Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہا (کفر کرنے والوں نے) جب ہم ہوجائیں گے ہڈیاں اور چورہ چورہ تو کیا ہم لوٹائے جائیں گے نئی پیدائش میں ؟ ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت کا مسئلہ بیان فرمایا مشرکین حضور ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ تو ہمارے جیسا ہی انسان ہے ، بھلا ہم اس کی اتباع کیوں کریں کبھی کہتے کہ اس پر جادو کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ نعوذ باللہ بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے شکوک و شبہات کا رد فرمایا اور مشرکوں کو غلط ذہنیت کو واضح کیا کہ یہ لوگ محض ضد عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسے اعتراض کرتے ہیں پھر اللہ نے مسئلہ توحید کے ضمن میں فرمایا اگر ارض وسما کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تنزیہہ بیان کرتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر بھی کیا اور توحید و رسالت دوسرے دینی حقائق مختلف عنوانات کے تحت سمجھائے ۔ (کیا دوبارہ زندگی ممکن ہے) مسئلہ توحید کے بعد اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے معاد کا مسئلہ بیان فرمایا ہے بنیادی عقائد میں توحید ، رسالت ، قرآن کی حقانیت جیسے اہم مسائل شامل ہیں اور مکی سورتوں میں عام طور پر انہی مسائل کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے اب بعث بعد الموت کے مسئلہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ مدلل طور پر بیان فرمایا ہے ، پہلے مشرکین کا اعتراض نقل کیا ہے اور اس کے بعد اس کا شافی جواب ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” وقالو “ یہ کفار ومشرکین کہتے ہیں (آیت) ” ء اذا کنا عظاما “۔ جب ہم مر کر ہڈیاں ہوجائیں گے ، ” ورفاتا “۔ اور بوسیدہ ہو کر بالکل چورہ چورہ بن جائیں گے (آیت) ” ء انا لمبعوثون خلقا جدیدا “۔ تو کیا ہم نئی پیدائش میں دوبارہ اٹھائے جائیں گے ، ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان مٹی میں دفن ہوجاتا ہے تو اس کا گوشت پوشت بہت جلد گل سڑ کر ضائع ہوجاتا ہے ، اور باقی ہڈیاں رہ جاتی ہیں جو گوشت کی نسبت زیادہ سخت ہوتی ہیں پھر آہستہ آہستہ ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو کر بھر بھری ہوجاتی ہیں اور ذرا سا چھونے سے بھی ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں اور اس طرح انسان کا پورا جسم مٹی میں مل کر نابود ہو اجاتا ہے سورة النزعت میں (آیت) ” ء اذا کنا عظاما نخرۃ “۔ کے الفاظ آتے ہیں جب ہم کھوکھلی ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا پھر زندہ کیے جائیں گے ؟ اسی بات کو سورة السجدہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” ء اذا ضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید “۔ کیا جب ہمارے جسم کے ذرات منتشر ہو کر بکھر جائیں گے اور ہم مٹی میں رل مل جائیں گے تو پھر دوبارہ زندہ ہوں گے ؟ لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانا حضور ﷺ کے فرض منصبی میں داخل ہے چناچہ جب آپ مشرکین کی توجہ اس طرف دلاتے کہ مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہاری حاضری ہوگی اور اس دنیا میں کیے گئے ہر نیک وبد عمل کا حساب دنیا ہوگا ، تو وہ لوگ دوسری زندگی کا انکار کردیتے اور کہتے کہ آج تک تو ہم نے اپنے آباؤ اجداد میں سے کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے یا حساب کتاب دیتے نہیں دیکھا آپ تو (نعوذ باللہ ) دیوانوں جیسی باتیں کرتے ہیں ، بھلا جو جسم گل سڑ کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوگیا ، اس کو دوبارہ زندگی کیسے حاصل ہوگی ۔ (ہاں ! اسکی دلیل) آگے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا مدلل جواب دیا ہے ارشاد ہوگا ہے ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ ان مشرکوں سے کہہ دیں کہ انسان جسم کی ہڈیاں گوشت سے سخت مگر کائنات میں پائی جانے والی بعض چیزوں سے نرم بھی ہیں ، دنیا میں ان ہڈیوں سے بھی سخت چیزیں موجود ہیں ، فرمایا ان کے اعتراض کا یہ جواب دیں (آیت) ” کونوا حجارۃ او حدیدا “۔ تم پتھر بن جاؤ یالوہا ، پتھر بڑی مضبوط چیز ہے جو مٹی میں گلتا سٹرتا نہیں اور لوہا اس سے بھی سخت ہے جو پتھر کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے لوہے کے نام پر قرآن پاک میں سورة الحدید بھی موجود ہے اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا ہے (آیت) ” انزلنا الحدید فیہ باس شدید ومنافع للناس “۔ ہم نے نہایت سخت لوہا پیدا کیا جس میں تمہارے لیے بہت سے فائدے ہیں اگر دیکھا جائے تو آج دنیا میں ایک تہائی تمدن کا انحصار لوہے پر ہے ضروریات زندگی میں لوہے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کوئی کل پرزہ اور مشین لوہے کے بغیر نہیں بن سکتی اور یہی مشینیں ضروریات کی لاکھوں چیزیں پیدا کر رہی ہیں ، لوہا مع دنیات کی صورت میں زمین سے نکالا جاتا ہے پھر اسے صاف کرکے اس سے مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہیں ۔ فرمایا تم پتھر جیسی ٹھوس اور بےجان چیز بن جاؤ یا لوہے جیسی سخت اور زندگی سے بعید چیز بن جاؤ (آیت) ” او خلقا مما یکبر فی صدورکم “۔ یا کوئی اور چیز بن جاؤ جو تمہارے دلوں میں ان سے بھی زیادہ دشوار ہے گوشت پوست اور ہڈیوں میں تو جان موجود تھی اب ان کو دوبارہ زندہ کرنا شاید آسان ہو مگر پتھر ، لوہے یا کسی دیگر چیز کو تو زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ، اگر تم یہ کچھ بن جاؤ (آیت) ” فسیقولون من یعیدنا “۔ تو یہ لوگ فورا کہہ دیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ لوٹائے گا ؟ جب ہمارا تعلق زندگی سے مطلقا منقطع ہوجائے گا تو پھر وہی زندگی کیسے لوٹ کر آئے گی جب کہ ہمارا گوشت پوست اور ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی میں مل چکے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں ، (آیت) ” الذی فطرکم اول مرۃ تمہیں وہی ذات دوبارہ زندہ کرے گی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا ، سورة بقرہ میں ہے (آیت) ” کنتم امواتا فاحیاکم “۔ خدا نے تمہیں موت سے زندگی بخشی ، تم کچھ نہیں تھے ، اللہ نے تمہیں جیتا جاگتا انسان بنایا ، تم اپنے آغاز سے واقف ہو کہ اللہ نے تمہیں بغیر مادے ، آلے اور نمونے کے پیدا کیا ، اب اپنا انجام میں دیکھ لو گے کہ وہ تمہیں کیسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھاتا ہے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ انسان کو پیدائش اگر مشکل ہوتی تو پہلی دفعہ ہوتی ، جب کہ اس کانمونہ تک موجود نہیں تھا ، اب جب کہ وہ ایک معقول زندگی گزار کر موت سے ہمکنار ہوا ہے ، اس کو دوبارہ پیدا کرنا تو نسبتا آسان ہے تم مٹی تھے ، قطرہ آب تھے ، جماد لا یعقل تھے مگر اللہ نے ت میں زندگی بخشی مکمل انسان بنایا تو اب اسی خالق ومالک کے لیے دوبارہ زندہ کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟ (وقوع قیامت کا وقت) فرمایا ، اے پیغمبر ! ﷺ جب دوبارہ جی اٹھنے کی یہ ٹھوس دلیل آپ ان کے سامنے پیش کریں گے تو وہ لاجواب ہوجائیں گے (آیت) ” فسینغضون الیک رء وسھم “۔ اور تعجب ، انکار اور استبعاد کی بنا پر سر ہلا دیں گے پھر اور تو کچھ بن نہیں پڑے گا ، (آیت) ” ویقولون متی ھو “۔ صرف اتنا کہہ سکیں گے کہ اگر آپ کے دعوے کے مطابق دوبارہ زندگی لازمی ہے تو یہ کب ہوگا ؟ ہم نے آج تک تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے دیکھا نہیں ، آخر یہ سارا معاملہ کب پیش آئے گا ، اللہ جواب میں فرمایا ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ ان کو بتا دیں (آیت) ” عسی ان یکون قریبا “۔ ممکن ہے کہ وہ وقت قریب ہو جب تم سب دو بار اٹھائے جاؤ گے ، یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ اس نے قیامت کے وقت کو ظاہر نہیں کیا ورنہ کائنات کا سارا نظام ٹھپ ہو کر رہ جائے ، وقوع قیامت کے متعلق قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے کہ اس کے وقت کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے ، اور اس نے یہ علم کسی دوسری ذات کو نہیں دیا البتہ حضور ﷺ نے بعض نشانیوں کا ذکر کیا جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی یہی فرمایا تھا کہ قیامت آنے والی ہے (آیت) ” اکاد اخفیھا لتجزی کل نفس بما تسعی “۔ (طہ) مگر میں اس کے وقت کو مخفی رکھوں گا تاکہ ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ مل سکے ، قیامت کو قریب اس لیے بھی فرمایا کہ آئندہ آنے والی چیز دن بدن قریب ہی ہوتی ہے کیونکہ اسے بہرحال آنا ہے ، البتہ گزرا ہوا وقت دن بدن بعید ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسے لوٹ کر نہیں آنا ہوتا ، فرمایا شاید کہ قیامت قریب ہی ہو اور تم ضرور اسے پالو گے ۔ (دوبارہ زندگی پر حمد) فرمایا (آیت) ” یوم عدعوکم “۔ جس دن اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرکے اپنی طرف بلائے گا سورة المعارج میں ہے کہ جب قیامت کا بگل بجے گا تو لوگ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑتے ہوئے آئیں گے ، (آیت) ” کانھم الی نصب یوفضون “۔ جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف دوڑتے ہیں ، غرضیکہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں بلائے گا ۔ (آیت) ” فتستجیبون بحمدہ “۔ تو جواب دو گے اس کی تعریف کے ساتھ اس وقت تمہاری زبانوں سے بےاختیار اللہ تعالیٰ کی حمد بیان ہوگی اس وقت تمہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین آئے گا ، مگر اس وقت الحمد للہ کہنا کچھ مفید نہیں ہوگا ، البتہ اہل ایمان اللہ کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کریں گے (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “۔ (فاطر) اس خدا تعالیٰ کا شکر ہے جس نے آج ہمارے تمام غم واندوہ دور کردیے حدیث میں آتا ہے ” لیس علی اھل لا الہ الا اللہ وحشۃ فی الموت ولا فی القبور ولا حین یخرجون “۔ (اوکما قال) یعنی اہل ایمان کلمہ طیبہ پڑھنے والوں پر نہ تو موت کے وقت وحشت ہوگی ، نہ قبروں میں اور نہ قبروں سے دوبارہ نکلتے وقت ان کی زبانوں پر ” لا الہ الا اللہ “۔ کے الفاظ ہوں گے اور وہ نہایت اطمینان کے ساتھ میدان محشر کی طرف روانہ ہوں گے ، ایسے لوگ خوشی خوشی حمد وثنا کا یہ ترانہ بھی گائیں گے (آیت) ” الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن “۔ اس اللہ کی سب تعریفیں ہیں جس نے ہم سے غم کا بوجھ اتار دیا ۔ (دنیا کی قلیل زندگی) فرمایا آج تو تم دوبارہ زندگی کو بعید سمجھتے ہو اور اس کا ذکر حقارت کے ساتھ سر ہلاکر کرتے ہو اور پوچھتے ہو کہ وہ کب آئیگی مگر اس دن تم غیر ارادی طور پر اللہ کی تعریف کرو گے (آیت) ” وتظنون ان لبثتم الا قلیلا “ اور تم اس دن گمان کرو گے کہ تم دنیا میں بہت تھوڑا عرصہ مقیم رہے جب مستقبل کی دائمی زندگی نظر آئے گی تو دنیا کے سو سال بھی معمولی ساعرصہ معلوم ہوں گے ، سورة الاحقاف میں آتا ہے کہ کہیں گے (آیت) ” لم یلبثوا الا ساعۃ من نھار “۔ یعنی دنیا میں ایک دن کا تھوڑا سا حصہ ٹھہرے ، سورة النزعت میں ہے (آیت) ” لم یلبثوا الا عشیۃ اور ضحھا “۔ پچھلے پہر یا پہلے پہر کا تھوڑا سا وقت دنیا میں قیام کیا ، کفر وشرک اور معاصی میں گزرا ہوا یہ وقت بالکل قلیل محسوس ہوگا ، آگے دائمی زندگی نظر آئے گی جس میں نہ عذاب میں تخفیف ہوگی ، اور نہ موت آئیگی فرمایا آج تم یوں تمسخر کرتے ہو لیکن اس دن یہ حالت ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ بلائے گا تو حمد کے ترانے گاتے ہوئے آؤگے اور اس دنیا کی زندگی کو بالکل قلیل گمان کرو گے ۔
Top