Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 165
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ١ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّتَّخِذُ : بناتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ اَنْدَادًا : شریک يُّحِبُّوْنَهُمْ : محبت کرتے ہیں كَحُبِّ : جیسے محبت اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَشَدُّ : سب سے زیادہ حُبًّا : محبت لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَلَوْ : اور اگر يَرَى : دیکھ لیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اِذْ : جب يَرَوْنَ : دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب اَنَّ : کہ الْقُوَّةَ : قوت لِلّٰهِ : اللہ کے لیے جَمِيْعًا : تمام وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعَذَابِ : عذاب
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو خدا کا شریک بناتے ہیں۔ ان سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنی چاہئے اور جو ایمان دار ہیں وہ اللہ کے لئے محبت میں زیادہ شدید ہیں اور اگر دیکھیں وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا جب کہ وہ عذاب کو دیکھیں گے کہ بیشک ساری قوت اللہ ہی کے لئے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے
خدا کا ند ٹھہرانا گزشتہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اسباب معیشت کی صورت میں بنی نوع انسان پر کئے۔ اس احسان کا تقاضا یہ تھا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانتے اور خلاص اسی کی عبادت کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ومن الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو مذ یعنی مدمقابل بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ند کی مذمت میں پہلے بھی آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” فلا تجعلوا اللہ انداداً وانتم تعلمون “ ۔ اللہ تعالیٰ کے مدمقابل اور شریک نہ بنائو۔ کیونکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ خلاق ، مالک اور رازق صرف وہی ہے ۔ مسبب الاسباب بھی وہی ذات ہے۔ لہٰذا دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ فرمایا جب لوگ غیروں کو اللہ کا مدمقابل تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر کرتے ہیں یہ ہیں کہ یحبونھم کحب اللہ ان سے اس درجہ کی محبت کرتے تجاوز کر جاتی ہے۔ یا اس کے برابر آجاتی ہے تو پھر تمام وہ صفات غیر اللہ میں بھی تسلیم کرلی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور پھر غیر اللہ سے بھی اسی طرح حاجت روائی اور مشکل کشائی کا مطالبہ ہوتا ہے جو اللہ جل جلالہ سے ہونا چاہئے۔ اسی لئے فرمایا کہ بعض بدبخت ایسے بھی ہیں ۔ جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور پھر ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں ، جیسی محبت اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے ہونی چاہئے۔ عبت الٰہی فرمایا شرک کی اس نجاست کے برخلاف والذین امنوا اشد حب اللہ اہل ایمان کا گروہ ایسا بھی ہے۔ جن کے دل میں شدید ترین محبت صرف اللہ ہی کی ہے وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو مدمقابل ٹھہرا کر ان کو اللہ کی محبت میں برابر کا شریک نہیں بناتے۔ قیامت تو ابھی دور کی بات ہے۔ قرآن پاک شاہد ہے کہ مشرکین بعض اوقات دنیا میں ہی اپنے معبودوں کی محبت کو ترک کردیتے ہیں ، جب ان کی کشتی طوفان میں پھنس جاتی ہے تو قرآن پاک کہتا ہے ” ’ عو اللہ مخلصین لہ الدین “ تو جعلی معبودوں کو چھوڑ کر خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں اور پھر آخرت میں تو بیزاری کا اعلان کر ہی دیں گے۔ جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے اس کے برخلاف اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ انہیں خواہ تنگی ہو یا راحت خوشحال ہوں یا کسی مصیبت میں مبتلا ہوں ، تندرست ہوں یا بیمار ان کی محبت الٰہی کسی حالت میں بھی زائل نہیں ہوتی۔ باقی رہی انبیائ ، اولیاء اور بزرگان دین کی محبت تو ایسی محبت اللہ ہی کے حکم سے …… ہوتی ہے ، ان ہستیوں سے محبت بالذات نہیں ہوتی بلکہ محبت بالذات صرف خدا تعالیٰ سے ہی ہوتی ہے۔ محبت کی اقسام محبت کی مختلف قسمیں ہیں جیسے طبعی محبت ، عقلی محبت اور شرعی محبت وغیرہ طبعی محبت کی مثال ایسی ہے۔ جیسے عاشق اپنے معشوق کی ساتھ محبت کرتا ہے یا خاوند کو بیوی سے اور والدین کو اولاد اور دیگر اقرباء سے محبت ہوتی ہے۔ عقلی اور شرعی محبت کی مثالحضور ﷺ کی دعا سے ملتی ہے اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یفربنی الی حبک ۔ یعنی اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت عطا کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت عطا کر جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے اور آخر میں یہ بھی آتا ہے واجعل حبک احب الی من نفسی واھلی و مالی …… ومن المآء البارد اور اے اللہ ! اپنی محبت کو میرے نفس ، میرے اہل ، میرے مال … اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب بنا دے یہاں پر ٹھنڈے پانی کا بطور خاص ذکر فرمایا ، ٹھنڈا پانی گرم ممالک میں ایک عظیم نعمت ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان راحت حاصل کرتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت باقی تمام چیزوں سے زیادہ ہوگئی ، اس کا ایمان کامل ہوگیا لیکن قرآن پاک نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ اور رسول کی محبت کے مختلف مدارج ہیں۔ اللہ کی محبت اصالتاً اور بالذات ہے اور رسول کی محبت اللہ ہی کے حکم سے … ہوتی ہے۔ نبی کے ساتھ امتی کی محبت کو نیکی کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ سورة ممتحنہ میں جہاں عورتوں سے بیعت لینے کا ذکر آتا ہے۔ فرمایا ان سے عہد لیں کہ وہ شرک نہیں کیں گی۔ چوری اور زنا کا ارتکاب نہیں کریں گی۔ اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، بہتان نہیں باندھیں گی ولایعصینک فی معروف “ اور نیکی کے کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی اور بعض مقامات پر مطلق رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دے دیا جیسے ” من یطع الرسول فقد اطاع اللہ “ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ ہی کی اطاعت کی۔ دوسری جگہ فرمایا ” اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول “ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ تاہم اطاعت اور عبادت میں فرق ہے ۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہو سکتی ہے اور اطاعت رسول کی بھی اسی طرح فرض ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی فرض ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ احبوا اللہ لما یعذرکم من نعمہ لوگو ! اللہ سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں نعمتیں عطا کی ہیں۔ وہ منعم حقیقی ہے۔ تمہارا اپنا وجود اور اس کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں ، سب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں لہٰذا اس سے محبت کرو۔ پھر فرمایا احبونی لحب اللہ خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے میرے ساتھ بھی محبت کرو۔ میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کا راستہ اور اس کا پیغام پہنچایا ہے۔ اس کا کلام اور اس کی شریعت تم کو دی ہے۔ اور پھر فرمایا کہ میری وجہ سے میرے اہل بیت کے ساتھ بھی محبت کرو۔ محبت کی مختلف وجوہات کسی کے ساتھ محبت کرنے کے کئی ایک وجوہات ہیں۔ مثلاً اگر کوئی جمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جمیل بالذات ہے لہٰذا اصلی اور ذاتی محبت اسی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ حسن و جمال خود خدا کی صفات میں سے ہے۔ اس لئے اس کا تقاضا یہی ہے کہ اصل محبت اسی سے ہو۔ محبت کی ایک وجہ کمال بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کمال بالذات ہے اور باقی چیزوں میں کمال اللہ تعالیٰ کا عطا کرد ہ ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی محبت کے لائق ذات خداوندی ہی ہے اسی طرح محبت کی وجہ احسان بھی ہے۔ جس کے ساتھ احسان کرو ، وہ محبت کرتا ہے اور سب سے بڑا محسن خود خدا تعالیٰ ہے۔ لہٰذا مخلوق کا فرض ہے کہ وہ اپنے محسن کے ساتھ محبت رکھے۔ بعض اوقات محبت کا معیار نفع اور نقصان ہوتا ہے کسی نے نفع پہنچایا ہے یا نفع کی توقع ہے تو اس سے محبت پیدا ہوگئی ۔ کسی سے اس لئے بھی محبت کی جاتی ہے کہ اسکے بغیر نقصان کا خطرہ ہے۔ حقیقی نافع اور ضاد تو اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہونی چاہئے۔ محبت کا ایک اور معیار ضروریات زندگی کی تکمیل بھی ہے۔ انسان کا مال و متاع ، گھر بار ، زن و اولاد سب ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ لہٰذا ان سے بھی محبت کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت بھی محبت بالذات نہیں ، یہ تو اللہ تعالیٰ نے محض ذرائع پیدا کیے ہیں۔ امیر ہو یا حاکم ، رفیق ہو یا دوست ، برادری ہو یا کوئی ادارہ ، یہ تو محض اسباب ہیں ، ورنہ ضروریات کا حقیقی بہم پہنچانے والا اللہ وحدہ ، لاشریک ہے۔ لہٰذا محبت بالذات اسی کو سزا وار ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اغیار کی بت کو ایک سطح پر لے آئے گا۔ تو شرک کا مرتکب قرار پائے گا۔ محبت کی کسوٹی یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی محبوب حقیقی ہے اس کے ساتھ محبت باقی تمام مخلوق کی محبت سے زیادہ ہونی چاہئے۔ غیر اللہ کی محبت کو اللہ کی محبت کے مساوی بھی درجہ نہیں دیا جاسکتا ورنہ یحبونھم کحب اللہ کی زد میں آجائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص اشد حبااللہ یعنی اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کا دعویدار ہو تو اس کی جانچ کے لئے کونسی کسوٹی ہے کہ اس کا دعویٰ درست ثابت ہوجائے۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کسی کی محبت کی کسوٹی اطاعت ہے۔ جب اطاعت کا وقت آئے گا تو پتہ چلے گا کہ محبت کا دعویدار اپنے محبوب حقیقی کی اطاعت کرتا ہے ، یا کسی اور کی ظاہر ہے کہ جس شخصیت کی اطاعت کریگا ، اس کی محبوب ترین ہستی وہی ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور دوسری طرف والدین ، پیر یا اساتذ کا حکم ہے۔ تو ان میں سے وہ کس کو ترجیح دیتا ہے۔ اس مقام پر شرعی محبت کا تقاضا یہ ہے ۔ وہ اپنے اللہ کی اطاعت کر کے اس کے ساتھ شدید ترین محبت کے دعوے کو سچ کر دکھائے اور اگر اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے حکم کو ترجیح دی۔ تو ظاہر ہے کہ اس کا محبوب حقیقی کے ساتھ محبت کا دعویٰ باطل قرار پائے گا اور اس کی شدید ترین محبت اسی کے ساتھ ثابت ہوگی۔ جس کی اس نے اطاعت کی۔ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں جو کوئی بھی ملک آبائو اجداد یا برادری کے رسم و رواج کی پیروی کرے گا۔ مشرک ہوجائے گا۔ بعض لوگ انبیاء اولیاء ملائکہ یا ارواح کی محبت کو خدا کی محبت کے برابر قرار دیتے ہیں۔ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی ہے اسی لئے نذر و نیاز اور قربانی پیش کرتے ہیں یا نیاز مندی بجالاتے ہیں۔ یا ان کی یادگار بناتے ہیں تو ایسے لوگ بھی شرک میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ غیر اللہ کے ساتھ محبت کرنے کی اجازت ہے مگر ایسی محبت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو اور اس کی محبت سے کم تردرجے پر ہو۔ محبت دراصل ایک میلان ، تعلق اور خواہش کا نام ہے۔ طبعی محبت میں دنیاوی غرض کار فرما ہو سکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عبادت ، اطاعت اور اس کی رضا کے لئے ہو۔ شاہ عبدالعزیز فرماتے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ محبت کا دعویٰ کریگا وہ اس کے محبوبوں کے ساتھ بھی محبت رکھے گا اور اس کے دشمنوں سے نفرت کرے گا۔ محبت کی دوسری علامت یہ ہے کہ محب کو اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنے میں روح کا کامل نشاط حاصل ہوگا۔ وہ خوشی کے ساتھ عبادت الٰہی میں منہمک ہوگا اور معصیت سے گریز کرے گا۔ اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر جان و مال کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہیں کرے گا۔ غیر اللہ کی محبت اب دیکھ لیجیے کہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ کس طرح غیر اللہ کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ عیسائی مذہب والے اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلے میں بزعم خویش خدا کے بیٹے ، کنواری ماں اور روح القدس کی محبت میں مبتلا ہیں۔ یہی مشرکانہ محبت ہے۔ ہندو مت والے بھی محبوب حقیقی کی بجائے جنہیں وہ پر ماتمایا ایشور کہتے ہیں ، درگار دیوی اور لکشمی ماتا کی محبت میں مبتلا ہیں۔ سادھو اور رشیوں سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ اسی طرح کلمہ گو مسلمان بھی غیر اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ یا علی مدد اور یا غوث اعظم کے نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔ کبھی پیر بابا کو مدد کے لئے پکارا جا رہا ہے اور کبھی خواجہ سے داد رسی کی جا رہی ہے یہ لوگ تو اللہ کے پیارے ، محبوب اور صالح لوگ ہیں۔ ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا ہے۔ یہی چیزیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے غیروں کی محبت کو اللہ کی محبت کے مساوی قرار دے لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے ” فادعو اللہ مخلصین لہ الدین “ خالصتاً اللہ ہی کو پکارو کہ وہی حاضر و ناظر مالک و مختار اور مدد کرنے والا ہے۔ مگر یار لوگ غیر اللہ کو بھی اللہ ہی کے ہم پلہ بنا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اللہ والوں کا یہ طریقہ قطعاً نہیں ہے۔ اہل ایمان کا طریقہ اہل ایمان کا ہمیشہ یہی طریقہ رہا ہے والذین امنوآ اشد حباً للہ کہ انہیں سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتی ہے۔ وہ کسی غیر اللہ کی محبت کو اللہ کی محبت کے برابر نہیں جانتے جہاں تک نبی کی محبت کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ خدا نے حکم دیا ہے نبی سے محبت کر دینی کی محبت نبی کی اطاعت میں مضمر ہے اور اطاعت عبادت نہیں ہوتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اکرموا خاکم اپنے بھائی کا احترام کرو ۔ میں تمہارا بھائی ہوں ، لہٰذا میرا احترام کرو مگر عبادت صرف رب کی کرو واعبدوا ربکم آج لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی محبت کے دعویدار بھی ہیں مگر مافوق الاسباب غیر اللہ کو بھی مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ حالانکہ زبان سے اقرار کرتے ہیں۔ ” ایاک نعبدوا ایاک نستعین مگر عمل اس کے خلاف ہے۔ انبیاء سمیت ساری کی ساری مخلوق محتاج اور عاجز ہے ، قادر مطلق صرف اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں شدید ترین محبوب محبوب حقیقی یعنی خداوند تعالیٰ کی ذات سے ہوتی ہے۔ اللہ ہی قادر مطلق ہے۔ فرمایا ولویری الذین ظلموآ اور اگر ظالم لوگ دیکھیں گے اذ یرون العذاب ” جب کہ وہ عذاب کو دیکھ لیں گے۔ ان القوۃ للہ جمیعاً ط تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ساری طاقت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ وان اللہ شدید العذاب اور اللہ سخت گرفت کا بھی مالک ہے۔ مقصد یہ کہ غیروں کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے ہم پلہ گرداننے والوں پر یہ راز قیامت کے دن کھلے گا کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے۔ جب یہ ظالم اپنی آنکھوں سے دوزخ کے عذاب کو دیکھ لیں گے۔ کہ آج اللہ کے سوا کسی دوسرے کی محبت کام نہیں آسکتی۔ آج تو ساری طاقتیں اور تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ، آج وہی قادر مطلق ہے ، اسی کا حکم چلتا ہے۔ کاش کہ ہم نے دنیا میں اسی کی محبت کو اولیت دی ہوتی اور غیروں کی محبت کو اس کے برابر نہ سمجھا ہوتا تو آج ہمیں شدید عذاب دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ تابع اور متبوع فرمایا اذتبرالذین اتبعوا من الذین اتبعوا قیامت کے اس ہولناک وقت کو یاد کرو جب متبوع (جن کی پیروی کی گئی) اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوجائیں گے۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں مطاع مانے جاتے تھے۔ ان کے مطیع ان کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرلیتے تھے ، آج وہی پادری ، رشی اور پیر اپنے مریدوں کو صاف جواب دے دینگے کہ ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ ہمیں اللہ کا شریک ٹھہرا لو۔ یہ بیہودہ کام تو تم اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ ہمیں اللہ کا بیٹا بنا لو ، اس کا اوتار بنا لو یا مشکل کشا اور حاجت روا بنا لو۔ حتی کہ جب حضرت عیسیٰ لیہ السلام سے بھی سوال ہوگا کہ کیا آپ نے لوگوں سے کہا کہ مجھے اور میری ماں کو الہ بنا لو۔ تو آپ جواب دیں گے۔ اے مولا کریم ! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کوئی ایسی بات کہوں ما لیس لی بحق جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ غرضیکہ تمام مطاع اس دن انکار کردیں گے۔ وراوالعذاب عذاب سامنے نظر آئے گا وتقطعت بھم الاسباب اور تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ وقال الذین اتبعوا اور پیرو کار کہیں گے ، افسوس کا اظہار کریں گے۔ لوان لنا کرۃ اگر ہمیں ایک دفعہ پھر دنیا میں پلٹنے کی اجازت مل جائے فنتبرا منھم تو ہم بھی ان راہنمائوں سے اسی طرح بیزار ہوجائیں۔ کما تبر وا منا جیسا کہ یہ آج ہم سے بیزار ہوگئے ہیں یعنی اب ہمیں حقیقت حال کا علم ہوگیا ہے اب اگر یہ ہمیں دنیا میں مل جائیں تو ہم ہرگز ان کی تابعداری نہیں کریں گے۔ ایسی ہی لوگوں کے متعقل سورة احزاب میں آتا ہے کہ یا اللہ انا اطعنا ساوتنا وکبرآء نا ہم نے تو اپنے سرداروں اور بڑوں کا اتباع کیا فاضلونا السبیلا انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا کاش کہ ہم نے تیرے رسولوں کا اتباع کیا ہوتا ہم نے تو اپنے بزرگوں کی بات مانی اے مولا کریم ربنا اتھم ضعفین من العذاب آج ان کو دوگنا عذاب دے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوئے اور ہمیں بھی گمراہ کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) لیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ تم نے دنیوی اغراض کے لئے معبود بنا رکھے ہیں ، قیامت کے دن یہ سارا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔ اور آج کے تمام دوست اس دن دشمن بن جائیں گے۔ پیار محبت اور الفت صرف وہی کام آئے گی ، جو اللہ کی رضا کی خاطر کی گئی۔ اس کے علاوہ تمام ذرائع کٹ جائیں گے فرمایا کذلک یریھم اللہ اعمالھم حسرات علیھم اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ان کو حسرت بنا کر دکھائے گا وہاں پر ان کا بیزاری کا اعلان کچھ کام نہ آئے گا۔ بلکہ ان کے عذاب میں اضافہ ہی ہوگا وما ھم بخرجین من النار ان کے لئے جہنم سے رہائی کی کوئی صورت نہ ہوگی ، وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔ وجہ بیان ہوچکی ہے کہ انہوں نے غیر اللہ کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے برابر قرار دیا ، شرک میں مبتلا ہوئے اور باطل پرست لوگوں کا اتباع کیا۔
Top