Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
(اس دن کو دھیان میں لاؤ ) جس دن ہم بلائیں گے ہر ایک گروہ کو ان کے امام کے ساتھ پس جس کو دیا گیا اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں پس یہی لوگ ہیں جو پڑھیں گے اپنے اعمالنامے ، اور نہیں ظلم کیا جائے گا ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں باقی مخلوق پر انسان کی فطری برتری کا ذکر تھا ، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی اور اس کے لیے بری اور بحری سواریاں مہیا کیں ۔ اب انسان کو فضاؤں پر بھی تسلط حاصل ہے اور انہیں ہوا کے دوش پر تیز ترین سفر کی سہولتیں حاصل ہیں ، پھر فرمایا کہ ہم نے انسان کو روزی کے طور پر پاکیزہ اور عمدہ چیزیں عطا فرمائیں اور اس طرح اللہ کی مخلوق میں سے اکثریت پر اسے فضیلت عطا فرمائی اب اصل سوال یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو عزت افزائی کی ہے اس نے اپنے آپ کو کس حد تک اس کا اہل ثابت کرکے اسے قائم رکھا ہے ، آگے محاسبے اور جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے اس وقت پتہ چلے گا کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو ان نوازشات کا اہل ثابت کیا ہے یا اس نے اپنے آپ کو ذلیل ورسوا کرلیا ہے ، آج کی آیات اسی موضوع سے متعلق ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” یوم ندعوا کل اناس بامامھم “۔ اس وقت کی دھیان میں لاؤ جب ہم ہر گروہ اور فرقے کو اس کے امام کے ساتھ پکاریں گے ، اس وقت سے مراد وہ وقت ہے جب سب لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے اور محاسبہ اعمال شروع ہونے والا ہوگا ، اس وقت اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اپنی اپنی جماعت کے قائدین کے ساتھ آواز دیں گے کہ فلاں گروہ اور اس کے راہنما ادھر آجائیں اور فلاں فرقہ والے اپنے لیڈر سمیت اس طرف ہوجائیں ۔ مفسرین کرام نے لفظ ” امام “ کی مختلف تفسیریں کی ہیں جو سب کی سب درست ہیں بعض فرماتے ہیں کہ امام سے مراد اعمالنامہ ہے جس کا تسلسل آیت کے آگلے حصے میں بھی برقرار ہے ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام لوگ اپنے اپنے اعمالناموں کے ساتھ بلائے جائیں گے ، بعض مفسرین امام سے نبی مراد لیتے ہیں کہ ہر امت کو اپنے اپنے نبی کی قیادت میں طلب کیا جائے گا ، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” انی جاعلک للناس امام “ (البقرۃ ، 124) میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ، اسی طرح گویا میدان حشر میں اس طرح آواز دی جائے گی ” اے نوح (علیہ السلام) کی امت ” اے ابراہیم (علیہ السلام) کی امت “ اے محمد ﷺ کی امت “ اللہ کے دربار میں اپنے انبیاء سمیت پیش ہوجاؤ ۔ بعض فرماتے ہیں کہ امام سے مراد کتب سماویہ ہیں ہر امت کو ان کی کتاب کے ہمراہ پکارا جائے گا ” یا اھل التورۃ ، یا اھل الانجیل یا اھل الزبور ، اور یا اھل القران ادھر آکر اپنا اپنا محاسبہ پیش کرو۔ امام اس ہستی کو بھی کہتے ہیں جس کی اقتدا کی جائے اور جو کسی امت یا گروہ کا پیشوا ہو ، اس کی مثال حضور ﷺ کی سکھلائی ہوئی ختم قرآن کی دعا میں موجود ہے ، اے اللہ ! قرآن پاک کی برکت سے میری قبر میں انس کا سامان پیدا کر دے ، اے اللہ ! قرآن پاک کی برکت سے مجھ پر رحم فرما ” واجعلہ لی اماما ونورا وھدی ورحمۃ “ اور اسے میرے لیے امام ، نور ، ہدایت اور روشنی بنا دے ، اس دعا میں گویا قرآن پاک کو بھی امام کہا گیا ہے ، حضرت علی ؓ کی روایت کے مطابق امام سے مراد امام زماں یعنی اپنے اپنے دور کے پیشوا اور لیڈر بھی ہو سکتے ہیں اور ہر دور کے پیشوا سچے بھی ہو سکتے ہیں ، اور جھوٹے بھی امام ضلالت یعنی لوگوں کو گمراہ کرنے والے پیشوا بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جیسے شیطان کا اتباع کرنے والوں کو اس کے نام پر پکارا