Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 151
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ
كَمَآ : جیسا کہ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا فِيْكُمْ : تم میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَتْلُوْا : وہ پڑھتے ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِنَا : ہمارے حکم وَيُزَكِّيْكُمْ : اور پاک کرتے ہیں تمہیں وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتے ہیں تم کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَيُعَلِّمُكُمْ : اور سکھاتے ہیں تمہیں مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
جس طرح کہ ہم نے تم میں سے تمہارے درمیان ایک رسول بھیجا ، جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ سکھاتا ہے ، جو تم نہیں جانتے تھے
ربط آیات اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہت قبلہ کے متعلق فرمایا کہ تم جہاں کہیں ہو ، اپنا رخ بوقت نماز بیت اللہ شریف کی طرف کرلو۔ مگر یہود و نصاریٰ جو ظالم لوگ ہیں اور بات بات پر بےجا اعتراض کرتے ہیں ، ان سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ان کے طعن وتشنیع اور اعتراضات کی پروا نہ کریں۔ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ ہر قسم کی مخالفت سے بےنیاز ہو کر بیت اللہ شریف کو اپنا قبلہ اپنا لیں۔ فرمایا اس کی غایت یہ ہے کہ ولا تم نعمتی علیکم تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں۔ ولعلکم تھتدون اور تاکہ تم ہدایت پا جائو۔ مقصد یہ کہ قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کو زیادہ فضیلت والا قبلہ مقرر فرمایا ہے۔ جو کسی خاص قوم اور علاقے کے لئے نہیں بلکہ اقوام عالم کے لئے بین الاقوامی نوعیت کا قبلہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس خطہ کو یہ شرافت بخشی ہے کہ اس جگہ عبادت اور ریاضت کا اجر وثواب دوسرے کسی بھی مقام کی نسبت بہت زیادہ ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اور پھر اس انعام کے دو حصے ہیں یعنی مادی اور روحانی پیغمبر خدا ﷺ کا وجود مبارک مادی انعام ہے اور قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا روحانی انعام ہے۔ اتمام نعمت اتمام نعمت کے متعلق حضرت علی کی روایت میں آتا ہے۔ حضور علی السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ انسان کے لئے اتمام نعمت یہ ہے من دخل الجنۃ کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مقام ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے اتمام نعمت یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے۔ کیونکہ صحیح معنوں میں مومن وہی ہے جس کا خاتمہ بالایمان ہو۔ اسی لئے خود ابنیائے کرام بھی یہی دعا کرتے رہے۔ توفنی مسلماً والحقی بالصلحین یعنی اے مولا کریم مجھے اسلام اور ایمان کی حالت میں موت دینا اور میرا حشر صالح لوگوں کے ساتھ کرنا۔ اسی طرح خلافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا فرماتا ہے۔ بعث رسول فرمایا کما ارسلنا فیکم رسولا منکم جس طرح ہم نے تم میں سے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا۔ یہاں پر لفظ کما تشبیہ کے لئے آیا ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر کر کے تم کو فضیلت بخشی اور اتمام نعمت کیا۔ اسی طرح ہم نے تمہاری طرف عظیم الشان رسول بھیج کر تم پر احسان کیا اور اپنی نعمت کو کامل بنایا۔ رسول کا بھیجنا بھی اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے انعامات میں سے ہے دوسری جگہ قرآن پاک نے حضور ﷺ کے وجود مباک کو نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ الم ترالی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفراً کیا آپ نے قریش مکہ اور مشرکین عرب کو نہیں دیکھا۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعام کی ناقدری کی۔ گویا نعمت کو کفر کے ساتھ تبدیل کیا۔ مراد یہ ہے کہ خود حضور ﷺ جن کا وجود پاک اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کی ناقدری کا مقصد یہ کہ جس طرح ہم نے تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ کما کا یہ کاف علمت کے لئے بھی ہو سکتا ہے اس لحاظ سے کم اسے مراد یہ ہوگا ۔ تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں اور تاکہ تم ہدایت کے راستے پر قائم رہو۔ اور اس طرح یہ کاف تشبیہ کا نہیں بلکہ تعلیل کا ہوگا اور معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تمہارے درمیان ایک عظیم الشان رسول اس لئے بھیجا تاکہ اتمام نعمت ہوجائے اور ہدایت کا راستہ بھی واضح ہوجائے۔ اس لحاظ سے یہ لفظ کما بالکل اسی طرح ہے۔ جس طرح حضور ﷺ نے دعا میں سکھایا۔ اللھم ربنا لک الحمد کما کسوتنی کہ جب لباس پہنو تو یوں کہو کہ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں لباس پہنایا۔ یہ لباس بھی تو نے ہی عطا کیا ہے گویا اس لحاظ سے یہ کاف تشبیہ کی بجائے تعلیل کے لئے ہے یعنی جو علت کا معنی دیتا ہے۔ یہاں پر بھی لفظ رسولاً بطور اسم نکرہ آیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک عظیم الشان رسول بھیجا ہے۔ بڑا رسول بھیجا ہے جو کہ منکم تم میں سے ہی اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں بھی گ ذر چکا ہے ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم “ یعنی اے ہمارے رب مہاری اولاد میں سے امت مسلمہ برپا کر اور پھر ان کے اندر ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ تلاوت اور تزکیہ فرمایا ایک ایسا رسول یتلوا علیکم ایتنا جو تمہارے سامنے ہماری آیتیں پڑھتا ہے۔ لفظ آیت مختلف معانی کے لئے آتا ہے۔ اس سے مراد معجزہ ، نشانی ، حکم یا فرمان ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارا مبعوث کردہ رسول ہماری آیات یعنی ہمارا کلام جو بذریعہ وحی نال ہوتا ہے وہ پڑھ کر سناتا ہے۔ ویزکیکم اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے یعنی پاک صاف کرتا ہے۔ رذیل اور گندے اعتقادات سے بچا کر تمہارے اندر اچھے اخلاق اچھے اعمال اور اچھے عقائد کرتا ہے۔ کتاب و حکمت کی تعلیم یہ ایسا عظیم ا لشان رسول ہے۔ جو تلاوت و تزکیہ کے ساتھ ساتھ ویعلمکم اللکتب والحکمۃ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اس تعلیم کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں بھی آ چکا ہے وہاں بھی انہوں نے یہی دعا کی تھی کہ اے ہمارے رب اس امت مسلمہ میں ایسا رسول بھیج جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ وہاں پر تزکیہ کا ذکر کتاب و حکمت کی تعلیم کے بعد کیا تھا۔ مگر یہاں پر اس کا ذکر پہلے آیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس تقدم و تاخر میں بھی نکتہ پنہاں ہے۔ وہاں پر دعا کا مقام تھا کہ مولا کریم ! ایسا رسول مبعوث فرما جو ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کا تزکیہ ہوجائے وہ ظاہری اور باطنی طور پر ہر لحاظ سے پاک صاف ہوجائیں اور یہ مقام عمل کا مقام ہے۔ تعلیم کتاب و حکمت کی غرض وغایت یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہوجائے۔ اب جب کہ امت مسلمہ پیدا ہوچکی ۔ عظیم الشان رسول مبعوث ہوچکا تو اب کتاب و حکمت کی تعلیم کی اصل غرض وغایت یعنی تزکیہ کو پہلے بیان فرمایا کہ جس طرح ہم نے تم میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ہماری آیات پڑھتا ہے۔ تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ الغرض ! ابراہیم (علیہ السلام) کی داع کا مقام تعلیم اور پیش گوئی کا مقام تھا اور یہ عمل کا مقام ہے۔ لہٰذا کتاب و حکمت کی تعلیم کی غرض وغایت یعنی تزکیہ کو پہلے بیان فرمایا جب تک مقصد حاصل نہ ہو ، عمل کا کچھ فائدہ نہیں تعلیم اسی وقت مفید ہوگی۔ جب اس کا مقصد تزکیہ حاصل ہوجائے۔ تعلیم مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود بالذات تزکیہ ہے جس کا تذکرہ اس مقام پر پہلے کیا ہے۔ ان جانی چیزوں کی تعلیم فرمایا کتاب و حکمت کی تعلیم کے علاوہ ہمارا رسول ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ تمہیں وہ چیزیں بھی سکھاتا ہے۔ جو تم نہیں جانتے تھے۔ مثلاً لوگ وضو اور طہارت کا طریقہ نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغمبر (علیہ السلام) کی تعلیم کے ذریعے سکھایا۔ لوگ غسل جنابت کے طریقہ سے ناواقف تھے۔ انہیں تعداد رکعات معلوم نہ تھیں ۔ نماز اور دیگر عبادات کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ حلال و حرام کی تمیز نہ تھی۔ یہ سب چیزیں اللہ نے نبی کے ذریعے سکھائیں۔ اسی کو فریاد کہ ہمارا رسول تمہیں وہ چیزیں سکھاتا ہے۔ جو تمہارے علم میں نہ تھیں۔ حضرت جعفر کی روایت میں آتا ہے کہ جب کچھ مسلمان قریش مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور کفار نے وہاں بھی مسلمانوں کا پیچھا کیا تو حضر جعفر نے نجاشی کے دربار میں جو تقریر کی اس کا لب لباب یہ تھا کہ اے بادشاہ ! ہم بت پرستی کرتے تھے۔ ہمارے اندر ہر قسم کی برائیاں موجود تھیں۔ حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ ظلم و جور کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔ حق و انصاف کے تقاضوں سے نا آشنا تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہم میں نبی آخر الزمان مبعوث فرما کر سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ خدا کے ساتھ شرک نہ کرو ، بت پرستی سے باز آ جائو۔ صرف اسی وحدئہ لاشریک کی عبادت کرو۔ حلال و حرام میں تمیز پیدا کرو کسی کو ظلم کا نشانہ نہ بنائو۔ اللہ کے نبی نے ہمیں عبادت کا صحیح طریقہ سکھایا۔ تہذیب و تمدن کے اصول بتلائے اور معیشت کے نکات سمجھائے۔ آپ نے عقائد کی اصلاح کے اصول بتائے اور پھر پیش آنیوالے واقعات کو بیان فرمایا مثلاً یہ کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ قبر کی زندگی ، قیامت کو دوبارہ جی اٹھنا پل صراط پر سے گزرنا اور آخر میں محاسبے کی منزل ، میزان عدل کا قیام اور پھر رب العزت کا آخری فیصلہ ، یہ سب باتیں حضور ﷺ نے امت کو بتلا دیں گویا انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا اے لوگو ! آئو میں تم کو نہ بتلائو کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے کس کس چیز کو حلال اور کس کس کو حرام قراردیا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ میں تمہیں وہ چیزیں بتلائو ، جو تم نہیں جانتے۔ اسی طرححضور ﷺ نے مظالم سے بچنے کا طریقہ بتلایا۔ مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام یہ ہے کہ اس نے بہترین نظام حکومت قائم کرنے کے اصول بتلائے اور پھر انہی اصولوں کے مطابق نظام خلافت قائم ہوا۔ عرب کے لوگ ہزاروں سال تک نظام حکومت سے نابلد رہے ، حالانکہ دیگر اقوام مثلاً رومی اور ایرانی نظام حکومت سے بخوبی واقف تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا کہ اپنے پیغمبر کے ذریعے نظام حکومت کی تعلیم دی جس کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں پرچم اسلام آدھی دنیا پر لہرانے لگا۔ یہ سب چیزیں ویعلمکم تنالم تکونوا تعلمون کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تہذیب اخلاق کے پانچ اصول ذکر ، شکر ، صبر ، دعا تعظیم شعائر اللہ ان انعامات کا تذکرہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ جب میں نے اتنے بڑے بڑے انعامات تم پر کئے ہیں تو پھر تمہارا بھی فرض ہے کہ فاذکرونی مجھے یاد کرو۔ گویا یہاں سے تہذیب کا باب شروع ہوتا ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی قباحتیں بیان کیں۔ پھر ملت ابراہیمی کی بنیاد کا ذکر کیا۔ خانہ کعبہ کے مرکز ہدایت ہونے کا بیان ہوا۔ پیغمبر (علیہ السلام) کا ذکر ہوا۔ کتاب کا بیان آیا اور اب یہاں سے تہذیب اخلاق یا تہذیب نفس کے احکام شروع ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت انسان میں تہذیب اور شائستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اس مقام پر دو اصول بیان ہوئے ہیں اور باقی تین اصول آئندہ رکوع میں بیان ہوں گے۔ پہلا اصول ذکر الٰہی تہذیب نفس کا پہلا اصول جو یہاں بیان ہوا ، وہ ذکر الٰہی ہے۔ گویا ہمارا نصاب تعلیم اللہ تعالیٰ کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ذکر زبان ، عمل ، قلب اور روح کے ذریعے ہوتا ہے۔ ذکر کا عام فہم طریقہ زبان کے ذریعہ سے ہے۔ انسان زبان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ تلاوت کلام پاک کرتا ہے۔ یہ سب ذکر کی زبانی صورتیں ہیں۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور ای الاعمال افضل کونسا عمل افضل ہے۔ فرمایا لایزال لسانک رطباً من ذکر اللہ یعنی تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا افضل عمل ایمان باللہ ہے۔ کہیں فرمایا کہ نماز سب سے افضل عمل ہے اور کہیں جہاد فی سبیل اللہ کو افضل عمل قرار دیا تاہم یہ بھی ارشاد فرمایا کہ انسان کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہئے ۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے۔ جس کی کوئی حد نہیں ، نماز ، روزہ ، جہاد وغیرہ سب محدود ہیں مگر ذکر الٰہی غیر محدود ہے اسی لئے فرمایا اذکروا اللہ ذکر اکثیراً اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر کثرت سے یاد کرو ، ذکر الٰہی میں اتنے محور ہو کہ لوگ دیوانہ کہنے لگیں۔ اور پھر ذکر الٰہی کا صلہ یہ ملے گا۔ کہ ” لعلکم تفلحون “ تاکہ تم فلاح پا جائو۔ الغرض ذکر الٰہی کثرت سے کرو ، کیونکہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی کی حکمت کے مطابق جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر اخلاص ، نیک نیتی اور اچھی کیفیت کے ساتھ کرتا ہے۔ تو اس کا رخ خطیرۃ القدس کی طرف ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا تعلق روح اعظم کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے جو کہ خطیرۃ القدس میں ایک بڑی روح ہے۔ بنی نوع انسان کی یہ چھوٹی چھٹوی روحیں بڑی روح کے اعضاء وجوارح ہیں۔ اس طرح گویا ذکر الٰہی کرنے والے کا تعلق براہ راست خدا تعالیٰ کی تجلی اعظم کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ذاکر کی نفسیاتی کیفیت جس قدر روح اعظم کے مطابق ہوگی اسی قدر اس کو قرب الٰہی حاصل ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس سے انسان کے اندر شائستگی پیدا ہوگی ، جس کے بغیر وہاں داخلہ ممکن نہیں۔ اگر جسم ، روح قلب یا نفس میں کسی قسم کی نجاست ہوگی تو قرب الٰہی نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ ملت ابراہیم کا اہم اصول ہے ۔ جس سے انسان کو تہذیب نصیب ہوتی ہے۔ الغرض ! فرمایا فاذکرونی اذکرکم پس تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یعنی میں تمہیں اس ذکر کی ہدایت اجر وثواب عطا کرتا رہوں گا ، تقریب نصیب کرتا رہوں گا حدیث شریف میں آتا ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص مجھے اپنے جی میں یاد کریگا میں بھی اس کو اپنے جی میں یاد کروں گا جس کو اللہ جل شانہ اپنے جی میں یاد کرے اس کی عظمت و فوقیت کس قدر قابل رشک ہوگی پھر فرمایا جو مجھے کسی مجمع میں یاد کرے گا ، میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجمع میں کروں گا۔ جو شخص میری طرف چل کر آئے گا ، میں اس کی طرف دوڑ کر آئوں گا۔ یہ سب ذکر الٰہی کی برکات ہیں ۔ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا ، اے معاذ ! جب بھی نماز پڑھو۔ تو اس کے بعد یوں کہا کرو اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک و حسن عبادتک یعنی اے اللہ ! مجھے اپنا ذکر کرنے ، شکر کرنے اور اچھے طریقے سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دوسرا اصول شکر الٰہی تہذیب نفس کا دوسرا اصول یہاں پر یہ بیان فرمایا واشکرولی اور میرا شکریہ ادا کرو ولات کفرون اور میرے ناشکرگزار نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں شکریہ زبان سے بھی ادا ہوتا ہے اور عمل سے بھی ادا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب کوئی انسان کھانا کھاتا ہے۔ تو زبان سے الحمد للہ کہتا ہے۔ گویا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اس سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ اگر اللہ نے اولاد دی ہے۔ تو انسان عقیقہ کر کے اللہ کا شکر گزار بنتا ہے۔ اللہ کی نعمت کا شکر یہ ادا کرتا ہے۔ اگر انسان کو حج نصیب ہو ، تو قربانی کر کے شکریہ ادا کرتا ہے۔ اگر انسان کو نیا لباس میسر آجائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ پرانا لباس فی سبیل اللہ دیدے ۔ حضور ﷺ کی عادت مبارک یہی تھی۔ جب نیا کپڑا پہنا ، دعا کی اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو دے دیا۔ اگر کسی کو اللہ نے دودھ دینے والا جانور دیا ہے۔ تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اس کا دودھ کبھی کبھی محتاجوں کو بھی دے دیا کرے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر جانور نے کسی دن دودھ نہیں دیا تو پیڑا دم کرانے کے لئے لے آتے ہیں۔ بھائی ! تم نے اس کا دودھ محتاج کو دیکر اس کا شکریہ تو ادا ہی نہیں کیا۔ کرنے کا اصل کام تو وہ تھا۔ الغرض زبان جوارح ، مال اور عمل سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا تہذیب نفس کا دوسرا اصول ہے۔ فرمایا ولاتکفرون ناشکر گزار نہ بنو۔ ظاہر ہے کہ اگر حصول نعمت پر شکریہ ادا نہیں کیا تو گویا انسان نے اللہ کی ناشکری کی۔ ایسا شخص اتصال خطیرۃ القدس سے محروم رہ گیا۔ لہٰذا گر کامیابی کی خواہش ہے تو ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور کسی صورت میں بھی ناشکر گزار نہ بنو۔
Top