Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ
: اور جب
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الْبَيْتَ
: خانہ کعبہ
مَثَابَةً
: اجتماع کی جگہ
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لئے
وَاَمْنًا
: اور امن کی جگہ
وَاتَّخِذُوْا
: اور تم بناؤ
مِنْ
: سے
مَقَامِ
: مقام
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
مُصَلًّى
: نماز کی جگہ
وَعَهِدْنَا
: اور ہم نے حکم دیا
اِلٰى
: کو
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
وَاِسْمَاعِيلَ
: اور اسماعیل
اَنْ طَهِّرَا
: کہ پاک رکھیں
بَيْتِيَ
: وہ میرا گھر
لِلطَّائِفِينَ
: طواف کرنے والوں کیلئے
وَالْعَاكِفِينَ
: اور اعتکاف کرنے والے
وَالرُّکَعِ
: اور رکوع کرنے والے
السُّجُوْدِ
: اور سجدہ کرنے والے
اور اس بات کو دھیان میں لاؤ جب کہ ہم نے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے لیے رجوع اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑا ہونے کی جگہ کو مصلی یعنی نماز کی جگہ بنا لو ، اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی طرف حکم بھیجا کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک وصاف رکھو ۔
گذشتہ سے پیوستہ : بنی اسرائیل کی خرابیوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت اور رسالت کا ذکر کیا ہے قرآن پاک کی حقانیت بھی بیان ہوئی ہے مگر اس سلسلہ کی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ سے شروع ہوئی ، کیونکہ اگلی آیات میں اس دعا کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کے متعلق کی تھی گویا اس سارے سلسلہ کی بنیاد تو وہاں سے شروع ہوتی ہے ، مگر پہلے تمہیدا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت اور پیشوائی کا ذکر فرمایا ہے آپ پر آنے والی آزمائش کا ذکر آیا اور پھر ان تمام امتحانوں میں آپ کی کامیابی کا بیان بھی آیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو امامت عامہ بھی عطا فرمائی (آیت) ” انی جاعلک للناس اماما “۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے متعلق بھی دعا کی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لاینال عھدی الظلمین “۔ میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا وہ منصب امامت کے اہل نہیں ہوں گے معلوم ہوا کہ امامت میں سے حصہ اس کو ملے گا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نیک اور صالح ہوگا ، اور کفر وشرک کا مرتکب اس عہدہ سے محروم رہے گا ۔ (شیعہ امامیہ کا غلط استدلال) شیعہ امامیہ نے اس آیت سے بہت غلط استدلال کیا ہے انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ صاحبان (نعوذ باللہ) امامت کے اہل نہیں تھے کیونکہ زندگی کے پہلے حصہ میں وہ کفر وشرک کے مرتکب ہوئے تھے اور ایمان بعد میں لائے برخلاف اس کے حضرت علی ؓ اوائل عمر سے ہی مومن تھے لہذا خلافت کے اہل وہ تھے شیعہ حضرات نے یہ غلط استدلال کیا ہے یہ درست ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ اور عمر فاروق ؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ابتداء میں کفار میں شامل تھے ، اسی طرح خالد بن ولید ؓ ” سیف من سیوف اللہ “ حضرت ابوعبیدہ ؓ حضرت عباس ؓ ، حضرت حمزہ ؓ حضور ﷺ کے چچا اور حضرت عقیل ؓ اور آپ کے دیگر چچا زاد وغیرہ سب کے سب ابتدائے نبوت کے زمانہ میں اسی سوسائٹی کا حصہ تھے ، جو مشرکین مکہ کی سوسائٹی تھی مگر جوں جوں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرتا رہا یہ اصحاب ایمان کی دولت سے مشرف ہوتے رہے اور اپنے کفر وشرک پر مبنی سابقہ عقائد سے تائب ہوگئے ، اس ضمن میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (ابن ماجہ ص 313) ” التائب من الذنب کمن لاذنب لہ “۔ گناہ سے توبہ کرنے والا بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے گویا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے (1) (مسلم ص 76 ۔ ج 1) ” الاسلام یھدی ما کان قبلہ “ اسلام لانے کے بعد مومن کے سابقہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں ، اس لحاظ سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اسلام کی دولت سے مالا مال ہو کر سابقہ تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوگئے ، لہذا اس کے باوجود ان پر کفر وشرک کا الزام لگانا قبیح حرکت ہے اور مذکورہ آیت کریمہ سے غلط استدلال ہے ۔ (بیت اللہ مقام ثواب وامن) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کا تذکرہ بیان فرمایا (آیت) ” واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا “۔ اس بات کو خیال میں رکھو جب ہم نے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے لیے مثابہ اور امن والا بنایا ، بیت اللہ سے مراد خانہ کعبہ ہے اور مثابہ کے دو معنے آتے ہیں پہلا معنی لوٹنے کی جگہ ہے ، ظاہر ہے کہ لوگ یہاں بار بار آتے ہیں ، لوگوں کا ذوق وشوق انہیں دنیا کے کونے کونے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کے لیے کھینچ کھینچ کر لاتا ہے وہاں پر ایک مرتبہ پہنچ جانے والا سیراب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا ذوق وشوق اور بڑھ جاتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ پھر وہیں پہنچ جائے ” مثابۃ “ کا یہی معنی ہے ، اور اس ضمن میں تعلیم بھی یہی دی گئی ہے کہ حاجی طواف وداع کے وقت یہ دعا مانگے ، اے اللہ ! یہ میرا آخری عہد نہ ہو بلکہ مجھے پھر بھی موقعہ دے کہ میں تیرے گھر کی زیارت کروں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کو (آیت) ” ھدی للعلمین “ یعنی دنیا پھر کے لیے ہدایت کامرکز بنایا ہے سورة آل عمران میں اس کا تذکرہ موجود ہے ۔ مثابۃ کا دوسرا معنی ثواب کی جگہ ہے یہ بھی واضح ہے کہ اس مقدس مقام پر جس قدر ثواب حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری جگہ پر نہیں ملتا ابن ماجہ شریف کی روایت میں حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان موجود ہے (2) (جامع صغیر ص 245 ج 4 بحوالہ طبرانی عن ابی الدرداء ؓ حلیۃ الاولیاء عن انس ؓ زجاجۃ المصابیح ص 205 ج 1 بحوالہ ابن ماجہ) مسجد حرام یعنی حرم شریف میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری جگہ پر ایک لاکھ نماز کے ثواب کے برابر ہوتا ہے اور جو شخص بیت المقدس یا مسجد نبوی میں ایک نماز ادا کرتا ہے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب پاتا ہے ، بہرحال یہاں پر مثابۃ کے دونوں معنی ہیں یعنی مرکز ہدایت اور ثواب کی جگہ ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ہم نے بیت اللہ شریف کو امن والی جگہ بنایا ظاہر ہے جو شخص ایمان کی حالت میں پہنچ جاتا ہے اسے آخرت کے عذاب سے امن مل جاتا ہے اور ظاہری طور پر بھی جو کوئی احرام کی حالت میں وہاں جاتا ہے ، اس کو پناہ حاصل ہوجاتی ہے ، دوسرے مقام پر فرمایا (آیت) ” من دخلہ کان امنا “۔ ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 450 پارہ 1) کہ اگر کوئی مجرم حرم میں داخل ہوجائے تو اس کے خلاف تعزیری کاروائی حرم میں بھی جائز ہے اسے حرم سے باہر نکالا جائے گا اور پھر حد جاری کردی جائے گی ، بعض دوسرے آئمہ فرماتے ہیں (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 450 پارہ 1) کہ اگر کوئی قاتل جیسا بڑا مجرم بھی حرم میں داخل ہوجائے تو اسے وہاں کچھ نہ کہو ہاں اسکا دانہ پانی بند کر دو ، جب مجبور ہو کر خود ہی حدود حرم سے باہر آئے تو اس پر حد جاری کردی جائے ، گویا یہ مقام ظاہری طور پر بھی گہوارہ امن ہے ۔ (مقام ابراہیم) بیت اللہ شریف کے ضمن مقام ابراہیم کا ذکر فرماتے ہیں ہوئے فرمایا (آیت) ” واتخذوا من مقام ابرھیم مصلی “۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ۔ نماز کی جگہ بناؤ ، مقام ابراہیم سے مراد کوئی کمرہ نہیں ہے جہاں آپ نماز ادا فرمایا کرتے تھے بلکہ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی تھی آپ کے پاؤں مبارک کے نشانات اس پتھر پر اب بھی موجود ہیں یہی وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر حج کا اعلان کیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا (آیت) ” واذن فی الناس بالحج “۔ اے ابراہیم ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر ہوچکا ہے اس کا حج کرنے کے لئے آؤ تفسیر مدارک میں آتا ہے (3) (تفسیر مدارک ص 98 ج 3) کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا پروردگار میری آواز کون سنے گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارا کام اعلان کرنا ہے میں اس آواز کو تمام نسل انسانی کی پشتوں تک پہنچا دوں گا جن کی قسمت میں بیت اللہ کا حج مقدر ہے ان تک آپ کی آواز پہنچے گی ، بہرحال مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اس کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ ۔ حضرت عمر ؓ کی فضیلت کے باب میں حدیث شریف میں آتا ہے (1) (مسلم ص 276 ج 2 ، ترمذی ، ص 401) کہ آپ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش یہاں پر نماز پڑھنے کا حکم ہو تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت واتخذوا من مقام ابرھیم مصلی “۔ اتاری ۔ مقام ابراہیم تقریبا چودہ انچ مربع چھوٹا سا پتھر ہے جو کہ بہت اللہ شریف کے قریب ہی تعمیر کعبہ کے وقت سے پڑا ہے اور یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بھی دو ہزار سال پہلے کی بات ہے ظاہر ہے کہ اس چھوٹے سے پتھر کو مصلی بنا کر اس کے اوپر تو نماز نہیں پڑھی جاسکتی ، تاہم اس سے مراد یہ ہے کہ پتھر کے قرب و جوار میں نماز ادا کی جائے ، چناچہ ہر طواف کرنے والا طواف کے ساتھ چکر پورے کرنے کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم کے قرب ادا کرتا ہے اگر اس کے بالکل قریب جگہ نہ ملے تو پیچھے کہیں بھی دو رکعت واجب الطواف ادا کرلیے جاتے ہیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک طواف کے دو رکعت واجب ہیں جب کہ دوسرے ائمہ کرام اسے سنت کہتے ہیں (2) (ہدایہ ص 179 ج 1 ، شرح وقایہ ص 197 ج 1) بہرحال اس مقام پر نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے پہلے یہ پتھر ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا ۔ مگر موجود حکومت نے مقام ابراہیم کے چبوترے اور زمزم کے چبوترے کو ہٹا دیا ہے اور اب مقام ابراہیم شیشے کے ایک خول میں بند کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر پیتل کی خوبصورت جالی لگا دی گئی ہے اور اس طرح پتھر کی دوہری حفاظت کا بندوبست کردیا گیا ہے تاکہ اگر کسی وجہ سے ایک خول کو نقصان پہنچے تو کم از کم دوسرا تو قائم رہے ، حکومت سعودیہ نے لاکھوں ریال کے خرچ سے حفاظت کا یہ انتظام کیا ہے اب مقام ابراہیم دور سے تو نظر نہیں آتا مگر جالی کے قریب کھڑے ہو کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں کے نشان موجود ہیں یہ پورا ڈھانچہ باب رحمت سے تھوڑے فاصلے پر مطاف میں رکھا ہوا عام ایام میں تو مطوفین مقام ابراہیم اور بیت اللہ شریف کے درمیان ہی چلتے ہیں مگر ایام حج میں جوں جوں رش بڑھتا ہے مقام ابراہیم طوف کرنے والوں کے درمیان میں آجاتا ہے اور لوگ اس کے دونوں طرف سے گذرتے رہتے ہیں ۔ (بیت اللہ شریف کی صفائی) مقام ابراہیم کے تذکرے کے بعد پھر بیت اللہ شریف کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” وعھدنا الی ابرھیم واسمعیل “۔ ہم نے براہیم اور اسمعیل (علیہما السلام) کو حکم بھیجا (آیت) ” ان طھرا بیتی للطآئفین “۔ میرے گھر کو پاک صاف رکھیں طواف کرنے والوں کے لیے ” والعکفین “۔ اور اعتکاف بیٹھنے والوں کے لیے (آیت) ” والرکع السجود “۔ اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے ، پاک وصاف رکھنا دو طرح سے ہوسکتا ہے یعنی ظاہری پاکیزگی اور باطنی پاکیزگی چونکہ حج وعمرہ کے لیے دور دراز سے لوگ وہاں پہنچتے ہیں اس لیے ان کی سہولت کا خیال رکھنا ضروری ہے اس لحاظ سے ظاہری صفائی کا مطلب یہ ہے کہ حرم پاک کو ہر قسم کی غلاظت بدبو وغیرہ سے پاک رکھا جائے ، کیونکہ لوگ وہاں عبادت کے لیے آتے ہیں وہاں اعتکاف بیٹھتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں ، قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور دیگر وظائف میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے فرمایا کہ تم دونوں باپ بیٹا میرے مہمانوں کی خاطر اس گھر کو ہمیشہ پاک صاف رکھو ۔ ّ (مساجد کی صفائی) جس طرح بیت اللہ شریف کی پاکیزگی قائم رکھنے کا حکم ہے ، اسی طرح عام مساجد کو بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک وصاف رکھنا ضروری ہے سورة نور میں ارشاد ہے (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ “۔ ان گھروں میں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند رکھنے کا حکم دیا ہے اور وہاں اس کا نام ذکر کرنے کو کہا ہے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے (1) (ترمذی ص 110 ۔ ابو داؤد ص 66 ج 1 ۔ ابن ماجہ ص 55) ” تطفوا “۔ اگر تم نے گھر میں بھی کوئی جگہ نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہے تو اس کو بھی پاک صاف رکھو ، ظاہر طور پر وہاں کوئی کوڑا کباڑ یا گندگی نہیں رہنی چاہئے ۔ مساجد کی باطنی صفائی کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پر کوئی مشرکانہ حرکت نہ کی جائے اور نہ ہی وہاں پر دنیوی باتیں کی جائیں جس طرح بدن کی طہارت ضروری ہے ، اسی طرح عقل اور دل کی طہارت بھی ضروری ہے اگر دل کے کسی کونے میں شرک ونفاق کا کوئی شائبہ بھی ہوگا تو پورے کا پورا انسان ناپاک ہوگا ، اسی لیے ارشاد ربانی ہے ۔ (آیت) ” انما المشرکون نجس “۔ یعنی مشرکین پلید ہیں ان کے دلوں پر شرک کی نجاست پڑی ہوئی ہے لہذا ضروری ہے کہ دل و دماغ کفر ، شرک ، بدعت ، اور دیگر خرافات سے پاک رہے اور عقیدہ توحید پر صحیح طریقے سے ایمان ہو ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں (1) (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن ص 86۔ ج 1) کہ ملت کی پاکیزگی بھی ضروری ہے ہماری ملت میں کفر ، شرک اور بدعات کی جو گندگی سرایت کرچکی ہے اس سے پیچھا چھڑانا بھی ضروری ہے گندے عقائد نے پوری ملت کو ناپاک کر رکھا ہے ، لہذا انفرادی طہارت کے ساتھ ساتھ اجتماعی پاکیزگی کی بھی ضرورت ہے ۔ ّ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خصوصیات) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بہت سی خصوصیات ہیں صحیح احادیث میں آیا ہے (2) (بخاری ص 473 ج 1 مسلم ص 265 ج 2) کہ آپ سب سے پہلے شخص ” اول من اختتن “ ہیں جنہوں نے ختنہ کیا ، تفسیری روایتوں میں یہ بھی آتا ہے (3) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) کہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام مختون پیدا ہوتے ہیں مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے نہیں ہوئے انہیں اسی (80) سال کی عمر میں ختنہ کا حکم ہوا چناچہ قدوم کے مقام پر انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے سنت تطہیر ادا کی ، اب حکم یہ ہے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے اسے چاہئے کہ یہ سنت ادا کرے خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو (4) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جن کی داڑھی میں سفید بال نکلنے شروع ہوئے ، آپ سے پہلے کسی انسان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ، سب کی داڑھی سیاہ ہی رہا کرتی تھی (5) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جوانی سے نکل کر بڑھاپے میں داخل ہوئے تو سفیدی دیکھ کر عرض کیا ، مولا کریم ! یہ کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وقار ہے آپ نے پھر عرض کیا اے اللہ ” زدنی وقارا “۔ میری اس عزت کو اور بڑھا دے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف اللہ کریم کی وحی آئی (6) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) اے ابراہیم ! ” انت اکرم اھل الارض الی “۔ آپ میرے نزدیک روئے زمین کے تمام انسانوں سے برگزیدہ ہیں جب آپ نماز ادا کرتے وقت حالت سجدہ میں ہوتے ہیں تو آپ کا ستر نہیں کھلنا چاہئے چناچہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پاجامہ پہنا ، اگرچہ تہبند پہننا بھی درست ہے تاہم حضور ﷺ نے فرمایا (1) (زاد المعاد ص 35۔ ج 1) پاجامہ بھی پہنا کرو ، اور تہبند بھی باندھا کرو ، یہود تہبند نہ باندھتے تھے آپ نے دونوں چیزوں کی اجازت فرمائی ، آپ نے پاجامے کی تعریف فرمائی ہے ، اگرچہ حضور ﷺ کے پہننے کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ملتا تاہم پاجامہ خریدنے کا ذکر آتا ہے (2) (ابن ماجہ ص 256) ابن ابی شیبہ کی روایت میں آتا ہے (3) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) کہ منبر پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خطبہ دیا اور ڈی کی روایت میں ہے (4) (تفسیر عزیزی فارسی ص 440 پارہ 1) کہ مہمانوں کی خاطر سب سے پہلے آپ نے نان شیر مال تیار کیا یہ کھانا دودھ اور نان کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے ہمارے ہاں برصغیر میں حیدر آباد دکن اور لکھنؤ والے بڑے شوق سے تیار کرتے ہیں اور مہمانوں کو پیش کرتے ہیں بڑی لذیز چیز ہے اسی طرح معانقے کا طریقہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جاری ہوا جب کوئی شخص باہر سے آتا تو آپ اس سے گلے ملتے ۔ (معانقے کا پس منظر) کہتے ہیں کہ بیت المقدس کے قریب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جانوروں کی چراگاہ کی تلاش میں کسی پہاڑ کے اندر تک چلے گئے ، انہوں نے ایک مقام پر نہایت غمناک آواز سنی کوئی شخص نہایت خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا تھا ، آپ ادھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص اپنے حال میں محو ہے آپ نے اس بوڑھے شخص سے دریافت کیا کہ تم کس کو یاد کر رہے ہو اس نے کہا اللہ تعالیٰ کو آپ نے پوچھا تمہارا اللہ کہاں ہے ، اس نے جواب دیا آسمان پر ہے ، فرمایا زمین پر بھی وہی خدا ہے ، پھر آپ نے پوچھا تمہارا قبلہ کدھر ہے تو بوڑھے نے بیت اللہ شریف کی طرف اشارہ کیا آپ نے پوچھا تمہارا ٹھکانا کہاں ہے اس نے جواب دیا نیچے اسی غار میں ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بوڑھے کا ٹھکانا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو بوڑھے نے کہا کہ وہاں جانا محال ہے کیونکہ راستے میں گہری ندی پڑتی ہے جسے عبور نہیں کیا جاسکتا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تم کیسے پہنچ جاتے ہو تو اس نے جواب دیا خرق عادت کے طور پر چلا جاتا ہوں ، یہ ایک کرامت ہے جس کی وجہ سے میں خشک پاؤں ندی کو عبور کرلیتا ہوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا چلو ہم بھی اسی طریقے سے چلتے ہیں جو خدا تمہارے لیے پانی کو مسخر کرتا ہے ، وہ میرے لیے بھی کرے گا ، چناچہ دونوں چل دیے ، غار میں اترے تو آگے ندی تھی ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے عبور کرلیا ، اور آپ کے پاؤں تک نہیں بھیگے پانی کے نیچے آپ اس شخص کے عبادت خانے میں پہنچے تو دیکھا کہ اس کی نشاندھی کے عبادت خانے کا رخ واقعی بیت اللہ شریف کی طرف تھا آپ بہت خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں یہ خدا پرست انسان ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے بزرگ یہ بتاؤ کہ سب سے خوفناک دن کون سا ہے ، تو اس نے جواب دیا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کرسی عدالت پر بیٹھے گا اور نبی اور اللہ تعالیٰ کے سب مقرب لرز رہے ہوں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو اس دن کے خطرات سے محفوظ رکھے بوڑھا کہنے لگا کہ مجھے دعا کرتے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہاری دعا کیا ہے اس نے کہا کہ میں اس پہاڑ میں گیا تو مجھے ایک نوجوان ملا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے میں نے اس سے پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے دوست ابراہیم (علیہ السلام) کے جانوروں کے لیے چراگاہ تلاش کر رہا ہوں بوڑھا کہتا ہے کہ اس دن سے میں یہ دعا مانگ رہا ہوں کہ اے مولا کریم ! اگر دنیا میں تیرا کوئی خلیل ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہے تو مجھے اس کی زیارت نصیب فرما ، مگر آج تک میری یہ دعا قبول نہیں ہوئی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بڑے میاں ! اللہ تعالیٰ نے تیری دعا قبول فرما لی ہے اٹھو اور میرے ساتھ معانقہ کرو ، چناچہ معانقے کا طریقہ وہاں سے جاری ہوا ۔ (1) (تفسیر درمنثور ص 16 ، ج 1 تفسیر عزیزی فارسی ص 440۔ پارہ 1) بیت اللہ شریف کی تعمیر کا تذکرہ آگے آئے گا ، پہلے کعبۃ اللہ اور حج کی فضیلت کے متعلق کچھ بیان ہوگا صحیح احادیث میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2) (بخاری ص 306 ج 1 ، مسلم ص 436 ج 1) کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل میں حج کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک لوٹتا ہے گویا کہ وہ آج ہی پیدا ہوا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے (1) کہ بیت اللہ شریف پر ہر روز ایک سو بیس (120) رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، ان میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر چالیس دیگر عبادت کرنے والوں پر اور بیس ان لوگوں پر نازل ہوتی ہیں ، جو بیت اللہ شریف کی طرف دیکھتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا (2) (کنز العمال ص 82 ، ج 13) ” النظر الی الکعبۃ عبادۃ “۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ، البتہ طواف کے دوران کعبہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ طواف سے فارغ ہو کر نہایت ذوق وشوق اور محبت سے بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا چاہئے صحیح روایت میں (3) (کنز العمال ص 186 ، 188۔ ج 13) آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حجر اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہے یہ پتھر بہشت سے آیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے نور کو مٹا دیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو سورج کی طرح یہ مشرق ومغرب کو روشن کرتا ۔ (طواف کا اجروثواب) تاریخ ازرتی میں آتا ہے کہ طواف کی نیت سے گھر سے چلنے والا شخص ایسا ہے جیسے کہ وہ دریائے رحمت میں چلنا شروع کردیتا ہے ، جب مطاف میں پہنچتا ہے تو گویا رحمت کے دریا میں غوطے لگاتا ہے ، اور جب طواف شروع کرتا ہے تو ہر قدم اٹھانے کے عوض اسے پانچسو نیکیاں مل جاتی ہیں ، اور جب قدم نیچے رکھتا ہے ، تو ہر قدم کے بدلے پانچسو گناہ مٹ جاتے ہیں اور جب وہ شخص طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم تک آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ اے بندے ! تیرے سابقہ گناہ تو دھل گئے ، اب آئندہ زندگی میں محتاط رہو اعمال صالحہ انجام دیتے رہو ، اور نئے سرے سے اچھی زندگی کا آغاز کرو ، ّ (حرم پاک) حرم پاک کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (4) (مسلم ص 430 ج 1) کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرمت والا خطہ بنایا ہے کسی کے لیے اس میں لڑائی کرنا حلال نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن تھوڑی دیر کے لیے صرف میرے لیے حرم میں لڑائی حلال ہوئی تھی اس سے پہلے یا اس کے بعد حرم شریف میں لڑائی قطعا حرام ہے ، یہ خطہ ہمیشہ محترم ہے اور امن والا شہر ہے چناچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا تذکرہ فرمایا ہے (آیت) ” واذ قال ابرھیم “۔ اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” رب اجعل ھذا بلدا امنا “۔ اے مولا کریم ! اس شہر کو امن والا بنا دے ، دوسرے مقام پر (آیت) ” ھذا البلد “۔ کا لفظ آتا ہے گویا یہ ابھی کھلی جگہ ہے شہر آباد نہیں ہوا ۔ مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی حرمت کی دعا کر رہے ہیں ، حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 456 پارہ 1۔ تفسیر ابن کثیر ص 179 ج 1 عن ابن عباس ؓ) زمین وآسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ شریف والی زمین کو اللہ تعالیٰ نے تیار کیا ، اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے عبادت کرتے تھے ، وہاں پر ایک پردہ سا اٹھا ہوا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو پوری دنیا کا مرکز قرار دیا ، اور پھر اسی جگہ سے تمام زمین کو پھیلایا گیا ، گویا یہ مقام ساری زمین کا وسط (وسط البلاد) ہے بیجوری نے اپنی شرح شمائل میں لکھا ہے جس شخص کو نکسیر پھوٹتی ہو ، اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے المکۃ وسط البلاد واللہ رؤف بالعباد “۔ تو اس کی نکسیر بند ہوجائے گی ۔ فرمایا اے اللہ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے (آیت) ” وارزق اھلہ من الثمرت “۔ اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے ، (آیت) ” من امن منھم باللہ والیوم الاخر “۔ جو کوئی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے (آیت) ” قال ومن کفر “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے کفر کیا (آیت) ” فامتعہ قلیلا “۔ اسے تھوڑا فائدہ پہنچاؤں گا (آیت) ” ثم اضطرہ الی عذاب النار “۔ پھر اسے کشاں کشاں دوزخ کی طرف لیجاؤں گا (آیت) ” وبئس المصیر “۔ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے تھوڑے فائدہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو ممکن ہے کہ کافر بھی آرام سے رہیں لیکن اس کے بعد انہیں بہرحال دوزخ میں جانا ہوگا ، مگر اہل ایمان کو دونوں چیزیں حاصل ہوں گی دنیا میں امن بھی نصیب ہوگا ، اور آخرت میں نجات بھی حاصل ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا چناچہ حرم پاک اور شہر مکہ کی خیر وبرکات کا سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک قائم رہے گا
Top