Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں ان میں سے کھائو۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ بیشک وہ تمہارے لئے صریح اور کھلا دشمن ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل اور شرک کا رڈ تھا اور یہ بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دوسروں کے ساتھ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ کے ساتھ کرنی چاہئے ، وہ لوگ کفر اور شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی سزا اور عذاب کے مستحق بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے برے انجام سے خبردار کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ان کے اعمال ان کے لئے حسرت کا باعث بنیں گے۔ قیامت کے دن ایسے لوگ افسوس کا اظہار کریں گے۔ مگر وہ افسوس ان کے لئے کچھ مفید نہیں ہوگا اور نہ وہ کبھی دوزخ کی آگ سے باہر نکل سکیں گے۔ قانون کی پابندی قرآن پاک کا یہ اسلوب بیان ہے کہ موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے کبھی خطاب عام ہوتا ہے۔ جیسے ” یایھا الناس “ یعنی اے لوگو ! اے بنی نوع انسان اور کبھی خطاب خاص ہوتا ہے۔ جیسے ” یایھا الذین امنوا یا یاھل الکتب “ وغیرہ وغیرہ آیت زیر درس میں خطاب عام ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے حکم دیا جا رہا ہے۔ یایھا النسا کلوا مما فی الارض حلال طیباً اے لوگو ! زمین کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو ولاتتبعوا خطرت الشیطن اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو ، انہ لکم عدو مبین وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ دراصل یہاں پر حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو قانون کی پابندی کا درس دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حلال قرار دی ہیں صرف انہیں استعمال کرو اور حرام خوری سے بچ جائو اگر تم اللہ کے قائم کردہ اس قانون کی پابندی نہیں کروں گے ، تو اصل راستے سے بہک کر شیطان کے نقش قدم پر چلنے لگو گے ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ترقی کے مقام خطیرۃ القدس میں پہنچنے کی بجائے ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ جائو گے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجتہ اللہ البالغہ میں اس موضوع پر باب باندھ کر بات سمجھائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ انسان مکلف ہے اور مکلف سے مراد قانون کی پابندی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساخت میں ملکیت اور بہیمیت دونوں مادے رکھے ہیں اور ان دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان قانون کی پابندی کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کریگا تو اس کے حصے میں ناکامی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ نسل انسانی متمدن نسل ہے اور یہ دیہات ، قصبوں اور شہروں میں مل جل کر رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں کسی قانون کی پابندی اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ جب تک وہ اجتماعی صورت میں نہ ہو۔ قانون پر عملدرآمد بھی اسی حالت میں ممکن ہے جب کہ لوگوں کو قانون سے واقفیت ہو اور اس کے لئے قانون کی تعلیم کا عام ہونا ضروری ہے۔ تاکہ معاشرے کا کوئی فرد قانون کے جاننے سے بےبہرہ نہ رہ جائے۔ جب یہ حجت پوری ہوجائے گی تو پھر قانون کے جاننے سے بےبہرہ نہ رہ جائے۔ جب یہ حجت پوری ہوجائے گی تو پھر قانون شکنی کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی لازم ہو جائیگی ، تاکہ معاشرہ اس قسم کے فساد سے محفوظ رہ سکے۔ قانون شکن کوئی فرد واحد ہو یا جماعت وہ قانون کی مقرر کردہ تعزیر کی زد میں ضرو رآئے گا اور اگر کوئی دوسری باہر کی جماعت قانون کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریگی ، تو اس کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا ، تاکہ فتنہ و فساد کا دروازہ فوراً بند کیا جاسکے۔ حلال و حرام کی تمیز حلال چیز وہ ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے شرعاً حلال فرار دیا ہے اور پاکیزہ وہ چیز ہے۔ جو بذاتہ لذیذ بھی ہو کیونکہ … بدبو دار چیز کو کوئی شخص کھانا پسند نہیں کرے گا ، خواہ شریعت کے نزدیک وہ حلال ہو کسی چیز کی پاکیزگی کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے ساتھ کسی کا حق متعلق نہ ہو۔ اگلی آیات میں حلال و حرام کی حکمت اور ان اشیاء کی تفصیل آ رہی ہے۔ مثلاً بکری حلال ہے۔ مگر خنزیر حرام ہے۔ اسی طرح اونٹ حلال ہے مگر شیر حرام ہے۔ بکری اور اونٹ وغیرہ کی حلت کے باوجود ا س کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ وہ شرعی طریقے سے مذبوحہ ہو۔ ورنہ ایسے جانور کا گوشت استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں حکم موجود ہے ” ولا تاکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ “ یعنی جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے مت کھائو ، وہ حرام ہے۔ اس طرح جس جانور پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، وہ بھی حرا م ہے۔ مردار بھی حرام ہے۔ ایسی چیزوں کا استعمال جسمانی یا روحانی صحت کے لئے مضر ہوگا کیونکہ جن چیزوں کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے ، ان میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہوگی۔ ” احل لغیر اللہ “ کی حکمت اگلی آیتوں میں آ رہی ہے۔ جو چیز غیر اللہ کے نام پر دی جاتی ہے۔ خواہ وہ مٹھائی ہو یا فروٹ ، چاول ہوں یا گوش ، ان میں بظاہر تو کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ مگر اس میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے ، جو روح کو پلید کردیتی ہے۔ لہٰذا ایسی چیز روحانی طور پر مضر ہوگی ، ترمذی شریف میں ہے کہ طافی یعنی ایسی مچھلی جو خود مر کر پانی کے اوپر تیرنے لگتی ہے۔ وہ مکروہ ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ جسمانی صحت کے لئے مضر ہے۔ جو کوئی کھائے گا بیمار ہوجائے گا۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ ایک شخص نے ایسی مچھلی کا گوشت کھایا اور چوبیس گھنٹے کے اندر ہلاک ہوگیا۔ یہ گوشت اتنا زہر آلود تھا کہ اس کا سارا خون پیپ میں تبدیل ہوگیا۔ ایسے ہی حوادث سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جن چیزوں سے منع کیا ، وہ کسی نہ کسی طور انسانی جسم کیلئے مضر ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو۔ حرمت کی ایک اور صورت دوسرے کی حق تلفی بھی بیان ہوئی ہے۔ ایک شخص چوری کی بکری لا کر ذبح کرتا ہے۔ وہ حلال جانور ہے۔ اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہے۔ مگر چوری کے فعل نے اس میں خباثت کو جنم دے دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کا حق تھا۔ جو ضائع ہوگیا۔ اس لئے اس کا کھانا حرام ٹھہرا۔ رشوت اور سود کا مال بھی اسی زمرہ میں آتا ہے کہ ایسا مال طب نہیں رہتا بلکہ خبیث ہوجاتا ہے۔ اس لئے حرام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قانون کی پابندی کرنا چاہئے۔ جن چیزوں کو اللہ نے حلال اور پاکیزہ کہا ہے انہیں کھانا چاہئے اور حرام چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوت بنا دے یعنی اللہ میری ہر دعا کو قبول فرما لے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اے سعید ! اطب مطعمک اپنی خوراک کو پاک بنا لو۔ یعنی طیب غذا استعمال کرو تکن مستجاب الدعوات مستجاب الدعوات بن جائو گے۔ فرمایا اس ذات پاک کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب کوئی شخص حرام کا ایک لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے۔ تو چالیس دن تک اس کی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ الغرض اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کے قانون کی پابندی لازمی ہے اس کے برخلاف کرنا شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ شیطان کا نقش قدم حضرت مسروق ام المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے رشتہ دار اور شاگرد ہیں۔ آپ تابعین میں سے ہیں ، کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ اگر کسی نے بچے کو ذبح کر نیکی منت مانی ہو ، تو اس کے متعلق کیا حکم ہعے فرمایا بچے کی بجائے بکری ، ذبح کر دے تو اس کی نذر پوری ہو جائیگی کیونکہ بچے کو ذبح کرنا شیطان کے نقش قدم پر چلنے والی بات ہے اور شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک اور قیامت تک اپنی دشمنی کا اظہار کرتا رہے گا۔ اس کے عزائم واضح ہیں ” انما یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحب السعیر “ وہ اپنے لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کے گروہ میں شامل ہو کر جہنم میں داخل ہوجائیں۔ ابلیس کا انسانوں کے متعلق گمان تھا کہ یہ اندر سے کھوکھلے ہیں ، میں ان کو ہر طریقے سے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا۔ لوگوں کی اکثریت اس کے تابع ہوگئی الا قلیلاً سوائے ایک چھوٹی جماعت کے جنہوں نے شیطان کا اتباع نہ کیا۔ بلکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے قانون کی پابندی کی۔ وہ شیطان کے فریب سے محفوظ رہے۔ فرمایا شیطان کا کام یہ ہے کہ انما یامرکم بالسوآء والفحشآء وہ تمہیں بری باتوں اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ بری باتوں سے مراد فسق و فجور اور گناہ کے کام ہیں اور فحشا سے مراد شہوت رانی کی باتیں ہیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ اس قسم کی لغویات میں پڑے رہیں۔ اور خدائے عزوجل کے قانون کی طرف نہ آسکیں وہ یہ بھی چاہتا ہے۔ وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں کہو ، جو تم نہیں جانتے ۔ یعنی بغیر جانے بوجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایس باتیں منسوب کردی جائیں جو اس کی شان کے شایان نہیں۔ چناچہ دیکھ لیجیے یہ مشرک اور بدعتی لوگ اپنی تمام خرافات اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب کرتے ہیں کہ یہ افعال اس کے حکم سے کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر افترأ باندھنا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا کہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف بالکل برہنہ حالت میں کرتے تھے۔ ان کی توجیہہ بھی یہی تھی واللہ امرن ابھا یعنی اللہ نے ہمیں ایسا حکم دیا ہے حالانکہ ان اللہ لایمر بالفحشآء اللہ تعالیٰ بےحیائی کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔ شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ جن کپڑوں کے ساتھ ہم گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ، ان کے ساتھ طواف نہیں کرنا چائے۔ لہٰذا انہوں نے مادر زاد ننگے طواف شروع کردیا۔ سورة اعراب میں بھی آتا ہے ۔ ” اتقولون علی اللہ مالاتعلمون “ کیا تم اللہ کے ساتھ ایسی باتیں منسوب کرتے ہو ، جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔ آبائو اجداد کا اتباع انہی لوگوں کے متعلق فرمایا واذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللہ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ چیزوں کی اتباع کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قانون پر چلو قانوا بل تتبع مآء الفینا علیہ ابآءنا تو کہتے ہیں کہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کہتے تھے ہم تو اپنے بڑوں کے راستے کو نہیں چھوڑیں گے ، ہم ان کے عقیدے اور رسم و رواج کی پابندی کریں گے ، وہ بھی تو آخر عقل و شعور رکھتے تھے ، کوئی بیوقوف تو نہ تھے اگر ان لوگوں کے آبائو اجداد واقع سمجھ بوجھ کے مالک ہوتے تو ان کے راستہ پر چلنا نیکی کی بات تھی حضرت یوسف علیہ السالم نے بھی تو کہا تھا۔ ” واتبعت ملۃ آباء ی ‘ ‘ میں اپنے آبائو اجداد کی ملت پر ہوں یعنی میں اپنے باپ دادا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کے طریقے پر ہوں جو کہ صحیح راستے پر تھے۔ اس کے برخلاف اگر آبائو اجداد غلط راستے پر چل رہے ہوں تو پھر ان کی پیروی کرنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہوگی۔ سای لئے فرمایا اولوکان آباء ھم لایعقلون شیئاً ولا یھتدون کہ اگر ان کے آبائو اجداد نہ تو عقلمند ہیں اور نہ وہ ہدایت یافتہ ہوں تو پھر یہ انہی کے راستے پر چلیں گے۔ مقصد یہ کہ معروف میں تو کسی کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ مگر منکرات میں ایسا کرنا کسی طرح بھی روا نہیں ہے۔ بعض چیزیں ہماری سوسائٹی کو ورثے میں ملی ہیں مگر یہ خدا کے قانون اور پیغمبر (علیہ السلام) کے طریقے کے خلاف ہیں ، محرم کے مہینے میں بعض لوگ پان نہیں کھاتے۔ سرخ لباس نہیں پہنتے ، کالا لباس پہننا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ اظہار غم ہو ، یہ سب شیطانی طریقہ اور آبائو اجداد کے راستے پر چلنے والی بات ہے بعض لوگ حضرت فاطمہ کے نام کی نیاز دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی مرد اس میں سے نہ کھائے۔ اسی طرح 22 رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق کے نام کی نیاز دیتے ہیں جسے کو نڈے کا نام دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نیاز کا کھانا گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے اور یہ سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے کھا لینا چاہئے اس قسم کے تمام مفروضات پر عملدرآمد آبائو اجداد کی پیروی کے مترادف ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح شاہ عبدالحق کا توشہ حلوا ہوتا ہے۔ مگر حقہ پینے والا یہ توشہ نہیں کھا سکتا۔ اس پر پابندی ہے۔ بو علی قلندر کی نیاز میں سویاں پکائی جاتی ہیں۔ عید کے موقع پر لوگ اس کی بھی پابندی کرتے اصحاب کہف کی نیاز گوشت روٹی کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس کے بغیر نیاز اداہی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کی نیاز کے لئے گیارہویں تاریخ کی پابندی کی جاتی ہے ، یہاں پر غلط عقیدہ راسخ ہوچکا ہے کہ اگر مقررہ تاریخ پر گیارہویں نہ دی تو مال میں نقصان ہوجاتا ہے یا بھینس کا دودھ کم ہوجاتا ہے اس قسم کی تمام چیزیں ان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون کی زد میں آتی ہیں۔ ما انزل اللہ میں تو حکم یہ ہے کہ اموات کے لئے دعا کرو ، ان کے لئے ایصال ثواب کرو ، یہ ملت ابراہیمی کا اصول ہے۔ ان کے لئے صدقہ اور استغفار کرو ، اس میں کوئی پابندی نہیں ، جب چاہو اجازت ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسی چیزوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اسے بدعات میں شامل کردیا ہے۔ صدقہ کا طریقہ ہمارے ہاں صدقہ کے بہت سے خود ساختہ طریقے رائج ہوچکے ہیں۔ کئی ایک پابندیاں عائد ہوچکی ہیں۔ کہتے ہیں کہ صدقہ کے لئے کالے جانور کی سری ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر صدقہ ادا نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کا تو واضح ارشاد ہے تصدق بدرھمہ بد ینارہ جس کے پاس درہم ہے وہ درہم دے دے اور جس کے پاس دینار کی گنجائش ہے ، وہ دنیار صدقہ کر دے۔ مقصد یہ کہ جو چیز بھی میسر ہے اس میں صدقہ دیا جاسکتا ہے مثلاً غلہ اجناس ، کھجوریں ، کپڑا کتاب وغیرہ ہر چیز صدقہ میں دی جاسکتی ہے۔ گوشت اور سری کی کوئی پابندی نہیں۔ یہ تو شیطانی شریعت ہے۔ حضرت ابوطلحہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔ حضور ! میرا یہ بہترین باغ ہے ، میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تیرے قرابت داروں میں جو غریب لوگ میں ان میں تقسیم کر دو ۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اس طرح آپ نے حضرت سعد کو صدقہ میں کنواں لگوانے کا حکم دیا۔ آج بھی صدقہ کے طور پر نل کہ یا ٹیوب ویل لگوایا جاسکتا ہے۔ مسجد کی تعمیر ہو سکتی ہے ۔ دین کی تبلیغ پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ نادار طالب علموں کی تعلیم کے لئے صدقہ کا مال خرچ کیا جاسکتا ہے۔ پریشان حال مسافر کی مدد کی جاسکتی ہے۔ ایسی ہی بہت سی مدات ہیں جن پر صدقہ کا مال خرچ ہو سکتا ہے۔ مگر لوگوں نے کالے جانور کی کالی سری کو ہی صدقہ سمجھ لیا ہے۔ اس خول سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ اس لئے فرمایا کہ جو شریعت اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے۔ اس کا اتباع کرو ، باپ دادا کے غلط اقدام کی اتباع مت کرو۔ کتنی بیوقوفی کی بات ہے کہ بےعقل اور بےہدایت آبائو اجداد کے نقش قدم کو اصل دین سمجھ لیا گیا ہے۔ کافروں کی مثال آگے اللہ تعالیٰ نے شیطان کے نقش قدر پر چلنے والے کفار کی مثال بیان فرمائی ہے۔ ومثل الذین کفروا کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعآء وندآء ط کافروں کی مثال اس چرواہے کی ہے۔ جو اپنے جانوروں کو آواز دیتا ہے۔ جو اس کی چیخ اور پکار کو سنتے تو ہیں مگر سمجھ نہیں سکتے اسی طرح کافر بھی اللہ کے نبی کی آواز تو سنتے ہیں مگر جانوروں کی طرح ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ فرمایا صم بکم عمی فھم لایعقلون وہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں ، یہ لوگ عقل و شعور سے بھی عاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تین بڑی نعمتیں عطا کی ہیں یعنی قوت سماعت ، قوت گویائی اور قوت باصرہ مگر لوگ ہیں کہ ان قوی کو استعمال نہیں کرتے اور گونگے ، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں یہ لوگ اللہ کی ان نعمتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ نہ تو حق بات سننے کی تاب لاسکتے ہیں۔ نہ حقیقت کو دیکھ کر پرکھتے ہیں اور نہ حی کی بات پوچھنے کے لئے بولتے ہیں۔ یہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو ضائع کر رہے ہیں۔
Top