Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو صبر اور نماز کے ساتھ مدد حاصل کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
گزشتہ سے پیوستہ بنی اسرائیل کا شکوہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر کیا۔ پھر حضور ﷺ کی رسالت کا تذکرہ فرمایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور ” کما ارسلنا فیکم رسلواً منکم “ اور ملت ابراہیم کا ذکر فرمایا اور اس کے بنیادی اصول بیان کئے۔ بیت اللہ شریف کے قبلہ مقرر ہونے پر یہودیوں کے اعتراضات کا تذکرہ ہوا۔ اس کا مزید بیان آگے بھی آئے گا۔ ” فاذ کرونی اذکرکم واشکروالی ولا تکفرون “ سے ایک نیا باب شروع ہوا۔ شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی اسے اپنی حکمت میں تہذیب الاخلاق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس باب میں تہذیب الاخلاق کے بڑے بڑے اصول بیان ہوئے ہیں۔ برسر اعروج قوم کی پانچ منازل شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی کی حکمت کے مطابق کوئی بھی قوم ترقی کی پانچ منازل طے کئے بغیر برسر عروج نہیں پہنچ سکتی ۔ ترقی یافتہ قوم کی پہلی منزل تہذیب الاخلاق ہے اور دوسری تدبیر منزل تدبیر منزل کے آگے چار قانون ہوتے ہیں۔ پہلا قانون شادی بیاہ سے متعلق ہے۔ جس میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض آتے ہیں ، دوسرا قانون والدین اور اولد کی اصلاح سے متعلق ہے۔ تیسرا قانون مالک اور مملوک کے تعلقات پر مبنی ہوتا ہے اور چوتھے قانون میں اقربا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی اصلاح کی تدبیر ہوتی ہے۔ تہذیب الاخلاق اور تدبیر منزل کے بعد ترقی یافتہ قوم کی تیسری منزل تدبیر مدینہ ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے شہر ، بستی یا محلہ کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ اس کے بعد چوتھی منزل اصلاح ملک سے متعلق ہوتی ہے۔ اور پانچویں منزل خلافت کبریٰ کی ہے جس کے ذریعے تمام جہاد کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ کو ارتفاق رابع کے اصول کے مطابق مبعوث فرمای اور اس سے مراد بین الاقوامی یعنی تمام عالم کی اصلاح ہے۔ الغرض جو قوم ترقی کے بام پر پہنچتی ہے۔ اسے بہرحال یہ پانچ منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔ ترقی کے آخری زینہ پر پہنچنے کا مطل بیہ ہے کہ انسان میں اس قدر صلاحیت پیدا ہوجائے کہ وہ خطیرہ القدس یا بہشت بریں کا ممبر بن جائے۔ یہ انسان کی انتہائی ترقی کا مقام ہے۔ اگر وہ خطیرۃ القدس کی منزل تک نہیں پہنچ سکا تو وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ گزشتہ درس میں تہذیب الاخلاق کے پانچ اصولوں کا تذکرہ اجمالاً آ چکا ہے۔ ان میں سے دو اصول ذکر الٰہی اور شکر کا بیان گزشتہ رکوع میں آ چکا ہے ظاہر ہے کہ ان پانچ اصولوں پر عمل کئے بغیر کوئی شخص مہذب نہیں کہلا سکتا۔ موجودہ زمانے میں جس شخص کے لئے مہذب کا ہم معنی لفظ کلچرڈ (Cultured) بولا جاتا ہے۔ وہ اسلام کے اصول سے قطعاً مطابق ت نہیں رکھتا۔ بلکہ صحیح معنوں میں کلچرڈ یا مہذب اسے کہیں گے ۔ جو سالام کے قائم کردہ ان پانچ اصولوں پر پورا اترے گا۔ تہذیب الاخلاق کا تیسرا اصول صبر آیت زیر درس میں تہذیب الاخلاق کا تیسرا اصول صبر بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر و الصلوۃ اے ایمان والو صبر اور نماز کے ساتھ استعانت پکڑو۔ صبر ملت ابراہیمی کا ایک اہم اصول ہے۔ کنز العمال میں یہ حدیث موجود ہے ، جسے امام غزالی نے احیاء العلوم میں اور دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ صبر کا معنی کسی چیز سے رک جانا یا کسی شے کو برداشت کرنا ہے اور اس کے تین مادے ہیں ، صبر علی المصیبت ، صبر علی الطاعتہ اور صبر عن المعصیۃ صبر علی المصیبت یہ ہے کہ اہل ایمان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے۔ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اسے من جانب اللہ سمجھ کر اس پر صبر کرتے ہیں اور اس کے جواب میں ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ کہتے ہیں ، ایسے شخص کا تعلق باللہ مضبوط ہوتا ہے۔ اسی لئے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ ومن الیقین ماتھون بہ علینا مصائب الدنیا حضور ﷺ نے امت کو یہ دعا سکھائی کہ اے اللہ یقین میں اس قدر درجہ عطا کر کہ دنیا کی مصیبتیں ہلکی ہوجائیں۔ ایسا شخص ہر تکلیف پر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے۔ اسی کا ارادہ اور مشیت کام کر رہی ہے۔ وہ ہر تکلیف کو خوشی سے برداشت کرے گا ، اس پر جزع فزع نہیں کرے گا۔ نہ چیخے چلائے گا اور نہ کوئی واویلا کریگا۔ یہ اس کے تعلق باللہ کی نشانی ہے۔ اس کی مزید تشریح یوں بیان فرمائی الصبر عند صدمۃ الاولی کسی مصیبت کی ابتداء میں صبر کرنا ہی صبر کی علامت ہے۔ وگرنہ جب تکلیف کا سامنا کرتے ہوئے انسان تھک جاتا ہے اور تمام وسائل سے مایوس ہوجاتا ہے ، تو پھر صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی اطاعت پر صبر کرنا صبر علی الطاعتہ کہلاتا ہے ظاہر ہے کہ کوئی کام بھی بغیر حوصلہ اور برداشت کے انجام نہیں پا سکتا۔ گرمی سردی میں وضو کے لئے تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ بہت بڑی مشقت کا کام ہے۔ حج وعمرہ میں تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ غرضیکہ اطاعت کا کوئی بھی کام صبر کے بغیر پایہ تکمیل نہیں پہنچ سکتا۔ صبر عن المعصیت یہ کہ جب نفسانی خواہشات سامنے آئیں تو انسان ان پر کنٹرول کرے اور اپنے نفس کو معصیت سے روکے جو شخص حرص و ہوا کا بندہ ہوجاتا ہے۔ وہ ہر نفسانی خواہش کے آگے جھک جاتا ہے۔ اور اس طرح معصیت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے۔ جب انسان صبر عن المعصیت کا دامن پکڑ لیتا ہے اور کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انما یو فی الصبرون اجرھم بغیر حساب “ یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بغیرحساب اجر عطا کرے گا۔ طبرانی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ الصبر نصف الایمان صبر نصف ایمان ہے۔ بعض روایات 1 ؎ میں آتا ہے الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسہ صبر کا تعلق ایمان کے ساتھ ایسا ہے جیسا سر کا تعلق جسم کے ساتھ ہے ، جسم سے سر علیحدہ ہوجائے تو جسم بیکار ہوجاتا ہے اسی طرح اگر صبر کا مادہ مفقود ہوجائے تو ایمان کا کوئی فائدہ نہیں۔ صبر ایسا قیمتی اصول ہے کہ اس کے متعلق فرمایا لا ایمان لمن لا صبرلہ جس نے صبر کا دامن چھوڑ دیا ، اس کا ایمان باقین ہیں رہا۔ اس کا ایمان ڈانواں ڈول ہوگیا۔ اسی لئے فرمایا کہ اے ایمان والو ! صبر کے ساتھ مدد حاصل کرو ، یعنی اس پر کاربند ہو جائو۔ کوئی مشکل درپیش ہو ، اطاعت کا محل ہو یا معصیت سے رکنے کا موقع ہو ، ہر حالت میں صبر کا دامن تھامے رکھو۔ تہذیب الاخلاق کا یہ تیسرا اصول ہے۔ تہذیب الاخلاق کا چوتھا اصول نماز فرمایا اے ایمان والو ! استعانت حاصل کرو صبر اور نماز کے ساتھ ظاہر ہے کہ جس شخص میں نماز کی روح پیدا ہوگی اس میں توحید کا اعلیٰ مقام پیدا ہوگا۔ ایسے شخص کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہوجائے گا۔ اس کو بلند مقام حاصل ہوگا۔ نماز کے متعلق اللہ نے فرمایا اقم الصلوۃ لذکری “ میری یاد آوری کے لئے نماز قائم کرو۔ اس سے اخبات حاصل ہوگا۔ فرمایا وربک فکبر اپنے رب کی تکبیر بیان کرو ورثیابک فطھر “ اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھو طہارت قائم رکھنا فرشتوں سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ نماز کے لئے 1 ؎ قرطبی 373/ج 1 (فیاض) بمنزلہ شرط کے ہے۔ ” اخبتوآ الی ربھم “ نماز میں اخبات پایا جاتا ہے جو کہ بہت بڑی صفت ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے۔ نماز افضل العبادات ہے۔ جب انسان دنیوی امور میں پڑ کر اللہ سے غافل ہوجاتا ہے تو نماز اس کا تعلق اللہ سے پھر قائم کردیتی ہے۔ انسان کا تعلق خطیرۃ القدس سے جڑ جاتا ہے۔ نماز کو بار بار قائم کرنے سے انسان کی غفلت دور ہوجاتی ہے۔ اور تعلق باللہ قائم رہتا ہے۔ فرمایا اللہ مع الصبرین بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ، خوشنودی اور اعانت صابروں کے ساتھ ہے الغرض ! ذکر ، شکر ، صبر ، دعا اور تعظیم شعائر اللہ تہذیب الاخلاق کے بڑے بڑے اصول ہیں ۔ ان میں سے ہر اصول اہم ہے۔ فرمایا یہود و نصاریٰ کے اعتراضات کی پروا نہ کریں ” فلا تخشوھم واخشونی “ آپ ان سے خوف نہ کھائیں۔ بلکہ صرف میرا خوف دل میں رکھیں۔ ان کے باطل اعتراض پر صبر سے کام لیں۔ ” واصبر وما صبرک الا باللہ “ صبر بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی حاصل ہوگا۔ دوسری جگہ فرمایا۔ ” ان تصبروا وتتقوا “ اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو گے ” ان ذلک من عزم الامور “ یہ پختہ بات ہے ۔ فلاح نصیب ہو جائیگی۔ جس شخص یا جماتع میں صبر کی روح پیدا ہوجائے گی۔ نماز پر استقامت ہو جائیگی وہ شخص یا جماعت کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔ اسی طرح جب دشمن سے ٹکر انے کا موقع آئے گا۔ تو جذبہ جہاد کام آئے گا اور اس موقع پر اگر جان بھی چلی جائے ، تو انسان فنا نہیں ہوتا بلکہ اسے دائمی حیات نصیب ہوجاتی ہے۔ انسان اس خلفشار کی زندگی سے نکل کر بلند تر زندگی میں داخل ہوجاتا ہے جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر اور اس کے دین کی تقویت کے لئے مارا گیا ، وہ شہید ہوگیا اور کامیاب ہوگیا۔ شہادت فی سبیل اللہ کے راستے میں جان دینے والوں کو مردہ مت کہو بل احیاء بلکہ وہ زندہ ہیں اس میں شک نہیں کہ ان کا ظاہری جسم تو مر جاتا ہے۔ اس کی مادی حیات ختم ہوجاتی ہے۔ مگر شہید کو اگلے جہان میں اعلیٰ تر زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔ انہیں انبیاء (علیہ السلام) جیسی اعلیٰ زندگی نصب ہوتی ہے۔ دنیا کی زندگی تو بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ وہ نہایت فائق اور اعلیٰ تر ہوتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ انسان جسم اگرچہ بالطبع فانی ہے۔ مگر بعض اوقات شہدا کے جسم میں بھی محفوظ رہتے ہیں اور ان پر زمانے کے تغیر و تبدل اور مٹی کا اثر نہیں ہتا۔ انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام کے متعلق تو واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے جسموں کو کھا جائے۔ مگر بعض اوقات شہداء کے جسم بھی اللہ کے حکم سے محفوظ رہتے ہیں۔ چند سال پہلے تاتاریوں کے علاقہ میں چھ سات سو سال پرانے شہدا کے جسم بالکل صحیح وسالم برآمد ہوئے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ چاہے تو شہد ا کے اجسام کو بھی آنچ نہ آنے دے۔ تاہم یہ کلی اصول نہیں ہے۔ البتہ عالم برزخ میں شہدا کو اعلیٰ درجے کی زندگی نصیب ہوتی ہے ، برزخ کی زندگی تو ہر نیک و بد اور مومن و کافر کو حاصل ہے۔ مگر شہداء کی زندگی نہایت اعلیٰ وا ارفع ہے سورة آل عمران میں آتا ہے کہ شہدا کو عیش کے سامان نصیب ہوتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کی خوراک حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے انہیں مردہ مت کہو۔ انہیں اعلیٰ درجہ کی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ اگر چہ مادی زندگی کے اعتبار سے انہیں مردہ بھی کرسکتے ہیں۔ مگر اپنی اعلیٰ وارفع اور دائمی زندگی کی بنا پر وہ زندہ جاوید ہیں۔ شعور کا فقدان فرمایا ولکن لاتشعرون اے لوگو ! تم شہداء کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے ۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں جو دائمی زندگی حاصل ہوئی ہے وہ اس جہاں سے الگ ایک دوسرا جہان ہے جو تمہارے فہم و ادراک سے بالا ہے۔ آپ اس مادی جہاں کی چیزوں سے واقف ہیں۔ اس کی اشیاء آپ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں کان سے سن سکتے ہیں۔ عقل سے سمجھ سکتے ہیں۔ مگر اگلے جہان کی چیزوں کو نہ تم دیکھ سکتے ہو ، نہ تمہارے اکن اس کی سماعت کی تاب لاسکتے ہیں اور نہ تمہاری عقل انہیں سمجھنے کے قابل ہے۔ اس جہان کی چیزوں کو وہاں جا کر ہی دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں عذاب قبر سمجھ میں نہیں آتا حالانکہ یہ آنکھ اس قابل نہیں ہے کہ عالم ملکوت کی چیزوں کو دیکھ سکے۔ یہ تمام چیزیں اگلے جہان میں موجود ہیں ، مگر ہمیں نظر نہیں آتیں۔ ان کا ادراک وہاں پہنچ کر ہی ہوگا اب تو صرف آسمان نظر آتا ہے مگر قیامت والے دن اوپر کی تمام اشیاء نظر آنے لگیں گی ، اوپر کے تمام پردے کھول دیئے جائیں۔ عرش الٰہی نظر آجائے گا جن اور فرشتے بھی نظر آئیں گے۔ اسی لئے فرمایا کہ تمہاری مادی نظریں اور دماغ اگلے جہان کی چیزوں کے ادراک کا شعور نہیں رکھتے۔
Top