔ نسب بالکل محفوظ ہونا چاہئے۔ اس میں … خلط ملط نہیں ہونا چاہئے۔ برخلاف اس کے غیر اقوام میں تحفظ نسب کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ ڈاکٹر اسپنسر گزشتہ صدی کا بہت بڑا فلاسفہ ہوا ہے۔ اب تو یورپ کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ اس وقت صرف چالیس پینتالیس لاکھ تھی وہ کہتا ہے کہ یورپی قانون پر لعنت ہو کہ پینتالیس لاکھ میں سے یقین کے ساتھ پینتالیس آدمی بھی حلال کے نہیں نکالے جاسکتے ، یہاں کا قانون ایسا گندہ ہے مگر اسلام نسب کی حفاظت کرتا ہے قرآن و سنت میں اس کے متعلق بہت سے قانون موجود ہیں۔ اسی طرح دین کی حفاظت کا قانون بھی اسلام میں موجود ہے۔ اگلی آیات آ رہی ہیں ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ دین کی حفاظت کے ہی قوانین تو ہیں۔ امام شاطبی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کے تحفظ کا قانون بھی عطا کیا۔ شراب جیسی قبیح چیز کو حرام قرار دیکر اسلام نے عقل کی حفاظت کا اتنظام کردیا ہے۔ شراب ایسی نشہ آور چیز سے عقل و خرد کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ الغرض ! اسلام نے تو بہترین حکیمانہ قوانین عطا کئے ہیں۔ مگر یہ خود ہماری نالائقی ہے کہ ہم ان سے مستفید نہیں ہونا چاہتے۔ ان سنہری اصولوں کو چھوڑ کر ہم غیروں کے گندے قوانین تلاش کر رہے ہیں۔ کبھی امریکہ کی طرف جاتے ہیں ، کبھی یورپ کی طرف دیکھتے ہیں ، کبھی ایشیا کا رخ کرتے ہیں کہ کہیں سے اچھا دستور مل جائے کوئی اچھا فوجی نظام حاصل ہوجائے یا کوئی اقتصادی نظام ہی میسر آجائے۔ مگر وہاں پر لعنت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قرآن و سنت جیسے اعلیٰ وارفع قوانین کہیں سے نہیں ملیں گے۔ مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ اس دور میں اسلامی تحریک کے خلاف سب سے بڑھ کر روسی ذہن کام کر رہا ہے اس وقت اسلام کی مخالفت میں سب سے زیادہ اشتراکی نظام کار فرما ہے۔ مگر ایک وقت آئے گا جب یہ نظام بھی مجبور ہو کر قرآنی قوانین کے ساتھ ہتھیا رڈال دیگا۔ ان کے پاس محض دعوے ہے ، عملی طور پر کچھ نہیں اس لئے بالآخر انہیں اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ تحفظ مال اسلام نے مال کا مکمل تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی خرابی موجود ہے تو اسے درست کرنے کا قانون بھی موجود ہے۔ اسلام نے مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ البتہ اسے احسن طریقے سے خرچ کرنے کے اصول بتلائے ہیں اس کے متعلق مختلف قوانین گزر چکے ہیں۔ ” والی المال علی حبہ “ یعنی مال کی محبت کے باوجود اسے خرچ کرو زکواۃ کا مکمل قانون موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی ” ومما رزقنھم ینفقون “ ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرو۔ اس سلسلے میں مکاتب غلاموں کی آزادی کا قانون دیا ہے۔ سورة نور میں آتا ہے ” واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم “ یہ مال اللہ کا دیا ہا ہے اس نے ایسے ذرائع پیدا کردیئے ہیں۔ کہ تمہیں مال پہنچتا رہتا ہے۔ محنت کوئی کرتا ہے۔ مگر تمہیں وراثت میں سے بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے۔ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ ہر انسان فطری طور پر آزاد ہے اسے غلامی کے پھندے سے چھڑائو ۔ ان پر اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہ سمجھو کہ اس مال کے حقیقی مالک تم ہو۔ اصلی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے جس نے تم پر مہربانی کی اور ایسے وسائل تمہارے سپرد کئے جن کے ذریعے مال تم تک پہنچتا ہے۔ پھر اس میں تصرف بھی وہ کرو جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے ، اگر اس کی مرضی کے خلاف خرچ کرو گے ، تو جہنم رسید ہو گے۔ قانون وصیت ان آیات میں وصیت کا قانون بیا ن کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ۔ کتب علیکم اذا حضر احد کم الموت ان ترک خیر الوصیۃ للوالدین ولا قربین بالمعروف یعنی جب کسی کی موت کا وقت قریب ہو اور وہ مال چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہے ۔ تو اس پر لازم ہے کہ وہ والدین اور قربت داروں کے حق میں وصیت کر جائے اور یہ وصیت ہو بھی بالمعروف یعنی دستور کے موافق ، فرمایا ایسا کرنا حقا ً علی المتقین یعنی متقیوں کے لیے ضروری ہے۔ وصیت کا مکمل قانون قرآن پاک کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ یہ آیات اس قانون کی ابتدائی آیات ہیں ، جنہیں سورة نساء کی آیات نے منسوخ کردیا ، جب تک اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے حصے مقرر نہیں کیے تھے ، آیات زیر درس کے ذریعے وارثوں کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تھا تا کہ انہیں بھی میت کے ترکہ میں سے حصہ مل سکے۔ مگر سورة نساء کی آیات نازل ہونے سے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے اس لیے ان کے لیے وصیت کا قانون منسوخ ہوگیا ۔ اب ورثاء کے لیے وصیت نہیں ہے ، البتہ غیر ورثاء کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرسکتا ہے۔ حضور ﷺ نے ورثا یعنی ماں باپ ، بیوی ، خاوند ، اولاد وغیرہ کے متعلق فرمایا۔ ان اللہ اعطی کل ذی حق حقہ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ۔ اب لا وصیۃ لوارث کسی وارث کے لیے وصیت روا نہیں ہے ، انہیں وراثت سے مقرر حصہ خود بخود مل جائے گا ۔ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ورثاء کے لیے وصیت والی یہ آیت منسوخ نہیں ہے ، بلکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ والدین کے لیے وصیت کرنا بھی ضروی ہوجاتا ہے۔ مولانا عبد اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ خود ان کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آیا کہ انہیں ماں کے حق میں وصیت کرنے کا خیال پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ واقعی یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ورثاء کے لیے بھی وصیت ضروری ہوجاتی ہے آپ خود نو مسلم تھے۔ آپ کی والدہ آخر تک اپنے مذہب پر قائم رہی ۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیمار ہوگیا ، مجھے خیال آیا کہ موت کی صورت میں میری کو میرے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملے گا ، کیونکہ وہ غیر مسلمہ تھی اور مومن اور کافر کے درمیان وراثت نہیں چلتی ، تو اس وقت میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ بات کے حق میں وصیت کر دوں بہر حال یہ اسی صورت میں ہوتا جب کہ ماں غیر مسلمہ ہونے کی وجہ سے وراثت کا حق دار نہ تھی ، کیونکہ لا یرث المسلم المکافر ولا الکافر المسلم نہ کافر مسلمان کا وارث ہے اور نہ مسلمان کا وارث ہے ، ایسی صورت میں وصیت ہی کے ذریعے ترکہ تقسیم ہو سکتا ہے۔ انبیاء کی وصیت قرآن پاک میں وصیت کا قانون کئی جگہ بیان ہوا ہے ، جہاں بھی ورثاء کے حصص کا بیا ن آتا ہے۔ تو ارشاد ہوتا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار کے لیے اتنا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ مگر من بعد وصیۃ توصو بھا او دین یہ ترکہ وصیت شدہ مال اور قرضہ نکال کر باقی تقسیم ہوگا ، منجملہ وصیت کی دیگر اقسام کے انبیاء (علیہم السلام) کی بھی وصیت ہوتی ہے ، مگر وہ مال کے متعلق نہیں ہوتی ۔ پوچھے والے صحابہ کرام ؓ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا حضور ﷺ نے کوئی وصیت کی ہے ، صحابی جواب دیتے ہیں کہ آپ نے مال سے متعلق کوئی وصیت نہیں فرمائی کیونکہ آپ کا ارشاد ہے ما ترکنا صدقۃ یعنی نبی جو چیز چھوڑ جاتے ہیں ۔ اس کے متعلق وصیت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ، اسے ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ فرمایا البتہ نبی (علیہ السلام) نے وصیت ضرو ر فرمائی ہے اور وہ قرآن پاک پر عمل کرنے کی غلاموں کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کی ہے ، نماز پر مداومت اور شرک سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا لعن اللہ الیھود والنصری یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو ۔ انہوں نے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا آپ ﷺ نے امت کو تعلیم دی کہ تم میری قبر کے ساتھ وہ سلوک نہ کرنا جو یہود و نصاری نے اپنے انبیاء کی قبور کے ساتھ کیا ، مگر آج کل قبروں کے ساتھ جو کچھ معاملہ ہو رہا ہے ، وہ ہمارے سامنے ہے۔ بیرون ملک سے آنے والا سربراہ مملکت سب سے پہلے جناح صاحب کی قبر پر چادر چڑھاتا ہے ، حضرت علی ہجویری (رح) کی قبر کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ، کوئی ریشمی چادر چڑھا رہا ہے ، کوئی پھولوں کی چادر لے کر آیا ہے ، کوئی پکی پکائی دیگ پیش کر رہا ہے ، کوئی بکرا ، چھترا نذر کر رہا ہے ، کوئی سجدہ کر رہا ہے ، کوئی حاجت روائی کا طالب ہے ، کوئی مشکل کشائی کے لیے دعائیں کر رہا ہے ، یہ سب شرکیہ امور ہیں ۔ حضور ﷺ نے امت کو ڈرایا یحذر مما صنعوا ایسے کام مت کرنا ، مگر ہم الٹے چل رہے ہیں ۔ وصیت کی اقسام وصیت کے کئی ایک قسمیں ہیں ، منجملہ ان کے مباح یا مستحب وصیت کا ذکر حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے متعلق وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں بھی نہ گزارے مگر وصیت اس کے سرہانے کے نیچے لکھی ہوئی موجود ہونی چاہئے۔ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات سنی ہے۔ اس وقت سے میں نے وصیت لکھ کر سرہانے کے نیچے رکھ لی ہے۔ وصیت کی یہ مستحب قسم ہے۔ بعض اوقات وصیت فرض ہوجاتی ہے ۔ کسی شخص کو یقین ہے کہ اسکی زندگی کے آخری ایام آپہنچے ہیں اور اب اس کے بچنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ نیز اس کے ذمے ایک دو سال کی زکوٰۃ واجب الادا ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے وصیت کرنا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی وصیت کر جائے ، وگرنہ عدم ادائیگی کی صورت میں فرض کا تارک ہو کر گناہ گاروں کی صف میں کھڑا ہوگا ، اسی طرح کسی کی امامنت موجود ہے۔ یا کسی کا قرض ادا کرا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ مرنے سے پہلے وصیت کر جائے کہ فلاں فلاں چیز کی ادائیگی کردینا اگر ایسا نہیں کرے گا تو اس کا مال تو ورثاء ہضم کر جائیں گے اور وہ خود دوسروں کا مقروض رہ جائے گا ۔ اسی لیے اسلام نے مرنے والے کے متعلق یہ قاون وضع کردیا کہ سب سے پہلے مرنے والے کے مال میں سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے۔ یہ بنیادی ضروریات میں داخل ہے اس کے بعد اگر مرنے والے کے ذمہ قرضہ ہے۔ تو وہ ادا کیا جائے ، پھر اگر کوئی وصیت ہے تو کل مال کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے۔ اس کے بعد بقیہ مال ورثاء میں تقسیم کردیا جائے مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ ان ضروری امور کی طرف تو توجہ نہیں کرتے ، اس کی بجائے مردے کے قل ، تیجہ ، ساتواں ، دسواں اور چالیسیواں کے چکر میں پڑ کر مرنے والے کا مال ضائع کرتے ہیں ، جو کہ بالکل ناجائز ہے اور اگر مرنے والے کے مال کی بجائے لواحقین اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں ، تو بھی محض رسومات کی خاطر ایسا کرنا فضو ہوگا کیونکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی رسومات پر یتیموں کا مال صرف ہو رہا ہے تو یہ قطعا ً حرام ہے۔ کھانے والے حرام کھا رہے ہیں اس سے بچنا چاہئے اور جن چیزوں کا شریعت نے حکم دیا ہے انہیں پورا کرنا چاہئے۔ وصیت کی ایک قسم ناجائز بھی ہے ، اگر مرنے والا کسی ناجائز کام کی وصیت کرتا ہے تو ایسی وصیت ا جائز ہی کہلائے گی مثلاً کوئی شخص وصیت کر جائے کہ میرے مال میں فلاں قبر پر چادر چڑھا دینا یا فلاں مزار پر بکرا چڑھا دینا وغیرہ وغیرہ ناجائز وصیت ہوگی ، اور ایسی وصیت پر عمل کرنا روا نہیں ہے۔ بہر حال حضور ﷺ نے فرمایا کہ کار خیر کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنے کی اجازت ہے ، تا کہ مرنے والے کو آخرت میں اس کا حصہ ملتا رہے مثلاً مسجد تعمیر کرا دے ، مدرسہ بنوا دے ، غیر وارث ، رشتہ داروں اور مستحقین میں تقسیم کر نیکی وصیت کر جائے تو یہ جائز اور درست ہے ، اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر جائے تو یہ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا اگر و ہ سب راضی ہوجائیں تو وصیت پر عمل ہوگا ورنہ صرف ایک تہائی پر عمل کرنا ہوگا اگرچہ اس کے لیے بھی والثلث کثیر کے الفاظ آتے ہیں مگر اس حد تک جائز ہے ، حضرت سعد ؓ نے عرض کیا تھا کہ میرے پاس بہت سا مال ہے اور حق دار صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ حضور ! اگر اجازت دیں تو میں سارا مال صدقہ کر جائوں۔ آپ نے فرمایا نہیں ، پھر عرض کیا آدھا مال دے دوں ، فرمایا نہیں انہوں نے تیسری دفعہ پوچھا کیا دو تہائی مال کی وصیت کر دوں ، فرمایا نہیں انہوں نے تیسری دفعہ پوچھا کیا دو تہائی مال کی وصیت کر دوں آپ نے پھر بھی اجازت نہ دی جب آپ نے ایک تہائی مال کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ بھی زیادہ ہے ، مگر اس کی اجازت ہے ، مقصد یہ کہ وارثوں کو ترکہ سے زیادہ سے زیادہ حصہ ملنا چاہئے۔ وصیت میں تبدیلی گناہ ہے فرمایا فمن بدلہ بعد ما سمعہ جس شخص نے اس وصیت کو تبدیل کیا اسے سننے کے لیے فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہے ، جو اس کو تبدیل کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی شخصیت وصیت کر کے فوت ہوجائے اور اس وصیت کو سننے والے یا جاننے والے اس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں ، تو اس کا وبال وصیت میں تحریف کرنے والوں پر ہوگا ، کیونکہ وصیت کرنے والا تو اپنا فرض ادا کر گیا ، اب اس پر عملدرآمد کے وقت کمی بیشی کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔ ان اللہ سمیع علیم بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ وصیت میں تبدیلی کی کئی ایک صورتیں ہو سکتی ہیں ، مثلاً مرنے والا کسی ایسے شخص کو کوئی حصہ دے گیا ، جسے وارث پسند نہیں کرتے یا کسی کے کم حصے کو زیادہ یا زیادہ کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے ردو بدل کرتے ہیں ۔ تو وہ لوگ گناہ گارہوں گے ، کیونکہ جائز وصیت پر عمل نہیں کیا ، وارثان کے حصص کی تقسیم وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک نے بار بار تصریح کی ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی وصیت کرنے والا وصیت صحیح طریقے سے نہیں کرتا ۔ کسی کو حق سے زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو پورا حق بھی نہیں دیتا اور اس طرح پسماندگان میں تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے ، تو اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے۔ فمن خاف من موص جنفا ً اواثما ً جو شخص ڈر گیا ۔ وصیت کرنے والے کے ایک طرف جھک جانے سے یا کسی گناہ کے ارتکاب سے فاصلح بینھم پس اس شخص نے فریقین میں صلح کرا دی فلا اثم علیہ تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں ۔ بعض اوقات کوئی بیٹا نافرمان ہوتا ہے اور وصیت کرنے والا اسے جائیداد سے محروم کرتا ہے ، تو یہ بات غلط ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ وارث بننا ایک غیر اختیاری چیز ہے اور جو حصہ اللہ نے ورثاء کو دیا ہے ، وہ نیکی بدی یا فرمانبرداری اور نافرمانی پر موقوف نہیں ہے۔ اس کا اچھا یا برا صلہ کسی اور طریقے سے دیا جاسکتا ہے۔ مگر وارثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے ، ایسی ہی صورت میں فرمایا کہ اگر کوئی شخص درمیان میں آ کر صلح کرا دے ، تو یہ اچھی بات ہے اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا ، وارثان کو ان کا جائز حصہ مل جائیگا اور وصیت کرنے والا بھی سرخرو ہوگا ۔ ایسی صورت میں اگر کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہوگی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا ، کیونکہ ان اللہ غفور رحیم بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
Top