Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ
: فرض کیا گیا تم پر
اِذَا
: جب
حَضَرَ
: آئے
اَحَدَكُمُ
: تمہارا کوئی
الْمَوْتُ
: موت
اِنْ
: اگر
تَرَكَ
: چھوڑا
خَيْرَۨا
: مال
الْوَصِيَّةُ
: وصیت
لِلْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ کے لیے
وَالْاَقْرَبِيْنَ
: اور رشتہ دار
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار
فرض کی گئی ہے تمہارے اوپر جس وقت کہ ائٓے تم میں سے کسی کے پاس موت اگر اس نے مال چھوڑا ہے ، تو وصیت والدین کے حق میں اور قرابت داروں کے حق میں دستور کے مطابق یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر
حفاظت جان کا قانون گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ قصاص کا قانون تقویٰ کا ایک جزو ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون جاری فرما کر انسانی جانوں کی حفاظت نے یہ قانون نافذ کردیا کہ اگر عدل و انصاف کا دامن تھامے رکھو گے ، تو جانیں محفوظ ہوجائیں گی اور تم کو صحیح زندگی نصیب ہوگی۔ اس کے ساتھ قانون دیت بھی حفاظت جان ہی کا ایک حصہ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے قوانین نافذ کئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ قتل ناحق اکبر الکبائر میں سے ہے۔ یعنی سات بڑے گناہوں میں سے پہلا نمبر شرک کا ہے اور دوسرا قتل ناحق کا ہے۔ قتل النفس التی حرم اللہ حضرت عثمان کی روایت میں آتا ہے کہ ایک تو جہاد میں جان کا اتلاف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صرف تین صورتوں میں جان کو تلف کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان تین صورتوں کے علاوہ کسی کی جان لے گا ، تو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ پہلی صور تقصاص کی ہے۔ کسی شخص کو قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے ، تو وہ جائز ہوگا۔ دوسرا قتل اس مرد یا عورت کا جائز ہے۔ جسے زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا ہو اور تیسرا قتل اس شخص کا جائزہ ہے۔ جو دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔ الغرض گزشتہ درس میں حفاظت جان کا قانون بیان کیا گیا تھا۔ اسلام کا ضابطہ دیوانی ضابطہ فوجداری کی طرح اسلام نے ضابطہ دیوانی یعنی مال کا قانون بھی عطا کیا ہے جس کی تفصیلات قرآن و سنت میں موجود ہیں اس سے پہلے قصاص یعنی فوجداری قانون کا بیا ن آ چکا ہے۔ دیوانی قانون کی بنیاد کے متعلق قرآن پاک میں جگہ جگہ آیا ہے۔ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھائو۔ خبردار کسی حرام یا مشکوک ذریعے سے مال مت حاصل کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو کمال سے محروم ہو جائو گے اور جب مال جائز طریقے سے حاصل کرلو ، تو اس کو غلط اور ناجائز امور پر خرچ نہ کرو۔ اگر بیجا تصرف کرو گے تو ظالم اور گنہگار بن جائو گے۔ الغرض مالی امور کے متعلق بھی اسلام نے پورا ضابطہ عطا کیا ہے فوجداری قانون میں انسانی جان کے تحفظ کی ضمانت تھی ، اس دیوانی قانون میں مال کے تحفظ کے اصول بتلائے ہیں اور دونوں قوانین کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ اسلامی قانون حکمت پر مبنی ہے امام شاطبی کا تعلق اندلس سے ہے۔ آپ مالکی مسلک کے بہت بڑے امام گزرے ہیں۔ آپ نے ” موافقات “ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کا سارا قانون حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی کوئی شق حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں بڑی بڑی باریکیاں اور حکیمانہ مصلحتیں رکھی ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی ایک ایک آیت میں اس قدر حکمتیں ، مصلحتیں اور باریکیاں موجود ہیں کہ دنیا کے تمام انسان مل کر سوچیں ، تو اس کے برابر نہیں سوچ سکتے۔ آپ ” فیوض الحرمین “ میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات جب میں بعض آیات پر غور کرتا ہوں تو ان کی تہ میں مجھ پر بجز بیکراں جیسے وسیع انکشافات ہوتے ہیں۔ جو عام انسانوں کی سوچ و بچار سے باہر ہوتے ہیں۔ تحفظ نفس اسلام نے جہاں دیگر تحفظات دیئے ہیں ، وہاں تحفظ نفس کی بھی ضمانت دی ہے۔ نسب بالکل محفوظ ہونا چاہئے۔ اس میں … خلط ملط نہیں ہونا چاہئے۔ برخلاف اس کے غیر اقوام میں تحفظ نسب کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ ڈاکٹر اسپنسر گزشتہ صدی کا بہت بڑا فلاسفہ ہوا ہے۔ اب تو یورپ کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ اس وقت صرف چالیس پینتالیس لاکھ تھی وہ کہتا ہے کہ یورپی قانون پر لعنت ہو کہ پینتالیس لاکھ میں سے یقین کے ساتھ پینتالیس آدمی بھی حلال کے نہیں نکالے جاسکتے ، یہاں کا قانون ایسا گندہ ہے مگر اسلام نسب کی حفاظت کرتا ہے قرآن و سنت میں اس کے متعلق بہت سے قانون موجود ہیں۔ اسی طرح دین کی حفاظت کا قانون بھی اسلام میں موجود ہے۔ اگلی آیات آ رہی ہیں ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ دین کی حفاظت کے ہی قوانین تو ہیں۔ امام شاطبی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کے تحفظ کا قانون بھی عطا کیا۔ شراب جیسی قبیح چیز کو حرام قرار دیکر اسلام نے عقل کی حفاظت کا اتنظام کردیا ہے۔ شراب ایسی نشہ آور چیز سے عقل و خرد کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ الغرض ! اسلام نے تو بہترین حکیمانہ قوانین عطا کئے ہیں۔ مگر یہ خود ہماری نالائقی ہے کہ ہم ان سے مستفید نہیں ہونا چاہتے۔ ان سنہری اصولوں کو چھوڑ کر ہم غیروں کے گندے قوانین تلاش کر رہے ہیں۔ کبھی امریکہ کی طرف جاتے ہیں ، کبھی یورپ کی طرف دیکھتے ہیں ، کبھی ایشیا کا رخ کرتے ہیں کہ کہیں سے اچھا دستور مل جائے کوئی اچھا فوجی نظام حاصل ہوجائے یا کوئی اقتصادی نظام ہی میسر آجائے۔ مگر وہاں پر لعنت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قرآن و سنت جیسے اعلیٰ وارفع قوانین کہیں سے نہیں ملیں گے۔ مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ اس دور میں اسلامی تحریک کے خلاف سب سے بڑھ کر روسی ذہن کام کر رہا ہے اس وقت اسلام کی مخالفت میں سب سے زیادہ اشتراکی نظام کار فرما ہے۔ مگر ایک وقت آئے گا جب یہ نظام بھی مجبور ہو کر قرآنی قوانین کے ساتھ ہتھیا رڈال دیگا۔ ان کے پاس محض دعوے ہے ، عملی طور پر کچھ نہیں اس لئے بالآخر انہیں اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ تحفظ مال اسلام نے مال کا مکمل تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی خرابی موجود ہے تو اسے درست کرنے کا قانون بھی موجود ہے۔ اسلام نے مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ البتہ اسے احسن طریقے سے خرچ کرنے کے اصول بتلائے ہیں اس کے متعلق مختلف قوانین گزر چکے ہیں۔ ” والی المال علی حبہ “ یعنی مال کی محبت کے باوجود اسے خرچ کرو زکواۃ کا مکمل قانون موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی ” ومما رزقنھم ینفقون “ ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرو۔ اس سلسلے میں مکاتب غلاموں کی آزادی کا قانون دیا ہے۔ سورة نور میں آتا ہے ” واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم “ یہ مال اللہ کا دیا ہا ہے اس نے ایسے ذرائع پیدا کردیئے ہیں۔ کہ تمہیں مال پہنچتا رہتا ہے۔ محنت کوئی کرتا ہے۔ مگر تمہیں وراثت میں سے بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے۔ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ ہر انسان فطری طور پر آزاد ہے اسے غلامی کے پھندے سے چھڑائو ۔ ان پر اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہ سمجھو کہ اس مال کے حقیقی مالک تم ہو۔ اصلی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے جس نے تم پر مہربانی کی اور ایسے وسائل تمہارے سپرد کئے جن کے ذریعے مال تم تک پہنچتا ہے۔ پھر اس میں تصرف بھی وہ کرو جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے ، اگر اس کی مرضی کے خلاف خرچ کرو گے ، تو جہنم رسید ہو گے۔ قانون وصیت ان آیات میں وصیت کا قانون بیا ن کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ۔ کتب علیکم اذا حضر احد کم الموت ان ترک خیر الوصیۃ للوالدین ولا قربین بالمعروف یعنی جب کسی کی موت کا وقت قریب ہو اور وہ مال چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہے ۔ تو اس پر لازم ہے کہ وہ والدین اور قربت داروں کے حق میں وصیت کر جائے اور یہ وصیت ہو بھی بالمعروف یعنی دستور کے موافق ، فرمایا ایسا کرنا حقا ً علی المتقین یعنی متقیوں کے لیے ضروری ہے۔ وصیت کا مکمل قانون قرآن پاک کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ یہ آیات اس قانون کی ابتدائی آیات ہیں ، جنہیں سورة نساء کی آیات نے منسوخ کردیا ، جب تک اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے حصے مقرر نہیں کیے تھے ، آیات زیر درس کے ذریعے وارثوں کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تھا تا کہ انہیں بھی میت کے ترکہ میں سے حصہ مل سکے۔ مگر سورة نساء کی آیات نازل ہونے سے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے اس لیے ان کے لیے وصیت کا قانون منسوخ ہوگیا ۔ اب ورثاء کے لیے وصیت نہیں ہے ، البتہ غیر ورثاء کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرسکتا ہے۔ حضور ﷺ نے ورثا یعنی ماں باپ ، بیوی ، خاوند ، اولاد وغیرہ کے متعلق فرمایا۔ ان اللہ اعطی کل ذی حق حقہ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ۔ اب لا وصیۃ لوارث کسی وارث کے لیے وصیت روا نہیں ہے ، انہیں وراثت سے مقرر حصہ خود بخود مل جائے گا ۔ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ورثاء کے لیے وصیت والی یہ آیت منسوخ نہیں ہے ، بلکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ والدین کے لیے وصیت کرنا بھی ضروی ہوجاتا ہے۔ مولانا عبد اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ خود ان کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آیا کہ انہیں ماں کے حق میں وصیت کرنے کا خیال پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ واقعی یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ورثاء کے لیے بھی وصیت ضروری ہوجاتی ہے آپ خود نو مسلم تھے۔ آپ کی والدہ آخر تک اپنے مذہب پر قائم رہی ۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیمار ہوگیا ، مجھے خیال آیا کہ موت کی صورت میں میری کو میرے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملے گا ، کیونکہ وہ غیر مسلمہ تھی اور مومن اور کافر کے درمیان وراثت نہیں چلتی ، تو اس وقت میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ بات کے حق میں وصیت کر دوں بہر حال یہ اسی صورت میں ہوتا جب کہ ماں غیر مسلمہ ہونے کی وجہ سے وراثت کا حق دار نہ تھی ، کیونکہ لا یرث المسلم المکافر ولا الکافر المسلم نہ کافر مسلمان کا وارث ہے اور نہ مسلمان کا وارث ہے ، ایسی صورت میں وصیت ہی کے ذریعے ترکہ تقسیم ہو سکتا ہے۔ انبیاء کی وصیت قرآن پاک میں وصیت کا قانون کئی جگہ بیان ہوا ہے ، جہاں بھی ورثاء کے حصص کا بیا ن آتا ہے۔ تو ارشاد ہوتا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار کے لیے اتنا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ مگر من بعد وصیۃ توصو بھا او دین یہ ترکہ وصیت شدہ مال اور قرضہ نکال کر باقی تقسیم ہوگا ، منجملہ وصیت کی دیگر اقسام کے انبیاء (علیہم السلام) کی بھی وصیت ہوتی ہے ، مگر وہ مال کے متعلق نہیں ہوتی ۔ پوچھے والے صحابہ کرام ؓ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا حضور ﷺ نے کوئی وصیت کی ہے ، صحابی جواب دیتے ہیں کہ آپ نے مال سے متعلق کوئی وصیت نہیں فرمائی کیونکہ آپ کا ارشاد ہے ما ترکنا صدقۃ یعنی نبی جو چیز چھوڑ جاتے ہیں ۔ اس کے متعلق وصیت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ، اسے ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ فرمایا البتہ نبی (علیہ السلام) نے وصیت ضرو ر فرمائی ہے اور وہ قرآن پاک پر عمل کرنے کی غلاموں کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کی ہے ، نماز پر مداومت اور شرک سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا لعن اللہ الیھود والنصری یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو ۔ انہوں نے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا آپ ﷺ نے امت کو تعلیم دی کہ تم میری قبر کے ساتھ وہ سلوک نہ کرنا جو یہود و نصاری نے اپنے انبیاء کی قبور کے ساتھ کیا ، مگر آج کل قبروں کے ساتھ جو کچھ معاملہ ہو رہا ہے ، وہ ہمارے سامنے ہے۔ بیرون ملک سے آنے والا سربراہ مملکت سب سے پہلے جناح صاحب کی قبر پر چادر چڑھاتا ہے ، حضرت علی ہجویری (رح) کی قبر کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ، کوئی ریشمی چادر چڑھا رہا ہے ، کوئی پھولوں کی چادر لے کر آیا ہے ، کوئی پکی پکائی دیگ پیش کر رہا ہے ، کوئی بکرا ، چھترا نذر کر رہا ہے ، کوئی سجدہ کر رہا ہے ، کوئی حاجت روائی کا طالب ہے ، کوئی مشکل کشائی کے لیے دعائیں کر رہا ہے ، یہ سب شرکیہ امور ہیں ۔ حضور ﷺ نے امت کو ڈرایا یحذر مما صنعوا ایسے کام مت کرنا ، مگر ہم الٹے چل رہے ہیں ۔ وصیت کی اقسام وصیت کے کئی ایک قسمیں ہیں ، منجملہ ان کے مباح یا مستحب وصیت کا ذکر حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے متعلق وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں بھی نہ گزارے مگر وصیت اس کے سرہانے کے نیچے لکھی ہوئی موجود ہونی چاہئے۔ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات سنی ہے۔ اس وقت سے میں نے وصیت لکھ کر سرہانے کے نیچے رکھ لی ہے۔ وصیت کی یہ مستحب قسم ہے۔ بعض اوقات وصیت فرض ہوجاتی ہے ۔ کسی شخص کو یقین ہے کہ اسکی زندگی کے آخری ایام آپہنچے ہیں اور اب اس کے بچنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ نیز اس کے ذمے ایک دو سال کی زکوٰۃ واجب الادا ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے وصیت کرنا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی وصیت کر جائے ، وگرنہ عدم ادائیگی کی صورت میں فرض کا تارک ہو کر گناہ گاروں کی صف میں کھڑا ہوگا ، اسی طرح کسی کی امامنت موجود ہے۔ یا کسی کا قرض ادا کرا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ مرنے سے پہلے وصیت کر جائے کہ فلاں فلاں چیز کی ادائیگی کردینا اگر ایسا نہیں کرے گا تو اس کا مال تو ورثاء ہضم کر جائیں گے اور وہ خود دوسروں کا مقروض رہ جائے گا ۔ اسی لیے اسلام نے مرنے والے کے متعلق یہ قاون وضع کردیا کہ سب سے پہلے مرنے والے کے مال میں سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے۔ یہ بنیادی ضروریات میں داخل ہے اس کے بعد اگر مرنے والے کے ذمہ قرضہ ہے۔ تو وہ ادا کیا جائے ، پھر اگر کوئی وصیت ہے تو کل مال کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے۔ اس کے بعد بقیہ مال ورثاء میں تقسیم کردیا جائے مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ ان ضروری امور کی طرف تو توجہ نہیں کرتے ، اس کی بجائے مردے کے قل ، تیجہ ، ساتواں ، دسواں اور چالیسیواں کے چکر میں پڑ کر مرنے والے کا مال ضائع کرتے ہیں ، جو کہ بالکل ناجائز ہے اور اگر مرنے والے کے مال کی بجائے لواحقین اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں ، تو بھی محض رسومات کی خاطر ایسا کرنا فضو ہوگا کیونکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی رسومات پر یتیموں کا مال صرف ہو رہا ہے تو یہ قطعا ً حرام ہے۔ کھانے والے حرام کھا رہے ہیں اس سے بچنا چاہئے اور جن چیزوں کا شریعت نے حکم دیا ہے انہیں پورا کرنا چاہئے۔ وصیت کی ایک قسم ناجائز بھی ہے ، اگر مرنے والا کسی ناجائز کام کی وصیت کرتا ہے تو ایسی وصیت ا جائز ہی کہلائے گی مثلاً کوئی شخص وصیت کر جائے کہ میرے مال میں فلاں قبر پر چادر چڑھا دینا یا فلاں مزار پر بکرا چڑھا دینا وغیرہ وغیرہ ناجائز وصیت ہوگی ، اور ایسی وصیت پر عمل کرنا روا نہیں ہے۔ بہر حال حضور ﷺ نے فرمایا کہ کار خیر کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنے کی اجازت ہے ، تا کہ مرنے والے کو آخرت میں اس کا حصہ ملتا رہے مثلاً مسجد تعمیر کرا دے ، مدرسہ بنوا دے ، غیر وارث ، رشتہ داروں اور مستحقین میں تقسیم کر نیکی وصیت کر جائے تو یہ جائز اور درست ہے ، اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر جائے تو یہ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا اگر و ہ سب راضی ہوجائیں تو وصیت پر عمل ہوگا ورنہ صرف ایک تہائی پر عمل کرنا ہوگا اگرچہ اس کے لیے بھی والثلث کثیر کے الفاظ آتے ہیں مگر اس حد تک جائز ہے ، حضرت سعد ؓ نے عرض کیا تھا کہ میرے پاس بہت سا مال ہے اور حق دار صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ حضور ! اگر اجازت دیں تو میں سارا مال صدقہ کر جائوں۔ آپ نے فرمایا نہیں ، پھر عرض کیا آدھا مال دے دوں ، فرمایا نہیں انہوں نے تیسری دفعہ پوچھا کیا دو تہائی مال کی وصیت کر دوں ، فرمایا نہیں انہوں نے تیسری دفعہ پوچھا کیا دو تہائی مال کی وصیت کر دوں آپ نے پھر بھی اجازت نہ دی جب آپ نے ایک تہائی مال کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ بھی زیادہ ہے ، مگر اس کی اجازت ہے ، مقصد یہ کہ وارثوں کو ترکہ سے زیادہ سے زیادہ حصہ ملنا چاہئے۔ وصیت میں تبدیلی گناہ ہے فرمایا فمن بدلہ بعد ما سمعہ جس شخص نے اس وصیت کو تبدیل کیا اسے سننے کے لیے فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہے ، جو اس کو تبدیل کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی شخصیت وصیت کر کے فوت ہوجائے اور اس وصیت کو سننے والے یا جاننے والے اس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں ، تو اس کا وبال وصیت میں تحریف کرنے والوں پر ہوگا ، کیونکہ وصیت کرنے والا تو اپنا فرض ادا کر گیا ، اب اس پر عملدرآمد کے وقت کمی بیشی کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔ ان اللہ سمیع علیم بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ وصیت میں تبدیلی کی کئی ایک صورتیں ہو سکتی ہیں ، مثلاً مرنے والا کسی ایسے شخص کو کوئی حصہ دے گیا ، جسے وارث پسند نہیں کرتے یا کسی کے کم حصے کو زیادہ یا زیادہ کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے ردو بدل کرتے ہیں ۔ تو وہ لوگ گناہ گارہوں گے ، کیونکہ جائز وصیت پر عمل نہیں کیا ، وارثان کے حصص کی تقسیم وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک نے بار بار تصریح کی ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی وصیت کرنے والا وصیت صحیح طریقے سے نہیں کرتا ۔ کسی کو حق سے زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو پورا حق بھی نہیں دیتا اور اس طرح پسماندگان میں تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے ، تو اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے۔ فمن خاف من موص جنفا ً اواثما ً جو شخص ڈر گیا ۔ وصیت کرنے والے کے ایک طرف جھک جانے سے یا کسی گناہ کے ارتکاب سے فاصلح بینھم پس اس شخص نے فریقین میں صلح کرا دی فلا اثم علیہ تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں ۔ بعض اوقات کوئی بیٹا نافرمان ہوتا ہے اور وصیت کرنے والا اسے جائیداد سے محروم کرتا ہے ، تو یہ بات غلط ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ وارث بننا ایک غیر اختیاری چیز ہے اور جو حصہ اللہ نے ورثاء کو دیا ہے ، وہ نیکی بدی یا فرمانبرداری اور نافرمانی پر موقوف نہیں ہے۔ اس کا اچھا یا برا صلہ کسی اور طریقے سے دیا جاسکتا ہے۔ مگر وارثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے ، ایسی ہی صورت میں فرمایا کہ اگر کوئی شخص درمیان میں آ کر صلح کرا دے ، تو یہ اچھی بات ہے اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا ، وارثان کو ان کا جائز حصہ مل جائیگا اور وصیت کرنے والا بھی سرخرو ہوگا ۔ ایسی صورت میں اگر کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہوگی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا ، کیونکہ ان اللہ غفور رحیم بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
Top