Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا
: اور پاس نہ جاؤ
مَالَ الْيَتِيْمِ
: یتیم کا مال
اِلَّا
: مگر
بِالَّتِيْ
: اس طریقہ سے
ھِيَ
: وہ
اَحْسَنُ
: سب سے بہتر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يَبْلُغَ
: وہ پہنچ جائے
اَشُدَّهٗ
: اپنی جوانی
وَاَوْفُوْا
: اور پورا کرو
بِالْعَهْدِ
: عہد کو
اِنَّ
: بیشک
الْعَهْدَ
: عہد
كَانَ
: ہے
مَسْئُوْلًا
: پرسش کیا جانے والا
اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے مگر اس (طریقے) کے ساتھ جو بہتر ہے ، یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے جوانی کو ، اور پورا کرو عہد کو ہے سوال کیا گیا ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے معاشرتی نظام کے جو پندرہ قوانین ان دو رکوعوں میں بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس قوانین گذشتہ دروس میں بیان ہوچکے ہیں گذشتہ درس میں تین دفعات بیان ہوئی تھیں یعنی قتل ناحق ، زنا اور اسراف فی القتل کی ممانعت ۔ اب آج کے درس میں مزید تین اصول آرہے ہیں یعنی یتیم کے مال کی حفاظت ، ایفائے عہد اور ماپ تول میں دیانت ، اس کے بعد اگلے درس میں آخری دو اصول بیان ہو کر پندرہ کی گنتی پوری ہوجائے گی ، (11) (یتیم کے مال کی حفاظت) گیارہواں اصول یہ ہے (آیت) ” ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن “۔ اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر درست طریقے سے جو بہتر ہے یتیموں کی پرورش نگہداشت اور حسن سلوک کے احکام سورة بقرہ ، سورة نساء ، اور بعض دیگر سورتوں میں بھی بیان فرمائے جا چکے ہیں اور ان کا ایک حصہ یہاں بھی موجود ہے کمزور طبقات میں یتامی کی نگہداشت اور ان کے مال کی حفاظت کے متعلق بڑے سخت احکام نازل فرمائے ہیں جیسے سورة النساء میں ہے (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا “۔ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ گویا اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ ڈال رہے ہیں ، عنقریب ایسے لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے ، سورة بقرہ میں یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ اس صورت میں ملانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ یتیم کا سرپرست یہ کام یتیم کی بہتری کو محلوظ خاطر رکھ کر کرے ، مثلا اپنے ساتھ کھیتی باڑی یا صنعت یا تجارت میں لگا دے کہ جس سے یتیم کا مال ضائع ہونے کی بجائے بڑھتا رہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” وان تخالطوھم فاخوانکم “۔ (البقرہ : 220) اگر تم نیکی نیتی سے ان کے مال کو ملاؤ گے تو وہ تمہارے بھائی ہیں ، ان کی ہمدردی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرو تاکہ ان کا مال نہ صرف محفوظ رہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے ، آج کے افراط زر کے دور میں اگر کوئی رقم جوں کی توں پڑی رہے تو خرچ نہ کرنے کے باوجود اس میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے ، اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ محفوظ رقم کی قوت خرید میں کمی کا باعث بنتا ہے ، لہذا اب یہ ضروری ہوگیا کہ نقد رقم کو کسی کاروبار میں لگایا جائے اگر اس کی قوت خرید میں اضافہ نہیں تو کمی بھی تو واقع نہ ہو ، غرضیکہ یتیموں کے مال کو ان کی بہتری کے لیے اچھے مصرف میں لگانے کی اجازت دی گئی ہے ، اسی طرح ان کے راشن کو سرپرست کے راشن میں ملا لینا کہ اس سے یتیم کے خرچہ میں بچت ہوگی یہ بھی درست ہے ، برخلاف اس کے اگر کوئی شخص یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ بدنیتی سے ملاتا ہے تاکہ یتیم کا مال خود ہضم کرسکے تو اس کی سختی سے مذمت بیان کی گئی ہے (آیت) ” ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم “۔ (النسآء 2) یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ (آیت) ” واللہ یعلم المفسد من المصلح “۔ (البقرہ : 220) اللہ تعالیٰ فسادی اور اصلاح کنندہ کو خوب جانتا ہے ، اسے خوب علم ہے کہ کون یتیموں کا خیرخواہ اور کون ان کا بدخواہ ہے ، بعض ناہنجار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو یتیموں کے مال کو جلدی جلدی خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کے سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی ختم ہوجائے ، اسی لیے اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا “۔ (النسآ 60) یتیموں کا مال مت کھاؤ فضول خرچی کرکے اور جلدی کرکے کہ بالغ ہونے پر مال ان کے سپرد کرنا پڑیگا فرمایا اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا (آیت) ” انہ کان حوبا کبیرا “۔ (النسائ 20) بڑے گناہ کی بات ہے جس کا بھگتان کرنا پڑے گا ۔ قرآن اولی میں یتمی کے مسائل زیادہ ترجہاد میں شہید ہوجانے والے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتے تھے شہدا کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد بیدار رہے ، اگر شہدا کے پس ماندگان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا تو جذبہ جہاد سست پڑجانے کا خطرہ تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے یتیموں کی نگہداشت کے قانون پر سختی سے علمدار کا حکم دیا اس سلسلے میں حضور ﷺ نے ترغیب بھی دی ہے فرمایا ” خیر بیت من بیوت المسلمین فیہ یتیم یحسن علیہ “۔ مسلمانوں کے گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم زیر پرورش ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو ، آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو مگر اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (یتیم کا سن بلوغت) فرمایا یتیم کے مال کی اس وقت تک نگرانی کرتے رہو (آیت) ” حتی یبلغ اشدہ “۔ یہاں تک کہ وہ اپنی قوت کو پہنچ جائے ، یتیم کے قوت ، جوانی یا سن بلوغت تک پہنچنے کی مدت میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض بچپن میں ہی باشعور ہوتے ہیں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت جلدی حاصل کرلیتے ہیں البتہ بعض ناسمجھ بھی ہوتے ہیں اور ان کے مال کی نگہداشت کے لیے زیادہ عرصہ مطلوب ہوتا ہے ، اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سرپرست پچیس 25 سال کی عمر تک مال کی نگرانی کرے اور اس کے بعد مال یتیم کے حوالے کر دے بعض آئمہ اس سے بھی زیادہ عرصہ کے قائل ہیں تاکہ یتیم کا مال ضائع ہونے سے بچ جائے ہاں اگر بچہ باصلاحیت ہے اپنے مال کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے تو 14 ۔ 15 سال کی عمر میں بھی اس کا مال اس کے حوالے کیا جاسکتا ہے ، ” اشد “ کے لفظ میں یہی بات سمجھائی گئی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ ” لایتم بعد البلوغ یعنی سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی ، چونکہ بعض لوگوں میں ضعف ہوتا ہے ، دماغی صلاحیت زیادہ نہیں ہوتی اس لیے یتیم کی عمر میں رعایت برتنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (ابوذرغفاری ؓ کو نصیحت) حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاری ؓ سے (1) (مسلم ص 121 ج 23 (فیاض) سے فرمایا ” انی ارک ضعیفا وانی احب لکم ما احب نفسی میں تجھے کمزور آدمی خیال کرتا ہوں ، اور میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں ، فرمایا ” لا تولین علی اثنین ولا تولین مال الیتیم “ کبھی دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بننا اور کسی یتیم کی سرپرستی قبول نہ کرنا ، حضرت ابوذرغفاری ؓ جسمانی لحاظ سے کمزور نہ تھے بلکہ آپ کی کمزور یہ تھی آپ کی طبعیت میں جوش غضب اور غصہ رہتا تھا اور آپ جذب والی کیفیت طاری رہتی تھی ۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ حاکمیت کے لیے طبیعت میں ٹھہراؤ اور سوچ بچار کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ آپ کی طبعیت میں جوش وغضب تھا ، تو ایسی حالت میں صحیح فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لیے فرمایا کہ تم حاکمیت کو قبول نہ کرنا اسی طرح یتیم کی پرورش اور اس کے مال کی حفاظت کے لیے بھی ٹھنڈے دل کی ضرورت ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ گرم طبعیت آدمی یتیم کی کوئی جائز ضرورت بھی