Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے ایمان والو ! مت کہو راعنا بلکہ کہو ” نظرنا “ اور سنو اور کفر کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی پستی اور انحطاط کا ذکر تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پس پست ڈال دیا دین کی سربلندی کے کام کو ترک کردیا ، جہاد سے منہ موڑ گئے اور سحرجادو ٹونے ٹونکے جیسے سفلی اعمال کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا انہوں نے ان برائیوں خاص طور پر سحر کو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جو کہ ان کی ذلت کا انتہائی درجہ تھا ۔ (بنی اسرائیل کی اخلاقی بستی) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اخلاقی پستی کا ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو ذہنی تکلیف پہنچاتے تھے ، یہودیوں نے اپنی اس ذلیل حرکت کا ارتکاب نہ صرف سابقہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے زمانے میں کیا بلکہ حضور خاتم النبیین ﷺ کے مبارک زمانہ میں بھی اس حرکت سے باز نہ آئے ، اور آپ کو مختلف طریقوں سے ایذا پہنچائی ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس حرکت کا تذکرہ کرکے اہل اسلام کو خبردار کیا کہ وہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے معاذ اللہ بنی کریم ﷺ کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ اس مقام پر جس خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ جب یہودی آپ کی مجلس میں آتے تھے تو آپ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرتے تھے جو کہ ” انظرنا “ کا ہم معنی ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری رعایت کریں یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیں ” انظرنا “ کا معنی بھی یہی ہے آپ ہماری طرف ذرا دیکھیں ، نظر کریں ، ہماری بات غور سے سنیں ، بظاہر دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے مگر یہودی اپنی گندی ذہنیت کے اظہار کے لیے ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرتے تھے ، اور پھر اس لفظ کو کھینچ کر اور گھما کر ” راعینا “ بولتے تھے ، حدیث شریف میں آتا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 148۔ ج 1 ، تفسیر طبری ص 472۔ ج 1) (آیت) ” لیا بالسنتھم “۔ زبان میں ہیر پھیر کرکے لفظ ادا کرتے تھے جس کی وجہ سے ” راعینا “ کہتے یعنی ہمارا چرواہا ، مزید برآں یہودیوں کی زبان یہ لفظ گالی کی طور پر بھی استعمال ہوتا تھا جس کا معنی احمق اور بیوقوف ہے ، گویا اس طرح یہ لوگ اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرتے تھے ۔ (حضور ﷺ کی نظر التفات) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا کہ تم اہل کتاب کی پیروی نہ کرنا ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقولوا راعنا “۔ اے ایمان والو ! جب تم نبی کریم ﷺ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہو تو (آیت) ” راعنا “۔ کا لفظ استعمال نہ کرو ، کیونکہ اس سے نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اور نبی کی توہین کفر کے مترادف ہے ۔ سورة مجادلہ میں یہودیوں کی ایک اور قبیح حرکت کا بھی ذکر آتا ہے جب یہ بدبخت حضور ﷺ کی مجلس میں آتے تھے تو ” السلام علیکم “ کی بجائے ” السام علیکم “ کہتے تھے ، سام کا معنی موت یا ہلاکت ہے گویا السلام کا لفظ بگاڑ کر السام کہتے تھے ، اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا (1) (مسلم ص 213۔ ج 2۔ ترمذی ص 386) کہ جب یہودی سلام کریں ان کے سلام کا جواب وعلیکم السلام کی بجائے صرف علیکم دیا کرو ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم نے کہا وہ تم پر ہی ہو یعنی اگر السلام کی بجائے اسام بولا جائے تو یہ ہلاکت تمہیں نصیب ہو ، الغرض اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اسی حرکت کے متعلق فرمایا ” حیوک بما لم یحیک بہ اللہ “ یہ لوگ آپ کو ایسی دعا دیتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے نہیں دی بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو متنبہ فرمایا کہ حضور ﷺ کے لیے کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کریں ۔ جس سے آپ کی شان اقدس میں فرق آنے کا احتمال ہو ۔ (آیت) ” وقولوا انظرنا “۔ اور (آیت) ” راعنا “ کی بجائے (آیت) ” انظرنا “۔ کہو یعنی ہماری طرف نظر کرم فرمائیں ۔ ّ (اہل ایمان کو خطاب) سورة بقرہ میں یہ پہلا موقع ہے جس میں ایمان کو خطاب کیا گیا ہے اس سے پہلے عام لوگوں کو خطاب ہوتا رہا ہے ، جیسے (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “۔ اے نوع انسان ! اپنے رب کی عبادت کرو ، یا بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا (آیت) ” یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم “۔ یعنی اے بنی اسرائیل ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ، اب یہاں سے اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے ، اور پورے قرآن پاک میں اٹھاسی (88) مرتبہ اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2) (2) تفسیر عزیزی فارسی ص 387 پارہ 1) کہ سابقہ کتب سماویہ میں اہل ایمان سے براہ راست خطاب نہیں ہوتا تھا بلکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے خطاب ہوتا تھا جو آنے اپنی اپنی امت تک احکام الہی کو پہنچاتے تھے یہ صرف آخری امت کو شرف حاصل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست اہل ایمان کو خطاب کیا ہے ۔ زوائد مسند احمد میں یہ روایت ہے ، اور امام بیہقی (رح) نے اسے شعب الایمان میں بھی بیان کیا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر 148۔ ج 1 ، تفسیر عزیزی فارسی ص 38 ، پارہ 1) کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ، حضور ! مجھے کوئی نصیحت فرمائی ، آپ نے فرمایا اے عبداللہ ! جب تم قرآن میں یہ خطاب پڑھو (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ تو پورے دل کے ساتھ متوجہ ہوجایا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم سے براہ راست خطاب فرما رہے ہیں اس سے بڑی نصیحت اور وصیت کیا ہو سکتی ہے ، مقصد یہ تھا کہ یہ ایسی اعلی چیز ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ ہمہ تن گوش ہو کر سنا کہ اللہ تعالیٰ کیا حکم فرما رہے ہیں کس چیز کے کرنے کا حکم ہے اور کس چیز سے رک جانے کی بات ہے ۔ الغرض ! اس خطاب میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے (آیت) ” راعنا “ کا لفظ استعمال نہ کرو بلکہ (آیت) ” انظرنا “ سے خطاب کیا کرو ، اس خطاب میں امر اور نہی دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں ، اس کے ساتھ ہی تاکید فرمایا (آیت) ” واسمعوا “۔ یعنی جو حکم ہو رہا ہے ، اسے خوب غور سے سنو ، کیونکہ یہ ایک بڑا اہم حکم ہے ۔ (مشتبہ الفاظ کے استعمال کی ممانعت) حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ (2) (مسلم ص 238 پارہ 2) کہ عام گفتگو میں مشتبہ الفاظ استعمال نہ کرو کوئی شخص اپنے غلام یا لونڈی کو ” عبدی “ اور ” امتی “ کہہ کر نہ پکارے ، لفظ ” عبد “ سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پکارنے والا شاید اپنے آپ کو معبود سمجھ رہا ہے ، حالانکہ معبود تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ” عبد “ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ، مگر معاملہ بالکل واضح ہونا چاہئے ، کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہئے اسی طرح لونڈی کو بندی کہہ کر پکارنے کی بجائے لونڈی کہہ کر پکارو ، غلام اور لونڈی کو فتای اور فتاۃ کہہ کر بھی بلایا جاسکتا ہے یعنی اے جوان یا اے لونڈی ، حضور ﷺ نے فرمایا ، عبد کا لفظ اس لیے مناسب نہیں کہ ” کلکم عبید اللہ “ کہ تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو ، اسی طرح ساری عورتیں اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہیں ، یہ کسی انسان کے بندے یا بندیاں نہیں ہیں ۔ لفظ ” مولی “ بھی مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ، اس کو بلا تخصیص ہر جگہ استعمال کرنا اشتباہ پیدا کرسکتا ہے ، مولی کے کئی معنے ہیں ، جیسے دوست ، صاحب ، آقا ، غلام ، غلام آزاد کرنے والا وغیرہ وغیرہ ، اس لیے حضور ﷺ نے یہ بات سمجھائی کہ اس لفظ کو غلط طور مت استعمال کرو ، جس سے شبہ پیدا ہو ، مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1) (مسلم ص 238) حضور ﷺ نے فرمایا ” لا تقولوا للعنب الکرم “۔ یعنی انگور کو کرم مت کہو بلکہ عنب کہو ، یا حبلہ کہہ سکتے ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم تو مومن کا دل ہے جس میں ایمان پایا جاتا ہے اور جس میں اخلاق حسنہ ہوتے ہیں ، ایسی چیز کو انگور کے معنوں میں استعمال کرنا درست نہیں ، انگور سے عام طور پر شراب تیار کی جاتی ہے ، جب لوگ شراب کی تعریف کرتے ہیں تو اس میں جب کرم کا نام آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شراب کرم یعنی بخشش اور فیاضی سے کشیدگی گئی ہے گویا اس لفظ سے بالواسطہ شراب کی تعریف ہوتی ہے ، لہذا انگور کے لیے کرم کا لفظ استعمال کرنے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ۔ (پیغمبر ﷺ کے لیے لفظ لیڈر کا استعمال درست نہیں) لیڈر کا لفظ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی راہنمائی کرنے والا ہے بلاشبہ پیغمبر بھی امت کی راہنمائی کرتا ہے ، مگر یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہر قسم کے راہنما کے لیے استعمال ہوتا ہے ، عام طور پر اس کا اطلاق سیاسی لوگوں پر ہوتا ہے خواہ وہ اخلاقی اقدار اور دیانتداری سے بےبہرہ ہوں اور خواہ ان کی فکر بھی فاسد ہو ، اہل اسلام میں سے ہوں یا غیر مسلم ، متقی ہوں یا فاسق فاجر یہ لفظ سب کے ساتھ یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے اور بین الاقوامی طور پر یہ لفظ چرچل ، بزرنیف ڈبگال ، ریگن وغیرہ قسم کے لوگوں پر بولا جاتا ہے ، لہذا اس قسم کا مشتبہ لفظ پیغمبر اسلام ﷺ کے ہرگز شایان شان نہیں ، ہمارے زمانے کے بعض مفسرین نے اپنی تصانیف میں یہ لفظ حضور ﷺ کے لیے استعمال کیا ہے ، جو قطعا نامناسب ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ مشتبہ لفظ کسی عام چیز کے لیے بھی استعمال نہ کیا جائے چہ جائیکہ خود حضور والا صفات (علیہ السلام) کی ذات اقدس کے لیے ایسا لفظ بولا جائے پیغمبر کے لیے انگریزی کے متبادل الفاظ MESSENGE میسنجر یا پر افٹ PROPHIT) وغیرہ استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ الغرض فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی ذات کے متعلق کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کرو جو آپ کی شان کے خلاف ہو اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یاد رکھو (آیت) ” وللکفرین عذاب الیم “۔ کلمہ کفر کہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ّ (بنو اسماعیل سے عہد) فرمایا (آیت) ” مایود الذین کفروا من اھل الکتب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم “۔ کفار اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے وہ نہیں پسند کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بہتری کی چیز اتاری جائے ، مشرکین مکہ میں ابوجہل ، ابولہب ، عتبہ اور شیبہ جیسے بڑے بڑے سردار تھے ، وہ حضور ﷺ سے حسد کرتے تھے کہ اگر وہ آپ کو نبی تسلیم کرلیتے تو ان کی سرداری حضور ﷺ کو منتقل ہوجاتی تھی اور وہ بزعم خویش ناچیز ہو کر رہ جاتے تھے ، دوسری طرف اہل کتاب تھے ، جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ نبی آخرالزمان بنی اسرائیل میں آئے گا ، جب آخری نبی ہونے کا دعوی بنو اسماعیل کے قبیلہ قریش میں سے ہوا ، تو وہ بھی حسد کی آگ میں جلنے لگے لہذا انہوں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، اسی رکوع میں آگے آئے گا (آیت) ” حسدا من عند انفسھم “۔ انہوں نے حسد کیا اور ایمان کی دولت سے محروم رہے اسی لیے فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن آپ پر نازل ہو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہاں پر تمہاری خواہشات اور توقعات کی بات نہیں بلکہ (آیت) ” واللہ یختص برحمتہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم “۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کیلئے خاص کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے اس نے یہ پسند کیا ہے اپنی رحمت خاصہ بنو اسماعیل میں حضور ﷺ کی ذات اقدس پر نازل فرمائے ، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ بنو اسحاق پر بیشمار رحمتیں نازل کرچکا ہے ، اس قوم میں بڑے بڑے بادشاہ اور جلیل القدر رسول بھیجے ‘ (آیت) ” اذ جعل فیکم انبیآء وجعلکم ملوکا “۔ کا تفصیل تذکرہ کسی گذشتہ درس میں گذر چکا ہے ۔ (1) (درس 19 ۔ ص 187) اس قوم میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نبی مبعوث فرمائے ، اور کتنوں کو بادشاہت بھی عنایت کی ، ایسی حکومت اور بادشاہت جو دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی تو اب کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کر رکھا ہے کہ نبوت بنو اسحاق سے باہر نہیں جائے گی ، اللہ تعالیٰ کی مشیت اسی میں ہے کہ سلسلہ نبوت کو بنو اسماعیل پر ختم کرنا تھا ، لہذا اس میں بنواسحق کے لیے حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ (تنسیخ آیات کی وجوہات) بنی اسرائیل اور مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ جب قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ پہلی کتابوں کا مصدق بھی ہے ، تو پھر یہ سابقہ کتب کے احکام کو منسوخ کر کے نئی شریعت کیوں نافذ کرتا ہے ، نیز اپنے ہی احکام کو بعض اوقات تبدیل کردیتا ہے بقول ان کے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ اللہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کو معاملے کا پوری طرح علم نہیں ہوتا تو حکم جاری کردیتا ہے مگر جب اس کا پوری طرح علم ہوجاتا ہے تو حکم میں ترمیم کردیتا ہے ۔ دیانند سرسوتی ہندوؤں کی آریہ سماج تنظیم کا مشہور لیڈر ہوا ہے اپنی نوعیت کا شرارت پسند آدمی تھا یہی اعتراض ، اس نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا کہ کسی اپنے ہی حکم کو منسوخ کردینا جہالت پر دلالت کرتا ہے ، اس کا جواب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) نے دیا تھا ۔ (1) (انتصار الاسلام) کہ احکام کی تنسیخ جہالت کی بناء پر نہیں بلکہ حکمت کی بناء پر ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے ، اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا بلکہ ہر حکم حالات کے تقاضوں کے مطابق جاری ہوتا ہے جب حالات متقاضی ہوتے ہیں ، تو پہلا حکم منسوخ کرکے دوسرا جاری کردیا جاتا ہے اس کی مثال اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر یا حکیم کسی مریض کو صبح کے لیے اور دوا دیتا ہے اور شام کے لیے دوسری ، یا ایک ہفتہ ایک دوا استعمال کرتا ہے تو دوسرے ہفتے کے کوئی اور تجویز کرتا ہے بلکہ ڈاکٹر مریض کے حالات کے مطابق دوا کو منسوخ کردیتا ہے یا تبدیل کردیتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کے حالات کے تقاضے کے مطابق احکام نازل فرماتے ہیں ، جیسا کہ ضرورت ہوتی ہے بعض احکام کو تبدیل کردیتے ہیں یا اپنی حکمت کی بناء پر احکام میں ترمیم کرتے ہیں ، قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو کہ تمام اقوام کے لیے یکساں طور پر نافذ العمل ہے ، لہذا اس نے پہلے شرائع کو منسوخ کر کے ابدی احکام نافذ کردیے ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1) (حجۃ اللہ البالغہ ، جلد اول باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان) کہ دین تو ہمیشہ ایک ہی رہا ہے یہ کبھی منسوخ نہیں ہوا البتہ مختلف شرائع میں بعض اختلافات رونما ہوتے رہے ہیں ، مثلا کسی شریعت میں اونٹ کا گوشت حرام تھا ہماری شریعت میں حلال ہے ۔ کسی شریعت میں دو سگی بہنیں ایک نکاح میں آسکتی تھیں ہمارے ہاں حرام ہے (آیت) ” ان تجمعوا بین الاختین “۔ البتہ دین کے بنیادی اصول کبھی منسوخ نہیں ہوئے ۔ تنسیخ آیات کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے ، کہ تکوینی امور میں جوں جوں حالات بدلتے ہیں احکام بھی بدلتے رہتے ہیں جب انسان بچہ ہوتا ہے تو اس کی ضروریات اس کی عمر اور اس کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں جب جوان ہوتا ہے ، تو اس پر دوسرے احکام نافذ ہوتے ہیں پھر جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو حالات کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام بھی اقوام عالم کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوتے رہے ہیں ، یہ ایسی اعتراض والی بات نہیں ہے ۔ الغرض ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا “۔ ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے یا اسے نہیں بھلا دیتے ، (آیت) ” نات بخیر منھا “۔ مگر ہم اس سے بہتر آیت یا حکم لیے آتے ہیں (آیت) ” او مثلھا “۔ یا کم از کم اس جیسا ہی لے آتے ہیں ، نیا حکم بہرحال پہلے سے بہتر ہوتا ہے کمتر نہیں ہوتا ، بہتر سے مراد یہ ہے کہ نیا حکم پہلے کی بنسبت اجر میں بہتر ہوتا ہے ، آیت یا حکم بھلا دینے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کے ذہن سے ایسی آیت فراموش کرا دی جائے آیات کا یاد کرانا یا بھلانا ، اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے سورة اعلی میں فرمایا (آیت) ” سنقرئک فلا تنسی “۔ ہم عنقریب آپ کو اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ بھولیں گے نہیں (آیت) ” الا ما شآء اللہ “۔ ہاں جس کو اللہ بھلانا چاہیں ، وہ آپ بھول جائیں گے یہاں پر بھی ” ننسھا “ کا مطلب یہی ہے کہ جس حکم کو تبدیل کرنا مقصود ہوتا ہے اسے کلیتا منسوخ کردیا جاتا ہے ، یا اسے پیغمبر (علیہ السلام) کے ذہن سے محو کردیا جاتا ہے ، فرمایا (آیت) ” الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ اپنی حکمت اور منشاء کے مطابق آیات نازل کرتا ہے بعض کو قائم رکھتا ہے اور بعض کو منسوخ کردیتا ہے پھر ان سے بہتر یا ان جیسی اور لے آتا ہے ایسا کرنا عقل ونقل کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس پر اعتراض کرنا حماقت کی نشانی ہے ۔ (بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے) پھر فرمایا (آیت) ” الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموت والارض “۔ اے مخاطب ! کیا تم جانتے نہیں کہ زمین وآسمان کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے جب وہ مالک الملک ہے ، تو کیا اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی حکم کو منسوخ کر دے یا تبدیل کر دے ، معاذ اللہ کیا وہ مجبور ہے کہ ہر حالت میں ایک ہی حکم کو جاری رکھے ، اگر ایسا تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کی حاکمیت کو ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا ، لہذا وہ تنسیخ احکام پر پوری طرح قادر ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے ۔ فرمایا یاد رکھو ! کہیں بھٹک نہ جانا (آیت) ” ومالک من دون اللہ من ولی ولا نصیر “۔ اس کے سوا تمہارا کوئی حمائتی اور مددگار نہیں ہے ، ولی کا معنی عام طور پر سرپرست ہوتا ہے امام بیضاوی (رح) (1) (تفسیر بیضاوی ص 72۔ 30) فرماتے ہیں کہ بعض اوقات سرپرست کمزور بھی ہوتا ہے جو کہ مدد کرنے کے قابل نہیں ہوتا ، مگر نصیر وہ ہوتا ہے جو فی الواقع مدد کے قابل ہو ، دوسرے الفاظ میں اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ولی وہ ہوتا ہے جو زبانی طور پر مدد کرتا ہے ، اور نصیر وہ ہے جو عملی طور پر مددگار ثابت ہو ، گویا اللہ تعالیٰ ان دونوں صفات کا مالک ہے وہ اپنی مخلوق کا ہر طرح مددگار ہے وہ قادر مطلق بھی ہے اور علیم کل بھی ہے جونسا حکم چاہے ، نافذ کر دے اور جسے چاہے منسوخ کر دے اس کے ارادہ اور قدرت میں کوئی دوسرا مخل نہیں ہو سکتا ، وہ خود ہی احکام جاری کرتا ہے اور اپنی مشیت سے بعض کو منسوخ کردیتا ہے اس پر اعتراض نامناسب ہے ۔
Top