Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ
: اور
نُنَزِّلُ
: ہم نازل کرتے ہیں
مِنَ
: سے
الْقُرْاٰنِ
: قرآن
مَا
: جو
هُوَ شِفَآءٌ
: وہ شفا
وَّرَحْمَةٌ
: اور رحمت
لِّلْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں کے لیے
وَلَا يَزِيْدُ
: اور نہیں زیادہ ہوتا
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اِلَّا
: سوائے
خَسَارًا
: گھاٹا
اور اتارتے ہیں ہم قرآن میں وہ چیز جس میں شفا ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے ، اور نہیں زیادہ کرتا وہ ظالموں کے لیے مگر نقصان ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرمایا مکی زندگی میں حضور ﷺ اور آپ کے رفقاء کو بیحد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرما کر یہ دعا سکھلائی کہ مولا کریم ! ہمیں حق وصداقت لیے اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرما کر یہ دعا سکھلائی کہ مولا کریم ! ہمیں حق وصداقت کے ساتھ نکال اور حق وصداقت کے ساتھ ہی داخل فرما ، اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے یہ بھی کہلوایا کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے کیونکہ باطل مٹنے والی چیز ہی ہے یہ گویا فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا ، چناچہ فتح مکہ کے روز آپ ﷺ اپنی چھڑی سے بتوں کو گراتے جاتے تھے اور یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اور اس طرح آپ نے خانہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے بالکل پاک کردیا ، اب آج کی پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ حق آتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور یہی اس آیت کی گذشتہ آیت کے ساتھ مناسبت ہے جس طرح یہ قرآن دوسری کتب سماویہ کے برخلاف بتدریج نازل ہوا ، اسی طرح باطل بھی بتدریج مٹتا چلا گیا ، اس آیت کریمہ کا تعلق رکوع اول میں آمدہ آیت پاک (آیت) ” ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم “ سے بھی ہے کہ یہ قرآن اس راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اب اسی قرآن کی بعض صفات کا ذکر یہاں بھی ہو رہا ہے ۔ (قرآن بطور شفا) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وننزل من القران ما ھوشفآء “۔ اور ہم اتارتے ہیں قرآن کریم میں وہ چیز جس میں شفا ہے ، اس شفا کا تعلق دراصل روحانی بیماریوں کی شفا سے ہے ، جیسا کہ سورة یونس میں بھی گزر چکا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت (آیت) ” وشفآء لما فی الصدور “ اور دلوں میں موجود بیماریوں کی شفاء آچکی ہے اگرچہ قرآن پاک دوسرے درجے میں بسا اوقات ظاہری بیماریوں کے لیے بھی شفا بن جاتا ہے مگر اصلا اس کی شفا روحانی لوگوں کے لیے ہی ہے جب بھی قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں تو وہ روحانی بیماریوں کی شفا کا سبب بنتی ہیں ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ روحانی بیماریوں کا تعلق عقیدے ، اخلاق اور اعمال سے ہوتا ہے ، قرآن پاک سب سے پہلے باطل عقیدے کی اصلاح کرتا ہے ، کفر شرک منافقت ، الحاد ، شک وغیرہ ایسی روحانی بیماریاں ہیں جن کا اثر انسان کی روح ، قلب ، جان اور دماغ پر پڑتا ہے ، گندہ عقیدہ انسان کے دل و دماغ کو ناپاک کردیتا ہے اور انسان کی فکر بھی نجس ہوجاتی ہے ، ا سی گندی فکر کی بناء پر اللہ نے فرمایا (آیت) ” انما المشرکون نجس “۔ (التوبہ ۔ 28) یعنی بیشک مشرک لوگ ناپاک ہیں ، اسی طرح منافقوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” فزادتھم رجسا الی رجسھم “۔ (التوبۃ ۔ 125) قرآنی آیات کی وجہ سے ان کی گندگی میں ہی اضافہ ہوتا ہے بہرحال اس نجاست سے مراد ظاہری نجاست نہیں بلکہ ان کے نفاق کی گندگی مراد ہے عقیدے سچے بھی ہوتے ہیں اور باطل بھی ، تو مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن پاک باطل عقیدے کی روحانی بیماری کے لیے بمنزلہ شفا کے ہے ۔ عقیدے کے دوسرے نمبر پر اخلاقی بیماریاں ہیں جن میں حسد ، بغض ، کینہ ، خیانت ، جھوٹ ، وغیرہ شامل ہیں ، قرآن پاک ان اخلاقی بیماریوں کو بھی شفا بخشتا ہے ، قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے سے ان تمام قبیح بیماریوں سے نجات حاصل ہوجاتی ہے ، اس کے بعد تیسرے نمبر پر وہ روگ ہیں جن کا تعلق عمل سے ہے ، ان بیماریوں میں چوری ، قتل ، ڈاکہ ، اغوا ، زنا ، کھیل تماشہ ، عریانی ، فحاشی ، ظلم ، غرور ، تکبر ، غیر اللہ کی عبادت ، خوشامد ، رسومات باطلہ وغیرہ آتی ہیں ، قرآن کریم ان تمام برے اعمال کی درستگی کے لیے لائحہ عمل بتاتا ہے جس پر عملدر آمد سے انسان غلط اعمال کی بیماریوں سے بھی شفا پا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کرو ، اور ان کی نافرمانی کرکے (آیت) ” ولا تبطلوا اعمالکم “ (محمد 33) اپنے اعمال کو باطل نہ کرلو ، اور نیک اعمال کا ابطال اس وقت ہوتا ہے جب اس میں سے خلوص نکل جائے اور ریا داخل ہوجائے اس کے علاوہ وہ کام بھی باطل ہوگا جو اگرچہ بذاتہ اچھا ہے مگر حضور ﷺ کے طریقے کے خلاف انجام دیا گیا ہے ، آپ کا ارشاد ہے ” من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد “۔ جس شخص نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو اللہ کی بارگاہ میں وہ کام بھی مردود ہوگا اور وہ آدمی بھی غرضیکہ قرآن پاک غلط اعمال کی اصلاح بھی کرتا ہے ، اس سلسلے میں بزرگان دین دو چیزوں کا ذکر کرتے ہیں یعنی تخلیہ اور تحلیہ ، تخلیہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک تمام باطل عقائد ، باطل اخلاق ، اور باطل اعمال سے انسان کو پاک کرتا ہے اور تحلیہ یعنی صحیح عقائد ، صحیح اخلاق اور اعلی اعمال سے مزین کرتا ہے مطلب یہ کہ قرآن پاک گندی اور رذیل باتوں سے انسان کو پاک کرتا ہے اور تمام ابھی صفات کے ساتھ مزین کرتا ہے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ یہی قرآن کی شفا ہے ۔ (عقیدے کی درستگی) جسمانی اور روحانی بیماریوں سے شفایابی کے لیے ایک چیز قدر مشترک ہے کہ دونوں صورتوں میں پہلے فاسد مادے کو خارج کیا جائے گا تاکہ اس کی جگہ صالح مادہ پیدا ہو کر صحت کامل ہو سکے ، ڈاکٹر یا حکیم جب بھی کسی جسمانی بیماری کا علاج کرتے ہیں تو پہلے اسے مسہل دیا جاتا ہے جس سے تمام فاسد مادے انسانی جسم سے خارج ہوجاتے ہیں یہ مادے کبھی آنتوں کے ذریعے نکالے جاتے ہیں کبھی مثانے کے ذریعے کبھی پسینے کے راستے سے اور کبھی بلغم کی صورت میں ، بسا اوقات گندا خون نکالنے کے لیے بچھنے یا سنگیاں لگائی جاتی ہیں ، جب تمام گندا مواد نکل جاتا ہے تو پھر اس کو ایسی دوائی دی جاتی ہے جس کے ذریعے خون ، بلغم ، سودا ، اور صفرا میں اعتدال قائم ہو کر انسانی اعضا ٹھیک طور پر کام کرنے لگتے ہیں ، روحانی عوارض کے علاج کا بھی یہی طریق کار ہے جب تک انسان گندے عقائد گندے اخلاق اور گندے اعمال سے پاک نہ ہو اس میں اس میں اعلی عقائد اعلی اخلاق اور اعلی اعمال پیدا نہیں ہو سکتے ، اس لیے تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بزرگان دین سب سے پہلے عقیدے کی درستگی پر زور دیتے ہیں ، جب تک انسان کے دل و دماغ کو عقیدے کی نجاست سے پاک نہ کیا جائے ، ا س وقت تک صحیح عقیدہ ، اعلی اخلاق اور اعمال صالحہ پیدا نہیں ہوسکتے ، اللہ تعالیٰ نے ایمان یعنی عقیدے کو ہر حالت میں مقدم فرمایا ہے سورة الانبیاء میں ہے (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلاکفران لسعیہ “۔ جس شخص نے کوئی اچھا عمل کیا اس کی ناقدری نہیں کی جائیگی بلکہ اسے قبول کرکے اس کا اچھا بدلہ دیا جائے گا ، اگر ایمان ہی میں خرابی ہے ، اس میں شرک ریا یا نفاق کی ملاوٹ ہے تو ایسا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا ۔ اسی لیے اللہ نے ایمان اور عمل صالح کو آپس میں لازم وملزوم قرار دیا ہے اور جگہ جگہ فرمایا (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ (الکہف) بہتر جزا اور اعلی مقام ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے ایمان وعقیدے کی درستگی کے ساتھ نیک اعمال انجام دیے (1) (بخاری ص 2 ج 1 (فیاض) ” انما الاعمال بالنیات “۔ عمل کا مدار تو نیت پر ہوتا ہے اور نیت تب درست ہوگی جب ایمان صحیح ہوگا ، اور ایمان کی درستگی کا معیار یہ ہے (آیت) ” فادعوہ مخلصین لہ الدین “۔ (المومن) کہ خالص اللہ کی اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارو ، اگر عقیدے اور نیت میں ذرا بھی فتور ہوگا تو ایسا عمل بیکار محض ہوگا چاہے وہ کتنا ہی بڑا عمل کیوں نہ ہو ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جب تک ایمان میں شرک اور نفاق کی ملاوٹ ہوگی ، انسان میں اخلاص پیدا نہیں ہوسکتا اور جب تک اخلاص نہیں آئے گا کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا ۔ (مکمل طہارت) قرآن پاک نہ صرف گندے عقائد کی اصلاح چاہتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے ہر قسم کے گندے رذایل سے انسان کی مکمل طہارت کا قائل ہے ، انسانی برادری میں ، ملکی بین الصوبائی اور بین الاقوامی تعلقات میں طہارت ضروری ہے ، زبان ، رنگ اور نسل کے معاملے میں قرآن انسان کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کرنا چاہتا ہے قرآن کریم کے نزدیک ظلم و زیادتی کسی کے لیے بھی روا نہیں ، جن قوموں نے تعصب اور ہٹ دھرمی کو اختیار کیا ، اللہ نے ان کو مغضوب اور ملعون قرار دیا جب تک انسان کے اندر کسی قسم کے رذائل بھی موجود ہیں اسے شفا حاصل نہیں ہوسکتی ، مطلب یہ کہ روحانی بیماری سے نجات دلانا قرآن پاک کا موضوع ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مفسرین کی طرف سے مختلف آیات کے شان نزول بیان کرکے کی ضرورت نہیں ہے ان کی اصطلاح میں خود قرآن کا شان نزول بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کی اصطلاح میں خود قرآن کا شان نزول یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی کسی قسم کی برائی پائی جاتی ہے وہاں وہاں قرآن پاک کی وہ تمام آیات چسپاں ہوں گی جن میں برائی کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے ، اور جس جس مقام پر اچھائی کی ضرورت ہے وہاں قرآن پاک کے تمام اواہر فٹ آتے ہیں قرآن تو علی الاعلان کہتا ہے (آیت) ” ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا “۔ (الاعراف۔ 56) اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اور فساد فی الارض میں لڑائی جھگڑا ، فتنہ و فساد ، قتل وخلفشار ، گالی گلوچ وغیرہ کے علاوہ کفر ، شرک ، نفاق ، بداخلاقی اور بدعملی بھی آتی ہے ، لہذا صحیح نتائج اخذ کرنے کے لیے ان تمام قبائح سے مکمل طہارت کی ضرورت ہے ۔ (رحمت خداوندی) فرمایا نزول قرآن میں ایک تو شفا ہے اور دوسری چیز فرمایا (آیت) ” وحمۃ اللمؤمنین “۔ اہل ایمان کے لیے رحمت ہے ، جب انسان صحیح ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی انجام دے رہا ہو تو پھر اللہ کی رحمت بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ غور فرمائیں کہ یہاں پر رحمت کا تعلق صرف ایمان والوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے اس بات میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنی فطرت سلیمہ کو بگاڑ کر اللہ کی عطا کردہ صلاحیت ہی کو ختم کرلیتے ہیں ، ان کے لیے قرآن پاک میں کوئی شفا نہیں ہے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولا یزید الظلمین الا خسارا “۔ جو لوگ ظلم پر ڈٹے رہیں ان کے حق میں قرآن پاک نقصان ہی میں اضافہ کرے گا ان کے عقیدے میں یہود ونصاری اور منافقین کی طرح مزید بگاڑ پیدا ہوگا ، جیسا کہ پہلے عرض کیا (آیت) ” فزادتھم رجسا الی رجسھم “۔ (التوبۃ) ان کی نجاست میں تو اضافہ ہی ہوتا رہے گا ، جب قرآن کی آیات نازل ہوتی ہیں تو یہ اہل ایمان کے لیے شفا کا کام دیتی ہیں ، ان کے دلوں میں سکون پیدا ہوتا ہے ، ان میں فضائل کی آمد ہوتی ہے اور ان کی روحانیت درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے ، اس طرح انسان نیکی اور اچھے اخلاق کے ساتھ مزین ہوجاتا ہے ، اس کے برخلاف جب یہی آیات ضدی عنادی اور ہٹ دھرم لوگ پر پیش کی جاتی ہیں تو ان کی گندگی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کفر ، شرک ، نفاق ، مخالفت اور رسومات باطلہ پر مزید پختہ ہوجاتے ہیں ۔ (شہد میں شفا) اس آیت کریمہ میں تو قرآن کریم کو روحانی بیماریوں کے لیے شفا قرار دیا گیا ہے البتہ گذشتہ سورة النحل میں شہد کو انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیے باعث شفا بتایا گیا تھا ۔ (آیت) ” فیہ شفاء للناس “۔ (آیت 69) روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اللہ کے نبی نے یہ نسخہ تجویز فرمایا ہے ” علیکم بالشفآئین “۔ لوگو ! شفا کی دو چیزوں کو لازم پکڑو ، ” القران والعسل “ ایک قرآن ہے جو روحانی بیماریوں سے شفا دیتا ہے اور دوسری شہد ہے جو جسمانی عوارض کے لیے باعث شفا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضور ﷺ میرے بھائی کے پیٹ میں اسہال ہو رہے ہیں اس کے لیے علاج تجویز فرمائیں آپ نے فرمایا ، اس کو شہد پلاؤ ، حسب الحکم شہد پلایا گیا تو مریض کے اسہال میں اضافہ ہوگیا وہ شخص پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور مریض کی حالت بیان کی ، آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ اس نے جا کر دوبارہ شہد پلائی تو اسہال پھر بھی بند نہ ہوئے حضور ﷺ نے تیسری اور چھوتی دفعہ بھی شہد استعمال کرنے کا حکم دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کا کلام سچا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، محدثین فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تیرے بھائی کے پیٹ میں گندے مواد بھرے ہوئے ہیں جب تک وہ خارج نہیں ہوں گے اسے شفا حاصل نہیں ہوسکتی تو بہر حال چوتھی دفعہ شہد پلانے سے مریض کے اسہال بند ہو کر اسے شفا حاصل ہوگئی ۔ (انسان کی احسان فراموشی) اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذا انعمنا علی الانسان اعراض ونا بجانبہ “۔ جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے ، انسان کی عمومی فطرت ایسی ہی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کی قدر دانی نہیں کرتا ، اللہ نے آل داؤد کو شکر گزاری کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا (آیت) ” وقلیل من عبادی الشکور “۔ (سبا 13) کہ میرے شکر گزار بندے بہت قلیل ہیں ، لوگوں کی اکثریت اللہ کی طرف سے انعام پاکر غرور تکبر میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اسے اپنی ذاتی قابلیت اور استعداد کا مرہون منت سمجھنے لگتی ہے ، قارون نے بھی تو یہی کہا تھا (آیت) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ (القصص 78) کر یہ سارے خزانے تو مجھے میرے علم وہنر کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں ، اس میں کسی کا مجھ پر کیا احسان ہے ، یہ تو میری اپنی کمائی ہے ، جب اس کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی تو اللہ نے اسے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا ، آج تاجروں اور صنعت کاروں کا بھی یہی حال ہے ہر شخص اپنے علم ، تجربے ، سائنس اور ٹیکنا لوجی کو آمدنی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور پھر اسے عیاشی ، فحاشی ، شراب نوشی اور دیگر معاصی پر خرچ کرنے لگتا ہے ، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جب ہم کسی انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ اس کو انعام الہی تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیتا ہے ۔ اس کے برخلاف (آیت) ” واذا مسہ الشرکان یؤسا “۔ جب اسے کوئی برائی پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ، فرمایا ناشکری اور مایوسی دونوں حالتیں بری ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایمان داروں کے لیے وہ شکر کرتے ہیں اور جب مصیبت آتی ہے تو صبر کا دامن تھام لیتے ہیں اور جزع فزع نہیں کرتے ۔ فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں (آیت) ” قل یعمل علی شاکلتہ “۔ کہ ہر شخص اپنے ڈھب کے مطابق کام کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے فربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا “۔ تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت کے راستے پر کون ہے ہر شخص اپنی فکر اور سمجھ کے مطابق اپنے کام میں مگن رہتا ہے مگر صحیح راستے پر کون ہے اور صحیح کام کون کر رہا ہے ، یہ اللہ کے علم میں ہے ، ہر انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا ، انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور انبیاء کے طریق کار کے مطابق اپنے اعمال واخلاق کی افزائش کرے باقی اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی کوشش مشکور ہوگی اور کس کی سعی میں کیا خرابی ہوگی ، تم حتی المقدور سیدھے راستے پر سفر جاری رکھو ۔
Top