Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور البتہ تحقیق ہم نے (مختلف طریقوں سے) پھیر کر بیان کیا ہے اس قرآن میں تاکہ لوگ نصیحت پکڑ لیں ، اور نہیں زیادہ کرتا ان کے لیے مگر نفرت کرنا ۔
(قرآن بطور نصیحت) اسلامی معاشرے کی فلاح کے لیے پندرہ زریں اصولوں کے اول وآخر میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید بیان فرمایا ، اب اس آیات میں بھی قرآن پاک کی صداقت اور مسئلہ توحید ہی کا ذکر ، اور شرک کا رد ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد صرفنا فی ھذالقران “۔ ہم نے اس قرآن پاک میں مختلف طریقوں ، عنوانوں اور پیرایوں میں پھیر پھیر کر بیان کیا ہے ۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، ایمانیات ، رسالت ، معاد اور موجود اور دوسری زندگی سے تعلق رکھنے والی ساری باتیں آسانی سے سمجھ میں آسکیں اور دوسرا مقصد یہ ہے (آیت) ” لیذکروا “۔ تاکہ لوگ ان مثالوں سے نصیحت پکڑیں اور کفر وشرک کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیں ، مگر حقیقت یہ ہے (آیت) ” وما یزیدھم الا نفورا “۔ کہ اس تمام تر تشریح کے باوجود متعصب ، ضدی اور عنادی لوگوں کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور قرآن پاک سے کچھ نصیحت حاصل نہیں کر پاتے ۔ (توحید کی دلیل) ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” لوکان معہ الھۃ “۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے (آیت) ” کما یقولون “ جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ظاہر ہے کہ مشرک لوگ ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے ، حالانکہ گذشتہ پندرہ اصولوں کے اول وآخر میں یہی بات سمجھائی گئی ہے (آیت) ” ولا تجعل مع اللہ آخر یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ ٹھہراؤ اگر ایسا کرو گے تو ملامت شدہ اور دھکیلے ہوئے بن جاؤ گے اور پھر جہنم میں پھینک دیے جاؤ گے مگر یہ لوگ اپنی بدعقیدہ سے باز آنے والے نہیں ۔ الہ کا معنی معبود برحق ہے جس میں صفات کمال پائی جائیں اور جو حاضر ناظر مختار کل ، علیم کل ، قادر مطلق ، خالق ، مربی ، نافع وضار ، مدبر اور تمام علوی اور سفلی کائنات کا متصرف ہو ، ظاہر ہے کہ یہ صفات خدا تعالیٰ کے سوا کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتیں ، انبیاء اولیاء شہداء ملائکہ اور جنات میں سے کوئی بھی ان صفات کا حامل نہیں ، اگر یہ صفات کمال خدا کے سوا کسی دوسری ذات میں مانی جائینگی تو انسان مشرک بن جائے گا ۔ فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور الہ بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں (آیت) ” اذا لا بتغوا الی ذی العرش سبیلا “۔ تو یقینا وہ عرش والے کی طرف راستہ تلاش کرتے کیونکہ ہر الہ کی یہی خواہش ہوتی کہ وہ ہی غالب آجائے اور دوسرے سب مغلوب ہوجائیں ، سورة انبیاء میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا “۔ اگر کائنات ارض وسما میں اللہ کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو کائنات میں فتنہ برپا ہوجاتا اور سکون باقی نہ رہتا ، شیخ سعدی نے بھی تو کہا ہے کہ ایک گودڑی میں دس درویش تو آرام کرسکتے ہیں مگر ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے کو مغلوب کر نیکی کوشش کرے گا اس طرح ملک میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوگا جب ایک چھوٹی سی سلطنت کا یہ حال ہے تو پوری کائنات میں ایک سے زیادہ الہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس طرح تو نظام ہی قائم نہیں رہ سکتا ۔ (خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید) فرمایا (آیت) ” سبحنہ “ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے (آیت) ” و تعلی عما یقولون علوا کبیرا “۔ اور بلند ہے ان باتوں سے جو یہ مشرکوں کا یہ دعوی بالکل باطل ہے کہ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرے معبود بھی ہیں وہ تو ایک الہ پر اکتفا ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کہتے تھے (آیت) ” اجعل الالھۃ الھا واحدا ، ان ھذا لشیء عجاب “۔ کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا لیا ہے ، یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ جو کام اتنے خدا مل کر کرتے ہوں ، وہ اکیلا ہی انجام دے دے ، فرمایا ، وہ شرک سے پاک وحدہ لاشریک ہے ، وہ اس قدر عظمتوں کا مالک ہے (آیت) ” تسبح لہ السموت السبع والارض ومن فھین “۔ کہ ساتوں آسمان ، زمین اور ان کے درمیان موجود ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے ، مفسرین کرام فرماتے کہ یہ تسبیح حالی بھی ہو سکتی ہے اور قالی بھی ، حالی تسبیح غیر اختیاری ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے شجر وحجر ، ذرات ، پہاڑ ، دریا ، چاند سورج ستارے غرضیکہ ہر چیز کا وجود اس کے اوصاف اور اس کی حالت بتلاتی ہے ، کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی ہے ” وفی کل شیء لہ ایۃ ، تدل علی انہ واحد “۔ ہر چیز میں ایسی نشانی موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہے ، اس جہان کو عالم اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے پیدا کرنے والے کی علامت ہے اسے دیکھ کر انسان کا ذہن فورا اس کے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے عالم علم کے مادے سے بھی ہو سکتا ہے اور اسے بھی یہی مراد ہے بہرحال تسبیح حالی تو ہر چیز میں پائی جاتی ہے حتی کہ مشرکوں ، کافروں اور دہریوں کا وجود بھی حالی تسبیح کر رہا ہے ، سورة النحل میں بھی گذر چکا ہے کہ کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوق میں ایسی چیزیں نہیں دیکھیں “ (آیت) ” یتغیؤا ظللہ “۔ جن کے سائے دائیں بائیں لوٹتے رہتے ہیں اور خدا کے سامنے (آیت) ” سجدا للہ وھم داخرون “۔ عاجز ہو کر سجدے میں پڑے رہتے ہیں اگر کوئی شخص اپنے دل و دماغ اور زبان سے اللہ کی توحید کا انکار ہی کیوں نہ کرتا ہو مگر اس کا وجود اور اعضاء خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہیں مگر اس تسبیح کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، گویا کہ ہر چیز کا حال ہی خدا تعالیٰ کی قدرت تامہ ، حکمت بالغہ اور اس کی عظمت ووحدانیت کی دلیل ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تسبیح قالی سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اپنی زبان سے بھی کرتی ہے چناچہ یہاں پر بھی یہی بات بیان کی گئی ہے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ “۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید بیان کرتی ہے (آیت) ” ولکن لا تفقھون تسبیحھم مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھنے سے قاصر ہو ، عام طور پر شجر وحجر اور دیگر بےجان چیزوں کی تسبیح انسان نہیں سنتے مگر بعض اوقات معجزہ یا کرامت کے طور پر ایسا ہو سکتا ہے حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے ہاتھوں میں سنگریزے تھے جن سے اس طرح تسبیح کی آواز آرہی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے بخاری شریف کی روایت میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ دسترخوان پر کھانا تناول فرما رہے تھے اور کھانا اللہ کی تسبیح پڑھ رہا تھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا جاتا تھا ، اسی طرح شیخ ابن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے درختوں کی تسبیح سنی ہے ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مینڈک کو نہ مارو کیونکہ ان کی ٹرٹراہٹ دراصل اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہوتی ہے ، مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ایک دیہاتی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس نے بڑا فیشنی لباس پہن رکھا تھا اس نے عام مجلس سے یوں خطاب کیا کہ تمہارے یہ صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چرواہوں کو تو بڑا بلند کر رہے ہیں مگر باعزت لوگوں کو ذلیل کر رہے ہیں ، حضور ﷺ نے اس کے لباس کا کپڑا ہاتھ میں لے کر کہا کہ تمہارا یہ لباس عقلمندوں