Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ : قائم کریں آپ الصَّلٰوةَ : نماز لِدُلُوْكِ : ڈھلنے سے الشَّمْسِ : سورج اِلٰى : تک غَسَقِ : اندھیرا الَّيْلِ : رات وَ : اور قُرْاٰنَ : قرآن الْفَجْرِ : فجر (صبح) اِنَّ : بیشک قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : صبح کا قرآن كَانَ : ہے مَشْهُوْدًا : حاضر کیا گیا
قائم کریں آپ نماز کو سورج کے ڈھلنے سے رات کی تاریکی چھاجانے تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بیشک فجر کا قرآن پڑھنا حاضری کا وقت ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ نے مشرکین کا رد فرمایا اور انسان کی تکریم کا مسئلہ بیان فرمایا ، پھر دنیا کی زندگی میں ہدایت اور گمراہی کی بات ہوئی اور مشرکین کی سازشوں کا بیان ہوا جس کے ذریعے حضور خاتم النبیین ﷺ کو راہ راست سے ہٹانا چاہتے تھے مگر اللہ نے فرمایا کہ مشرکین اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی بھی دی کہ اگر یہ لوگ آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیں گے تو پھر یہ بھی یہاں پر زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کا شکار ہوجائیں گے ۔ (اقامت صلوۃ) مشرکین مکہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سخت تکالیف پہنچا رہے تھے جس وجہ سے اہل حق کو پریشانی کا لاحق ہونا ایک قدرتی امر تھا ، آپ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس پریشانی کا حل تجویز کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اقم الصلوۃ “۔ آپ نماز قائم کریں ، مصیبت کے وقت نماز اور صبر کے ذریعے استعانت پکڑنے کا اصول سورة البقرۃ میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوۃ “۔ اے ایمان والو ! جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو صبر اور نماز کے ساتھ مدد حاصل کرو (آیت) ” ان اللہ مع الصبرین “۔ بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے صبر بھی ملت ابراہیمیہ کا بہت بڑا اصول ہے اور نماز کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے ” ام العبادات المقربۃ “۔ یعنی اللہ کا قرب دلانے والی عبادات میں سے نماز سب سے اہم عبادت ہے ، نماز ، ذکر ، مناجات ، قلب وجسم کی عاجزی ، زبان کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لیے کلمات تعظیم اور کلام الہی کی تلاوت کا مجموعہ ہے نماز کے ذریعے انسان کو بہت سے فوائد حاصل ہوتی ہے ہیں ، مثلا نماز کا قیام طہارت اور پاکیزگی پر قائم ہوتا ہے ، جو کہ بذاتہ ایک اعلی اخلاق ہے نماز آپس میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ (آیت) ” وارکعوا مع الرکعین “۔ (البقرۃ) انسانی برادری کا کمال نمونہ پیش کرتا ہے ، اکیلے نماز پڑھنے کا ایک نماز کا ثواب ہوتا ہے جب کہ باجماعت نماز کا ثواب ستائیس گنا بڑھ جاتا ہے ، نماز میں وقت کی پابندی اور تنظیم جیسے زریں اصولوں پر عمل ہوتا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پختہ ہوتا ہے ۔ (نمازوں کی تعداد) فرمایا ، نماز قائم کرو ، مگر کب ؟ (آیت) ” لدلوک الشمس الی غسق الیل “۔ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک ، دلوک کا معنی میلان ہونا یا ڈھلنا ہوتا ہے ، دوپہر کے وقت جب سورج پچھلے پہر کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کو سورج کا ڈھلنا یا زوال کہتے ہیں ظاہر ہے کہ زوال سے لے کر رات کی تاریکی تک مسلسل ایک ہی نماز تو نہیں ہو سکتی اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس عرصہ میں چار نمازوں یعنی ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کا اشارۃ ذکر کیا گیا ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بھی آثار میں منقول ہے کہ انہوں نے اس حصہ آیت سے چاروں نمازیں مراد لی ہیں تاہم قرآن پاک میں ہر نماز کے وقت کا فردا فردا ذکر بھی آیا ہے ، بہرحال اس آیت کے مطابق زوال کے وقت ظہر کی نماز ہوتی ہے اس کے بعد عصر کا وقت ہوتا ہے جس کی سخت تاکید کی گئی ہے کیونکہ یہ مشاغل دنیا کا وقت ہوتا ہے ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی “۔ (البقرۃ) نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص کر نماز وسطی یعنی عصر کی نماز کی اسی طرح (آیت) ” حین تمسون وحین تصبحون “۔ (الروم) میں شام اور صبح کی نمازیں آتی ہیں ، (آیت) ” وعشیا وحین تظھرون “۔ (الروم) میں عصر اور ظہر کی نمازوں کا ذکر ہے ، اسی طرح (آیت) ” قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا “۔ (طہ) میں فجر اور عصر کا ذکر ہے ۔ (نماز فجر) بہرحال اس حصہ آیت میں چار نمازیں آتی ہیں ، آگے فرمایا (آیت) ” وقران الفجر “۔ اور فجر کا قرآن یعنی نماز فجر بھی ، اس طرح گویا اس آیت کریمہ میں پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے ، پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کی رات ہوئی اس سے پہلے (آیت) ” قبل طلوع الشمس وقبل الغروب ومن الیل “۔ (ق۔ 40) کے مطابق فجر ، عصر ، اور رات کی تین ہی نمازیں تھیں تاہم سورة بنی اسرائیل چونکہ واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی ، اس لیے اس میں پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے ۔ فرمایا فجر کا قرآن پڑھنا (آیت) ” ان قران الفجر کان مشھودا “۔ بیشک فجر کا قرآن پڑھنا حاضری کا وقت ہے ، اس وقت میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے (آیت) ” یتعاقبون فیکم لیلا ونھارا “۔ رات اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے ہیں یعنی جن فرشتوں کی ڈیوٹی انسانوں کے اعمال کی حفاظت ہوتی ہے وہ فجر اور عصر کی نماز کے وقت ڈیوٹیاں تبدیل کرتے ہیں ، عصر کی نماز کے وقت دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور رات والے آجاتے ہیں ، اسی طرح فجر کے وقت رات والے چلے جاتے ہیں اور دن والے آجاتے ہیں ، ہر جانے والا گروہ اللہ کی بارہ میں اس کے بندوں کی رپورٹ پیش کرتا ہے ، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کہ فرشتو ! تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ تو نیک بندوں کے فرشتے کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں اس حالت میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں ، اسی طرح خدا کی یاد سے بےبہرہ لوگوں کے متعلق فرشتے رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ مولا کریم ! تیرے فلاں فلاں بندے غفلت میں پڑے ہوئے تھے یا وہ برائی میں لگے ہوئے تھے ، غرضیکہ فجر کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے ۔ نماز فجر کے ساتھ قرآن کا خصوصی ذکر اس وجہ سے ہے کہ سنت کے مطابق فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت قدرے زیادہ کی جاتی ہے حضور ﷺ بالعموم فجر کی نماز میں چالیس سے لے کر سو آیات تک تلاوت فرماتے تھے گویا اس نماز میں باقی نمازوں کی نسبت قرات لمبی ہوتی ہے ۔ (بعض گمراہ فرقے) بعض گمراہ فرقے پانچ نمازوں کے قائل نہیں ہیں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف فجر کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا دریافت کرنے پر کہا کہ نماز صرف ایک ہی ہے بعض منکرین قرآن صرف دو نمازیں پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (آیت) ” قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا “۔ (طہ) کے مطابق صرف فجر اور عصر کی نمازیں فرض ہیں ، بعض لوگ تین نمازوں کے اور بعض چار کے قائل ہیں ، پرویز کہتا ہے کہ ہماری یہ نماز حقیقت میں حقیقی نماز ہی نہیں ہے اس کا نظریہ یہ ہے کہ جب ہماری حکومت قائم ہوگی اور وہ نماز کا حکم دیگی تو وہی حقیق نماز ہوگی اس نے یہ بات اپنی کتابوں اور رسالوں میں واضح طور پر لکھی ہے کہ ہماری موجودہ نماز محض رسمی نماز ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ عقیدہ اصلا کافرانہ ہے کیونکہ نماز وہی ہے جو حضور ﷺ نے ، اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے پڑھی اور جس کی تلقین بھی کی یہی نماز تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس کا بدعقیدہ لوگ انکار کر رہے ہیں ۔ (نبی کا قول وفعل بطور دلیل) نمازوں کی تعداد اور رکعات کے بارے میں حضور ﷺ کا قول اور عمل ہی ہمارے لیے حجت ہے اسی لیے تمام مذاہب حقہ پانچ نمازوں کی فرضیت کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح ہر نماز کی رکعات کی تعداد کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ، تمام اہل ایمان فجر کے دو ظہر کے چار ، عصر کے چار ، مغرب کے تین اور عشاء کے چار فرضوں کے قائل ہیں ، اس لیے شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے ، البتہ اس کی بعض ہیئات میں تھوڑا بہت اختلاف ہے اور ان میں سے بعض ہئیات سنن میں داخل ہیں اور بعض مستحبات میں جہاں تک فرائض اور واجبات کا تعلق ہے وہ اختلافات سے پاک ہیں ، اختلافی ہیئات میں رفع یدین ، آمین بالجہر ، ہاتھوں کا باندھنا وغیرہ شامل ہیں مگر ان مسائل میں ہر قسم کی روایات موجود ہیں اور ہر ایک کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے کی گنجائش بھی ہے ، نماز کے بہت سے ارکان ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں نہیں مگر ہم وہ ارکان نبی کریم ﷺ کے قول اور عمل کے مطابق تواتر کے ساتھ ادا کر رہے ہیں ، لہذا کسی رکن کا قرآن میں عدم ذکر اس کی شرعی حیثیت کو مشکوک نہیں بنا سکتا ، حضرت عمران ابن حصین ؓ کے سامنے ایک شخص نے ذکر کیا کہ آپ لوگ مقام محمود والی آیت کی تشریح میں شفاعت والی حدیث پیش کرتے ہیں ، حالانکہ اس کا ذکر قرآن حکیم میں نہیں ہے اس پر حضرت عمران ؓ ناراض ہوگئے ، اور فرمایا کیا تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں پڑھا ہے ، آپ نے فرمایا کیا تو نے فجر کی دو ، مغرب کی تین اور ظہر عصر اور عشاء کی چار چار رکعتوں کا ذکر وہاں پڑھا ہے ؟ کہنے لگا ، نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر تم نے یہ تعداد رکعات کہاں سے لی ؟ فرمایا کیا تم نے یہ ساری باتیں ہم سے اخذ نہیں کیں ؟ اور ہم نے یہ عمل خود حضور ﷺ سے لیا پھر پوچھا کیا تو نے زکوۃ کا نصاب قرآن میں کہیں پڑھا کہ سونے چاندی پر اتنے فیصد اور مویشیوں پر اس حساب سے زکوۃ واجب ہے ؟ وہ شخص کہنے لگا کہ قرآن میں تو یہ تفصیل نہیں ہے فرمایا پھر یقینا مقررہ نصاب ہم سے لیا ہے اور ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا تھا حضرت عمران ؓ نے اس شخص سے یہ بھی کہا کہ قرآن پاک میں (آیت) ” ولیطوفوا بالبیت العتیق “۔ (الحج) اور چاہئے کہ اللہ کے قدیم گھر کا طواف کرو ، اب بتاؤ کہ طواف کے سات چکروں کا ذکر قرآن میں کہاں ہے ؟ اور پھر یہ بھی کہ طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھو ، فرمایا کیا یہ ساری باتیں تم نے ہم سے اور ہم نے حضور نبی کریم ﷺ سے حاصل نہیں کیں ؟ وہ شخص کہنے لگا کہاں ایسا ہی ہے ، حضرت عمران ؓ نے فرمایا کہ قرآن میں یہ کہاں ہے ” لاشغار فی الاسلام “۔ یعنی اسلام میں وٹے سٹے کا نکاح جائز نہیں حالانکہ ہم سب اس حدیث کے قائل ہیں بعض آئمہ فرماتے ہیں کہ ایسا نکاح بالکل باطل ہے کیونکہ اس میں جانبین کی طرف سے دونوں رشتے طے کر کے درمیان سے مہر اڑا دیا جاتا ہے تاہم امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نکاح تو ہوجائے گا مگر مہر مثل ادا کرنا پڑے گا ۔ تو یہ مسئلہ بھی ہمیں سنت میں ہی ملا ہے فرمایا ، اللہ نے اپنی پاک کتاب میں فرمایا ہے (آیت) ” وما اتکم الرسول فخذوہ ، وما نھکم عنہ فانتھوا “۔ (الحشر ، 7) جو کچھ اللہ کا رسول تمہیں دے دے اسے لے لو ، اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ تو فرمایا جن چیزوں کی صراحت قرآن میں موجود ہے ہم نے یقینا انہیں اللہ کے رسول سے اخذ کیا ہے جس کا ثبوت آپ کی زبان اور آپ کا عمل ہے ۔ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو فرمایا وہاں پر اہل کتاب رہتے ہیں ، پہلے انہیں توحید و رسالت کی دعوت دینا اگر وہ تسلیم کرلیں تو پھر کہنا کہ اللہ نے رات دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، واقعہ معراج میں جہاں نمازوں کی فرضیت کا ذکر ہے وہاں یہ الفاظ آتے ہیں ” ذلک خمس وذلک خمسین “۔ یعنی یہ ہیں تو پانچ نمازیں مگر ان کا اجر وثواب پچاس کے برابر ہیں کیونکہ ہر عمل کا کم از کم اجر دس گنا ہے بہرحال اس آیت میں اشارۃ پانچ نمازوں کا ذکر آگیا ہے ۔ ّ (نماز تہجد کی اہمیت) پانچ نمازوں کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں فرمایا (آیت) ” ومن الیل فتھجدبہ “۔ رات کے وقت آپ تہجد بھی ادا کریں فرمایا ” نافلۃ لک “ یہ آپ کے لیے زائد ہے ہجود کا معنی نیند کے بعد بیدار ہونے کے ہیں ، چونکہ یہ نماز پچھلی رات سو کر اٹھنے کے بعد ادا کی جاتی ہے ، اس لیے اسے نماز تہجد کہا جاتا ہے ، نماز کے فرضوں کے علاوہ سنن ، مستحبات اور نوافل وغیرہ کو نفل ہی کہا جاتا ہے ، کیونکہ یہ فرائض سے زائد ہوتے ہیں ، اسی بناء پر بعض محققین فرماتے ہیں کہ تہجد کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے تاہم اس کا اجر بہت زیادہ ہے ، صحیح روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز کون سی ہے ، تو آپ نے فرمایا ” رات کی نماز) بعض فرماتے ہیں ” نافلۃ لک “ میں ضمیر واحد کے ذریعے حضور ﷺ کو خطاب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ یہ نماز بھی محض آپ کے لیے بطور زائد فرض ہے جب کہ باقی لوگوں کے لیے نہیں اگر وہ بھی ادا کریں گے تو بہت زیادہ ثواب ہوگا ، اور اگر ادا نہ کریں گے تو باز پرس نہیں ہوگی ۔ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ تہجد کی نماز میں طویل قیام اور لمبی قرات کرتے تھے حتی کہ موسمی اثرات کی وجہ سے کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں بعض اوقات متورم ہوجاتے تھے اور سردی کے موسم میں تو پاؤں بعض دفعہ پھٹ بھی جاتے تھے ، حضرت ام المؤمنین ؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا حضور ! آپ تو گناہ سے بالکل پاک ہیں اور معمولی لغزشوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کا فرمان ہے ، ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی ہے (آیت) ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “۔ (الفتح) تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردے ، تو پھر آپ اس قدر مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کہ نماز میں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں مبارک سوج جاتے ہیں ، آپ ﷺ نے جواب دیا ، جب اللہ نے مجھ پر اتنی مہربانی فرمائی ہے ” افلا اکون عبدا شکورا “۔ تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں ؟ بہرحال دونوں تفسریں آتی ہیں کہ یہ نماز سب کے لیے زائد ہے اور دوسری یہ کہ حضور ﷺ کے لیے فرض اور امت کے لیے نفل ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ ابتداء میں رات کی نماز سب کے لیے فرض تھی جیسا سورة مزمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا (آیت) ” یایھا المزمل ، قم الیل الا قلیلا “۔ اے کمبل اوڑھنے والے ، آپ رات کو قیام کریں مگر تھوڑا حصہ پھر دوسرے رکوع میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو زمین پر سفر کریں گے اور اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور بعض جہاد کے لیے جائیں گے لہذا آپ قرآن میں سے اتنا حصہ پڑھیں جتنا آسان ہو ، فرماتے ہیں کہ بعد یہ فرضیت اٹھا دیں گئی ۔ (مقام محمود) فرمایا (آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقامامحمودا “۔ امید ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود (تعریفوں والے مقام) پر کھڑا کر دے گا مقام محمود کا ذکر احادیث میں کثرت سے آیا ہے یہ وہ جگہ ہے جسے شفاعت کبری مقام بھی کہا جاتا ہے ، حشر کے میدان میں لوگ پریشانی کے عالم میں مبتلا ہوں گے ، ہر شخص اپنے پسینے میں ڈوبا ہوا ہوگا لوگ چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ حساب کتاب شروع کریں تاکہ اس تلخی سے چھٹکارا پاسکیں ، اس کام کی سفارش کے لیے لوگ مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پاس جائیں گے کہ آپ اللہ کے ہاں سفارش کرکے حساب کتاب شروع کرا دیں ، مگر ہر کوئی جواب دے دیگا ” اذھبوا الی غیری “ کسی دوسرے کے پاس جاؤ بالآخر لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے جو اس کام کا بیڑا اٹھانے پر تیار ہوجائیں گے آپ مقام محمود پر سجدہ ریز ہوجائیں گے بعض روایات کے مطابق آپ ایک ہفتہ اور بعض کے مطابق دو ہفتہ تک مسلسل سجدے میں پڑے رہیں گے بعض تفسیری روایات میں دس سال کا ذکر بھی آتا ہے ، بہرحال اس عرصہ میں آپ اللہ تعالیٰ کی ایسے کلمات کے ساتھ تعریف و توصیف بیان کریں گے جو اللہ تعالیٰ اس وقت آپ کو الہام کرے گا ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” ارفع راسک یا محمد “۔ اے محمد ﷺ ! اپنا سرا ٹھائیے آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائیگی ، اور آپ سوال کریں آپ کو دیا جائے گا ، یہی شفاعت کبری ہے جو پوری مخلوق میں آپ کے حصے میں آئیگی ، بعض محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ امت کے حق میں بار بار سجدہ ریز ہو کر سفارش پیش کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کی سفارش قبول کرتا رہے گا اور لوگ عذاب سے نکلتے رہیں گے بہرحال اسی مقام کے متعلق یہاں اشارہ ہے کہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کریگا ، لہذا اسی انعام کے شکریہ کے طور پر آپ رات کی نماز (تہجد) ادا کریں ۔ (اصلاح نفس) مفسرین کریم نماز تہجد کی ایک اور حکمت بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کے ذریعے انسان کے نفس کی اصلاح ہوتی ہے جب تک اصلاح نفس نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلقات صحیح نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ایسا شخص دنیا کے اجتماعی نظام کو ٹھیک کرسکتا ہے ، نماز تہجد تربیت کا پہلا مرحلہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یہ تربیت مکمل کرکے ہی دنیا کی فرمانروائی کے لیے نکلتے تھے ، اگر تعلق باللہ درست نہیں ہے تو اجتماعی نظام میں خود غرضی ، ظلم وجور اور فتنہ و فساد کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ؟ لوگ مادی لحاظ سے کتنی بھی ترقی کر جائیں حتی کہ دوسرے سیاروں تک پہنچ جائیں مگر اصلاح نفس کے بغیر کوئی بھی درست طور پر کام نہیں کرسکتا ، ایسے لوگوں کی قیادت میں عیاشی ، فحاشی ، حق تلفی اور کھیل تماشہ تو ہو سکتا ہے مگر لوگوں کو امن اور چین نصیب نہیں ہو سکتا ، اس کام کے لیے اصلاح نفس کی تربیت حاصل کرنا ہوگی جس کا پہلا درس نماز تہجد ہے ۔
Top