Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
اور اتارتے ہیں ہم قرآن میں وہ چیز جس میں شفا ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے ، اور نہیں زیادہ کرتا وہ ظالموں کے لیے مگر نقصان ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرمایا مکی زندگی میں حضور ﷺ اور آپ کے رفقاء کو بیحد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرما کر یہ دعا سکھلائی کہ مولا کریم ! ہمیں حق وصداقت لیے اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی طرف اشارہ فرما کر یہ دعا سکھلائی کہ مولا کریم ! ہمیں حق وصداقت کے ساتھ نکال اور حق وصداقت کے ساتھ ہی داخل فرما ، اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے یہ بھی کہلوایا کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے کیونکہ باطل مٹنے والی چیز ہی ہے یہ گویا فتح مکہ کی طرف اشارہ تھا ، چناچہ فتح مکہ کے روز آپ ﷺ اپنی چھڑی سے بتوں کو گراتے جاتے تھے اور یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اور اس طرح آپ نے خانہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے بالکل پاک کردیا ، اب آج کی پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ حق آتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور یہی اس آیت کی گذشتہ آیت کے ساتھ مناسبت ہے جس طرح یہ قرآن دوسری کتب سماویہ کے برخلاف بتدریج نازل ہوا ، اسی طرح باطل بھی بتدریج مٹتا چلا گیا ، اس آیت کریمہ کا تعلق رکوع اول میں آمدہ آیت پاک (آیت) ” ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم “ سے بھی ہے کہ یہ قرآن اس راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اب اسی قرآن کی بعض صفات کا ذکر یہاں بھی ہو رہا ہے ۔ (قرآن بطور شفا) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وننزل من القران ما ھوشفآء “۔ اور ہم اتارتے ہیں قرآن کریم میں وہ چیز جس میں شفا ہے ، اس شفا کا تعلق دراصل روحانی بیماریوں کی شفا سے ہے ، جیسا کہ سورة یونس میں بھی گزر چکا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت (آیت) ” وشفآء لما فی الصدور “ اور دلوں میں موجود بیماریوں کی شفاء آچکی ہے اگرچہ قرآن پاک دوسرے درجے میں بسا اوقات ظاہری بیماریوں کے لیے بھی شفا بن جاتا ہے مگر اصلا اس کی شفا روحانی لوگوں کے لیے ہی ہے جب بھی قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں تو وہ روحانی بیماریوں کی شفا کا سبب بنتی ہیں ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ روحانی بیماریوں کا تعلق عقیدے ، اخلاق اور اعمال سے ہوتا ہے ، قرآن پاک سب سے پہلے باطل عقیدے کی اصلاح کرتا ہے ، کفر شرک منافقت ، الحاد ، شک وغیرہ ایسی روحانی بیماریاں ہیں جن کا اثر انسان کی روح ، قلب ، جان اور دماغ پر پڑتا ہے ، گندہ عقیدہ انسان کے دل و دماغ کو ناپاک کردیتا ہے اور انسان کی فکر بھی نجس ہوجاتی ہے ، ا سی گندی فکر کی بناء پر اللہ نے فرمایا (آیت) ” انما المشرکون نجس “۔ (التوبہ ۔ 28) یعنی بیشک مشرک لوگ ناپاک ہیں ، اسی طرح منافقوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” فزادتھم رجسا الی رجسھم “۔ (التوبۃ ۔ 125) قرآنی آیات کی وجہ سے ان کی گندگی میں ہی اضافہ ہوتا ہے بہرحال اس نجاست سے مراد ظاہری نجاست نہیں بلکہ ان کے نفاق کی گندگی مراد ہے عقیدے سچے بھی ہوتے ہیں اور باطل بھی ، تو مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن پاک باطل عقیدے کی روحانی بیماری کے لیے بمنزلہ شفا کے ہے ۔ عقیدے کے دوسرے نمبر پر اخلاقی بیماریاں ہیں جن میں حسد ، بغض ، کینہ ، خیانت ، جھوٹ ، وغیرہ شامل ہیں ، قرآن پاک ان اخلاقی بیماریوں کو بھی شفا بخشتا ہے ، قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے سے ان تمام قبیح بیماریوں سے نجات حاصل ہوجاتی ہے ، اس کے بعد تیسرے نمبر پر وہ روگ ہیں جن کا تعلق عمل سے ہے ، ان بیماریوں میں چوری ، قتل ، ڈاکہ ، اغوا ، زنا ، کھیل تماشہ ، عریانی ، فحاشی ، ظلم ، غرور ، تکبر ، غیر اللہ کی عبادت ، خوشامد ، رسومات باطلہ وغیرہ آتی ہیں ، قرآن کریم ان تمام برے اعمال کی درستگی کے لیے لائحہ عمل بتاتا ہے جس پر عملدر آمد سے انسان غلط اعمال کی بیماریوں سے بھی شفا پا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کرو ، اور ان کی نافرمانی کرکے (آیت) ” ولا تبطلوا اعمالکم “ (محمد 33) اپنے اعمال کو باطل نہ کرلو ، اور نیک اعمال کا ابطال اس وقت ہوتا ہے جب اس میں سے خلوص نکل جائے اور ریا داخل ہوجائے اس کے علاوہ وہ کام بھی باطل ہوگا جو اگرچہ بذاتہ اچھا ہے مگر حضور ﷺ کے طریقے کے خلاف انجام دیا گیا ہے ، آپ کا ارشاد ہے ” من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد “۔ جس شخص نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو اللہ کی بارگاہ میں وہ کام بھی مردود ہوگا اور وہ آدمی بھی غرضیکہ قرآن پاک غلط اعمال کی اصلاح بھی کرتا ہے ، اس سلسلے میں بزرگان دین دو چیزوں کا ذکر کرتے ہیں یعنی تخلیہ اور تحلیہ ، تخلیہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک تمام باطل عقائد ، باطل اخلاق ، اور باطل اعمال سے انسان کو پاک کرتا ہے اور تحلیہ یعنی صحیح عقائد ، صحیح اخلاق اور اعلی اعمال سے مزین کرتا ہے مطلب یہ کہ قرآن پاک گندی اور رذیل باتوں سے انسان کو پاک کرتا ہے اور تمام ابھی صفات کے ساتھ مزین کرتا ہے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ یہی قرآن کی شفا ہے ۔ (عقیدے کی درستگی) جسمانی اور روحانی بیماریوں سے شفایابی کے لیے ایک چیز قدر مشترک ہے کہ دونوں صورتوں میں پہلے فاسد مادے کو خارج کیا جائے گا تاکہ اس کی جگہ صالح مادہ پیدا ہو کر صحت کامل ہو سکے ، ڈاکٹر یا حکیم جب بھی کسی جسمانی بیماری کا علاج کرتے ہیں تو پہلے اسے مسہل دیا جاتا ہے جس سے تمام فاسد مادے انسانی جسم سے خارج ہوجاتے ہیں یہ مادے کبھی آنتوں کے ذریعے نکالے جاتے ہیں کبھی مثانے کے ذریعے کبھی پسینے کے راستے سے اور کبھی بلغم کی صورت میں ، بسا اوقات گندا خون نکالنے کے لیے بچھنے یا سنگیاں لگائی جاتی ہیں ، جب تمام گندا مواد نکل جاتا ہے تو پھر اس کو ایسی دوائی دی جاتی ہے جس کے ذریعے خون ، بلغم ، سودا ، اور صفرا میں اعتدال قائم ہو کر انسانی اعضا ٹھیک طور پر کام کرنے لگتے ہیں ، روحانی عوارض کے علاج کا بھی یہی طریق کار ہے جب تک انسان گندے عقائد گندے اخلاق اور گندے اعمال سے پاک نہ ہو اس میں اس میں اعلی عقائد اعلی اخلاق اور اعلی اعمال پیدا نہیں ہو سکتے ، اس لیے تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بزرگان دین سب سے پہلے عقیدے کی درستگی پر زور دیتے ہیں ، جب تک انسان کے دل و دماغ کو عقیدے کی نجاست سے پاک نہ کیا جائے ، ا س وقت تک صحیح عقیدہ ، اعلی اخلاق اور اعمال صالحہ پیدا نہیں ہوسکتے ، اللہ تعالیٰ نے ایمان یعنی عقیدے کو ہر حالت میں مقدم فرمایا ہے سورة الانبیاء میں ہے (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلاکفران لسعیہ “۔ جس شخص نے کوئی اچھا عمل کیا اس کی ناقدری نہیں کی جائیگی بلکہ اسے قبول کرکے اس کا اچھا بدلہ دیا جائے گا ، اگر ایمان ہی میں خرابی ہے ، اس میں شرک ریا یا نفاق کی ملاوٹ ہے تو ایسا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا ۔ اسی لیے اللہ نے ایمان اور عمل صالح کو آپس میں لازم وملزوم قرار دیا ہے اور جگہ جگہ فرمایا (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ (الکہف) بہتر جزا اور اعلی مقام ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے ایمان وعقیدے کی درستگی کے ساتھ نیک اعمال انجام دیے (1) (بخاری ص 2 ج 1 (فیاض) ” انما الاعمال بالنیات “۔ عمل کا مدار تو نیت پر ہوتا ہے اور نیت تب درست ہوگی جب ایمان صحیح ہوگا ، اور ایمان کی درستگی کا معیار یہ ہے (آیت) ” فادعوہ مخلصین لہ الدین “۔ (المومن) کہ خالص اللہ کی اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارو ، اگر عقیدے اور نیت میں ذرا بھی فتور ہوگا تو ایسا عمل بیکار محض ہوگا چاہے وہ کتنا ہی بڑا عمل کیوں نہ ہو ، امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ جب تک ایمان میں شرک اور نفاق کی ملاوٹ ہوگی ، انسان میں اخلاص پیدا نہیں ہوسکتا اور جب تک اخلاص نہیں آئے گا کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا ۔ (مکمل طہارت) قرآن پاک نہ صرف گندے عقائد کی اصلاح چاہتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے ہر قسم کے گندے رذایل سے انسان کی مکمل طہارت کا قائل ہے ، انسانی برادری میں ، ملکی بین الصوبائی اور بین الاقوامی تعلقات میں طہارت ضروری ہے ، زبان ، رنگ اور نسل کے معاملے میں قرآن انسان کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کرنا چاہتا ہے قرآن کریم کے نزدیک ظلم و زیادتی کسی کے لیے بھی روا نہیں ، جن قوموں نے تعصب اور ہٹ دھرمی کو اختیار کیا ، اللہ نے ان کو مغضوب اور ملعون قرار دیا جب تک انسان کے اندر کسی قسم کے رذائل بھی موجود ہیں اسے شفا حاصل نہیں ہوسکتی ، مطلب یہ کہ روحانی بیماری سے نجات دلانا قرآن پاک کا موضوع ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مفسرین کی طرف سے مختلف آیات کے شان نزول بیان کرکے کی ضرورت نہیں ہے ان کی اصطلاح میں خود قرآن کا شان نزول بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کی اصطلاح میں خود قرآن کا شان نزول یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی کسی قسم کی برائی پائی جاتی ہے وہاں وہاں قرآن پاک کی وہ تمام آیات چسپاں ہوں گی جن میں برائی کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے ، اور جس جس مقام پر اچھائی کی ضرورت ہے وہاں قرآن پاک کے تمام اواہر فٹ آتے ہیں قرآن تو علی الاعلان کہتا ہے (آیت) ” ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا “۔ (الاعراف۔ 56) اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اور فساد فی الارض میں لڑائی جھگڑا ، فتنہ و فساد ، قتل وخلفشار ، گالی گلوچ وغیرہ کے علاوہ کفر ، شرک ، نفاق ، بداخلاقی اور بدعملی بھی آتی ہے ، لہذا صحیح نتائج اخذ کرنے کے لیے ان تمام قبائح سے مکمل طہارت کی ضرورت ہے ۔ (رحمت خداوندی) فرمایا نزول قرآن میں ایک تو شفا ہے اور دوسری چیز فرمایا (آیت) ” وحمۃ اللمؤمنین “۔ اہل ایمان کے لیے رحمت ہے ، جب انسان صحیح ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی انجام دے رہا ہو تو پھر اللہ کی رحمت بھی اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ غور فرمائیں کہ یہاں پر رحمت کا تعلق صرف ایمان والوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے اس بات میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنی فطرت سلیمہ کو بگاڑ کر اللہ کی عطا کردہ صلاحیت ہی کو ختم کرلیتے ہیں ، ان کے لیے قرآن پاک میں کوئی شفا نہیں ہے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولا یزید الظلمین الا خسارا “۔ جو لوگ ظلم پر ڈٹے رہیں ان کے حق میں قرآن پاک نقصان ہی میں اضافہ کرے گا ان کے عقیدے میں یہود ونصاری اور منافقین کی طرح مزید بگاڑ پیدا ہوگا ، جیسا کہ پہلے عرض کیا (آیت) ” فزادتھم رجسا الی رجسھم “۔ (التوبۃ) ان کی نجاست میں تو اضافہ ہی ہوتا رہے گا ، جب قرآن کی آیات نازل ہوتی ہیں تو یہ اہل ایمان کے لیے شفا کا کام دیتی ہیں ، ان کے دلوں میں سکون پیدا ہوتا ہے ، ان میں فضائل کی آمد ہوتی ہے اور ان کی روحانیت درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے ، اس طرح انسان نیکی اور اچھے اخلاق کے ساتھ مزین ہوجاتا ہے ، اس کے برخلاف جب یہی آیات ضدی عنادی اور ہٹ دھرم لوگ پر پیش کی جاتی ہیں تو ان کی گندگی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کفر ، شرک ، نفاق ، مخالفت اور رسومات باطلہ پر مزید پختہ ہوجاتے ہیں ۔ (شہد میں شفا) اس آیت کریمہ میں تو قرآن کریم کو روحانی بیماریوں کے لیے شفا قرار دیا گیا ہے البتہ گذشتہ سورة النحل میں شہد کو انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیے باعث شفا بتایا گیا تھا ۔ (آیت) ” فیہ شفاء للناس “۔ (آیت 69) روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اللہ کے نبی نے یہ نسخہ تجویز فرمایا ہے ” علیکم بالشفآئین “۔ لوگو ! شفا کی دو چیزوں کو لازم پکڑو ، ” القران والعسل “ ایک قرآن ہے جو روحانی بیماریوں سے شفا دیتا ہے اور دوسری شہد ہے جو جسمانی عوارض کے لیے باعث شفا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضور ﷺ میرے بھائی کے پیٹ میں اسہال ہو رہے ہیں اس کے لیے علاج تجویز فرمائیں آپ نے فرمایا ، اس کو شہد پلاؤ ، حسب الحکم شہد پلایا گیا تو مریض کے اسہال میں اضافہ ہوگیا وہ شخص پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور مریض کی حالت بیان کی ، آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ اس نے جا کر دوبارہ شہد پلائی تو اسہال پھر بھی بند نہ ہوئے حضور ﷺ نے تیسری اور چھوتی دفعہ بھی شہد استعمال کرنے کا حکم دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کا کلام سچا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، محدثین فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تیرے بھائی کے پیٹ میں گندے مواد بھرے ہوئے ہیں جب تک وہ خارج نہیں ہوں گے اسے شفا حاصل نہیں ہوسکتی تو بہر حال چوتھی دفعہ شہد پلانے سے مریض کے اسہال بند ہو کر اسے شفا حاصل ہوگئی ۔ (انسان کی احسان فراموشی) اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذا انعمنا علی الانسان اعراض ونا بجانبہ “۔ جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے ، انسان کی عمومی فطرت ایسی ہی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کی قدر دانی نہیں کرتا ، اللہ نے آل داؤد کو شکر گزاری کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا (آیت) ” وقلیل من عبادی الشکور “۔ (سبا 13) کہ میرے شکر گزار بندے بہت قلیل ہیں ، لوگوں کی اکثریت اللہ کی طرف سے انعام پاکر غرور تکبر میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اسے اپنی ذاتی قابلیت اور استعداد کا مرہون منت سمجھنے لگتی ہے ، قارون نے بھی تو یہی کہا تھا (آیت) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ (القصص 78) کر یہ سارے خزانے تو مجھے میرے علم وہنر کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں ، اس میں کسی کا مجھ پر کیا احسان ہے ، یہ تو میری اپنی کمائی ہے ، جب اس کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی تو اللہ نے اسے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا ، آج تاجروں اور صنعت کاروں کا بھی یہی حال ہے ہر شخص اپنے علم ، تجربے ، سائنس اور ٹیکنا لوجی کو آمدنی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور پھر اسے عیاشی ، فحاشی ، شراب نوشی اور دیگر معاصی پر خرچ کرنے لگتا ہے ، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جب ہم کسی انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ اس کو انعام الہی تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیتا ہے ۔ اس کے برخلاف (آیت) ” واذا مسہ الشرکان یؤسا “۔ جب اسے کوئی برائی پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ، فرمایا ناشکری اور مایوسی دونوں حالتیں بری ہیں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایمان داروں کے لیے وہ شکر کرتے ہیں اور جب مصیبت آتی ہے تو صبر کا دامن تھام لیتے ہیں اور جزع فزع نہیں کرتے ۔ فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں (آیت) ” قل یعمل علی شاکلتہ “۔ کہ ہر شخص اپنے ڈھب کے مطابق کام کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے فربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا “۔ تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت کے راستے پر کون ہے ہر شخص اپنی فکر اور سمجھ کے مطابق اپنے کام میں مگن رہتا ہے مگر صحیح راستے پر کون ہے اور صحیح کام کون کر رہا ہے ، یہ اللہ کے علم میں ہے ، ہر انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا ، انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور انبیاء کے طریق کار کے مطابق اپنے اعمال واخلاق کی افزائش کرے باقی اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی کوشش مشکور ہوگی اور کس کی سعی میں کیا خرابی ہوگی ، تم حتی المقدور سیدھے راستے پر سفر جاری رکھو ۔
Top