Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور البتہ تحقیق ہم نے عزت بخشی ہے اولاد آدم کو اور ہم نے ان کو سواری دی ہے خشکی اور سمندر میں اور ہم نے روزی دی ہے ان کو پاکیزہ (اور عمدہ سے عمدہ ) چیزوں سے اور ہم نے ان کو فضیلت بخشی ہے بہت سی مخلوق پر جس کو ہم نے پیدا کیا ہے بڑی فضیلت
ربط آیات : پہلے اللہ نے شرک کا ابطال اور توحید کا اثبات بیان کیا ، پھر انسان کی عاجزی اور بےچارگی کا ذکر کیا کہ مصیبت کے وقت وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کو پکارتے ہیں مگر جب وہ مصیبت دور ہوجاتی ہے تو دوبارہ شرکیہ کام کرنے لگتے ہیں اللہ نے فرمایا ہے کہ انسان بہت ہی ناشکر گزار ہے اس کے بعد اللہ نے وعید سنائی کہ لوگوں کو اس بات سے بےفکر نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں خشکی میں دھنسا دے یا دوبارہ سمندر میں جانے پر مجبور کر دے اور وہیں ان کو ڈبو دے ، اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہوگا ۔ (شرف انسانیت) گذشتہ سے پیوستہ درس میں گزر چکا ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا ” ء رایتک ھذا الذی کر مت علی “۔ مجھے بتلا ؤ کہ کیا تم نے اس شخص (آدم علیہ السلام) کو مجھ پر فضیلت بخشی ہے ، اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے دے تو میں اس کی اولاد کو گمراہ کرتا رہوں گا ، شیطان کے اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آج کی آیت کریمہ میں اولاد آدم کی فضیلت کا ذکر فرمایا ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد کرمنا بنی آدم “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت اور بزرگی بخشی ہے آیت کے آگلے حصے میں اللہ نے اس فضیلت کی بعض باتوں کا ذکر بھی فرمایا ہے ۔ (فضیلت عامہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو فضیلت بخشی ہے ، وہ دو قسم سے ہے فضیلت عامہ تو عام بنی نوع انسان کو حاصل ہے جس میں اہل ایمان اور کافر مشرک سب شامل ہیں ، جب کہ فضیلت خاصہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو عطا فرمائی ہے ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت عطا کر کے اسے باقی مخلوق پر فضیلت بخشی ہے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے عقل کو پیدا کر کے فرمایا سامنے آؤ وہ سامنے آئی ، پھر اللہ نے فرمایا پیچھے ہٹ جاؤ وہ پیچھے ہٹ گئی پھر اللہ نے فرمایا میں جو کچھ بھی انسان کو دوں گا تیری وجہ سے ہی دوں گا اور تیری وجہ سے ہی مؤاخذہ کروں گا تو گویا انسان عقل کی وجہ سے ہی مکلف ہے فرشتے اگرچہ ہٹ گئی پھر اللہ نے فرمایا میں جو کچھ بھی انسان کو دوں گا تیری وجہ سے ہی دوں گا اور تیری وجہ سے ہی مؤاخذہ کروں گا ، تو گویا انسان عقل کی وجہ سے ہی مکلف ہے فرشتے اگرچہ اللہ کی مقدس ترین مخلوق ہیں اور صاحب عقل بھی ہیں مگر ان میں شہوت کا مادہ مفقود ہے جس کی وجہ سے ان کا محاسبہ بھی نہیں ہے کیونکہ ان کی طرف سے اللہ کی نافرمانی کا کوئی امکان نہیں ۔ امام ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو اس لیے فضلیت بخشی ہے کہ اسے زبان حاصل ہے جسکی بنا پر یہ گفتگو کرتا اور اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتا ہے پرانے یونانی منطقی انسان کو حیوان ناطق یعنی بولنے والا جاندار کہتے تھے یہ ایسا کمال ہے جو کسی دوسری مخلوق چرند ، درند ، پرند وغیرہ کو حاصل نہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) انسان کی تعریف زیادہ بہتر طریقے پر کرتے ہیں ” الذی یتفکر ویعمل بالالات “۔ یعنی انسان وہ ہستی ہے جو غور وفکر کرتی ہے اور کام کاج کے لیے آلات استعمال کرتی ہے ، اب خوردونوش میں ہاتھوں کا استعمال بھی انسان کی ہی خصوصیت ہے ، دیگر جانور اور پرندے اپنی خوراک منہ سے کھاتے ہیں جب کہ یہ شرف صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ ہاتھوں سے پکڑ کر خوراک منہ میں ڈالتا ہے ، عبداللہ بن عباس ؓ کی توجہیہ ہے ۔ صاحب ” کتاب الخراج “ امام ابو یوسف خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے دور میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے ، آپ متقی محدث اور فقیہہ تھے ، ایک دفعہ ہارون الرشید نے کھانے کی مجلس قائم کی جس میں امام صاحب (رح) بھی مدعو تھے ، خلیفہ نے کھانے کے ساتھ دسترخوان پر چمچے بھی رکھوائے تاکہ حسب ضرورت مہمان انکو بھی استعمال کرسکیں جب امام صاحب (رح) نے یہ دیکھا تو خلیفہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے جد امجد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے تو یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کے لیے انگلیاں بنائی ہیں اور ہم نے اولاد آدم کو فضیلت بخشی ہے لہذا انگلیوں کے ساتھ کھانا کھانا ہی انسان کا کمال ہے اور چمچوں کا استعمال محض تکلف ہے خلیفہ ہارون الرشید پر اس نصیحت کا اس قدر اثر ہوا کہ اس نے فورا دسترخوان سے چمچے اٹھوا دیے ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے کیونکہ ساری انگلیوں کا استعمال حرص کی علامت ہے ۔ (انسان کے جسمانی کمالات) انسان کے شرف کی یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی اور روحانی کمالات عطا فرمائے ہیں ، انسان کا اولین جسمانی کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا ، سورة ص میں اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” مامنعک ان تسجد لما خلقت بیدی “ اے ابلیس ! جس ہستی کو میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا اس کے سامنے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا ، حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص کو روایت میں جسے امام طبرانی (رح) نے بیان کیا اور امام ابن کثیر (رح) نے نقل کیا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے ۔ ” ان الملئکۃ قالت یاربنا اتیت بنی ادم الدنیا یاکلون فیھا ویشربون ویلبسون ونحن نسبح بحمدک ولا ناکل ولا نشرب ولا نلھون کما جعلت لھم الدنیا فاجعل لنا الاخرۃ قالء اجعل صالح ذریۃ من خلقت بیدیہ کمن قلت لہ کن فیکون “۔ بیشک فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ! اولاد آدم کو تو نے دنیا عطا کی ، وہ دنیا میں کھاتے پیتے اور لباس پہنتے ہیں اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور نہ کھاتے ہیں اور پیتے ہیں اور نہ کھیل کود کرتے ہیں تو جس طرح تو نے اولاد آدم کے لیے دنیا بنا دی اس طرح ہمارے آخرت بنا دے ، اللہ نے فرمایا کیا میں اپنے ہاتھ سے پیدا کردہ ہستی کی نیک اولاد کو ان کے برابر کر دوں جن کو میں نے کن ” ہوجاؤ “ تو وہ ہوگئے ؟ اللہ نے نوع انسانی کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے (آیت) ” ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشآء “۔ (آل عمران) خدا تعالیٰ وہ ہے جو شکم مادر میں تمہاری تصویر بناتا ہے جس طرح چاہے ، انسان کی شکل و صورت قطرہ آب پر بن جاتی ہے کیا یہ کم شرف انسانیت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حسن صورت بھی عطا فرمائی ہے روئے زمین کی تمام مخلوق میں انسان خوبصورت ترین ہستی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورة التین میں فرمایا ہے (آیت) ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم “۔ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت عطا کی ، اس کا یہ بھی احسان ہے کہ انسان کو سیدھا قد عطا کیا ، حالانکہ مخلوق میں سے کچھ جاندار ٹیڑھے ہیں کچھ چار پاؤں پر جھکے ہوئے ہیں اور کچھ بالکل زمین کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو پاؤں دیے اور اس کا سراونچا رکھا حکماء کہتے ہیں کہ سر کی بلندی کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا مقصد بھی بلند ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تک پہنچنا انسانی جسم کے اعضا کی جوڑ بندی بھی کمال درجے کی ہے ہر عضو اپنی اپنی جگہ کمال طریقے سے موزوں کیا ہے اور اس کا رخ بھی سامنے کی طرف کردیا ہے ، انسان میں موجود روح الہی اور نفس ناطقہ بھی کمال درجے کی چیز ہے ، غذا کے معاملے میں بھی انسان کو دوسری مخلوق پر فوقیت حاصل ہے ، یہ اناج اور پھل کا مغز استعمال کرتا ہے جب کہ چھلکا وغیرہ دوسرے جانوروں کی خوراک بنتا ہے اللہ نے انسان کا سلسلہ تولید بھی کمال درجے کا مقرر کیا ہے ، انسان کو یہ سارے شرف حاصل ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو کمال درجے کا متمدن بنایا ہے ، یہ نظافت پسند ہے اور طہارت اس کی فطرت میں داخل ہے جانور کے آگے گندی جگہ پر بھی چارہ رکھ دیا جائے تو کھا لیتا ہے مگر انسان کسی گندے برتن میں بھی کھانا پسند نہیں کرتا ، حضور ﷺ چمڑے کا دسترخوان زمین پر بچھا کر کھانا کھاتے تھے ۔ انسان کو دوسری مخلوق پر اس لحاظ سے بھی شرف حاصل ہے کہ اللہ نے اس میں فہم ، تمیز اور تحقیق وتجسس کا مادہ بھی رکھا ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقت کو سمجھتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو مزید شرف اس لحاط سے دیا ہے کہ اسے دوسری چیزوں پر تسلط حاصل ہے ، انسان تمام جانوروں ، درختوں ، ہواؤں ، پتھروں اور پانیوں سے کام لیتا ہے اللہ نے اسے حکومت کر نیکی استعداد بھی بخشی ہے انسان اپنے لیے معیشت کی تدبیر بھی کرتا ہے اور آخرت کی تدبیر بھی انسان عقل وفہم کی بناء پر اچھے اعتقادات اور عمدہ اخلاق بھی حاصل کرسکتا ہے ۔ اللہ نے انسان کی روح میں نور معرفت کا مادہ بھی رکھا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے ، البتہ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی غلطی کے نتیجے میں اس نور معرفت کو ضائع کردے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے اکثر لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے ، اللہ نے انسان کو یہ فضیلت بھی عطا کی ہے کہ اسے لکھنا پڑھنا سکھایا جس سے دوسرے جاندار بےبہرہ ہیں ظاہری شکل و صورت میں اللہ نے مردوں کے لیے داڑھی اور عورتوں کے لیے بالوں میں حسن رکھا ہے انسان کے مزاج میں اعتدال رکھا ہے جو کسی دوسری ہستی میں نہیں ہے ، انسان کو صنعت وحرفت کی اعلی درجے کی استعداد عطا کی ہے جس کی بناء پر لاکھوں اور کروڑوں اشیاء تیار کرتا ہے یہ عام فضیلت کی باتیں ہیں جن میں مومن ، کافر یا برے بھلے کی تمیز نہیں ہے ۔ (انسان کے روحانی کمالات) اللہ تعالیٰ نے انسان میں بہت سے روحانی کمالات بھی رکھے ہیں مثلا اولین کمال یہ ہے کہ اس نے انسان کا ڈھانچہ بنا کر اس میں جان پھونکی ، پھر اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اس کی تمام اولاد کو نکال کر ان سے عہد لیا (آیت) ” الست بربکم قالوا بلی “۔ (الاعراف) بھلا بتلاؤ تو کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تو سب روحوں نے بیک زبان کہا کیوں نہیں ؟ مولا کریم تو ہی ہمارا رب ہے ، پھر اللہ نے یہ روحانی شرف بھی بخشا کہ بنی نوع انسان میں نبوت کا سلسلہ رکھا اللہ نے ان کی طرف اپنے رسول اور کتابیں بھیجیں ، خدا کے مقرب بندے اولیاء بھی ان کی روحانی تربیت کے لیے آتے رہے ۔ اللہ نے انہیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مشرف کیا ، آداب اور اخلاق سکھائے ، عالم بالا اور عالم لاہوت کی طرف ترقی عطا فرمائی ، حظیرۃ القدس اور مقام علیین تک رسائی نصیب فرمائی ، اور اس طرح بنی نوع انسان خصوصا اہل ایمان کو عزت بخشی ، قرآن میں اللہ نے ایمانداروں کو خیرالبریہ یعنی مخلوق کا بہترین حصہ اور کافروں کو شرالبریہ یعنی بدترین مخلوق قرار دیا ہے ۔ اب اللہ نے تو فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت اور شرف بخشا ہے مگر شیطان لعین ہے جس نے سب سے پہلے اولین انسان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کی توہین کی اور کہا کیا اس مٹی کے پتلے کو تو نے مجھ پر فضیلت بخشی ہے ؟ (آیت) ” قال انا خیر منہ “۔ میں اس سے برتر ہوں کیونکر مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے جب کہ آدم کو خاک سے ، اس کے بعد کافروں نے اللہ کے پاک نبیوں کا انکار کیا ، بڑی حقارت سے کہتے تھے (آیت) ” ابشر یھدوننا “۔ (التغابن) کیا یہ انسان ہماری راہنمائی کرے گا ، ہم نہیں مانتے ، حالانکہ بشر کو اللہ تعالیٰ نے بڑا شرف عطا کیا ہے ، خاص طور پر اگر اسے ایمان کی دولت حاصل ہے تو وہ سب سے برتر ہے ، تاہم رسولوں کی بشریت کا انکار مشرکانہ عقیدہ ہے ۔ (انسان کے لیے سواری کا انتظام) آگے اللہ تعالیٰ نے انسان پر ایک اور احسان کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” وحملنھم فی البر والبحر “۔ اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سواری مہیا کی ، جانوروں کی سواری صرف انسان ہی کے لیے اللہ بنائی ہے ، خود جانور ایک دوسرے کی سواری نہیں بنتے ، انسان کے نقل وحمل کے لیے خشکی پر اونٹ ، گھوڑے ، خچر اور گدھے وغیرہ ہیں جب کہ سمندروں اور دریاؤں میں سفر کے لیے اللہ تعالیٰ نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز بنا دیے ہیں ، جن کا ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے ، آج کے زمانہ میں زمینی سفر کے لیے بیشمار قسم کی سواریاں موجود ہیں بائیسکل ، موٹر سائیکل کار ‘ ریل گاڑی اور بڑی بڑی بسیں انسان کی خدمت کے لیے موجود ہیں اب تو ہوا کو بھی اللہ نے ہر انسان کے لیے مسخر کردیا ہے (آیت) ” تصریف الریح والسحاب المسخربین السمآء والارض “۔ (البقرۃ ۔ 164) پہلے زمانے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مثال موجود ہے کہ انہیں ہواؤں پر مکمل تسلط حاصل تھا آپ کا تخت اور فوج بغیر پٹرول کے ہوا کے دوش پر سفر کرتا تھا آج یہ سہولت تمام لوگوں کو حاصل ہے ، اب ہوائی سفر دنیا کا تیز ترین سفر ہے جسے فوجی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے بری بحری اور ہوائی سفر کی سواریاں مہیا فرمائی ہیں ، یہ بھی اس کے شرف کی علامت ہے ۔ (پاکیزہ روزی) فرمایا اللہ نے انسان کو اس لحاظ سے بھی برتری عطا فرمائی ہے (آیت) ” ورزقنھم من الطیبت “۔ کہ اسے پاک ستھری اور عمدہ روزی عطا کی جو کسی دوسرے جاندار کو میسر نہیں ، ہر سبزی ، پھل اور اناج کا بہترین گودا انسان کی خوراک ہے جب کہ چھلکا اور بھوسہ وغیرہ جانوروں کی خوراک بنتا ہے فرمایا (آیت) ” وفضلنھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا “۔ اور ہم نے اپنی بہت سی پیدا کردہ مخلوق پر انسان کو فضیلت بخشی ، بہت بڑی فضلیت ، ظاہر ہے کہ اللہ نے انسان کو حسن صورت ، عقل اور تدبیر سے نوازا ، دنیوی اور اخروی مفاد کو سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ، دوسری مخلوق اس کے تابع کردی ہر قسم کی سواری مہیا کی ، آرائش و آرام کے لیے عمدہ لباس ، اعلی مکانات اور باغات عطا فرمائے ، پھر آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں سے سجدہ کروایا ، یہ سب شرف انسانی کی علامات ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائیں ،۔ (حقیقی شرف) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس تمام تر عزت وشرف کے باوجود انسان کو حقیقی عزت و تکریم اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے خالق ومالک کے قانون کی پابندی اختیار کرے گا ، اللہ کے ہاں کامیابی انہی کو حاصل ہوگی ، جو اللہ تعالیٰ پر صدق دل سے ایمان لائیں گے ، قیامت پر یقین رکھیں گے ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا اتباع کریں گے ، اور اس کے احکام کا اتباع کریں گے فرمایا جو ایمان اور نیکی سے خالی ہوں گے (آیت) ” ثم رددنہ اسفل سفلین “۔ (التین) وہ نہایت ہی پستی میں چلے جائیں گے ۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام حاشیے میں لکھتے ہیں کہ مفسرین نے اس موقع پر یہ بحث بھی چھیڑی ہے کہ فرشتوں اور بشر میں افضل کون ہے ؟ فرماتے ہیں کہ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتی ، تاہم امام ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے پیروکار کہتے ہیں کہ انسانوں کے رسول فرشتوں کے رسولوں سے بہتر ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام جبرائیل ، میکائیل وغیرہ سے افضل ہیں ، اور عام ایماندار عام فرشتوں سے افضل ہیں ، اس کے علاوہ عام مخلوق سے باقی فرشتے افضل ہیں مطلب یہ ہے کہ عام انسانوں میں سے بھی جو ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں وہ عام فرشتوں سے برتر ہیں ، اور جن کو ایمان نصیب نہیں ہوا ، ان سے عام فرشتے افضل ہیں ۔
Top