Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
كُتِب
: فرض کیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْقِصَاصُ
: قصاص
فِي الْقَتْلٰي
: مقتولوں میں
اَلْحُرُّ
: آزاد
بِالْحُرِّ
: آزاد کے بدلے
وَالْعَبْدُ
: اور غلام
بِالْعَبْدِ
: غلام کے بدلے
وَالْاُنْثٰى
: اور عورت
بِالْاُنْثٰى
: عورت کے بدلے
فَمَنْ
: پس جسے
عُفِيَ
: معاف کیا جائے
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنْ
: سے
اَخِيْهِ
: اس کا بھائی
شَيْءٌ
: کچھ
فَاتِّبَاعٌ
: تو پیروی کرنا
بِالْمَعْرُوْفِ
: مطابق دستور
وَاَدَآءٌ
: اور ادا کرنا
اِلَيْهِ
: اسے
بِاِحْسَانٍ
: اچھا طریقہ
ذٰلِكَ
: یہ
تَخْفِيْفٌ
: آسانی
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
وَرَحْمَةٌ
: اور رحمت
فَمَنِ
: پس جو
اعْتَدٰى
: زیادتی کی
بَعْدَ
: بعد
ذٰلِكَ
: اس
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اے ایمان والو ! تمہارے اوپر قصاص فرض قرار دیا گیا ہے مقتولوں میں آزاد کے بدلے میں آزاد آدمی ، غلام کے بدلے میں غلام ، عورت کے بدلے میں عورت پس جس کو معاف کیا گیا اس کے بھائی کی طرف سے کچھ ، پس دستور کے مطابق پیچھے لگنا ہے اور اس کی طرف سے نیکی کے ساتھ ادا کرنا ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ہے اور مہربانی ہے پس جس شخص نے اس کے بعد تعدی کی ، اس کے لئے عذاب الیم ہے
اسلام کا فوجداری قانون گزشتہ آیت میں نیکی کی تعریف بیان کی گئی تھی کہ نیکی کیا ہے اور کیا نہیں ہے نیکی والے لوگوں کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہی لوگ سچے اور متقی ہیں۔ اب ان آیات میں بعض تقویٰ والی باتوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک مقتولوں کے معاملہ میں مساوات ہے اور دوسرا مال کا قانون ہی اور پھر اس کے بعد روزہ کا قانون بھی بیان ہوگا۔ ان سب کا تعلق تقویٰ سے ہے آیات زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کا فوجداری قانون بیان فرمایا ہے ۔ جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسانی جان ایک محترم چیز ہے اور سا کی حفاظت ضروی ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی جان تلف ہوجائے تو اس کے لئے قصاص کا قانون بتلایا گیا ہے۔ جس کا اجراء اور پھر اس کی پابندی لازم ہے۔ اگر قصاص نہ ہو سکے ، تو پھر خون بہا کا مسئلہ آئیگا جسے دیت کہا جاتا ہے۔ اس مالی معاوضہ کی ادائیگی بھی ضرور ی ہے۔ اسلام کا قانون بمطابق قانون جاہلیت زمانہ جاہلیت میں قصاص کے معاملہ میں عدم مساوات اور ناانصافی پائی جاتی تھی۔ ادنیٰ اور اعلیٰ خاندان کے مقتول کا قصاص بھی مختلف تھا۔ اگر کوئی کمزور اور ادنیٰ خاندان کا آدمی اعلیٰ خاندان کے کسی فرد کو قتل کردیتا تو مقتول کے ورثاء دوہرا قصاص طلب کرتے ایک مقتول کے بدلے میں دو افراد قتل کرتے یا عورت کے بدلے میں مرد کا قصاص لیتے یا غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے حضرت مولانا شیخ الہند نے اس مقام پر بڑی اچھی تقریر لکھی ہے فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں یہود اور اہل عرب کا دستور تھا کہ عورت کے بدلے میں مرد کو ، غلام کے بدلے میں آزاد کو اور ایک آزاد کے قصاص میں دو کو قتل کیا جاتا ۔ یہ زیادتی اور ظلم تھا۔ جو زبردست زیردستوں پر روا رکھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اس نے اونچ ، نیچ ، شریف ار رذیل ، غلام کے درمیان حائل دیوار کو گرا دیا اور قصاص کے معاملہ میں مساوات کا درس دیا ، اسلام نے عالم اور جاہل ، بچے جوان اور بوڑھے تندرست اور بیمار صحیح الاعضا اور لنگڑے ، اپاہج اور اندھے کے امتیاز کو یکسر ختم کردیا اور سب میں مساوات قائم کردی۔ اسلام نے انہیں بتلایا کہ قصاص کا معنی ہی برابری ہے۔ لہٰذا قصاص کے معاملہ میں کسی انسان سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا ، بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا۔ یہ قانون قانون قصاص کہلاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی اے اہل ایمان ! تمہارے اوپر مقتولوں کے معاملہ میں قصاص یعنی برابری کو فرض کیا گیا ہے۔ قصاص کا معنی ہی برابری ہے اور قتلی مقتول کی جمع ہے مطلب یہ کہ ایک آزاد مقتول کے بدلے میں ایک ہی آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ ایک کے بدلے میں دو کو تختہ مشق نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح غلام کے عوض میں غلام کو ، عورت کے بدلے میں عورت کو مرد کے بدلے میں مرد ہی قتل ہوگا۔ قصاص کے معاملہ میں کسی قسم کی عدم مساوات روا نہیں رکھی جائے گی۔ قرآن پاک کے الفاظ میں الحر بالحروالعبد بالعبد والانثی بالانثی فرمایا گیا ہے۔ قتل کی تین اقسام حدیث اور فقہ کی کتب میں قتل کی تفصیلات موجود ہیں۔ قتل کی تین قسمیں ہیں ، یعنی قتل عمد ، شبہ عمد ، قتل خطا ، قتل عمدیہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو آلہ قتل کی ساتھ ارادتاً مار ڈالے۔ مثلاً بندوق یا پستول سے فائر کر دے ، چھرا یا نیزہ مار دے یا کوئی اور ایسا آلہ استعمال کرے جو عام طور پر قتل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ قتل کی یہ واحد صورت ہے جس میں قصاص ہے۔ باقی دو صورتوں یعنی قتل شبہ عمد اور قتل خطا میں خون بہا ہے۔ قصاص نہیں۔ پھر قصاص میں بھی بعض استثناء ہیں۔ مثلاً باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو قتل کر دے تو قصاص نہیں لیا جائے گا۔ بلکہ معاوضہ اور تعزیر ہوگی جس میں سزائے قید بھی ہو سکتی ہے اس طرح اگر ماں اپنے بیٹے بیٹی کو یا پوتے پوتی کو یا نواسے نواسی کو ہلاک کر دے تو بھی قصاص نہیں ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر بیٹا باپ کو قتل کر دے تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ قتل شبہ عمدیہ ہے کہ کوئی شخص قتل توارادتاً کرتا ہے ۔ مگر ایسے آلے کے ساتھ جو عام طور پر قتل کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً لاٹھی ، پتھر یا کوئی اور ایسی چیز مادی جس سے قتل واقع ہوگیا۔ تو ایسی صورت میں قاتل سے قصاص نہیں لیا جائے گا ، بلکہ اس کے عوض خون بہا یا دیت ہوگی۔ قتل کی تیسری صورت قتل خطا ہے۔ جس میں ارادہ قتل نہیں ہوتا بلکہ قاتل کی سہو سے کوئی شخص قتل ہوجاتا ہے۔ مثلاً شکاری نے شکار کو نشانہ بنایا مگر وہ کسی آدمی کو لگ گیا اور اس سے قتل واقع ہوگیا۔ یہ قتل خطا ہے اور اس کا مفصل بیان آگے قرآن پاک میں آئے گا۔ سزائے قتل قتل کی تین اقسام میں سے پہلی قسم یعنی قتل عمد میں قصاص یعنی جان کا بدلہ جان ہے اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرے گا ، تو اس کے بدلے میں وہ بھی قتل کیا جائے گا۔ باقی دو صورتوں یعنی قتل شبہ عمد اور قتل خطا میں دیت ہے قصاص نہیں۔ اب قصاص لینے میں بھی بعض پابندیاں ہیں۔ مثال کے طور پر مقتول کے چار وارث ہیں اور قصاص لینا ان کا حق ہے نہ کہ حکومت کا کام تو صرف حق دلانا ہے۔ اس کے لئے اتنظام کرنا ہے۔ اصل حق تو ورثا کا حق ہے۔ جو کہ حکومت دلائیگی فرمایا فقد جعلنا لولیہ سلطناً ہم نے مقتول کے دلی کے لئے حق رکھا ہے برخلاف اس کے انگریزی قانون میں مستغیب حکومت ہوتی ہے۔ اور پھر جرمانہ کی رقم بھی اپنے خزانہ میں داخل کرتی ہے۔ اسلامی قانون میں معاوضہ حاصل کرنے کا حق صرف وارثوں کو پہنچتا ہے۔ اسلامی قانون قتل میں یہ ایک اہم شق ہے کہ قصاص صرف اسی صورت میں لیا جائے گا ، جب کہ تمام وارثان مقتول اس پر رضا مند ہوں۔ چار بیٹیوں میں سے اگر ایک نے بھی قصاص سے دست برداری اختیار کی ، تو قصاص ساقط ہوجائے گا اور قاتل کو دیت ادا کرنا ہوگی اور اگر مقتول کے وارث نہ قصاص لیں اور نہ دیت طلب کریں بلکہ بالکل ہی معاف کردیں تو بات ختم ہوگئی۔ اس کی جزاء انہیں آخرت میں ملے گی اور اگر وارثان قصاص کی بجائے خون بہا لینا چاہیں تو قتل عمد کی صورت میں قاتل کو پورا معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ اس کی برادری پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ البتہ قتل شبہ عمد اور قتل خطا میں جب دیت ادا کرنا ہوگی ، تو قاتل کی ساری برادری کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر کسی سرکاری ملازم سے ایسا فعل سر زد ہوگیا ہے۔ تو اس کے معاوضہ کی ادائیگی اس کے دفتر والے یا محکمہ والے کریں گے۔ اسے دیت علی العاقلہ کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دیت عاقلہ پر ہوتی ہے اور یہ تین سال کے اندر اندر قسطوں میں واجب الادا ہوتی ہے۔ اس میں سارے متعلقین شریک ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے حصے کی قسط ادا کرنیکا پابند ہوتا ہے۔ قاتل کی برادری کو تاوان ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے متعلقین کی تربیت اس طرح کریں کہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیدا ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ معافی کی صورت فرمایا قصاص کا قانون تو یہی ہے البتہ فمن عفی لہ من اخیہ شئی جو کوئی اپنے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا گیا۔ مقتول کے ورثاء خیال کریں کہ قاتل بھی ہمارا دینی بھائی ہے۔ اس کی وجہ سے قتل تو ہوگیا ۔ مگر برادرانہ تعلقات ختم نہیں ہونے چاہئیں۔ لہٰذا اگر ورثا میں سے کسی ایک نے بھی معاف کردیا تو مقتول پر قصاص ساقط ہوجائے گا۔ اور اس کے بدلے میں کیا ہوگا فاتباع بالمعروف پھر مالی معاوضہ ہے دستور کے مطابق کہ لائو بھائی معاوضہ ادا کرنا ہی ہے۔ تو لڑ جھگڑ کر نہیں بلکہ نیکی اور بھلائی کے ساتھ دستور کے مطابق ادا کرنا چاہئے اور اس کا پیچھا کرنا چاہئے کہ صحیح طریقے سے ادا ہوجائے۔ اس میں کوئی مزید خرابی پیدا نہ ہونے پائے۔ اس طریقہ سے شریعت نے جانوں کی حفاظت کا قانون مقرر فرمایا ہے۔ فرمایا ذلک تخفیف من ربکم و رحمۃ یعنی اس میں تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ مطلب یہ کہ پہلی امتوں میں قتل کا بدلہ صرف قتل تھا دیت کا قانون موجود نہیں تھا۔ مگر نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کی امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی فرمائی۔ اور قاتل کی سزا میں تخفیف کر کے قصاص کے ساتھ ساتھ دیت کا قانون بھی نازل فرمایا۔ چناچہ شریعت محمدیہ میں تین صورتیں مقرر کی گئی ہیں ، مقتول کے ورثاء قصاص طلب کرلیں یا مالی معاوضہ قبول کرلیں یا بالکل ہی معاف کردیں ، یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے۔ بہرحال یہ تخفیف اور اللہ کی مہربانی ہے۔ دیت حضور نبی کریم ﷺ نے دیت کی مقدار ایک سو اونٹ مقرر فرمائی ہے اگر اونٹوں کا تبادلہ نہ ہو سکے تو پھر دس ہزار درہم جو چاندی کا سکہ ہے یا ایک ہزار دینار جو سونے کا سکہ ہے ، اس کا بدل ہوگا۔ اس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر یقین اجناس یا کپڑے کے لین دین پر رضا مند ہوجائیں تو مقررہ مقدار سے زیادہ بھی لے سکتا ہے۔ یہ خون بہا کا قانن ہے اور اس کے بعد فمن اعتدی بعد ذلک جو کوئی زیادتی کا مرتکب ہو۔ یعنی مالی معاوضہ طے کر کے وہ بھی لے لیا۔ اور پھر بعد میں قتل بھی کردیا ، تو ایسی صورت میں فلہ عذاب الیم تو ایسا کرنے والا درد ناک عذاب کا مستحق ہوگا۔ اس سے مراد تو آخرت کا عذاب ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس قسم کی زیادتی کرنے والے کے لئے کوئی معافی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس سے قصاص ہی لیا جائے گا اس دنیا میں بھی اسے سزا ملے گی اور اگلے جہان میں بھی وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ قصاص میں زندگی ہے یہاں پر اللہ تعالیٰ نے قصاص کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ولکم فی القصاص حیوۃ یا ولی الالباب یعنی اے صاحب عقل و خرد قصاص میں تمہارے لئے زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ ایک آدمی قتل ہوگیا اور جب قصاص میں قاتل کو بھی قتل کردیا گیا تو ایک اور جان ضائع ہوگئی حالانکہ اللہ تعالیٰ اسے زندگی سے تعبیر فرماتے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قصاص کی عدم موجدگی میں لوگ بلاخوف و خطر قتل کے مرتکب ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں۔ چھوٹی موٹی سزا بھگت لیں گے ، جان تو بچ ہی جائے گی۔ برخلاف اس کے جب قصاص کا قانون موجود ہوگا اور لوگوں کو علم ہوگا کہ قتل کے بدلے میں قاتل بھی قتل کیا جائے گا ، تو وہ قتل جیسا بڑا جرم کرتے وقت سو دفعہ سوچے گا اور ایسے اقدام سے باز آجائے گا۔ انگریز کے بنائے ہوئے قانون میں یہی خامی ہے۔ ہر روز کتنے قتل ہو رہے ہیں۔ مگر چونکہ قاتل کو قرار واقعی سزا نہیں ملتی ، ایک قتل کے بعد اسے مزید شہ ملتی ہے اور وہ بلا خوف و خطر وارداتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ چوری کا بھی یہی حال ہے اگر لوگ کو حد جاری ہونے کا یقین ہو تو پھر چوری کرنا اتنا آسان نہ ہو۔ سعودی عرب میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ واں حدود اللہ جاری ہیں۔ قاتل اور چور بلا دھڑک جرم نہیں کرسکتے جب سے خاندان ابن سعود نے حدود نافذ کیں ہیں ، چوری کی کتنی سزائیں ہوئی ہیں۔ گزشتہ پچاس سال میں ایک سو لوگوں کے ہاتھ بھی نہیں کٹے ہوں گے۔ سزا کی دہشت ہی ایسی ہے کہ سر عام سونا پڑا ہو یا ریال کی بوری رکھی ہو ، کوئی ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ یہ اسلامی قانون پر عملدرآمد کی برکت ہے۔ سای طرح اگر زنا کی حد سنگساری ہوگی اور مجرم کو سر عام سزا دی جائیگی ، وہاں یہ جرم کیسے ہوگا۔ برخلاف اس کے جہاں ایسی عبرتناک سزائیں نہیں ہیں۔ وہاں جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ چند ایک کو قصاص میں قتل کرنے سے عام لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔ عربی ادب کی کتاب ” حماسہ “ میں صحابہ کرام کے زمانے کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ کوئی شخص قتل ہوگیا قاتل با اثر آدمی تھا۔ اس کے بہت سے سفارشی تھے۔ حضرت سعید بن العاص بھی انہیں میں شامل تھے لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح مقتول کا بیٹا قصاص کی بجائے دیت لینے پر راضی ہوجائے حتیٰ کہ سات گنا دیت تک کی پیشکش کی گئی۔ مگر بیٹا یہی کہتا رہا کہ میں تو قصاص لئے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ ظاہر ہے کہ جب قصاص کا قانون جاری ہوگا تو پھر سا جرم کا ارتکاب کوئی اکا دکا ہی کرے گا۔ اکثر لوگوں کی جان محفوظ ہوجائے گی۔ اسی لئے قصاص کو زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرمایا قانون اس لئے جاری کیا گیا ہے۔ لعلکم تتقون تاکہ تم متقی بن جائو اور ایسے گھنائونے جرم کا ارتکاب نہ کرو گویا اس قانون کا اجر حصول تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے۔
Top