Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ
: اے وہ لوگو جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
رَاعِنَا
: راعنا
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
انْظُرْنَا
: انظرنا
وَاسْمَعُوْا
: اور سنو
وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ
: اور کافروں کے لیے۔ عذاب
اَلِیْمٌ
: دردناک
اے ایمان والو ! مت کہو راعنا بلکہ کہو ” نظرنا “ اور سنو اور کفر کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی پستی اور انحطاط کا ذکر تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پس پست ڈال دیا دین کی سربلندی کے کام کو ترک کردیا ، جہاد سے منہ موڑ گئے اور سحرجادو ٹونے ٹونکے جیسے سفلی اعمال کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا انہوں نے ان برائیوں خاص طور پر سحر کو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جو کہ ان کی ذلت کا انتہائی درجہ تھا ۔ (بنی اسرائیل کی اخلاقی بستی) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اخلاقی پستی کا ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو ذہنی تکلیف پہنچاتے تھے ، یہودیوں نے اپنی اس ذلیل حرکت کا ارتکاب نہ صرف سابقہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے زمانے میں کیا بلکہ حضور خاتم النبیین ﷺ کے مبارک زمانہ میں بھی اس حرکت سے باز نہ آئے ، اور آپ کو مختلف طریقوں سے ایذا پہنچائی ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس حرکت کا تذکرہ کرکے اہل اسلام کو خبردار کیا کہ وہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے معاذ اللہ بنی کریم ﷺ کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ اس مقام پر جس خاص بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ جب یہودی آپ کی مجلس میں آتے تھے تو آپ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرتے تھے جو کہ ” انظرنا “ کا ہم معنی ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری رعایت کریں یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیں ” انظرنا “ کا معنی بھی یہی ہے آپ ہماری طرف ذرا دیکھیں ، نظر کریں ، ہماری بات غور سے سنیں ، بظاہر دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے مگر یہودی اپنی گندی ذہنیت کے اظہار کے لیے ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرتے تھے ، اور پھر اس لفظ کو کھینچ کر اور گھما کر ” راعینا “ بولتے تھے ، حدیث شریف میں آتا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 148۔ ج 1 ، تفسیر طبری ص 472۔ ج 1) (آیت) ” لیا بالسنتھم “۔ زبان میں ہیر پھیر کرکے لفظ ادا کرتے تھے جس کی وجہ سے ” راعینا “ کہتے یعنی ہمارا چرواہا ، مزید برآں یہودیوں کی زبان یہ لفظ گالی کی طور پر بھی استعمال ہوتا تھا جس کا معنی احمق اور بیوقوف ہے ، گویا اس طرح یہ لوگ اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرتے تھے ۔ (حضور ﷺ کی نظر التفات) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا کہ تم اہل کتاب کی پیروی نہ کرنا ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقولوا راعنا “۔ اے ایمان والو ! جب تم نبی کریم ﷺ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہو تو (آیت) ” راعنا “۔ کا لفظ استعمال نہ کرو ، کیونکہ اس سے نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اور نبی کی توہین کفر کے مترادف ہے ۔ سورة مجادلہ میں یہودیوں کی ایک اور قبیح حرکت کا بھی ذکر آتا ہے جب یہ بدبخت حضور ﷺ کی مجلس میں آتے تھے تو ” السلام علیکم “ کی بجائے ” السام علیکم “ کہتے تھے ، سام کا معنی موت یا ہلاکت ہے گویا السلام کا لفظ بگاڑ کر السام کہتے تھے ، اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا (1) (مسلم ص 213۔ ج 2۔ ترمذی ص 386) کہ جب یہودی سلام کریں ان کے سلام کا جواب وعلیکم السلام کی بجائے صرف علیکم دیا کرو ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم نے کہا وہ تم پر ہی ہو یعنی اگر السلام کی بجائے اسام بولا جائے تو یہ ہلاکت تمہیں نصیب ہو ، الغرض اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اسی حرکت کے متعلق فرمایا ” حیوک بما لم یحیک بہ اللہ “ یہ لوگ آپ کو ایسی دعا دیتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے نہیں دی بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو متنبہ فرمایا کہ حضور ﷺ کے لیے کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کریں ۔ جس سے آپ کی شان اقدس میں فرق آنے کا احتمال ہو ۔ (آیت) ” وقولوا انظرنا “۔ اور (آیت) ” راعنا “ کی بجائے (آیت) ” انظرنا “۔ کہو یعنی ہماری طرف نظر کرم فرمائیں ۔ ّ (اہل ایمان کو خطاب) سورة بقرہ میں یہ پہلا موقع ہے جس میں ایمان کو خطاب کیا گیا ہے اس سے پہلے عام لوگوں کو خطاب ہوتا رہا ہے ، جیسے (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “۔ اے نوع انسان ! اپنے رب کی عبادت کرو ، یا بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا (آیت) ” یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم “۔ یعنی اے بنی اسرائیل ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ، اب یہاں سے اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے ، اور پورے قرآن پاک میں اٹھاسی (88) مرتبہ اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2) (2) تفسیر عزیزی فارسی ص 387 پارہ 1) کہ سابقہ کتب سماویہ میں اہل ایمان سے براہ راست خطاب نہیں ہوتا تھا بلکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے خطاب ہوتا تھا جو آنے اپنی اپنی امت تک احکام الہی کو پہنچاتے تھے یہ صرف آخری امت کو شرف حاصل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست اہل ایمان کو خطاب کیا ہے ۔ زوائد مسند احمد میں یہ روایت ہے ، اور امام بیہقی (رح) نے اسے شعب الایمان میں بھی بیان کیا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر 148۔ ج 1 ، تفسیر عزیزی فارسی ص 38 ، پارہ 1) کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ، حضور ! مجھے کوئی نصیحت فرمائی ، آپ نے فرمایا اے عبداللہ ! جب تم قرآن میں یہ خطاب پڑھو (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ تو پورے دل کے ساتھ متوجہ ہوجایا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم سے براہ راست خطاب فرما رہے ہیں اس سے بڑی نصیحت اور وصیت کیا ہو سکتی ہے ، مقصد یہ تھا کہ یہ ایسی اعلی چیز ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ ہمہ تن گوش ہو کر سنا کہ اللہ تعالیٰ کیا حکم فرما رہے ہیں کس چیز کے کرنے کا حکم ہے اور کس چیز سے رک جانے کی بات ہے ۔ الغرض ! اس خطاب میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے (آیت) ” راعنا “ کا لفظ استعمال نہ کرو بلکہ (آیت) ” انظرنا “ سے خطاب کیا کرو ، اس خطاب میں امر اور نہی دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں ، اس کے ساتھ ہی تاکید فرمایا (آیت) ” واسمعوا “۔ یعنی جو حکم ہو رہا ہے ، اسے خوب غور سے سنو ، کیونکہ یہ ایک بڑا اہم حکم ہے ۔ (مشتبہ الفاظ کے استعمال کی ممانعت) حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ (2) (مسلم ص 238 پارہ 2) کہ عام گفتگو میں مشتبہ الفاظ استعمال نہ کرو کوئی شخص اپنے غلام یا لونڈی کو ” عبدی “ اور ” امتی “ کہہ کر نہ پکارے ، لفظ ” عبد “ سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پکارنے والا شاید اپنے آپ کو معبود سمجھ رہا ہے ، حالانکہ معبود تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ” عبد “ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ، مگر معاملہ بالکل واضح ہونا چاہئے ، کسی قسم کا شبہ نہیں رہنا چاہئے اسی طرح لونڈی کو بندی کہہ کر پکارنے کی بجائے لونڈی کہہ کر پکارو ، غلام اور لونڈی کو فتای اور فتاۃ کہہ کر بھی بلایا جاسکتا ہے یعنی اے جوان یا اے لونڈی ، حضور ﷺ نے فرمایا ، عبد کا لفظ اس لیے مناسب نہیں کہ ” کلکم عبید اللہ “ کہ تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو ، اسی طرح ساری عورتیں اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہیں ، یہ کسی انسان کے بندے یا بندیاں نہیں ہیں ۔ لفظ ” مولی “ بھی مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ، اس کو بلا تخصیص ہر جگہ استعمال کرنا اشتباہ پیدا کرسکتا ہے ، مولی کے کئی معنے ہیں ، جیسے دوست ، صاحب ، آقا ، غلام ، غلام آزاد کرنے والا وغیرہ وغیرہ ، اس لیے حضور ﷺ نے یہ بات سمجھائی کہ اس لفظ کو غلط طور مت استعمال کرو ، جس سے شبہ پیدا ہو ، مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1) (مسلم ص 238) حضور ﷺ نے فرمایا ” لا تقولوا للعنب الکرم “۔ یعنی انگور کو کرم مت کہو بلکہ عنب کہو ، یا حبلہ کہہ سکتے ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم تو مومن کا دل ہے جس میں ایمان پایا جاتا ہے اور جس میں اخلاق حسنہ ہوتے ہیں ، ایسی چیز کو انگور کے معنوں میں استعمال کرنا درست نہیں ، انگور سے عام طور پر شراب تیار کی جاتی ہے ، جب لوگ شراب کی تعریف کرتے ہیں تو اس میں جب کرم کا نام آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شراب کرم یعنی بخشش اور فیاضی سے کشیدگی گئی ہے گویا اس لفظ سے بالواسطہ شراب کی تعریف ہوتی ہے ، لہذا انگور کے لیے کرم کا لفظ استعمال کرنے سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ۔ (پیغمبر ﷺ کے لیے لفظ لیڈر کا استعمال درست نہیں) لیڈر کا لفظ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی راہنمائی کرنے والا ہے بلاشبہ پیغمبر بھی امت کی راہنمائی کرتا ہے ، مگر یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہر قسم کے راہنما کے لیے استعمال ہوتا ہے ، عام طور پر اس کا اطلاق سیاسی لوگوں پر ہوتا ہے خواہ وہ اخلاقی اقدار اور دیانتداری سے بےبہرہ ہوں اور خواہ ان کی فکر بھی فاسد ہو ، اہل اسلام میں سے ہوں یا غیر مسلم ، متقی ہوں یا فاسق فاجر یہ لفظ سب کے ساتھ یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے اور بین الاقوامی طور پر یہ لفظ چرچل ، بزرنیف ڈبگال ، ریگن وغیرہ قسم کے لوگوں پر بولا جاتا ہے ، لہذا اس قسم کا مشتبہ لفظ پیغمبر اسلام ﷺ کے ہرگز شایان شان نہیں ، ہمارے زمانے کے بعض مفسرین نے اپنی تصانیف میں یہ لفظ حضور ﷺ کے لیے استعمال کیا ہے ، جو قطعا نامناسب ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ مشتبہ لفظ کسی عام چیز کے لیے بھی استعمال نہ کیا جائے چہ جائیکہ خود حضور والا صفات (علیہ السلام) کی ذات اقدس کے لیے ایسا لفظ بولا جائے پیغمبر کے لیے انگریزی کے متبادل الفاظ MESSENGE میسنجر یا پر افٹ PROPHIT) وغیرہ استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ الغرض فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی ذات کے متعلق کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کرو جو آپ کی شان کے خلاف ہو اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یاد رکھو (آیت) ” وللکفرین عذاب الیم “۔ کلمہ کفر کہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ّ (بنو اسماعیل سے عہد) فرمایا (آیت) ” مایود الذین کفروا من اھل الکتب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم “۔ کفار اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے وہ نہیں پسند کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بہتری کی چیز اتاری جائے ، مشرکین مکہ میں ابوجہل ، ابولہب ، عتبہ اور شیبہ جیسے بڑے بڑے سردار تھے ، وہ حضور ﷺ سے حسد کرتے تھے کہ اگر وہ آپ کو نبی تسلیم کرلیتے تو ان کی سرداری حضور ﷺ کو منتقل ہوجاتی تھی اور وہ بزعم خویش ناچیز ہو کر رہ جاتے تھے ، دوسری طرف اہل کتاب تھے ، جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ نبی آخرالزمان بنی اسرائیل میں آئے گا ، جب آخری نبی ہونے کا دعوی بنو اسماعیل کے قبیلہ قریش میں سے ہوا ، تو وہ بھی حسد کی آگ میں جلنے لگے لہذا انہوں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، اسی رکوع میں آگے آئے گا (آیت) ” حسدا من عند انفسھم “۔ انہوں نے حسد کیا اور ایمان کی دولت سے محروم رہے اسی لیے فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن آپ پر نازل ہو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہاں پر تمہاری خواہشات اور توقعات کی بات نہیں بلکہ (آیت) ” واللہ یختص برحمتہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم “۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کیلئے خاص کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے اس نے یہ پسند کیا ہے اپنی رحمت خاصہ بنو اسماعیل میں حضور ﷺ کی ذات اقدس پر نازل فرمائے ، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ بنو اسحاق پر بیشمار رحمتیں نازل کرچکا ہے ، اس قوم میں بڑے بڑے بادشاہ اور جلیل القدر رسول بھیجے ‘ (آیت) ” اذ جعل فیکم انبیآء وجعلکم ملوکا “۔ کا تفصیل تذکرہ کسی گذشتہ درس میں گذر چکا ہے ۔ (1) (درس 19 ۔ ص 187) اس قوم میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نبی مبعوث فرمائے ، اور کتنوں کو بادشاہت بھی عنایت کی ، ایسی حکومت اور بادشاہت جو دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی تو اب کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کر رکھا ہے کہ نبوت بنو اسحاق سے باہر نہیں جائے گی ، اللہ تعالیٰ کی مشیت اسی میں ہے کہ سلسلہ نبوت کو بنو اسماعیل پر ختم کرنا تھا ، لہذا اس میں بنواسحق کے لیے حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ (تنسیخ آیات کی وجوہات) بنی اسرائیل اور مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ جب قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ پہلی کتابوں کا مصدق بھی ہے ، تو پھر یہ سابقہ کتب کے احکام کو منسوخ کر کے نئی شریعت کیوں نافذ کرتا ہے ، نیز اپنے ہی احکام کو بعض اوقات تبدیل کردیتا ہے بقول ان کے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ اللہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کو معاملے کا پوری طرح علم نہیں ہوتا تو حکم جاری کردیتا ہے مگر جب اس کا پوری طرح علم ہوجاتا ہے تو حکم میں ترمیم کردیتا ہے ۔ دیانند سرسوتی ہندوؤں کی آریہ سماج تنظیم کا مشہور لیڈر ہوا ہے اپنی نوعیت کا شرارت پسند آدمی تھا یہی اعتراض ، اس نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا کہ کسی اپنے ہی حکم کو منسوخ کردینا جہالت پر دلالت کرتا ہے ، اس کا جواب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) نے دیا تھا ۔ (1) (انتصار الاسلام) کہ احکام کی تنسیخ جہالت کی بناء پر نہیں بلکہ حکمت کی بناء پر ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے ، اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا بلکہ ہر حکم حالات کے تقاضوں کے مطابق جاری ہوتا ہے جب حالات متقاضی ہوتے ہیں ، تو پہلا حکم منسوخ کرکے دوسرا جاری کردیا جاتا ہے اس کی مثال اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر یا حکیم کسی مریض کو صبح کے لیے اور دوا دیتا ہے اور شام کے لیے دوسری ، یا ایک ہفتہ ایک دوا استعمال کرتا ہے تو دوسرے ہفتے کے کوئی اور تجویز کرتا ہے بلکہ ڈاکٹر مریض کے حالات کے مطابق دوا کو منسوخ کردیتا ہے یا تبدیل کردیتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کے حالات کے تقاضے کے مطابق احکام نازل فرماتے ہیں ، جیسا کہ ضرورت ہوتی ہے بعض احکام کو تبدیل کردیتے ہیں یا اپنی حکمت کی بناء پر احکام میں ترمیم کرتے ہیں ، قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو کہ تمام اقوام کے لیے یکساں طور پر نافذ العمل ہے ، لہذا اس نے پہلے شرائع کو منسوخ کر کے ابدی احکام نافذ کردیے ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1) (حجۃ اللہ البالغہ ، جلد اول باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان) کہ دین تو ہمیشہ ایک ہی رہا ہے یہ کبھی منسوخ نہیں ہوا البتہ مختلف شرائع میں بعض اختلافات رونما ہوتے رہے ہیں ، مثلا کسی شریعت میں اونٹ کا گوشت حرام تھا ہماری شریعت میں حلال ہے ۔ کسی شریعت میں دو سگی بہنیں ایک نکاح میں آسکتی تھیں ہمارے ہاں حرام ہے (آیت) ” ان تجمعوا بین الاختین “۔ البتہ دین کے بنیادی اصول کبھی منسوخ نہیں ہوئے ۔ تنسیخ آیات کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے ، کہ تکوینی امور میں جوں جوں حالات بدلتے ہیں احکام بھی بدلتے رہتے ہیں جب انسان بچہ ہوتا ہے تو اس کی ضروریات اس کی عمر اور اس کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں جب جوان ہوتا ہے ، تو اس پر دوسرے احکام نافذ ہوتے ہیں پھر جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو حالات کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام بھی اقوام عالم کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوتے رہے ہیں ، یہ ایسی اعتراض والی بات نہیں ہے ۔ الغرض ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا “۔ ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے یا اسے نہیں بھلا دیتے ، (آیت) ” نات بخیر منھا “۔ مگر ہم اس سے بہتر آیت یا حکم لیے آتے ہیں (آیت) ” او مثلھا “۔ یا کم از کم اس جیسا ہی لے آتے ہیں ، نیا حکم بہرحال پہلے سے بہتر ہوتا ہے کمتر نہیں ہوتا ، بہتر سے مراد یہ ہے کہ نیا حکم پہلے کی بنسبت اجر میں بہتر ہوتا ہے ، آیت یا حکم بھلا دینے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کے ذہن سے ایسی آیت فراموش کرا دی جائے آیات کا یاد کرانا یا بھلانا ، اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے سورة اعلی میں فرمایا (آیت) ” سنقرئک فلا تنسی “۔ ہم عنقریب آپ کو اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ بھولیں گے نہیں (آیت) ” الا ما شآء اللہ “۔ ہاں جس کو اللہ بھلانا چاہیں ، وہ آپ بھول جائیں گے یہاں پر بھی ” ننسھا “ کا مطلب یہی ہے کہ جس حکم کو تبدیل کرنا مقصود ہوتا ہے اسے کلیتا منسوخ کردیا جاتا ہے ، یا اسے پیغمبر (علیہ السلام) کے ذہن سے محو کردیا جاتا ہے ، فرمایا (آیت) ” الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ اپنی حکمت اور منشاء کے مطابق آیات نازل کرتا ہے بعض کو قائم رکھتا ہے اور بعض کو منسوخ کردیتا ہے پھر ان سے بہتر یا ان جیسی اور لے آتا ہے ایسا کرنا عقل ونقل کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس پر اعتراض کرنا حماقت کی نشانی ہے ۔ (بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے) پھر فرمایا (آیت) ” الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموت والارض “۔ اے مخاطب ! کیا تم جانتے نہیں کہ زمین وآسمان کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے جب وہ مالک الملک ہے ، تو کیا اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی حکم کو منسوخ کر دے یا تبدیل کر دے ، معاذ اللہ کیا وہ مجبور ہے کہ ہر حالت میں ایک ہی حکم کو جاری رکھے ، اگر ایسا تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کی حاکمیت کو ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا ، لہذا وہ تنسیخ احکام پر پوری طرح قادر ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے ۔ فرمایا یاد رکھو ! کہیں بھٹک نہ جانا (آیت) ” ومالک من دون اللہ من ولی ولا نصیر “۔ اس کے سوا تمہارا کوئی حمائتی اور مددگار نہیں ہے ، ولی کا معنی عام طور پر سرپرست ہوتا ہے امام بیضاوی (رح) (1) (تفسیر بیضاوی ص 72۔ 30) فرماتے ہیں کہ بعض اوقات سرپرست کمزور بھی ہوتا ہے جو کہ مدد کرنے کے قابل نہیں ہوتا ، مگر نصیر وہ ہوتا ہے جو فی الواقع مدد کے قابل ہو ، دوسرے الفاظ میں اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ولی وہ ہوتا ہے جو زبانی طور پر مدد کرتا ہے ، اور نصیر وہ ہے جو عملی طور پر مددگار ثابت ہو ، گویا اللہ تعالیٰ ان دونوں صفات کا مالک ہے وہ اپنی مخلوق کا ہر طرح مددگار ہے وہ قادر مطلق بھی ہے اور علیم کل بھی ہے جونسا حکم چاہے ، نافذ کر دے اور جسے چاہے منسوخ کر دے اس کے ارادہ اور قدرت میں کوئی دوسرا مخل نہیں ہو سکتا ، وہ خود ہی احکام جاری کرتا ہے اور اپنی مشیت سے بعض کو منسوخ کردیتا ہے اس پر اعتراض نامناسب ہے ۔
Top