Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 105
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ
وَبِالْحَقِّ : اور حق کے ساتھ اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا وَبِالْحَقِّ : اور سچائی کے ساتھ نَزَلَ : نازل ہوا وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا اِلَّا : مگر مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اور سچائی کے ساتھ ہم نے اس (قرآن) کو اتارا ہے اور سچائی کے ساتھ ہی یہ نازل ہوا ہے اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو (رسول بناکر) مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا تذکرہ فرمایا ، جس طرح فرعون کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) سے نشانیاں طلب کرتی تھی ، اسی طرح مشرکین حضور ﷺ سے اپنیمن مانی نشانیاں طلب کرتے تھے ، دونوں اقوام محض ضد اور عناد کی بنا پر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخالفت کرتی تھیں ، ورنہ حقیقت میں وہ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے تھے ، فرعون نے بنی اسرائیل کے زمین سے قدم اکھاڑ کر انہیں ذلیل کرنا چاہا مگر اللہ نے اس کو مع اس کے لاؤلشکر کے غرق کردیا پھر بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ تم اسی زمین میں رہو ، یہاں تک کہ جب قیامت کے وعدے کا وقت آجائے گا تو اللہ تعالیٰ تم سب کو سمیٹ کر میدان حشر میں اکٹھا کرلے گا یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اگر فرعونیوں کی طرح وہ بھی ضد اور عناد کا مظاہرہ کریں گے ، بیہودہ فرمائشیں کریں گے تو ان کا حشر بھی فرعون اور اس کی قوم سے مختلف نہ ہوگا ۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا تذکرہ فرمایا ہے مکی سورتوں کا یہ خاصہ ہے کہ ان میں بالعموم توحید کا اثبات اور شرک کی تردید بیان کی گئی ہے رسالت ونبوت کا ذکر ہے ، قیامت اور محاسبہ اعمال کا بیان ہے اور قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے ، مشرکین مکہ قرآن پاک کے منجانب اللہ ہونے پر شک کرتے تھے ، اس لیے اللہ نے اس شک کو رفع کیا ہے اور ساتھ تھوڑا سارسالت کا بیان بھی کیا ہے ، اس کے بعد آخری دو آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی توحید کا ذکر ہے ۔ (نزول قرآن بالحق) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وبالحق انزلنہ “ اور ہم نے اس قرآن پاک کو حق وصداقت کے ساتھ نازل فرمایا ہے (آیت) ” وبالحق نزل “ اور حق وصداقت کے ساتھ ہی یہ نازل ہوا ہے ، حق کے ساتھ نازل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کلام خداوندی ہے اس کو نازل کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات بھی برحق ہے اور اس طرح یہ کلام بھی برحق ہے اور دوسری بات یہ کہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نزول میں کسی قسم کا تغیر وتبدل واقع نہیں ہوا فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق اس کو اتارا ہے اور راستے میں اس کی حفاظت کا انتظام بھی فرمایا ہے ، بعض دوسری سورتوں میں آتا ہے کہ جب وحی الہی نازل ہوتی ہے ، تو عالم بالا سے لے کر نبی کے قلب مبارک تک فرشتوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں تاکہ اس میں شیطان کسی قسم کی دخل انداز نہ کرسکے اور پھر اللہ نے اس قرآن کو اپنے پیغمبر کے قلب سے آپ کی زبان پر جاری کیا اور پھر آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس کو باکل اسی طرح سنا جس طرح خود آپ نے سنا تھا اور اسی طرح سمجھا جس طرح آپ نے سمجھا تھا غرضیکہ اللہ نے قرآن پاک کے نزول کے بعد اس کو ہر قسم کے تغیر وتبدل سے بھی محفوظ فرمایا ۔ ّ (حفاظت قرآن کی گارنٹی) اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائی ہے فرمایا (آیت) ” انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون “ (الحجر ۔ 