Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 97
وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا١ؕ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا
وَمَنْ
: اور جسے
يَّهْدِ
: ہدایت دے
اللّٰهُ
: اللہ
فَهُوَ
: پس وہی
الْمُهْتَدِ
: ہدایت پانے والا
وَمَنْ
: اور جسے
يُّضْلِلْ
: گمراہ کرے
فَلَنْ تَجِدَ
: پس تو ہرگز نہ پائے گا
لَهُمْ
: ان کے لیے
اَوْلِيَآءَ
: مددگار
مِنْ دُوْنِهٖ
: اس کے سوا
وَنَحْشُرُهُمْ
: اور ہم اٹھائیں گے نہیں
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
عَلٰي
: پر
وُجُوْهِهِمْ
: ان کے چہرے
عُمْيًا
: اندھے
وَّبُكْمًا
: اور گونگے
وَّصُمًّا
: اور بہرے
مَاْوٰىهُمْ
: ان کا ٹھکانا
جَهَنَّمُ
: جہنم
كُلَّمَا
: جب کبھی
خَبَتْ
: بجھنے لگے گی
زِدْنٰهُمْ
: ہم ان کے لیے زیادہ کردیں گے
سَعِيْرًا
: بھڑکانا
اور جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو بہکا دے پس ہرگز نہ آپ پائیں گے ان کے لیے کوئی کارساز اس کے سوا اور ہم اکٹھا کریں گے ان کو قیامت والے دن چہروں کے بل اندھے ، بہرے اور گونگے بنا کر ، ٹھکانا ان کا جہنم ہوگا ، جب کہ وہ بجھنے لگے گی ، ہم زیادہ کردیں گے ان کو ، بھڑکا دیں گے اس کو ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین حضور ﷺ کی نبوت و رسالت میں بایں وجہ شک اور پھر انکار کرتے تھے کہ ایک انسان رسول نہیں ہوسکتا ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتے ، مگر زمین چونکہ نوع انسانی سے آباد ہے تو یقینی بات ہے کہ ایک انسا ہی ان کے لیے نمونہ بن سکتا ہے اور وہی ان کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرسکتا ہے ، اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے کہلوا دیا کہ اگر تم میری نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہو تو اس کا وبال تمہیں پر پڑے گا البتہ اگر تم میری رسالت کی گواہی نہ بھی دو تو اس کے لیے میرا اللہ ہی گواہ کافی ہے ، وہ تو یقینا گواہی دیتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں اور اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتا ہوں ، اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کے حالات سے خوب واقف ہے اور وہ ہر ایک کے عقیدے ، عمل اور حالات کے مطابق باز پرس کرے گا ۔ (مکی سورتوں کے مضامین) آج کی آیات میں ہدایت اور گمراہی کا فلسفہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ معاد کا مسئلہ بھی سمجھایا ہے کیونکہ کفار ومشرکین جس طرح انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی رسالت کا انکار کرتے تھے ، اسی طرح وقوع قیامت اور محاسبہ عمل کو بھی تسلیم نہیں کرتے تھے دراصل تمام مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے چار بنیادی اصولوں کا ذکر کیا ہے یعنی توحید ، رسالت ، معاد اور وحی الہی کی صداقت وحقانیت ، سورة بنی اسرائیل ہجرت سے ڈیڑھ دو سال پہلے نازل ہوئی ، اس لیے اس میں ہجرت اور فتح مکہ کا اشارۃ ذکر کردیا گیا ہے ، پانچ نمازوں کی فرضیت کا ذکر بھی اسی سورة مبارکہ میں آیا ہے اس کے علاوہ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اسلام کے اجتماعی نظام کے وہ پندرہ اصول بیان کردیے گئے ہیں جنہیں منشور اسلام (MANIFESTO OF ASLAM مینی فسٹوآف اسلام) کا نام دیا جاسکتا ہے ، اور دیگر مکی سورتوں کی طرح چار بنیادی اصول بھی اس سورة مبارکہ میں بیان کردیے ہیں ، چناچہ آج کے درس میں معاد کا بیان اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ (ہدایت اور گمراہی کا قانون) اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ہدایت اور ضلالت کا قانون بیان فرمایا ہے (آیت) ” ومن یھد اللہ فھوالمھتد “۔ جسے اللہ تعالیٰ راہ دکھا دے ، یہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ومن یضلل فلن تجدلھم اولیاء من دونہ “۔ اور جسے اللہ تعالیٰ بہکا وے تو آپ ہرگز نہ پائیں گے ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی کارساز جو ان کو راہ دکھا سکے ، گویا اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ راہ راست انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو ہدایت کے طلبگار ہوتے ہیں اور جو لوگ ضد ، تعصب اور عناد پر اڑے رہتے ہیں ، ان کو صراط مستقیم نہیں ملتا ، اللہ تعالیٰ کا اس سلسلہ میں قانون یہ ہے (آیت) ” فاولئک ھم الکفرون “۔ (المائدہ : 44) یہی لوگ کافی ہیں (آیت) ” فاولئک ھم الظلمون “۔ (المائدہ : 45) یہی لوگ ظالم ہیں (آیت) ” فاولئک ھم الفسقون “۔ (المائدہ ، 47) یہی لوگ نافرمان ہیں ، اس قسم کے جو لوگ کفر وشرک کی گندگی کو ہی پسند کرتے ہیں ، اللہ کہتا ہے (آیت) ” نولہ ما تولی “۔ (النسآئ۔ 115) وہ جدھر جانا چاہتے ہیں ، ہم انہیں ادھر ہی جانے دیتے ہیں ، اور جو لوگ منصف مزاج ہوتے ہیں ، ان کے دل میں ہدایت کی تڑپ ہوتی ہے ان کے متعلق فرمایا (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ (العنکبوت “۔ 69) جو ہمارے لیے کوشش کرتا ہے ، ہم اسے اپنے راستے کی طرف راہنمائی کردیتے ہیں ، ہدایت الہی انسان کی اولین ضرورت ہے ، اسی لیے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرتے ہیں (آیت) ” اھدنا الصراط المستقیم “۔ (الفاتحہ ، 5) اے مولا کریم ! ہمیں سیدھی راہ دکھا دے اور جو دکھلائی ہے اس پر ہمیں چلاتا رہ ، اس جملے میں دکھانے اور چلانے کے دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے راہ راست کی تشریح قرآن میں بیان کردی ہے اور مزید تشریح اپنے پیغمبر کے ذمے لگا دی ہے ۔ بہرحال گمراہی کا ٹھپہ انہی پر لگتا ہے جو متعصب ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم “۔ (البقرۃ ، 7) اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے ، (آیت) ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم “۔ (النسآئ 155) ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر سربمہر کردیا ہے ایسے لوگ (آیت) ” صم بکم عمی فھم لا یعقلون “۔ (البقرۃ ۔ 171) بہرے گونگے اور اندھے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ، حالانکہ اللہ نے انہیں عقل و شعور جیسا عظیم جوہر عطا فرمایا ہے ۔ (گمراہوں کے لیے سزا) فرمایا جس کو اللہ گمراہ کر دے (آیت) ” ونحشرھم یوم القیمۃ علی وجوجھم عمیا وبکما وصما “۔ ہم ان کو قیامت والے دن ان کے چہروں کے بل اس حالت میں اٹھائیں گے کہ وہ اندھے ، گونگے اور بہرے ہوں گے ، یاد رہے کہ نافرمانوں کی یہ حالت سارے عرصہ محشر کے لیے نہیں بلکہ ایک خاص وقت کے لیے ہوگی تاکہ ان لوگوں کو ذلیل ورسول کیا جاسکے ، سورة طہ میں ہے کہ جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا ، اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ، (آیت) ” ونحشرہ یوم القیمۃ اعمی “۔ (آیت : 124) اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے (آیت) ” قال رب لم حشرتنی اعمی وقد کنت بصیرا “۔ (آیت 125) وہ کہے گا ، پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ، میں تو دنیا میں بینا تھا ‘ (آیت) ” قال کذلک اتتک ایتنا فنسیتھا ، وکذلک الیوم ننسی “۔ (آیت 126) اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تو تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج ہم تمہیں بھلا دیں گے ، اس کے بعد میدان حشر میں ایسا وقت بھی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (آیت) ” لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطآء ک فبصرک الیوم حدید “۔ (ق ، 22) تو اس دن سے غافل رہا تھا ، اب ہم نے تجھ سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ، جب اس کی آنکھیں کھلیں گی ، تو نگاہ اتنی تیز ہوگی کہ فرشتے ، جن ، عرش الہی ، عالم بالا ، جنت ، دوزخ وغیرہ جو اب تک نظروں سے پوشیدہ تھے ، سب نظر آنے لگیں گی ، چہروں کے بل چلنے سے متعلق ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت بھی منقول ہے ۔ ” یحشرالناس یوم القیمۃ ثلثۃ اصناف صنفا مشاۃ وصنفا رکبانا وصنفا علی وجوھھم قیل یا رسول اللہ کیف یمشون علی وجوھھم قال ان الذی امشاھم علی اقدامھم قادر علی ان یمشیھم علی وجوھھم اما انھم یتقون بوجھوھم کل حدب وشوک “۔ ترجمہ : قیامت کے دن لوگ تین گروہوں میں اٹھائے جائیں گے ایک قسم پیدل چلنے والوں کی ہوگی ، ایک سواروں کی اور ایک منہ کے بل چلنے والوں کی ، عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ! یہ منہ کے بل کس طرح چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا جس اللہ نے انہیں پاؤں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قدرت رکھتا ہے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ اپنے منہ کے ذریعے ہی زمین کے ہر روڑے اور کانٹے سے بچیں گے ، ایک حدیث میں چہروں کے بل گھسیٹنے کے الفاظ آتے ہیں ، فرمایا ان کو ہم قیامت کے دن چہروں کے بل اندھے ، گونگے ، اور بہرے کرکے اٹھائیں گے (آیت) ” ماوھم جھنم “۔ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا ، (آیت) ” کلما خبت زدنھم سعیرا “ جب بھی جہنم کی آگ ذر بجھنے لگے گی ہم مزید ٹھرکا دیں گے یہ ایسے ہی ہوگا جیسے انسانی کھال کے متعلق فرمایا (آیت) ” کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا “۔ (النسائ 56) جب جہنمیوں کی پہلی کھال جل جائے گی ، تو ہم انہیں دوسری کھال پہنادیں گے ، فرمایا (آیت) ” ذلک جزآء ھم بانھم کفروا بایتنا “۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا آیات سے مراد معجزات اور احکام بھی ہیں ، آیت کا اطلاق ، دلیل ، معجزہ اور نشانی پر بھی ہوتا ہے انہوں نے بعض معجزات کو جادو کہ کر انکار کردیا اور واقعہ معراج کے ساتھ تمسخر اڑایا ، احکام الہی پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ، دنیا میں کفر وشرک پر اڑے رہے لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں یہ سزا تجویز فرمائی کہ انہیں اندھا ، بہرہ اور گونگا کرکے منہ کے بل اٹھایا جائے گا اور جہنم کی آگ کو ان کے لیے مزید تیز کردیا جائے گا ۔ (قیامت کا انکار) وقوع قیامت کے متعلق کفار ومشرکین کا رد عمل یہ تھا (آیت) ” قالوآء اذا کنا عظاما ورفاتا “ کہتے تھے کیا جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورہ چورہ ہوجائیں گے ، گوشت پوست گل سڑ جائے گا ، اور صرف ہڈیاں باقی رہ جائیں گی ، ان ہڈیوں کے متعلق بھی آتا ہے (آیت) ” ء اذا کنا عظاما نخرۃ “۔ (النزعت ‘ 11) کہ جب یہ ہڈیاں بھربھری ہوجائیں گی زندگی کے کوئی آثار باقی نہیں رہیں گے (آیت) ” ء انالمبعوثون خلقا جدیدا “۔ تو کیا اس وقت ہم پھر نئی پیدائش میں اٹھائے جائیں گے ؟ بعض اس حالت کو اس طرح بھی بیان کرتے تھے (آیت) ” ء اضللنا فی الارض “۔ (السجدہ 10) جب ہم مٹی میں رل مل جائیں گے ہمارے ذرات منتشر ہوجائیں گے تو کیا ہمیں دو بار زندہ کیا جائے گا ، کہتے تھے یہ تو خلاف عقل بات ہے ہم نے تو آج تک مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ، اس طرح وہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے ، اللہ نے جواب میں فرمایا (آیت) ” اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموت والارض “۔ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں (آیت) ” قادر علی ان یخلق مثلھم “۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسے دوبارہ پیدا کردیے ، اللہ نے ان کی توجہ آسمان و زمین ، چاند اور سورج جیسے بڑے بڑے سیاروں کی طرف دلائی ہے جس زمین پر چلتے پھرتے ہیں اس کا قطر چوبیس ہزار میل ہے اور سورج کے مقابلے میں تو اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ، ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ شعری سیارہ سورج سے بھی بیس گناہ بڑا ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی اشیاء پیدا کر رکھی ہیں تو انسان جیسی چھوٹی سی چیز کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کون سی مشکل بات ہے ؟ سورة انعام میں اللہ کا فرمان ہے کہ ہر شخص کے لیے ایک مدت مقرر ہے اور اسی طرح پوری کائنات کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے جب مقررہ وقت آئیگا تو ہر چیز فنا ہوجائے گی ، پھر مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ اٹھائیگا ، یہاں بھی فرمایا (آیت) ” وجعل لھم اجلا لاریب فیہ “۔ اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں محاسبے کی منزل آکر رہے گی (آیت) ” فابی الظلمون الا کفورا “۔ مگر ظالم لوگ ہی اس منزل کا انکار کرتے ہیں ، ہر منصف مزاج آدمی قیامت کو برحق تسلیم کرتا ہے ، ظالم لوگ اکثر وبیشتر کفر وضلالت ہی کا شکار رہتے ہیں ۔ (اللہ کی رحمت کے خزانے) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک اور اعتراض کا جواب دیا ہے ، وہ لوگ حضور ﷺ کو محض اس لیے رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ آپ کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ، سورة الزخرف میں ہے موجود ہے کفار ومشرکین کہتے تھے (آیت) ” لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم “ ۔ یہ قرآن حکیم طائف اور مکہ کی دو بڑی بستیوں کے کسی صاحب حیثیت آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا ؟ کیا اس منصب کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ جس کے پاس نہ مال ہے اور نہ باغ نہ کوئی کوٹھی ہے ، نہ فوج اور نہ نوکر چاکر ، بھلا یہ کیسے رسول ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” لوانتم تملکون خزآئن رحمۃ ربی “۔ اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے (آیت) ” اذا لامسکتم خشیۃ الانفاق “ تو تم اس خزانے کو خرچ ہوجانے کے خوف سے روک رکھتے یعنی تم رحمت کے ان خزانوں کو خرچ ہی نہ کرتے ، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اپنی رحمت کے خزانوں کو وا کر رکھا ہے ، نبوت و رسالت بھی اس کی رحمت کا ایک خزانہ ہے ، وہ جہاں چاہتا ہے اسے خرچ کرتا ہے ، (آیت) ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “۔ (الانعام 124) وہی بہتر جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے اور پھر وہ جس کو اہل سمجھتا ہے اس کے سر پر نبوت کا تاج رکھ دیتا ہے ، اس ضمن میں وہ امیر غریب یا دنیاوی مال و دولت کا کچھ لحاظ نہیں کرتا تمہارے پاس اگر دنیا کا مال و دولت اور بادشاہی بھی آجائے تو اسے اپنے خاندان میں ہی تقسیم کردیتے ہو ، اس کا فائدہ دوسروں کو نہ پہنچ سکے حالانکہ اللہ کا فرمان یہ ہے (آیت) ” نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا “۔ (الزخرف ، 32) دنیا کی زندگی میں لوگوں کے درمیان معیشت ہم تقسیم کرتے ہیں جب رزق کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ، تو نبوت و رسالت جیسی عظیم چیز کو ہم کسی دوسرے پر کیسے چھوڑ سکتے ہیں ، اس رحمت کو بھی ہم خود ہی مستحق شخصیت کو عطا کرتے ہیں سورة الحجر میں فرمایا (آیت) ” وان من شیء الا عندنا خزآئنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم “۔ (آیت 21) ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اسے خاص انداز میں نازل فرماتے ہیں ، چناچہ سلسلہ نبوت و رسالت کی آخری کڑی کے لیے اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب حضور خاتم النبیین ﷺ پر پڑی اور اس نے آپ کو تمام انبیاء ومرسلین میں فضیلت بخشی حتی کہ آپ کے لیے مقام محمود کا ذکر بھی اسی سورة میں ہوچکا ہے تو اللہ کے نزدیک نبوت و رسالت کے لیے میعار مال و دولت یا اعلی خاندان نہیں بلکہ اعلی اخلاق ، بلند کردار اور کمال صلاحیت ہے ، اس نے انہیں اوصاف کی بناء پر حضور ﷺ کو اپنی آخری نبی منتخب فرمایا ہے لہذا کفار ومشرکین کو اس تقسیم خداوندی پر اعتراض کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ (انسان کی تنگدلی) فرمایا ، انسان کی حالت تو یہ ہے (آیت) ” وکان الانسان قتورا “ کہ وہ بڑا تنگدل واقع ہوا ہے انسان فطرۃ خود غرض ، اقتدار پسند مفاد پرست اور حریض واقع ہوا ہے ، یہ دنیا کے مال وجاہ ہی کو پسند کرتا ہے حالانکہ اللہ کا فرمان یہ ہے کہ دنیا تو ہم نیک وبد سبھی کو دیتے ہیں دنیا کا حاصل ہوجانا کچھ وقعت نہیں رکھتا ، اور نہ ہی یہ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کی علامت ہے ، انسان کی کامیابی اور ابدی فلاح کا دارومدار اس کی دیانت وامانت ، اخلاق اور عقیدے پر ہے اور ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نظر انداز کرجاتے ہیں ، رشتہ کرنا ہو تو ہمیشہ مال و دولت اور جاہ واقتدار پر نظر ہوتی ہے ، اخلاق ودیانت اور ایمانداری کو کوئی نہیں پوچھتا ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے ، ” لو کانت الدنیا تعدل عند اللہ جناح بعوضۃ ما سفی کافرا منھا شربۃ “۔ اگر اللہ کے نزدیک پوری دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا مگر دنیا میں کامیابی کا معیار تو اللہ نے انبیاء کے ذریعے ظاہر کیا ہے مگر اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ، انسان واقعی تنگدل واقع ہوا ہے ، وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں ہی پھنس کر رہ جاتا ہے اور آخرت کو بھول جاتا ہے ۔
Top