Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
(اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ بلاؤ تم ان کو جن کو تم اللہ کے سواء خیال کرتے ہو پس نہیں مالک وہ تکلیف دور کرنے تم سے اور نہ تبدیل کرنے کے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی کہ وہ مشرکین سے عداوت کی بناء پر اپنی زبانوں سے کوئی غلط بات نہ نکالیں ، بلکہ ہمیشہ اچھی بات کریں شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان جھگڑا کرکے اپنا الو سیدھا کرے کیونکہ وہ انسان کا صریح دشمن ہے ، فرمایا شیطان کے پیچھے لگتے کی بجائے ہمیشہ سچی بات کریں پھر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو خطاب فرمایا کہ آپ اس بات کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ ہر شخص ضرور ہی ہدایت قبول کرے ، آپ کا کام تبلیغ کرنا اور لوگوں کو سمجھانا ہے آپ اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اس نے بعض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بعض پر فضیلت بخشی ہے خاص طور پر داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کیا کہ انہیں خلافت عطا کی صاحب نبوت اور صاحب جہاد بنایا اور اسی طرح نبی آخر الزمان کو صاحب کتاب و جہاد بنایا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضور خاتم النبیین ﷺ امور خلافت انجام دینے کے باوجود اللہ کے سب سے زیادہ عبادت گزار بندے تھے ، دنیا کے کام ان کے تعلق باللہ میں حائل نہیں ہوئے ۔ (آیت) ” معبودان باطلہ کی بےبسی) اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ کی پرستش کرنے اور اس کی اپنی حاجات میں پکارنے والے مشرکین کا رد فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قل ادعوا الذین زعمتم من دونہ “۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ ان مشرکین سے کہہ دیں کہ اللہ کے سوا تم جن کے متعلق گمان کرتے ہو ، کہ وہ تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتے ہیں ، انکو پکارو ، ان کی مدد کے لیے بلاؤ اور پر دیکھ لو۔ (آیت) ” فلا یملکون کشف الضر عنکم ولا تحویلا “۔ کہ وہ اس بات کے مالک نہیں ہیں کہ تم سے کوئی تکلیف دور کرسکیں یا اسے تبدیل کرسکیں ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ تمہارے معبود خواہ فرشتے ہوں ، جنات ہوں ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہوں یا اولیاء کسی کو بھی پکار کر دیکھ لو ، وہ تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکیں گے ، فرشتے تو اللہ کی پاک مخلوق ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حد تک اختیار بھی دے رکھا ہے مگر وہ بھی وہی کام کرتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ انہیں حکم دیتا ہے ، خود بخود وہ کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں کرسکتے یہی حال انسانوں اور جنوں کا ہے ، وہ بھی مافوق الاسباب کسی کی مدد نہیں کرسکتے کہ کسی بیمار کو شفاء عطا کردیں کسی ملزم کو بری کرا دیں یا کسی کو حادثے سے بچا سکیں ، نفع ونقصان تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، وہ چاہے گا تو تکلیف کو دور کر دے گا اور چاہے گا تو نقصان میں ڈال دے گا البتہ جن کو تم پکارتے ہو وہ کوئی تکلیف دور کرنے یا اسے تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہیں تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو مصیبت میں کمی کردی یا ایک کی تکلیف دوسرے پر ڈال دیں فرمایا یہ ان کے بس کی بات نہیں جب فرشتوں ، انسانوں اور جنوں کو یہ اختیار حاصل نہیں جن کو اللہ نے کسی حد تک اختیار بھی دیا ہے تو پھر پتھروں ، درختوں اور بتوں سے یہ کسی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جو کہ خود بےجان اور حرکت کرنے سے بھی عاجز ہیں ، بھلا وہ ان کے کام کیسے آسکتے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” اولئک الذین یدعون “ جن کو یہ لوگ اپنی حاجتوں میں پکارتے ہیں ، انکی حالت تو یہ ہے (آیت) ” یبتغون الی ربھم الوسیلۃ “۔ وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ایھم اقرب “ کہ کون ان میں زیادہ قریب ہو ، بخاری شریف میں موجود ہے کہ دور جاہلیت میں بعض مشرکین جنات کی پوجا کرتے تھے اور ان کو اپنی حاجات میں پکارتے تھے جب حضور ﷺ کی بعث ہوئی تو یہ جن تو مسلمان ہوگئے مگر مشرک لوگ بدستور ان کی پرستش کرتے رہے اسکے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ! جن کو یہ مشرک پکارتے ہیں وہ تو ایمان لے آئے ہیں اور خدا کے قریب کے لیے وسیلہ کے متلاشی ہیں ، مگر یہ مشرک لوگ ابھی تک انہی کی پوجا کیے جا رہے ہیں یہ کتنی حماقت کی بات ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرب کا بہترین وسیلہ ایمان اور نیک اعمال ہیں تو جن کو مشرک پکارتے ہیں ، وہ کود ایمان لانے کے بعد نیک اعمال انجام دے رہے ہیں تاکہ اللہ کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہوجائے ، بعض مفسرین (آیت) ” ایھم اقرب “۔ کا یہ معنی بھی کرتے ہیں کہ جو زیادہ مقرب ہیں وہ بھی مزید تقرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ ڈھونڈ رہے ہیں مگر یہ بدبخت انہیں کی پوجا کیے جا رہے ہیں ، جب مقربین بھی وسیلہ کے متلاشی ہیں تو دور والوں کا کیا حال ہوگا وہ تو قرب الہی کے زیادہ محتاج ہیں ، ایسے لوگوں کو حاجات میں پکارنا تو ویسے ہی قرین قیاس نہیں ۔ فرمایا اللہ کے یہ مقربین اس کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں (آیت) ” ویرجون رحمتہ “۔ اور ساتھ ساتھ رحمت خداوندی کی امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ ضرور انہیں اپنی رحمت سے نوازے گا (آیت) ” ویخافون عذابہ “ اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوفزدہ بھی ہیں کیونکہ (آیت) ” ان عذاب ربک کان محذورا بیشک تیرے پروردگار کا عذاب ایسی چیز ہے کہ اس سے خوف ہی کھانا چاہئے ۔ (وسیلہ کے مختلف معانی) وسیلہ کا لفظ سورة المائدہ میں بھی موجود ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ “ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو ، وسیلہ کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلا اس سے وہ چیز مراد ہوتی ہے جس کے ذریعے دوسرے کا قرب حاصل کیا جائے ، وسیلہ کا ایک معنی حاجت بھی ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد حضرت نافع (رح) نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت وسیلہ کا کیا معنی ہے ؟ آپ نے فرمایا حاجت انہوں نے پھر دریافت کیا کہ کیا عربی زبان میں اس کا کوئی ثبوت موجود ہے آپ نے فرمایا ، ہاں ! کیا تم نے زمانہ جاہلیت کے عربی شاعر ابن شداد کا یہ یہ شعر نہیں پڑھا ؟ ان الرجال لھم الیک وسیلۃ ان یاخذوک تکحلی وتخضبی : عشق و محبت کے تعلق سے شاعر عورت کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ مردوں کو تیری حاجت ہے لہذا تم آنکھوں میں سرمہ اور ہاتھوں میں مہندی لگا کر بن سنور کر رہا کرو ، ان معانی میں (آیت) ” وابتغوا الیہ الوسیلۃ “ کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے رب کے ہاں حاجت طلب کرو۔ وسیلہ کا ایک معنی درجہ اور مرتبہ بھی ہے جیسا کہ آذان کے بعد والی دعا میں سکھایا گیا ہے ” ات محمد الوسیلۃ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ اے پیغمبر ! ﷺ نبی رحمت کو اعلی ترین مرتب عطا فرما حضرت مولانا شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ وسیلہ حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سے بلند ترین مقام کا نام ہے ۔ (توسل بالاعمال) ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آیا دعا میں کسی کا توسل جائز ہے یا نہیں ، توسل دو قسم کا ہے توسل بالاعمال یہ ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے کہ مولا کریم ! میں نے فلاں نیک کام تیری رضا کی خاطر کیا تھا ، اگر تجھے یہ منظور ہے تو اس کی برکت سے میرا فلاں کام کر دے ، یا فلاں تکلیف رفع کرے دے ، بخاری شریف کی روایت میں تین آدمیوں کا ذکر آتا ہے جو کسی غار میں پھنس کر رہ گئے تھے ، غار کے منہ پر ایک بڑا پتھر آگرا تھا جس کی وجہ سے باہر نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا جب وہ لوگ ظاہری اسباب سے بالکل مایوس ہوگئے تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے ایک ایک نیک عمل کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے رہائی کی دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس پتھر کو غار کے منہ سے سرکا دیا اور وہ تین آدمی باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے یہ توسل بالاعمال ہے اور سب کے نزدیک جائز ہے ۔ (توسل بالذات (1) جائز وسیلہ) اپنی دعا میں کسی کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا دو طرح سے ہے ایک طریقہ وہ ہے جو مشرک لوگ اختیار کرتے ہیں وہ اپنے معبودان باطلہ کو اللہ کی بارگاہ میں اس طرح وسیلہ بناتے ہیں کہ خدا تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، یہ معبود ہمارا کام ضرور بنا دیں گے ، اس قسم کے تسل کو شفیع غالب یا شفیع قاہر کا عقیدہ کہا جاتا ہے جسے مشرک اختیار کرتے ہیں اور یہ باطل اور ناجائز ہے مشرک اپنے معبودان کے متعلق کہتے تھے (آیت) ” مانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی “۔ (الزمر) ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیں ، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ معبود ہماری حاجتیں اللہ سے پوری کرا دیتے ہیں ، یہی عقیدہ یہودیوں کا بھی تھا وہ بھی کہتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کسی ختنہ شدی یہودی کو دوزخ میں نہیں گرنے دیں گے ، بلکہ اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے اس قسم کا عقیدہ امت مسلمہ کے بعض فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ امام حسین ؓ کا نعرہ مار لینے ان کا جلوس نکالنے اور ماتم کرنے سے ہی نجات حاصل ہو جائیگی انہیں نہ نماز کی فکر ہے ، نہ روزے کی ، نہ حج کی اور نہ زکوۃ کی ، وہ امام حسین ؓ کی خود ساختہ محبت کی بناء پر ہی جنت کے وارث بننا چاہتے ہیں بعض اپنے پیروں کے متعلق بھی اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا عرس