9) اس قرآن کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اللہ نے دوسری کتب سماویہ کی حفاظت کا ذمہ خود نہیں لیا تھا ، بلکہ یہ ذمہ داری خود اہل کتاب پر ڈلی گئی تھی مثلا تورات کے متعلق سورة مائدہ میں موجود ہے کہ ہم نے تورات کو نازل فرمایا جس میں ہدایت اور نور ہے ، اللہ نے نبی اور درویش لوگ اور عالم اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ، (آیت) ” بما استحفظوا من کتب اللہ “ اس وجہ سے کہ انہیں اللہ کی کتاب پر نگران بنایا گیا تھا ، مگر تورات انجیل اور دیگر صحائف کے حاملین اپنی کتابوں کی حفاظت نہ کرسکے اور ایسا میں ہزاروں تغیر وتبدل واقع ہوئے ، بہت سی صحیح باتوں کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا اور بہت سی نئی اور غلط باتیں ان میں داخل ہوگئیں حتی کہ اب ان کتابوں کا اصلی شکل میں وجود تک باقی نہیں رہا ، صرف انجیل ہی کو دیکھ لیں ، ایک کی بجائے ایک سو بیس (120) انجیلیں بنیں اور پانچ تو اس بھی موجود ہیں ، جن میں چار بائیبل کا حصہ ہیں اور پانچویں پر بناس علیحدہ ہے اسی طرح بائیبل کے پہلے پانچ ابواب تورات کا حصہ ہیں ، اس میں بھی ہزاروں تغیر واقع ہوچکے ہیں ، اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ بعینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ، برخلاف اس کے اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کا نزول سخت حفاظت انتظامات میں ہوا ، اور پھر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے رکھا ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ نے آپ پر ایسی کتاب نازل فرمائی ہے ” یقرء نائما ویقظان “ کہ آپ اس کو حالت نیند میں بھی پڑھتے تھے اور حالت بیداری میں بھی ، حضور ﷺ کو یہ خاص شرف حاصل تھا کہ سوتے ہوئے بھی آپ کی زبان پر قرآن کے الفاظ جاری رہتے تھے ، پھر آپ کی برکت سے آپ کے بعض امتی پر بحالت نیند قرآن کی تلاوت کرتے رہتے ہیں ، سورة العنکبوت میں ہے کہ (آیت) ” بل ھو آیت بینت فی صدور الذین اوتوا العلم “۔ یہ ایسی آیتیں ہیں جنہیں اللہ نے اہل علم کے سینوں میں محفوظ کردیا ہے آج دنیا میں ایک کروڑ کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں جنہیں کتاب الہی حرف بحرف زبانی یاد ہے یہی اس قرآن کی حفاظت کی دلیل ہے خدانخواستہ اگر اس کے تمام نسخوں کو آگ میں جلایا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے تو پھر بھی یہ کتاب ختم نہیں ہوگی بلکہ حفاظ کی مدد سے حرفا بحرفا ، دوبارہ تیار ہوجائے گی ، اسی لیے یہ بات بالکل برحق ہے کہ اس کتاب کو نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ اسے پانی دھو سکتا ہے (آیت) ” تنزیل الکتب لاریب فیہ من رب العلمین “۔ (السجدہ ، 3) یہ رب العلمین کی طرف سے نازل کردہ ایسی کتاب ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو مادی اور روحانی طور پر تکمیل انسانیت کا ذریعہ بنایا ہے انسان کو مادی اور روحانی طور پر کامل بنانے کے لیے صرف قرآن ہی کی راہنمائی کی ضرورت ہے اس سے ہٹ کر کوئی شخص درجہ کمال حاصل نہیں کرسکتا ، قرآن کے علاوہ ہر ذریعہ غلط اور بےبنیاد ہوگا ۔ (تبشیر اور انذار کا فریضہ) قرآن کریم کی صداقت بیان کرنے کے بعد اللہ نے نبوت و رسالت کا تذکرہ فرمایا ہے (آیت) ” وما ارسلنک الا مبشر ونذیرا “۔ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا ، آپ ایمان اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو اللہ کی رحمت کے مقام کی خوشخبری دیتے ہیں اور کفر ، شرک اور معصیت کا راستہ اپنانے والوں کو سخت عذاب سے ڈراتے ہیں اللہ نے خود حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا (آیت) ” وما انا الا نذیر مبین “۔ (الاحقاف ۔ 