جائے گا کہ ادھر آ کر اپنا حساب کتاب چکاؤ ، یہ بڑا خوفناک منظر ہوگا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ امام ، ام کی جمع ہے جیسے خفاف خف کی جمع ہے اور ام کا معنی چونکہ ماں ہے لہذا امام کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی ماؤں کے نام پر پکارے جائیں گے ، یہ تفسیر مرجوع نہیں ہے کیونکہ زیادہ قوی روایات کے مطابق لوگوں کو باپ کے نام پر آواز دی جائے گی ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اچھے نام رکھا کرو اور برے اور شرکیہ نام سے پرہیز کرو البتہ جس کا باپ نہیں ہوگا ، اسے ماں کے نام سے پکارا جائے گا ، جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو (آیت) ” یعیسی ابن مریم “۔ کہہ کر بلایا جائیگا ، اسی طرح آدم (علیہ السلام) کا نہ باپ ہے اور نہ ماں ، لہذا انہیں قدم کے نام سے پکارا جائے گا یعنی اے آدم (علیہ السلام) ادھر متوجہ ہوں ، حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ ارشاد ہوگا ، جنتیوں اور دوزخیوں کو الگ الگ کر دو ، آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے ، مولا کریم ! دوزخی کتنے ہیں اور جنتی کتنے ؟ ارشاد ہوگا کہ ایک ہزار افراد میں سے نو سو (999) نناوے دوزخی ہیں جب کہ صرف ایک جنتی ہے ، بہرحال مفسرین نے لفظ امام کی مختلف تفسرین کی ہیں ۔ (اعمالناموں کی تقسیم) آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فمن اوتی کتبہ بیمینہ “۔ جس کو اس کی کتاب یعنی اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں مل گیا (آیت) ” فاولئک یقرء ون کتبھم “۔ پس وہ اپنے اپنے اعمال نامہ پڑھیں گے اور بڑے خوش ہوں گے ، سورة الحاقہ میں آتا ہے کہ ایسے لوگ اپنا اعمالنامہ دوسروں کو دکھا کر کہیں گے (آیت) ” ھآؤم اقرء واکتبیہ) دیکھو یہ اعمال نامہ پڑھو مجھے حساب کتاب کے عمل پر یقین تھا ، وہ آدمی سمجھے گا کہ مجھے پروانہ نجات مل گیا ، حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ میدان حشر میں اعمالنامے اڑیں گے اور اڑ کر کسی کے دائیں ہاتھ میں اور کسی کے بائیں میں پہنچیں گے کسی شخص کو اس کا اعمالنامہ سامنے سے ملے گا اور کسی کو پیچھے سے ۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان میں سے ایک شخص کا قد دراز فرمائیں گے ، اس کا چہرہ نورانی ہوگا اور اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دے دیا جائے گا ، وہ اعمالنامہ لے جب اپنی جان پہچان والے لوگوں کے پاس پہنچے گا ، تو وہ بھی اسے دیکھ کر خوش ہوں گے وہ شخص ان سب کو خوشخبری دے گا کہ تم بھی میری طرح خوش نصیب ہو جنہیں ان کے اعمالنامے دائیں ہاتھ میں ملنے والے ہیں اور یہ کامیابی کی علامت ہے اس کے برخلاف جس شخص کو اعمالنامہ بائیں ہائیں ہاتھ میں ملے گا اس کا چہرہ سیاہ اور شکل منحوس ہوجائے گی ، جب وہ اپنے لوگوں کے قریب پہنچے گا تو وہ کہیں گے کہ تم منحوس ہو ، ہمارے قریب نہ آنا وہ کہے گا کہ میں تو منحوس ہوں مگر تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہونے والا ہے غرضیکہ اعمالناموں کی تقسیم کی یہ کیفیت بھی بیان کی گئی ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ حشر میں بعض مواقع ایسے بھی آئیں گے جب کوئی کسی کی طرف دھیان نہیں کرے گا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ملیں گے ، وہ بڑے خوش ہوں گے اور دوسروں کو بھی دکھائیں گے مسلم شریف کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جو لوگ جس جس معبود کی پوجا کرتے تھے ، ان کے پیچھے لگ جاؤ وہ سب اپنے اپنے معبود کے پیچھے قطار بنا لیں گے جو انہیں لے کر سیدھا جہنم میں پہنچا دے گا سورج ، چاند درخت اور پتھروں کے پجاریوں کے معبود ان کے سامنے متشکل ہو کر آئیں گے اور جہنم تک پہنچا دیں گے جن لوگوں نے اپنے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی پرستش کی ان سے دوسرے طریقے سے بات کی جائیگی ، یہودی اور عیسائی شدت پیاس کی وجہ سے پانی طلب کریں گے تو انہیں سراب دکھایا جائیگا کہ جاؤ ادھر پانی ہے جب وہ پانی کی تلاش میں اس طرح جائیں گے تو آگے جہنم ہوگا ۔ فرمایا کہ جن کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ، وہ اسے پڑھ کر خوش ہوجائیں گے (آیت) ” ولا یظلمون فتیلا “۔ اور ان پر دھاگہ برابر بھی زیادتی نہیں کی جائے گی ہر شخص کو اس کے عقیدہ اور عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائیگی فتیل اس بتی کو بھی کہتے ہیں جو چراغ میں ڈالی جاتی ہے ، اور کھجور کی گٹھلی کی دارڑ میں جو باریک سا دھاگہ ہوتا ہے اسے بھی فتیل کہتے ہیں تو فرمایا ایک باریک دھاگے کے برابر بھی کسی سے ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ (حشر میں اندھا پن) فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” ومن کان فی ھذہ اعمی “۔ جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا (آیت) ” فھو فی الاخرۃ اعمی “۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھایا جائے گا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس اندھا پن سے مراد ظاہری آنکھوں کی بینائی سے محروم نہیں ، کیونکہ یہ محض عوارض کی بنا پر ہوتا ہے ، بلکہ اندھے سے مراد وہ آدمی ہے جو اس دنیا میں ہدایت کے راستے سے محروم رہا ، اللہ نے دنیا میں ہدایت کے تمام اسباب مہیا کردیے تھے انسان کو عقل اور سمجھ عطا کی ، اس کی راہنمائی کے لیے کتابیں اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے ، ہادی اور منذر بھیجے پڑھانے اور سکھلانے والے بھیجے ، اس کے باوجود جو شخص دنیا میں ہدایت کے راستے کو نہ پاسکا ، وہ اگرچہ ظاہری آنکھیں رکھتا ہے مگر اس کے دل کی آنکھیں نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ بصیرت سے محروم ہے ۔ سورة حج میں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور “۔ انکی ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہوتے ہیں ۔ بہرحال اللہ نے دنیا میں ہدایت کے تمام وسائل مہیا کردیے ہیں تاکہ کل کو کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے پتہ نہیں چلا یا مجھے کسی نے سمجھایا نہیں اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اردگرد ہزاروں اور لاکھوں ایسی نشانیاں بکھیر دی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لاسکتا ہے ، اس کے باوجود جو شخص اس دنیا میں راہ ہدایت سے محروم رہا وہ آخرت میں امن وسلامتی کے راستے سے محروم رہ جائے گا ، اس کے سامنے تباہی ، بربادی ، اور جہنم کا راستہ ہوگا اور نجات کے راستے کی طرف سے اندھا ہی رہے گا ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہاں پر ہدایت کی راہ سے اندھا رہا ، وہ آخرت میں بہشت کو راہ سے اندھا رہے گا ، بہشت کی راہ اس سے بہت دور ہوگی جہاں وہ کبھی نہیں پہنچ سکے گا ۔ فرمایا ایسا شخص آخرت میں اندھا ہوگا (آیت) ” واضل سبیلا “۔ اور بہت زیادہ گم کردہ راہ ہوگا ، جب تک انسان اس دنیا میں موجود ہے ، اس کے پاس تلافی کے ذرائع موجود ہیں ، وہ توبہ کرکے اور ایمان صالح سے مالا مال ہو کر راہ ہدایت حاصل کرسکتا ہے مگر آخرت میں پہنچ کر یہ امکان بھی ختم ہوجائے گا ، وہاں پر انسان کی عملی دنیا ختم ہوچکی ہوگی اور وہ صرف جزا کے عمل سے گزرے گا ، پچھلی سورة النمل میں گزر چکا ہے کہ جس دن ہم ہر امت سے گواہ اٹھائیں گے اس دن کافروں کو بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی (آیت) ” ولا ھم یستعتبون “۔ اور نہ انہیں کوئی موقع دیا جائیگا کہ وہ اپنے پروردگار کو مناسکیں ، اس وقت وہ شخص پریشانی میں مبتلا ہوں گے ، ایسے لوگوں کے لیے اسی دنیا میں موقع ہے کہ وہ راہ راست پر آجائیں ، وگرنہ آخرت میں وہ بہت ہی گمر کردہ راہ ہوں گے ۔
Top