کرلو ختم دلادو اور قوالی کرا دو تو بات بن جائے گی ، باقی کسی فرض واجب کی ضرورت نہیں یہ جبری شفاعت والا مشرکین کا عقیدہ ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں کہ جب طرح کوئی بادشاہ اپنے امیر وزیر یا مصاحب کی بات کو نہیں ٹال سکتا کہ ایسا کرنے سے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے ، اسی طرح (نعوذ باللہ) وہ اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے مقربین کے سامنے مجبور سمجھتے ہیں کہ وہ انکی سفارش کو رد نہیں کرے گا ، حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، اس کی مشیت میں کوئی دم نہیں مار سکتا بلکہ اس کا فرمان تو یہ ہے (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “۔ (البقرۃ) اس کے حکم کے بغیر تو کوئی ذات اس کے سامنے سفارش کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکتی چہ جائیکہ اس سے کوئی بات زبردستی منوا سکے ۔ (2) (جائز وسیلہ) البتہ ذات کا ایک توسل جائز بھی ہے مثلا کوئی شخص مستعان اور معبود صرف ذات حق کو سمجھتے ہوئے یوں کہے کہ اے اللہ ! ملائکہ ، انبیاء یا اولیاء کے وسیلہ سے میری یہ حاجت پوری کر دے ، کسی نبی ، ولی والے سے براہ راست طلب کرنا تو بلاشبہ شرک ہے مگر ان کا محض وسیلہ ڈالنا روا ہے ، حضرت شاہ اسماعیل شہید (رح) نے تقویۃ الایمان میں لکھا ہے کہ لوگ یہ وظیفہ پڑھتے ہیں ’ یاشیخ عبدالقادر جیلانی شیئا اللہ “ یعنی اے پیر عبدالقادر جیلانی خدا کے واسطے سے ہمیں کوئی چیز دے دے فرماتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے سامنے وسیلے کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اس وظیفہ کو الٹ دیا جائے اور یوں کہا جائے ، یا اللہ شیئالشیخ عبدالقادر جیلانی “ یعنی اے اللہ ! شیخ عبدالقادر جیلانی کے وسیلہ سے ہماری حاجت پوری کردے تو یہ درست ہوگا ، اسی طرح کوئی شخص کہتا ہے کہ اے اللہ ! سید علی ہجویری (رح) کی برکت سے میرا یہ کام کر دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سید تیرا ایک مقبول بندہ تھا میں ان کو اپناہادی و راہنما سمجھ کر ان سے محبت کرتا ہوں ، میری ان سے محبت اور تعلق ہی میرا عمل ہے جس کا میں وسیلہ پیش کر رہا ہوں ، لہذا میری مراد پوری فرما دے اس وسیلہ کو علماء دیوبند بالاتفاق جائز قرار دیتے ہیں ، مولانا حسین علی (رح) واں بھچراں والے فرماتے ہیں کہ کسی نیک آدمی کی ذات کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے ، وہ ایمان اتباع اور محبت کی وجہ سے ہوتا ہے ، اور یہی محبت اور حسن عقیدت اللہ کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کرنا بالکل درست ہے اور یہ دراصل اعمال ہی کا وسیلہ ہوتا ہے ۔ اب ذات کا وسیلہ کسی نیک اور مقرب ہستی کی زندگی میں بھی روا ہے اور وفات کے بعد بھی ، زندگی میں نبی یا ولی یا کسی بزرگ سے دعا کرائی جائے گی اور اس کی وفات کے بعد محض توسل پیش کیا جائے گا بعض لوگ کہتے ہیں کہ وسیلے کی کیا ضرورت ہے ؟ بھئی درست ہے بیشک براہ راست دعا مانگو ، لیکن اگر کوئی درمیان میں وسیلہ ڈالتا ہے تو اس میں حرج کیا ہے ؟ دیکھو ! حضرت مجدد الف ثانی (رح) کی دعاؤں میں یہ الفاظ موجود ہیں ” بحرمت النبی وآلہ “ یعنی اے اللہ ! نبی اور آپ کی آل کی حرمت سے ہماری فلاں مراد پوری کردے ، بخاری شریف میں حضرت عمر ؓ کا یہ عمل موجود ہے کہ قحط کے زمانے بارش کی دعا کے لیے حضرت عباس ؓ کا وسیلہ پکڑا ، عرض کیا ، اے اللہ ! پہلے ہم نبی کریم ﷺ کا توسل پکڑتے تھے آپ کی زندگی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کیا کرتے تھے ، اب وہ ہم میں موجود نہیں لہذا ہم تیرے نبی کے چچا کا توسل کر رہے ہیں ، لہذا باران رحمت نازل فرما ، بعض کہتے ہیں کہ یہ تو زندگی میں توسل ہے ، وفات کے بعد کیے جائز ہوا ؟ تو عرض ہے کہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں عثمان ابن حنیف ؓ کی روایت موجود ہے کہ انہوں نے اس طرح دعا کی اے اللہ ! میں تیرے نبی رحمت کا واسطہ پیش کرتا ہوں کہ ان کی وجہ سے میری حاجت پوری فرما البتہ کسی نبی یا ولی سے اللہ کے علاوہ براہ راست طلب کرنا شرک میں داخل ہے ان کو یہود ومشرکین کی طرف شفیع قاہر ماننا بھی سراسر گمراہی ہے ۔ (ہر بستی کی ہلاکت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وان من قریۃ الا نحن مھلکوھا قبل یوم القیمۃ “ اور کوئی بستی نہیں ہے مگر ہم اسے قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس ہلاکت کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہم سزا کے طور پر قحط ، وبا ، طوفان یا زلزلہ وغیرہ بھیج کر کسی بستی کو ہلاک کردیں گے یا پھر ساری بستیاں طبعی طور پر ہلاک ہوجائیں گی ، صحیح حدیث میں آتا ہے ” اخر البلدان خرابا المدینۃ “ یعنی قیامت سے پہلے سب سے آخر میں ختم ہونے والی بستی مدینہ میں ہوگی فرمایا چرواہے اپنی بکریاں شہر کی طرف لا رہے ہوں گے شہر میں انسانوں کی بجائے درندے ہوں گے ، قیامت کا طوفان برپا ہوچکا ہوگا اور وہ بھاگ بھاگ کر شہر کی طرف آ رہے ہوں گے ، وہ چرواہے ثنیۃ الوداع کے مقام پر پہنچیں گے تو وہیں گر کر ہلاک ہوجائیں گے مطلب یہ کہ سزا کے طور پر یا طبعی طور پر ہر بستی ہلاک ہوگی اور مدینہ طیبہ سب سے آخر میں ہلاک ہوگا ۔ بعض مشرکوں کا یہ عقیدہ ہے کہ فلاں فلاں بستیوں کے ” شاہ ولایت “ ہیں جو ہماری مصیبتوں کا ٹالتے رہتے ہیں بعض جنات کے متعلق ایسا عقیدہ رکھتے ہیں ، یہ سب غلط ہے کوئی شاہ ولایت کسی کا ددکھ دور نہیں کرسکتا اور نہ آنے والی مصیبت ٹال سکتا ہے ، بین الاقوامی جنگوں میں کتنی تباہی آتی ہے مگر کوئی شاہ ولائت اس کے آڑے نہیں آتا ، پہلی اور دوسیر جنگ عظیم میں ملکوں کے ملک تباہ ہوگئے فرانس ، جرمنی ، روس اور بلجئیم وغیرہ کی اینٹ سے اینٹ بج گئی جب امن ہوا تو پھر آباد ہوئے اب دنیا میں اگلی جنگ اٹیمی جنگ ہوگی ، خدا جانے دنیا کا کتنا حصہ تباہ ہوگا جنگ قحط سالی ، زلزلہ وغیرہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ہوتی ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ملکوں کے ملک تباہ کردیتا ہے اس قسم کی سزائیں ملتی رہتی ہیں اور پھر آخر میں طبعی طور پر تمام بستیاں ختم ہوجائیں گی ۔ فرمایا کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں (آیت) ” اومعذبوھا عذابا شدیدا “۔ یا اسے سخت سزا میں مبتلا کردیں فرمایا (آیت) ” کان ذلک فی الکتب مسطورا “۔ یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ ہر شہر اور بستی کے لوگ ایک ایک بزرگ کو پوجتے ہیں کہ ہم اس کی پناہ میں ہیں جیسا کہ میں نے ابھی شاہ ولایت کا تصور عرض کیا ، مگر وقت آنے پر کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکے گا (آیت) ” لا عاصم الیوم من امر اللہ “۔ (ھود) کوئی کسی کو مصیبت سے نہیں بچا سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود مہربانی فرمائے ،
Top