9) میں تمہیں واضح طور پر آگاہ کرنے والا ہوں کہ اگر غلط راستے کو نہیں چھوڑو گے تو آگے مصیبت آنیوالی ہے تبشیر اور انذار قرآن کے دو بڑے مقاصد ہیں تاکہ نیکی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور برائی کرنے والوں کو خبر دار کردیا جائے یہ فریضہ صرف خاتم النبیین ﷺ ہی کے ذمہ نہیں تھا بلکہ تمام انبیاء رسل کے متعلق فرمایا (آیت) ” رسلا مبشرین ومنذرین “۔ (النساء ، ) کہ وہ مبشر اور منذر ہوتے ہیں تاکہ اللہ کی طرف سے حجت تمام ہوجائے اور کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ہمارے پاس کوئی مبشر اور منذر نہیں آیا ۔ ّ (قرآن کا بتدریج نزول) قرآن پاک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ نے اسے یکبارگی نازل نہیں فرمایا بلکہ (آیت) ” وقرانا فرقنہ لتقراہ علی الناس علی مکث “۔ ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ، اور یہ اس لیے (آیت) ” لنثبت بہ فؤادک ورتلنہ ترتیلا “۔ (الفرقان 32) تاکہ اس کے ذریعے آپ کے دل کو ثابت اور مضبوط رکھیں ، اور اسی واسطے ہم اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھتے رہتے ہیں ، اللہ نے خود حضور ﷺ کو بھی یہی حکم دیا (آیت) ” ورتل القران ترتیلا “۔ (المزمل ، 4) اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو ، (آیت) ” ونزلنہ تنزیلا “۔ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے حضرت شاہ عبدالقادر (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں ” اتارتے اتارتے اتارا ہے “ چونکہ اس قرآن کے ذریعے تمام دنیا کے انسانوں کی ہدایت مطلوب تھی اس لیے اللہ نے اس کے اولین مخاطبین کو قرآن خو پڑھایا ، نزول قرآن کے تئیس (23) سالہ عرصہ میں اللہ کے نبی نے قرآن کو خوب پڑھایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے مکمل طور پر محفوظ کرلیا ، اس کو آہستہ آہستہ بتدریج اتارنے کی یہی حکمت ہے ۔ (فتنہ مرزائیت) اسماء الرجال والے لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے دس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین حافظ قرآن تھے جب مسلیمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تو اس کے خلاف جہاد کرنا پڑا جس میں گیارہ یا بارہ سو حفاظ شہید ہوگئے آج مرزائیت کا فتنہ بھی مسیلمہ کذاب سے کم نہیں ، لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں مگر یہ بہت بڑا فتنہ ہے مرزائی کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور یہ اندر اندر سازشوں کے ذریعے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر لگے ہوئے ہیں یہ فتنہ اب سے کم وبیش اسی سال قبل انگریز نے پیدا کیا تھا اور اس کا علاج وہی ہے جو حضرت صدیق اکبر ؓ نے مرتدوں کے خلاف کیا تھا ۔ طبری کی روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب کی لڑائی میں ستائیس ہزار آدمی مارے گئے ایک روایت میں چالیس ہزار کا ذکر بھی آتا ہے جب جا کر وہ فتنہ ختم ہوا ، فرمایا ہم نے قرآن پاک کو آہستہ آہستہ نازل کیا تاکہ یہ اچھی طرح ضبط ہوجائے اور اس کو سیکھنے والے آگے باقی دنیا کے لوگوں کو بھی پڑھا سکیں بہرحال دین کی اصل بنیاد قرآن پاک ہے اور حدیث رسول اس کی شرح ہے ۔ (سجدہ تلاوت) فرمایا (آیت) ” قل امنوا بہ اولا تؤمنوا “۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اے لوگو ! تم اس کتاب الہی پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ مگر حقیقت یہی ہے (آیت) ” ان الذین اوتوا العلم من قبلہ “۔ کہ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا (آیت) ” اذا یتلی علیھم “۔ جب ان کے پاس یہ قرآن پڑھا جاتا ہے (آیت) ” یخرون للاذقان سجدا “۔ تو وہ فورا ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ یہ پروردگار عالم کی طرف سے کلام برحق ہے اہل کتاب میں سے جو منصف مزاج آدمی ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور یہ آئیتیں سن کر وہ بھی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ، اس سے قرآن پاک وہ آیات مراد ہیں جن کی تلاوت وسماعت پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ سجدہ واجب ہے جب کہ بعض دیگر آئمہ اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں ۔ (تکمیل رسالت کا وعدہ) فرمایا (آیت) ” ویقولون “۔ ایسے منصف مزاج لوگ یوں کہتے ہیں (آیت) ” سبحن ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولا “۔ پاک ہے ہمارا پروردگار بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا ، یہ وعدہ اللہ نے تورات میں کیا تھا کہ ” اے موسیٰ “ میں تیرا بھائی بندوں میں سے تیرے جیسا ایک رسول برپا کروں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا ، بھائی بندوں سے مراد بنی اسماعیل ، کلام سے مراد قرآن حکیم اور رسول سے مراد حضور خاتم النبیین ﷺ ہیں چناچہ اللہ نے اس عظیم المرتبت ہستی کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور اس پر اپنا کلام یعنی قرآن پاک نازل فرمایا ۔ پھر انہیں علم کے متعلق فرمایا (آیت) ” ویخرون للاذقان یبکون “۔ اور گر پڑتے ہیں ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے وہ خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کے پیش نظر عاجزی کا اظہار کرتے ہیں پہلے فرمایا سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور دوسری مرتبہ فرمایا کہ روتے ہوئے گر پڑتے ہیں دونوں سے مراد خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار ہی ہے ۔ (خشیت الہی کا صلہ) ابن ماجہ شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ جو شخص خوف خدا سے روتا ہے ، اس پر خشیت طاری ہوجاتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے ہیں ” وان کان مثل راس الذباب من خشیۃ اللہ “ اور یہ آنسو اگرچہ مکھی کے سرکے برابر ہی ہو ، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا ، ترمذی شریف وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت بھی موجود ہے کہ وہ آدمی ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا ” من بکی من خشیۃ اللہ “۔ جو اللہ کے خوف سے رو پڑا ، فرمایا کہ یہ شخص دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ جانور کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے ، اور جس اللہ کے بندے کے جسم پر اس کے راستے میں نکلے ہوئے گرد و غبار پڑگیا ، اس جسم پر دوزخ کی آگ اور دھواں حرام ہوگیا ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ دو قسم کی آنکھیں ایسی ہیں جنہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک وہ آنکھ جو خشیت الہی سے روتی ہے اور دوسری وہ جو اللہ کے راستہ میں پہرہ دیتی ہے ، ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جو آنکھ اللہ کی حرام کردہ چیزوں پر نہیں پڑتی ، اس آنکھ پر بھی دوزخ کی آگ حرام ہے ۔ (تلاوت قرآن پر رقت) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت رونا امر مستحب ہے صحیح حدیث میں آتا ہے کہ نماز کے دروان قرآن پڑھتے ہوئے حضور ﷺ کی ہچکی بندھ جاتی ، آپ خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کی وجہ سے اتنا روتے تھے کہ آپ کے سینہ مبارک سے جوش نکلتا تھا حضرت عبداللہ بن شداد ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ صبح کہ نماز پڑھا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ آیت تھی (آیت) ” قال انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ “۔ (یوسف ۔ 86) اگرچہ میں پچھلی صف میں تھا مگر قرآن پڑھتے وقت آپ کی ہیچکیوں کی آواز سن رہا تھا ۔ فرمایا ایسے لوگ قرآن پاک کی آیات کو سن کر روتے ہیں (آیت) ” ویزیدھم خشوعا “۔ (السجدۃ) اور ان کی عاجزی میں اضافہ ہوجاتا ہے یہی صفت اللہ نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بھی بیان فرمائی ہے کہ خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کی عظمت و جلال کے پیش نظر روتے ہیں ۔
Top