پوری کرنے سے انکار کر دے یا طبعیت میں لا ابالی کی وجہ سے اس کا مال ہی ضائع کر دے ، اس لیے آپ نے ان دونوں چیزوںٗ سے منع فرما دیا ، البتہ جہاں تک حضرت ابوذر غفاری ؓ کے زہد وتقوی کا تعلق ہے حضور ﷺ نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے ، فرمایا گرد آلود زمین اور نیلے آسمان کے درمیان ابوذر غفاری ؓ سے سچا کوئی آدمی نہیں اور یہ زہدوتقوی اور پرہیز گاری میں عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ بہرحال فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے کے ساتھ جو بہتر ہے ، معاشرے کی درستگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کمزور طبقات کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اس معاملہ میں یتامی سرفہرست ہیں ۔ (1) (ایفائے عہد) اللہ نے بارہواں اصول یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” واوفوا بالعھد “ اور عہد کو پورا کرو کیونکہ (آیت) ” ان العھد کان مسئولا “۔ بیشک عہد کے متعلق پوچھا جائے گا کہ تم نے پورا کیا یا نہیں قرآن پاک میں ایفائے عہد کی جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے مثلا سورة مائدہ کی پہلی آیت میں فرمایا (آیت) ” اوفوا بالعقود “ اپنے عہدوں کو پورا کرو ، سورة الانعام میں ہے (آیت) ” وبعھد اللہ اوفوا “۔ کے ساتھ کیے گئے عہد کو پورا کرو اور یہاں منشور اسلامی میں اس کا بارہواں نمبر ہے عہدعام میں ہوتا ہے اور خاص میں بھی مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ ایک مومن آدمی جب اپنی زبان سے کلمہ شہادت ادا کرتا ہے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ “۔ تو وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول سے عہد کرتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل کرے گا اور ان کی ہدایت کی پیروی کرے گا ، اللہ نے سورة الانعام اور دوسری سورتوں میں بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت ، رسالت اور قیامت سے متعلق عہد و پیمان کی باز پرس ہوگی ۔ انسان اللہ کے ساتھ بصورت نذر بھی عہد کرتا ہے کہ فلاں کام کروں گا اب یہ بھی اس کے ذمہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس عہد کو پورا کرے روز مرہ زندگی میں انفرادی اور اجتماعی بیشمار قسم کے عہد و پیمان ایک دوسرے کے ساتھ کیے جاتے ہیں ، خرید وفروخت لین دین ، قرضہ ، امانت ، نکاح طلاق سب عہد میں جن کا ایفا ضروری ہے ، اسی طرح حکومتی سطح پر بھی ملکی جماعتوں یا غی ملکی حکومتوں کے ساتھ عہد کیے جاتے ہیں ، ان سب کا پورا کرنا لازم ہے ، بشرطیکہ جائز ہوں اور ان میں حلال و حرام یا حرام کو حلال نہ بنایا گیا ہو جو شخص جماعت یا حکومت عہد کی خلاف ورزی کرے گی ، وہ غدار سمجھی جائے گی اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان یہ ہے ” لا تغدروا “ غداری مت کرو کہ یہ بہت بڑا جرم ہے البتہ سورة انفال میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ کوئی عہد و پیمان کرنے کے بعد اگر تم سمجھتے ہو کہ اسے نبھا نہیں سکتے (آیت) ” بانبذ الیھم علی سوآء “ اگر دوسری قوم کی طرف سے بدعہدی کا خطرہ ہو تو آپ ان کے عہد کو ان کی طرف برابر سرابر پھینک دیں یعنی اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیں اور اس کے بعد جو کاروائی مناسب سمجھیں کریں بہرحال عہد کی پابندی ضروری ہے ، عہد شکنی نفاق کی علامت ہے ، حضور ﷺ نے (1) (الترغیب والترھیب ص 10 ج 4) فرمایا کہ عملی منافق کی ایک نشانی یہ ہے ” اذا عاھد غدر “۔ جب وہ عہد کرتا ہے تو غداری کرتا ہے ، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے ، اور اگر اس سے جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے ۔ (13) (ماپ تول میں دیانت) اسلامی معاشرے کا تیرہواں اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” واوفوا الکیل اذا کلتم “۔ اور پورا کرو ماپ کو جگ تم کوئی چیز ماپتے ہو ، اس میں کمی بیشی نہ کرو ، اور جب کسی چیز کالین دین بذریعہ وزن ہو ۔ (آیت) ” وزنوا بالقسطاس المستقیم “۔ تو سیدھے ترازو کے ساتھ پورا پورا وزن کرکے دو اس میں ڈنڈی مارنے کی قطعا اجازت نہیں ، ایسا کرنا خیانت ہے جو کہ حرام ہے ، قرآن پاک میں موجود ہے کہ بعض قومیں ماپ تول میں کمی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں جن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے ایکہ اور مدین والے لوگ سرفہرست ہیں یہ لوگ بین الاقوامی شاہراہ پر آباد تھے تاجر پیشہ تھے ، مگر ماپ تول میں خیانت کرتے تھے مدینہ کے اطراف میں یہودی بھی تاجر پیشہ تھے اور یہ خرابی ان میں بھی پائی جاتی تھی ، اللہ تعالیٰ نے سورة المطففین میں سخت وعید فرمائی (آیت) ” ویل للمطففین “۔ ہلاکت ، تباہی اور بربادی ہے ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کے لیے ، جب اپنا حق لینا ہو تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کا حق ادا کرنا ہو تو اس میں ڈنڈی مار جاتے ہیں ، یہ بڑی ہی قبیح حرکت ہے ۔ ترمذی شریف کی روایت (2) (ترمذی ص 196) (فیاض) میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ بازار میں تشریف لے گئے اور تاجروں سے یوں خطاب فرمایا ” ما معشر التجار قدولیتم امرین ھلکت فیہ الامم السابقۃ قبلکم “۔ اے تاجروں کے گروہ ! تمہیں دو چیزوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے جن کی وجہ سے کئی سابقہ اقوام ہلاک ہوئیں ، فرمایا وہ دو چیزیں (آیت) ” المکیال والمیزان “۔ ماپ اور تول ہیں ، سابقہ قومیں ان دو چیزوں میں کمی بیشی کی وجہ سے عذاب کی مستحق ٹھہریں ، لہذا تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ تم ان کے نقش قدم پر نہ چلنا اور کسی کا حق ضائع نہ کرنا ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے کہ جب آپ لوگوں کو اس قبیح فعل سے منع کرتے تو وہ کہتے اے شعیب (آیت) ” اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد ابآؤنا اوان نفعل فی اموالنا مانشؤا “۔ کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آباؤ و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے مالوں میں اپنی مرضی کا تصرف کرنا ترک کردیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا غضب نازل ہوا اور ساری قوم ہلاک ہوگئی ، ماپ تول میں کمی بیشی عام طور پر تاجر لوگوں کا کام ہے یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے جو کہ قطعی حرام فعل ہے ، جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسمیں اٹھانے سے برکت اٹھ جاتی ہے اور مال کی تباہی قریب آجاتی ہے ، فرمایا جھوٹی قسم مال کو تو چلا دیگی مگر برکت کو بالکل مٹا دیگی ، ایسا سرمایہ غلط کاروبار میں ہوگا اور پھر مال حرام بود بجائے رفت “ والا مقولہ صادق آئے گا ، ہیرا پھیری اور دھوکے فریب سے کمایا ہوا پیسہ باطل رسوم اور لہو ولعب میں ہی ضائع ہوجاتا ہے ، لہذا لین دین اور تجارت میں دیانت کو برقرار رکھنا چاہئے کہ اسی میں انسانی حقوق کا تحفظ اور برکت ہے ۔ جب کوئی شخص حضور ﷺ کی موجودگی میں کوئی مال ماپتا یا تولتا تو آپ فرماتے ” زن وارجح “ یعنی تولو اور زیادہ ہی دو ، کم نہ دو اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ماپتے وقت پورا پورا اور وزن کرتے وقت سیدھے ترازو کے ساتھ کرو (آیت) ” ذلک خیر “ یہی بہتر ہے (آیت) ” واحسن تاویلا “ اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے ، اس طرح لوگوں کے حقوق ادا ہوتے رہیں گے کہ ان حقوق کی ادائیگی کے بعد ” بقیت اللہ خیرلکم ان کنتم مؤمنین “۔ (ہود) جو کچھ بچ جائے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو ، ایماندار تاجر کے متعلق حضور کا فرمان (1) (سنن دارمی ص 163 ج 2 و ترمذی ص 195 (فیاض) ہے ” التاجر الصدوق الامین مع النبین والصدیقین والشھدآء “ سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا تاجروں کا فرض ہے کہ وہ کاروبار میں دیانت وامانت کی پاسداری کریں کسی کو دھوکے سے ناقص مال فروخت کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اگر کوئی نقص ان کے نوٹس میں آگیا ہے تو گاہک کو واضح طور پر بتلا دیں کہ بھائی اس مال میں یہ خامی ہے ، اسی لیے فرمایا کہ ماپ تول میں پورا پورا دنیا انجام کے اعتبار سے بہتر ہے ۔
Top