Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور اس بات کو دھیان میں لاؤ جب کہ ہم نے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے لیے رجوع اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑا ہونے کی جگہ کو مصلی یعنی نماز کی جگہ بنا لو ، اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی طرف حکم بھیجا کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک وصاف رکھو ۔
گذشتہ سے پیوستہ : بنی اسرائیل کی خرابیوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت اور رسالت کا ذکر کیا ہے قرآن پاک کی حقانیت بھی بیان ہوئی ہے مگر اس سلسلہ کی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ سے شروع ہوئی ، کیونکہ اگلی آیات میں اس دعا کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کے متعلق کی تھی گویا اس سارے سلسلہ کی بنیاد تو وہاں سے شروع ہوتی ہے ، مگر پہلے تمہیدا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت اور پیشوائی کا ذکر فرمایا ہے آپ پر آنے والی آزمائش کا ذکر آیا اور پھر ان تمام امتحانوں میں آپ کی کامیابی کا بیان بھی آیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو امامت عامہ بھی عطا فرمائی (آیت) ” انی جاعلک للناس اماما “۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے متعلق بھی دعا کی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لاینال عھدی الظلمین “۔ میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا وہ منصب امامت کے اہل نہیں ہوں گے معلوم ہوا کہ امامت میں سے حصہ اس کو ملے گا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نیک اور صالح ہوگا ، اور کفر وشرک کا مرتکب اس عہدہ سے محروم رہے گا ۔ (شیعہ امامیہ کا غلط استدلال) شیعہ امامیہ نے اس آیت سے بہت غلط استدلال کیا ہے انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ صاحبان (نعوذ باللہ) امامت کے اہل نہیں تھے کیونکہ زندگی کے پہلے حصہ میں وہ کفر وشرک کے مرتکب ہوئے تھے اور ایمان بعد میں لائے برخلاف اس کے حضرت علی ؓ اوائل عمر سے ہی مومن تھے لہذا خلافت کے اہل وہ تھے شیعہ حضرات نے یہ غلط استدلال کیا ہے یہ درست ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ اور عمر فاروق ؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ابتداء میں کفار میں شامل تھے ، اسی طرح خالد بن ولید ؓ ” سیف من سیوف اللہ “ حضرت ابوعبیدہ ؓ حضرت عباس ؓ ، حضرت حمزہ ؓ حضور ﷺ کے چچا اور حضرت عقیل ؓ اور آپ کے دیگر چچا زاد وغیرہ سب کے سب ابتدائے نبوت کے زمانہ میں اسی سوسائٹی کا حصہ تھے ، جو مشرکین مکہ کی سوسائٹی تھی مگر جوں جوں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرتا رہا یہ اصحاب ایمان کی دولت سے مشرف ہوتے رہے اور اپنے کفر وشرک پر مبنی سابقہ عقائد سے تائب ہوگئے ، اس ضمن میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (ابن ماجہ ص 313) ” التائب من الذنب کمن لاذنب لہ “۔ گناہ سے توبہ کرنے والا بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے گویا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے (1) (مسلم ص 76 ۔ ج 1) ” الاسلام یھدی ما کان قبلہ “ اسلام لانے کے بعد مومن کے سابقہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں ، اس لحاظ سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اسلام کی دولت سے مالا مال ہو کر سابقہ تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوگئے ، لہذا اس کے باوجود ان پر کفر وشرک کا الزام لگانا قبیح حرکت ہے اور مذکورہ آیت کریمہ سے غلط استدلال ہے ۔ (بیت اللہ مقام ثواب وامن) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کا تذکرہ بیان فرمایا (آیت) ” واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا “۔ اس بات کو خیال میں رکھو جب ہم نے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے لیے مثابہ اور امن والا بنایا ، بیت اللہ سے مراد خانہ کعبہ ہے اور مثابہ کے دو معنے آتے ہیں پہلا معنی لوٹنے کی جگہ ہے ، ظاہر ہے کہ لوگ یہاں بار بار آتے ہیں ، لوگوں کا ذوق وشوق انہیں دنیا کے کونے کونے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کے لیے کھینچ کھینچ کر لاتا ہے وہاں پر ایک مرتبہ پہنچ جانے والا سیراب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا ذوق وشوق اور بڑھ جاتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ پھر وہیں پہنچ جائے ” مثابۃ “ کا یہی معنی ہے ، اور اس ضمن میں تعلیم بھی یہی دی گئی ہے کہ حاجی طواف وداع کے وقت یہ دعا مانگے ، اے اللہ ! یہ میرا آخری عہد نہ ہو بلکہ مجھے پھر بھی موقعہ دے کہ میں تیرے گھر کی زیارت کروں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کو (آیت) ” ھدی للعلمین “ یعنی دنیا پھر کے لیے ہدایت کامرکز بنایا ہے سورة آل عمران میں اس کا تذکرہ موجود ہے ۔ مثابۃ کا دوسرا معنی ثواب کی جگہ ہے یہ بھی واضح ہے کہ اس مقدس مقام پر جس قدر ثواب حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری جگہ پر نہیں ملتا ابن ماجہ شریف کی روایت میں حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان موجود ہے (2) (جامع صغیر ص 245 ج 4 بحوالہ طبرانی عن ابی الدرداء ؓ حلیۃ الاولیاء عن انس ؓ زجاجۃ المصابیح ص 205 ج 1 بحوالہ ابن ماجہ) مسجد حرام یعنی حرم شریف میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری جگہ پر ایک لاکھ نماز کے ثواب کے برابر ہوتا ہے اور جو شخص بیت المقدس یا مسجد نبوی میں ایک نماز ادا کرتا ہے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب پاتا ہے ، بہرحال یہاں پر مثابۃ کے دونوں معنی ہیں یعنی مرکز ہدایت اور ثواب کی جگہ ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ہم نے بیت اللہ شریف کو امن والی جگہ بنایا ظاہر ہے جو شخص ایمان کی حالت میں پہنچ جاتا ہے اسے آخرت کے عذاب سے امن مل جاتا ہے اور ظاہری طور پر بھی جو کوئی احرام کی حالت میں وہاں جاتا ہے ، اس کو پناہ حاصل ہوجاتی ہے ، دوسرے مقام پر فرمایا (آیت) ” من دخلہ کان امنا “۔ ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 450 پارہ 1) کہ اگر کوئی مجرم حرم میں داخل ہوجائے تو اس کے خلاف تعزیری کاروائی حرم میں بھی جائز ہے اسے حرم سے باہر نکالا جائے گا اور پھر حد جاری کردی جائے گی ، بعض دوسرے آئمہ فرماتے ہیں (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 450 پارہ 1) کہ اگر کوئی قاتل جیسا بڑا مجرم بھی حرم میں داخل ہوجائے تو اسے وہاں کچھ نہ کہو ہاں اسکا دانہ پانی بند کر دو ، جب مجبور ہو کر خود ہی حدود حرم سے باہر آئے تو اس پر حد جاری کردی جائے ، گویا یہ مقام ظاہری طور پر بھی گہوارہ امن ہے ۔ (مقام ابراہیم) بیت اللہ شریف کے ضمن مقام ابراہیم کا ذکر فرماتے ہیں ہوئے فرمایا (آیت) ” واتخذوا من مقام ابرھیم مصلی “۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ۔ نماز کی جگہ بناؤ ، مقام ابراہیم سے مراد کوئی کمرہ نہیں ہے جہاں آپ نماز ادا فرمایا کرتے تھے بلکہ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی تھی آپ کے پاؤں مبارک کے نشانات اس پتھر پر اب بھی موجود ہیں یہی وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر حج کا اعلان کیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا (آیت) ” واذن فی الناس بالحج “۔ اے ابراہیم ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر ہوچکا ہے اس کا حج کرنے کے لئے آؤ تفسیر مدارک میں آتا ہے (3) (تفسیر مدارک ص 98 ج 3) کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا پروردگار میری آواز کون سنے گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارا کام اعلان کرنا ہے میں اس آواز کو تمام نسل انسانی کی پشتوں تک پہنچا دوں گا جن کی قسمت میں بیت اللہ کا حج مقدر ہے ان تک آپ کی آواز پہنچے گی ، بہرحال مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اس کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ ۔ حضرت عمر ؓ کی فضیلت کے باب میں حدیث شریف میں آتا ہے (1) (مسلم ص 276 ج 2 ، ترمذی ، ص 401) کہ آپ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش یہاں پر نماز پڑھنے کا حکم ہو تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت واتخذوا من مقام ابرھیم مصلی “۔ اتاری ۔ مقام ابراہیم تقریبا چودہ انچ مربع چھوٹا سا پتھر ہے جو کہ بہت اللہ شریف کے قریب ہی تعمیر کعبہ کے وقت سے پڑا ہے اور یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بھی دو ہزار سال پہلے کی بات ہے ظاہر ہے کہ اس چھوٹے سے پتھر کو مصلی بنا کر اس کے اوپر تو نماز نہیں پڑھی جاسکتی ، تاہم اس سے مراد یہ ہے کہ پتھر کے قرب و جوار میں نماز ادا کی جائے ، چناچہ ہر طواف کرنے والا طواف کے ساتھ چکر پورے کرنے کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم کے قرب ادا کرتا ہے اگر اس کے بالکل قریب جگہ نہ ملے تو پیچھے کہیں بھی دو رکعت واجب الطواف ادا کرلیے جاتے ہیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک طواف کے دو رکعت واجب ہیں جب کہ دوسرے ائمہ کرام اسے سنت کہتے ہیں (2) (ہدایہ ص 179 ج 1 ، شرح وقایہ ص 197 ج 1) بہرحال اس مقام پر نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے پہلے یہ پتھر ایک چبوترے پر رکھا ہوا تھا ۔ مگر موجود حکومت نے مقام ابراہیم کے چبوترے اور زمزم کے چبوترے کو ہٹا دیا ہے اور اب مقام ابراہیم شیشے کے ایک خول میں بند کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر پیتل کی خوبصورت جالی لگا دی گئی ہے اور اس طرح پتھر کی دوہری حفاظت کا بندوبست کردیا گیا ہے تاکہ اگر کسی وجہ سے ایک خول کو نقصان پہنچے تو کم از کم دوسرا تو قائم رہے ، حکومت سعودیہ نے لاکھوں ریال کے خرچ سے حفاظت کا یہ انتظام کیا ہے اب مقام ابراہیم دور سے تو نظر نہیں آتا مگر جالی کے قریب کھڑے ہو کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں کے نشان موجود ہیں یہ پورا ڈھانچہ باب رحمت سے تھوڑے فاصلے پر مطاف میں رکھا ہوا عام ایام میں تو مطوفین مقام ابراہیم اور بیت اللہ شریف کے درمیان ہی چلتے ہیں مگر ایام حج میں جوں جوں رش بڑھتا ہے مقام ابراہیم طوف کرنے والوں کے درمیان میں آجاتا ہے اور لوگ اس کے دونوں طرف سے گذرتے رہتے ہیں ۔ (بیت اللہ شریف کی صفائی) مقام ابراہیم کے تذکرے کے بعد پھر بیت اللہ شریف کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” وعھدنا الی ابرھیم واسمعیل “۔ ہم نے براہیم اور اسمعیل (علیہما السلام) کو حکم بھیجا (آیت) ” ان طھرا بیتی للطآئفین “۔ میرے گھر کو پاک صاف رکھیں طواف کرنے والوں کے لیے ” والعکفین “۔ اور اعتکاف بیٹھنے والوں کے لیے (آیت) ” والرکع السجود “۔ اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے ، پاک وصاف رکھنا دو طرح سے ہوسکتا ہے یعنی ظاہری پاکیزگی اور باطنی پاکیزگی چونکہ حج وعمرہ کے لیے دور دراز سے لوگ وہاں پہنچتے ہیں اس لیے ان کی سہولت کا خیال رکھنا ضروری ہے اس لحاظ سے ظاہری صفائی کا مطلب یہ ہے کہ حرم پاک کو ہر قسم کی غلاظت بدبو وغیرہ سے پاک رکھا جائے ، کیونکہ لوگ وہاں عبادت کے لیے آتے ہیں وہاں اعتکاف بیٹھتے ہیں نمازیں پڑھتے ہیں ، قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور دیگر وظائف میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے فرمایا کہ تم دونوں باپ بیٹا میرے مہمانوں کی خاطر اس گھر کو ہمیشہ پاک صاف رکھو ۔ ّ (مساجد کی صفائی) جس طرح بیت اللہ شریف کی پاکیزگی قائم رکھنے کا حکم ہے ، اسی طرح عام مساجد کو بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک وصاف رکھنا ضروری ہے سورة نور میں ارشاد ہے (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ “۔ ان گھروں میں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند رکھنے کا حکم دیا ہے اور وہاں اس کا نام ذکر کرنے کو کہا ہے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے (1) (ترمذی ص 110 ۔ ابو داؤد ص 66 ج 1 ۔ ابن ماجہ ص 55) ” تطفوا “۔ اگر تم نے گھر میں بھی کوئی جگہ نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہے تو اس کو بھی پاک صاف رکھو ، ظاہر طور پر وہاں کوئی کوڑا کباڑ یا گندگی نہیں رہنی چاہئے ۔ مساجد کی باطنی صفائی کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پر کوئی مشرکانہ حرکت نہ کی جائے اور نہ ہی وہاں پر دنیوی باتیں کی جائیں جس طرح بدن کی طہارت ضروری ہے ، اسی طرح عقل اور دل کی طہارت بھی ضروری ہے اگر دل کے کسی کونے میں شرک ونفاق کا کوئی شائبہ بھی ہوگا تو پورے کا پورا انسان ناپاک ہوگا ، اسی لیے ارشاد ربانی ہے ۔ (آیت) ” انما المشرکون نجس “۔ یعنی مشرکین پلید ہیں ان کے دلوں پر شرک کی نجاست پڑی ہوئی ہے لہذا ضروری ہے کہ دل و دماغ کفر ، شرک ، بدعت ، اور دیگر خرافات سے پاک رہے اور عقیدہ توحید پر صحیح طریقے سے ایمان ہو ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں (1) (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن ص 86۔ ج 1) کہ ملت کی پاکیزگی بھی ضروری ہے ہماری ملت میں کفر ، شرک اور بدعات کی جو گندگی سرایت کرچکی ہے اس سے پیچھا چھڑانا بھی ضروری ہے گندے عقائد نے پوری ملت کو ناپاک کر رکھا ہے ، لہذا انفرادی طہارت کے ساتھ ساتھ اجتماعی پاکیزگی کی بھی ضرورت ہے ۔ ّ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خصوصیات) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بہت سی خصوصیات ہیں صحیح احادیث میں آیا ہے (2) (بخاری ص 473 ج 1 مسلم ص 265 ج 2) کہ آپ سب سے پہلے شخص ” اول من اختتن “ ہیں جنہوں نے ختنہ کیا ، تفسیری روایتوں میں یہ بھی آتا ہے (3) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) کہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام مختون پیدا ہوتے ہیں مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے نہیں ہوئے انہیں اسی (80) سال کی عمر میں ختنہ کا حکم ہوا چناچہ قدوم کے مقام پر انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے سنت تطہیر ادا کی ، اب حکم یہ ہے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے اسے چاہئے کہ یہ سنت ادا کرے خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو (4) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جن کی داڑھی میں سفید بال نکلنے شروع ہوئے ، آپ سے پہلے کسی انسان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ، سب کی داڑھی سیاہ ہی رہا کرتی تھی (5) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جوانی سے نکل کر بڑھاپے میں داخل ہوئے تو سفیدی دیکھ کر عرض کیا ، مولا کریم ! یہ کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وقار ہے آپ نے پھر عرض کیا اے اللہ ” زدنی وقارا “۔ میری اس عزت کو اور بڑھا دے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف اللہ کریم کی وحی آئی (6) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) اے ابراہیم ! ” انت اکرم اھل الارض الی “۔ آپ میرے نزدیک روئے زمین کے تمام انسانوں سے برگزیدہ ہیں جب آپ نماز ادا کرتے وقت حالت سجدہ میں ہوتے ہیں تو آپ کا ستر نہیں کھلنا چاہئے چناچہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پاجامہ پہنا ، اگرچہ تہبند پہننا بھی درست ہے تاہم حضور ﷺ نے فرمایا (1) (زاد المعاد ص 35۔ ج 1) پاجامہ بھی پہنا کرو ، اور تہبند بھی باندھا کرو ، یہود تہبند نہ باندھتے تھے آپ نے دونوں چیزوں کی اجازت فرمائی ، آپ نے پاجامے کی تعریف فرمائی ہے ، اگرچہ حضور ﷺ کے پہننے کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ملتا تاہم پاجامہ خریدنے کا ذکر آتا ہے (2) (ابن ماجہ ص 256) ابن ابی شیبہ کی روایت میں آتا ہے (3) (تفسیر عزیزی فارسی ص 439 پارہ 1) کہ منبر پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خطبہ دیا اور ڈی کی روایت میں ہے (4) (تفسیر عزیزی فارسی ص 440 پارہ 1) کہ مہمانوں کی خاطر سب سے پہلے آپ نے نان شیر مال تیار کیا یہ کھانا دودھ اور نان کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے ہمارے ہاں برصغیر میں حیدر آباد دکن اور لکھنؤ والے بڑے شوق سے تیار کرتے ہیں اور مہمانوں کو پیش کرتے ہیں بڑی لذیز چیز ہے اسی طرح معانقے کا طریقہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جاری ہوا جب کوئی شخص باہر سے آتا تو آپ اس سے گلے ملتے ۔ (معانقے کا پس منظر) کہتے ہیں کہ بیت المقدس کے قریب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جانوروں کی چراگاہ کی تلاش میں کسی پہاڑ کے اندر تک چلے گئے ، انہوں نے ایک مقام پر نہایت غمناک آواز سنی کوئی شخص نہایت خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا تھا ، آپ ادھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص اپنے حال میں محو ہے آپ نے اس بوڑھے شخص سے دریافت کیا کہ تم کس کو یاد کر رہے ہو اس نے کہا اللہ تعالیٰ کو آپ نے پوچھا تمہارا اللہ کہاں ہے ، اس نے جواب دیا آسمان پر ہے ، فرمایا زمین پر بھی وہی خدا ہے ، پھر آپ نے پوچھا تمہارا قبلہ کدھر ہے تو بوڑھے نے بیت اللہ شریف کی طرف اشارہ کیا آپ نے پوچھا تمہارا ٹھکانا کہاں ہے اس نے جواب دیا نیچے اسی غار میں ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بوڑھے کا ٹھکانا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو بوڑھے نے کہا کہ وہاں جانا محال ہے کیونکہ راستے میں گہری ندی پڑتی ہے جسے عبور نہیں کیا جاسکتا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تم کیسے پہنچ جاتے ہو تو اس نے جواب دیا خرق عادت کے طور پر چلا جاتا ہوں ، یہ ایک کرامت ہے جس کی وجہ سے میں خشک پاؤں ندی کو عبور کرلیتا ہوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا چلو ہم بھی اسی طریقے سے چلتے ہیں جو خدا تمہارے لیے پانی کو مسخر کرتا ہے ، وہ میرے لیے بھی کرے گا ، چناچہ دونوں چل دیے ، غار میں اترے تو آگے ندی تھی ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے عبور کرلیا ، اور آپ کے پاؤں تک نہیں بھیگے پانی کے نیچے آپ اس شخص کے عبادت خانے میں پہنچے تو دیکھا کہ اس کی نشاندھی کے عبادت خانے کا رخ واقعی بیت اللہ شریف کی طرف تھا آپ بہت خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں یہ خدا پرست انسان ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے بزرگ یہ بتاؤ کہ سب سے خوفناک دن کون سا ہے ، تو اس نے جواب دیا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کرسی عدالت پر بیٹھے گا اور نبی اور اللہ تعالیٰ کے سب مقرب لرز رہے ہوں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو اس دن کے خطرات سے محفوظ رکھے بوڑھا کہنے لگا کہ مجھے دعا کرتے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہاری دعا کیا ہے اس نے کہا کہ میں اس پہاڑ میں گیا تو مجھے ایک نوجوان ملا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے میں نے اس سے پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے دوست ابراہیم (علیہ السلام) کے جانوروں کے لیے چراگاہ تلاش کر رہا ہوں بوڑھا کہتا ہے کہ اس دن سے میں یہ دعا مانگ رہا ہوں کہ اے مولا کریم ! اگر دنیا میں تیرا کوئی خلیل ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہے تو مجھے اس کی زیارت نصیب فرما ، مگر آج تک میری یہ دعا قبول نہیں ہوئی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بڑے میاں ! اللہ تعالیٰ نے تیری دعا قبول فرما لی ہے اٹھو اور میرے ساتھ معانقہ کرو ، چناچہ معانقے کا طریقہ وہاں سے جاری ہوا ۔ (1) (تفسیر درمنثور ص 16 ، ج 1 تفسیر عزیزی فارسی ص 440۔ پارہ 1) بیت اللہ شریف کی تعمیر کا تذکرہ آگے آئے گا ، پہلے کعبۃ اللہ اور حج کی فضیلت کے متعلق کچھ بیان ہوگا صحیح احادیث میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2) (بخاری ص 306 ج 1 ، مسلم ص 436 ج 1) کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل میں حج کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک لوٹتا ہے گویا کہ وہ آج ہی پیدا ہوا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے (1) کہ بیت اللہ شریف پر ہر روز ایک سو بیس (120) رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، ان میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر چالیس دیگر عبادت کرنے والوں پر اور بیس ان لوگوں پر نازل ہوتی ہیں ، جو بیت اللہ شریف کی طرف دیکھتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا (2) (کنز العمال ص 82 ، ج 13) ” النظر الی الکعبۃ عبادۃ “۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے ، البتہ طواف کے دوران کعبہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ طواف سے فارغ ہو کر نہایت ذوق وشوق اور محبت سے بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا چاہئے صحیح روایت میں (3) (کنز العمال ص 186 ، 188۔ ج 13) آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حجر اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت ہے یہ پتھر بہشت سے آیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے نور کو مٹا دیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو سورج کی طرح یہ مشرق ومغرب کو روشن کرتا ۔ (طواف کا اجروثواب) تاریخ ازرتی میں آتا ہے کہ طواف کی نیت سے گھر سے چلنے والا شخص ایسا ہے جیسے کہ وہ دریائے رحمت میں چلنا شروع کردیتا ہے ، جب مطاف میں پہنچتا ہے تو گویا رحمت کے دریا میں غوطے لگاتا ہے ، اور جب طواف شروع کرتا ہے تو ہر قدم اٹھانے کے عوض اسے پانچسو نیکیاں مل جاتی ہیں ، اور جب قدم نیچے رکھتا ہے ، تو ہر قدم کے بدلے پانچسو گناہ مٹ جاتے ہیں اور جب وہ شخص طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم تک آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ اے بندے ! تیرے سابقہ گناہ تو دھل گئے ، اب آئندہ زندگی میں محتاط رہو اعمال صالحہ انجام دیتے رہو ، اور نئے سرے سے اچھی زندگی کا آغاز کرو ، ّ (حرم پاک) حرم پاک کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (4) (مسلم ص 430 ج 1) کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرمت والا خطہ بنایا ہے کسی کے لیے اس میں لڑائی کرنا حلال نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن تھوڑی دیر کے لیے صرف میرے لیے حرم میں لڑائی حلال ہوئی تھی اس سے پہلے یا اس کے بعد حرم شریف میں لڑائی قطعا حرام ہے ، یہ خطہ ہمیشہ محترم ہے اور امن والا شہر ہے چناچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا تذکرہ فرمایا ہے (آیت) ” واذ قال ابرھیم “۔ اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” رب اجعل ھذا بلدا امنا “۔ اے مولا کریم ! اس شہر کو امن والا بنا دے ، دوسرے مقام پر (آیت) ” ھذا البلد “۔ کا لفظ آتا ہے گویا یہ ابھی کھلی جگہ ہے شہر آباد نہیں ہوا ۔ مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی حرمت کی دعا کر رہے ہیں ، حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 456 پارہ 1۔ تفسیر ابن کثیر ص 179 ج 1 عن ابن عباس ؓ) زمین وآسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ شریف والی زمین کو اللہ تعالیٰ نے تیار کیا ، اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے عبادت کرتے تھے ، وہاں پر ایک پردہ سا اٹھا ہوا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو پوری دنیا کا مرکز قرار دیا ، اور پھر اسی جگہ سے تمام زمین کو پھیلایا گیا ، گویا یہ مقام ساری زمین کا وسط (وسط البلاد) ہے بیجوری نے اپنی شرح شمائل میں لکھا ہے جس شخص کو نکسیر پھوٹتی ہو ، اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے المکۃ وسط البلاد واللہ رؤف بالعباد “۔ تو اس کی نکسیر بند ہوجائے گی ۔ فرمایا اے اللہ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے (آیت) ” وارزق اھلہ من الثمرت “۔ اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے ، (آیت) ” من امن منھم باللہ والیوم الاخر “۔ جو کوئی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے (آیت) ” قال ومن کفر “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے کفر کیا (آیت) ” فامتعہ قلیلا “۔ اسے تھوڑا فائدہ پہنچاؤں گا (آیت) ” ثم اضطرہ الی عذاب النار “۔ پھر اسے کشاں کشاں دوزخ کی طرف لیجاؤں گا (آیت) ” وبئس المصیر “۔ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے تھوڑے فائدہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو ممکن ہے کہ کافر بھی آرام سے رہیں لیکن اس کے بعد انہیں بہرحال دوزخ میں جانا ہوگا ، مگر اہل ایمان کو دونوں چیزیں حاصل ہوں گی دنیا میں امن بھی نصیب ہوگا ، اور آخرت میں نجات بھی حاصل ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا چناچہ حرم پاک اور شہر مکہ کی خیر وبرکات کا سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک قائم رہے گا
Top