کا لباس معلوم نہیں ہوتا ، پھر آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر کہا میں تمہیں دو باتوں کا حکم دینا چاہتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں منہیات یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور تکبر نہ کرنا ، اور اوامر یہ ہیں کہ ہر وقت ” لا الہ الا اللہ “ پڑھتے رہا کرو کیونکہ یہ ایسی تسبیح ہے کہ ایک پلڑے میں یہ ہو اور دوسرے پلڑے میں پوری ارض وسما ہو تو پھر بھی یہ بھاری ہے اور دوسرا حکم یہ ہے کہ ہر وقت سبحان اللہ وبحمدہ کا ورد رکھا کرو ، کیونکہ کائنات کی ہر چیز اسی کلمہ سے خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتی ہے اور اسی کی بدولت انہیں روزی ملتی ہے ، باقی رہ گیا ہر چیز کی تسبیح کے الفاظ کا سمجھنا تو یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ، سورة النور میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے کہ زمین وآسمان کا ہر شخص اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ سب اپنی نماز اور تسبیح کو جانتے ہیں (آیت) ” کل قد علم صلاتہ وتسبیحہ “۔ اور اس مقام پر یہ بھی فرمایا کہ ارض وسما کی ہر چیز تسبیح بیان کرتی ہے مگر تم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔ فرمایا (آیت) ” انہ کان حلیما غفورا “ دیکھو ! وہ اللہ تعالیٰ کس قدر بردبار اور بخشنے والا ہے وہ نافرمانوں کو مہلت دیتا رہتا ہے فوری گرفت نہیں کرتا مگر اس کا قانون یہ ہے کہ وہ کسی مجرم کو سزا دیے بغیر چھوڑے گا نہیں جب پکڑے گا تو پھر پورا پورا مؤاخذہ کرے گا ۔ (قرآن کی برکات سے محرومی) فرمایا (آیت) ” واذا قرات القرآن جعلنا بینک وبین الذین لایؤمنون بالاخرۃ حجابا مستورا “۔ جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے درمیان اور آخرت کے منکرین کے درمیان ڈھانپنے والا پردہ ڈال دیتے ہیں یہ انکی گمراہی اور غفلت کا پردہ ہوتا ہے ، کوئی بات ان کے ذہن میں نہیں بیٹھتی ان کی ضد ، عناد ، ہٹ دھرمی ، اور تعصب کی وجہ سے پردہ پڑا ہوا ہے ، اور قرآن کریم کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ، فرمایا (آیت) ” وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ “۔ اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس بات سے کہ وہ قرآن کو سمجھ سکیں ، وہ اس کے مفہوم پر مطالب کو سمجھنے سے عاری ہوچکے ہیں (آیت) ” وفی اذانھم وقرا “۔ اور ان کے کانوں میں بوجھ پڑے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ان کے کان بند ہوچکے ہیں اور وہ کچھ سنتے ہیں نہیں ، اور پھر خاص طور پر فرمایا (آیت) ” واذا ذکرت ربک فی القرآن وحدہ ولوا علی ادبارھم نفورا “۔ جب آپ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر کرتے ہیں تو یہ لوگ پشت پھیر کر بھاگ جاتے ہیں ، عتبہ شیبہ ، اور ابوجہل ، جیسے لوگ قرآن کو سننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے تھے ، اسی لیے فرمایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” نحن اعلم بما یستمعون بہ اذ یستمعون الیک “۔ ہم خوب جانتے ہیں اس بات کو جس کے واسطے وہ سنتے ہیں جب کہ وہ کان لگاتے ہیں آپ کی طرف اگر وہ سنتے بھی ہیں تو کس لیے یہ لوگ محض اعتراض کرنے اور قرآن پاک کی تردید کرنے کے ارادے سے کسی وقت اس کا کچھ حصہ سن لیتے ہیں یہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ ان کے زعم کے مطابق اسلام کی کوئی کمزوری ان کے ہاتھ میں آجائے جسے اچھال کر وہ دین کے خلاف پراپیگنڈا کرسکیں فرمایا (آیت) ” واذ ھم نجوی “ جب وہ سرگوشیاں کرتے ہیں دین حق اور پیغمبر اسلام کے خلاف مخفی مشورے کرتے ہیں تو ہم ان کو جانتے ہیں ان کی کوئی حرکت اور کوئی ارادہ ہمارے علم سے مخفی نہیں ، ہم ان کی ایک ایک بات نوٹ کر رہے ہیں اور اس کا انہیں پورا پورا بدلہ دیں گے ۔ (سحر زدگی کا الزام) فرمایا ان کی دین دشمنی کی حد یہ ہے (آیت) ” اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا “۔ کہ ان ظالموں نے مسلمانوں کو یہ بھی کہہ دیا کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو العیاذ باللہ نبی کی شان میں اس قدر گستاخی کی کہ اس پر جادو کا اثر ہے جس کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے ، کہتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر سب لوگ زندہ کیے جائیں گے ابھی اگلے درس میں آرہا ہے (آیت) ” وقالواء اذا کنا عظاما ورفاتاء انا لمبعوثون خلقا جدیدا “۔ کہتے تھے جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے ، تو کیا پھر دوبارہ پیدا کیے جائیں گے یہ تو عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے ، منکرین نے اکثر انبیاء کو ساحر کہا ، خاص طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے ، اسی طرح حضور ﷺ کو بھی کبھی ساحر کہ کبھی دیوانہ کبھی کاہن اور کبھی شاعر۔ حدیث میں حضور ﷺ پر سحر کا اثر ہونے کا ذکر ملتا ہے یہودیوں نے دھاگے میں گیارہ گرہیں لگا کر اسے ایک پرانے کنویں میں دفن کردیا جس کی وجہ سے آپ بیمار بھی ہوگئے ، یہ بات یاد رہے کہ بنی کو جسمانی بیماری تو لاحق ہو سکتی ہے مگر آپ کے دل و دماغ پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ منصب نبوت کے منافی ہے ، بہرحال اللہ نے فرشتہ بھیج کر جادو کے اثر کو زائل کرنے کا نسخہ بھی بتا دیا ، حضور ﷺ نے جادو کا سامان بھی اس جگہ سے نکلوا لیا ، آپ سورة الفلق اور سورة الناس کی گیارہ آیات ایک ایک کرکے پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی اور اس طرح آپ جادو کے اثر سے بالکل پاک ہوگئے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ لفظ مسحور ، سحر سے نہیں بلکہ سحر سے ہے جس کا مطلب پھپھڑا رکھنے والا انسان ہے مشرک لوگ یہ غلط پراپیگنڈا کرتے تھے کہ مسلمان ایک انسان کی پیروی کر رہے ہیں حالانکہ ان کے خیال کے مطابق انسان پیغمبر نہیں ہو سکتا بہرحال سحر کا معنی کھانے پینے والا انسان ہے عربی کا ایک شاعر بھی اس لفظ کو اس طرح استعمال کرتا ہے ۔ ارانا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وبالشراب : ہم اپنی سواریاں ایک امر غیب کے لیے دوڑا رہے ہیں اور ہمیں کھانے پینے کی چیزوں کی غذا دی جا رہی ہے گویا ہم پر اکل وشرب کا سحر چل رہا ہے لبید یا امیہ بن ابی الصلت میں سے کسی ایک کا یہ کلام بھی ہے ۔ ان تسئلینا فیم نحن فاننا عصافین من ھذا الانام المسحر : اگر تو ہمارے بارے میں پوچھے کہ ہم کیا ہیں تو ہم اس دنیا کے پرندوں جیسے ہیں جنہیں خوراک دی جاتی ہے ۔ بہرحال مسحور سے مراد سحر زدہ بھی ہو سکتا ہے اور کھاتا پیتا انسان بھی ، مشرکین کسی انسان کو نبی ماننے کے لیے قطعا تیار نہ تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے ہم انسانوں کی طرف انسانوں کو ہی رسول بنا کر بھیجتے ہیں اور اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے ہوتے (آیت) ” لنزلنا علیھم من السمآء ملکا رسولا “۔ تو ہم آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتے اللہ تعالیٰ نے بشریت اور انسانیت کا اعلان خود حضور ﷺ کی زبان سے بی کروا دیا (آیت) ” قل انما انا بشر مثلکم “۔ (الکہف) میں تو تمہارے جیسا ہی انسان ہوں البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شرف بخشا ہے ، مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے نبی اور معصوم بنایا ہے میری اتباع کا حکم دیا ہے بلکہ ہر نبی نے اپنی امت کے لوگوں سے یہی کہا (آیت) ” فاتقوا اللہ واطیعون “۔ (الشعرآئ) لوگو ! اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں تمہارے سامنے نمونہ بن کر آیا ہوں بہرحال مشرک لوگ پراپیگنڈا کرتے تھے کہ مسلمان ایک سحر زدہ اور انسان کا اتباع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” انظرکیف ضربوا لک الامثال “۔ دیکھو ! یہ لوگ کس طرح آپ کے سامنے مثالیں بیان کرتے ہیں حقیقت میں (آیت) ” فضلوا “ یہ گمراہ ہوچکے ہیں (آیت) ” فلا یستطیعون سبیلا “۔ اور اب راستہ پانے کی طاقت نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ کسی متعصب ضدی اور عنادی آدمی کو صراط مستقیم نصیب نہیں ہوسکتا ۔
Top