Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 71
قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَؕ
قَالَ : اس نے کہا هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنٰتِيْٓ : میری بیٹیاں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فٰعِلِيْنَ : کرنیوالے (کرنا ہے)
کہا (لوط (علیہ السلام) نے) یہ میری بیٹیاں ہیں ، اگر تم کو کچھ بات کرنی ہے ۔
(ربط آیات) گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ لوط مہمانوں کے بارے میں قوم سے لجاجت کر رہے تھے کہ خدا کے لیے مجھے رسوا نہ کرو میرے مہمانوں کی بےآبروئی نہ کرو ، مگر لوگوں نے کہا کہ تم خواہ مخواہ اجنبی لوگوں کو اپنے گھر میں ٹھہراتے ہو ، ہم تمہیں منع کرچکے ہیں کہ جہان والوں میں سے کسی کی بھی حمایت نہ کیا کرو ، غرضیکہ بدمعاش قوم نے اپنے قبیح فعل کے جواز کے لیے الٹا حضرت لوط (علیہ السلام) کو بدنام کرنے کی کوشش کی ، (لوط (علیہ السلام) کی پیش کش) اب لوط (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو دوسرے طریقین سے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ ناپاک کام نہ کرو ، اس کی بجائے (آیت) ” قال ھؤلاء بنتی “۔ یہ میری بیٹیاں ہیں (آیت) ” ان کنتم فعلین “۔ اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کرنا چاہتے ہو تو میری بیٹیاں حاضر ہیں ، مگر ان مہمانوں کو نظر بد سے نہ دیکھو ۔ امام شاہ والی اللہ محدث دہلی (رح) فرماتے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی بیٹیوں کی پیش کش نکاح کے لیے تھی ، نہ کہ کسی ناجائز شہوت رانی کے لیے کیونکہ اللہ کا نبی کسی کو گناہ کی دعوت نہیں دے سکتا ، دوسری بات جسے عام مفسرین تسلیم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی ” میری بیٹیوں “ سے مراد قوم کی بیٹیاں تھیں کیونکہ قوم کی ساری عورتیں پیغمبر کی بیٹیاں اور پیغمبر بمنزلہ باپ ہوتا ہے ، بہرحال اللہ کے نبی نے اپنی قوم کو جائز کام کی دعوت دی ، قوم ہم جنسی جیسا غیر فطری کام کرنا چاہتی تھی ، حالانکہ یہ فعل تو جانوروں میں بھی نہیں پایا جاتا چہ جائیکہ انسان جیسی اعلی وارفع مخلوق اس فعل کا ارتکاب کرے ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ تمام جانوروں میں سے صرف بندروں میں یہ قبیح خصلت پائی جاتی ہے ، ان کے علاوہ کسی جانور میں نہیں پائی جاتی ۔ (ہم جنسی کی سزا) فقہائے کرام نے زنا اور ہم جنسی کے تقابل میں بحث کی ہے قرآن پاک میں دونوں افعال کو فحش کہا گیا ہے ، دونوں ہی طریقے شہوت رانی کا ذریعہ ہیں مگر فرق یہ ہے کہ زنا می یہ تعلق مخالف جنس سے قائم کیا جاتا ہے جو کہ فطری امر ہے اور قانون توڑنے کی بناء پر فحش بنتا ہے مگر ہم جنسی تو ہے ہی خلاف فطرت کام ، لہذا اس کو بھی فحش سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس بارے میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے کہ آیا زنا کی طرح لواطت کے جرم میں بھی حد جاری ہوگی یا نہیں ، زنا کی حد یہ ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو سنگسار کیا جاتا ہے اور غیر شادی شدہ کو کوڑے لگتے ہیں ، چناچہ بعض آئمہ اس فعل کو زنا کے مساوی قرار دیکر اس کے متعلقین پر بھی حد جاری کرنے کے حق میں ہیں البتہ امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دوسرے آئمہ فرماتے ہیں کہ ہم جنسی زنا کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ یہ قابل تعزیر جرم ہے جس کی سزا قید وبند سے لے کر سزائے موت تک ہو سکتی ہے تاہم امام ابن کثیر (رح) نے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) سزائے موت کے قائل ہیں فرماتے ہیں کہ ایسے مجرم کو کسی بلند مینار پر چڑھا کر نیچے پھینک دیا جائے یا کسی دیوار کے نیچے کھڑا کر کے اوپر دیوار گرا دی جائے ، گویا اس فحش عمل پر عبرتناک سزا ملنی چاہئے ، جبھی تو لوط (علیہ السلام) قوم سے کہتے تھے (آیت) ” انی لعملکم من القالین “۔ (الشعرائ) اے لوگو ! میں تمہارے عمل سے سخت نفرین ہوں ۔ چونکہ قضائے شہوت بنی نوع انسان پر مسلط کی گئی ہے لہذا اس کو فروکر نے کے لیے ہماری شریت کا حکم یہ ہے کہ شہوت رانی جائز نہیں (آیت) ” الا علی ازوجھم او ماملکت ایمانھم “۔ (المومنون) سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ پہلے زمانے میں لونڈی کا رواج عام تھا اور اب ڈیڑھ دو صدی سے بالکل ختم ہوچکا ہے لہذا اب قضائے شہوت کا جائز طریقہ صرف منکوحہ بیوی ہی رہ گیا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ومن ابتغی ورآء ذلک فاولیئک ھم العدون “۔ (المومنون) جو کوئی اس کے علاوہ دوسرا راستہ تلاش کرے گا تو وہ تعدی کرنے والا ہوگا ۔ اسی اصول کی بناء پر شہوت رانی کے دوسرے طریقے بھی ناجائز ہیں مثلا مشت زنی کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے ، اپنی منکوحہ بیوی سے مکروہ مقام پر وطی کرنے کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے ” من اتی امراۃ فی دبرھا اوجآء کاھنا فقد کفر بما نزل علی محمد ﷺ “ جو کوئی کو بیوی سے خلاف وضع فطری فعل کرے گا یا کاہن کے پاس جائے گا ، تو اس نے گویا شریعت محمدی کا انکار کردیا ، اب چونکہ قضائے حاجت کی ایک ہی صورت یعنی نکاح باقی رہ گئی ہے ، اس لیے شریعت نے نکاح کو آسان تر بنایا ہے ، نکاح کے معاملہ میں جتنی آسانی ہوگی اتنا ہی بہتر ہے ، اس میں جہیز اور زیور کی پابندیاں عائد کرنا سخت ناجائز ہے ، بہرحال لوط (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ قضائے حاجت کے لیے قوم کی لڑکیاں موجود ہیں ، ان سے نکاح کرو اور غلط طریقہ اختیار نہ کرو ، کہ یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ (قوم کا اصرار) آگے اللہ تعالیٰ نے جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا ہے (آیت) ” لعمرک “ آپ کی عمر یعنی آپ کی جان کی قسم (آیت) ” انھم لفی سکرتھم یعمھون “۔ بیشک وہ لوگ اپنی بدمستی میں مدہوش ، سرگردان اور اندھے ہو و ہے تھے ، ان پر اس فعل بد کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے کہنے لگے (آیت) ” مالنا فی بنتک من حق وانک لتعلم ما نرید “۔ ( ۔۔۔۔۔ تیری بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں ، بلکہ تم جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں ) ، یعنی ہم تو تمہارے مہمانوں کو حاصل کر کے انہی سے قضائے حاجت کریں گے ۔ (مسئلہ قسم) یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی قسم اٹھائی ہے حالانکہ کسی مخلوق کے لیے غیر اللہ کی قسم اٹھانا بالکل ناجائز ہے قسم صرف اللہ کے نام اور اس کی صفات کے ساتھ ہی اٹھائی جاسکتی ہے ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے ، وہ جس کی چاہے قسم اٹھائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قسم اٹھانے کی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں ، جیسے (آیت) ” والتین والزیتون “۔ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ” (آیت) ” لا اقسم بھذا البلد “۔ شہر مکہ کی قسم ہے ، مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم پر مخلوق والی قسم کا اطلاق نہیں ہوتا ، مخلوق کے کسی چیز کی قسم اٹھانے سے اس چیز کی حد درجہ تعظیم مراد ہوتی ہے ، اور یہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لیے روا نہیں ، اگر کوئی ایسا کریگا تو حضور ﷺ نے فرمایا ” من اقسم لغیر اللہ فقد اشرک “۔ جس نے غیر اللہ کے نام کی قسم اٹھائی ، اس نے شرک کا ارتکاب کیا ، اور اگر کوئی شخص قسم سے متعلقہ چیز کی خدا جیسی تعظیم نہیں بھی کرتا تو پھر بھی یہ شرک والی شکل و صورت تو ہے ، لہذا اس سے بچنا چاہئے حضور ﷺ نے فرمایا ، صرف اللہ کے نام کی قسم اٹھاؤ ، ورنہ خاموش رہو ، کسی طاغوت ، نبی ، ولی ، جن ، فرشتہ ماں ، باپ یا کسی عزیز کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے ، اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے خود کسی مخلوق کی قسم اٹھانے کا تعلق ہے تو اس سے مراد اس چیز کو محض بطور گواہ پیش کرنا ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی جان سے زیادہ عزیز کسی جان کو پیدا نہیں کیا ، لہذا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کی قسم اٹھا کر بات کی ہے ۔ (قوم پر عذاب) الغرض ! قوم نے لوط (علیہ السلام) کی کسی نصیحت پر کان نہ دھرا بلکہ اپنی ضد پر اڑے رہے ، لہذا خدا تعالیٰ کی گرفت کا وقت قریب آچکا تھا ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فاخذتھم الصیحۃ مشرقین “۔ پس پکڑا ان کو چیخ نے سورج نکلتے وقت ، اللہ نے کئی قسم کی سزائیں نازل فرمائیں جن کا ذکر مختلف مقامات پر آتا ہے ، سخت خوفناک آواز کے علاوہ ان پر پتھر بھی برسائے گئے اور جس خطہ ارضی میں وہ قوم آباد تھی اللہ نے اس پورے خطہ کو الٹ دیا ، فرمایا (آیت) ” فجعلنا عالیھا سافلھا “۔ ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو نیچے اور نیچے والے حصے کو اوپر کردیا ، (آیت) ” وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل “۔ اور ان پر کھنگر قسم کے پتھروں کی بارش کی ، تو اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے تین سزاؤں کا ذکر کیا ہے ایک تو زبردست چیخ آئی جس سے ان پر دہشت طاری ہوئی کہ ان کے دل پھٹ گئے ، اللہ نے انکی ساری بستیوں کو آسمان کے قریب تک اٹھا کر الٹ دیا ، اور پھر ان پر پتھر بھی برسائے ، ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جسے ہلاک کرنا مقصود تھا ، اس طرح چار لاکھ سے زیادہ آبادی کی یہ بستیاں آنا فانا صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ (مسئلہ فراست) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان فی ذلک لایت للمتوسمین “۔ بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں غور وفکر کرنے والے لوگوں کے لیے توسم کا معنی تاڑنا ، دیکھنا ، دھیان کرنا اور غور کرنا ہے ، اصل میں یہ لفظ کسی علامت کے مشاہدے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور یہاں پر فراست کے معنوں میں آیا ہے ، فراست ایک قسم کی دانائی اور زیرکی کا نام ہے جس کے ذریعے غور وفکر کرنے سے انسان کو بعض چیزیں معلوم ہوجاتی ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے ” اتقوا من فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ “۔ ایک روایت میں ” بتوفیق اللہ کے الفاظ بھی آتے ہیں مطلب یہ ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور یا اس کی توفیق سے بعض چیزیں دیکھ لیتا ہے ۔ امیر عبدالرحمن ، امیر امان اللہ خان والی کابل کے دادا تھے ، بادشاہ وقت اور صاحب علم آدمی تھے ، آپ نے تاریخ کی کتاب بھی لکھی ہے ، ان کے متعلق حضرت شیخ الاسلام (رح) فرماتے ہیں کہ آپ کے نزدیک کشف اور فراست میں اسی قدر فرق ہے جس قدر ٹیلیفون اور ٹیلگرام (تار) میں جب ٹیلیفون پر بات ہوتی ہے تو اس میں صریح الفاظ کا تبادلہ ہوتا ہے ، جیسا کہ آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کی جاتی ہے ۔ البتہ ” ٹیلیگرام ایک ایسا ذریعہ مواصلات ہے جس میں ٹک ٹک کی صرف آواز ہوتی ہے اور پیغام وصول کرنے والے ان آوازوں کو الفاظ کا جامہ خود پہناتا ہے تو گویا صاحب فراست آدمی بعض اشارات سے بات کا مفہوم خود سمجھتا ہے ، صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں کہ مشائخ نقشبندیہ میں سے ایک اونچے درجے کے بزرگ خواجہ عبدالخالق مجلس میں بیٹھے معرفت کی باتیں کر رہے تھے کہ ایک نوجوان آدمی مجلس میں آیا جس کے درویشوں کا خرقہ پہن رکھا تھا اور کندھے پر مصلی تھا ، جب مجلس ختم ہوئی تو وہ درویش منش نوجوان خواجہ صاحب کے قریب ہوا ، اور پوچھا حضرت ! ” اتقوا فراسۃ المؤمن “ والی حدیث کا کیا مطلب ہے ؟ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ اس حدیث کی حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو زنار پہن رکھا ہے ، اسے توڑ دو اور ایمان قبول کرلو ، اس پر پہلے تو اس شخص نے انکار کیا ، مگر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے جسم کے ساتھ زنار بندھا ہوا ملا چناچہ اس شخص نے اقرار کیا کہ وہ مجوسی ہے اور خواجہ صاحب (رح) کی آزمائش کے لیے آیا تھا ، اس نے خواجہ صاحب (رح) کی اس فراست کو کرامت پر محمول کیا اور زنار توڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا ، خواجہ صاحب نے حاضرین مجلس سے فرمایا کہ دیکھو ! اس نومسلم شخص نے ظاہری زنار تو توڑ دیا ہے آو ہم سب مل کر توبہ کریں اور باطنی زنار کو بھی توڑ دیں ، اس پر مجلس میں شور اٹھا اور سب نے توبہ کی ، مطلب یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی فراست سے اس شخص کو پہچان لیا تھا کہ یہ مجوسی ہے ۔ (نشانات عبرت) اللہ نے فرمایا کہ صاحب فراست لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو ان کے جرم کی کیسی عبرتناک سزا دی ، ہر فرد اور قوم کو جان لینا چاہئے کہ اگر اس قسم کے جرائم ان میں بھی ہوں گے تو وہ بھی عذاب الہی سے نہیں بچ سکیں گے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وانھا لبسبیل مقیم “۔ اور بیشک یہ بستیاں البتہ آباد شاہراہ پر واقع ہیں ، یعنی عبرت کے نشانات ایسے راستے پر ہیں جہاں لوگوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے (آیت) ” ان فی ذلک لایۃ للمومنین “۔ اسی لیے ان میں مومنوں کے لیے بھی نشانی ہے ، جب وہاں سے گزرتے ہیں اور ان بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھتے ہیں تو انہیں بھی عبرت حاصل کرکے ایسی برائیوں سے بچنے کی کوششوں کرنی چاہئے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے باغیوں کو کیسی عبرت ناک سزا دیتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” وان کان اصحب الایکۃ الظلمین “۔ بیشک شان یہ ہے کہ ایکہ والے بھی بڑے ظالم لوگ تھے ، مدین اور ایکہ والے ایک ہی قوم کے افراد تھے ، مدین شہر تھا اور ایکہ اس کے نواح میں جنگل تھا ، بعض فرماتے ہیں کہ یہ دو مختلف قومیں تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف حضرت شعیب کو مبعوث فرمایا تھا ، فرمایا (آیت) ” فانتقمنا منھم “۔ پھر ہم نے ان سے ان کی سرکشی کا انتقام لیا ، لوط (علیہ السلام) کی قوم اور ایکہ والے (آیت) ” وانھما لبامام مبین “۔ دونوں بڑی شاہراہ پر واقع تھے عراق سے مصر جانے ولے لوب بھی اسی راستے سے ہو کر گزرتے تھے اور حجاز سے شام اور فلسطین مسافروں کو بھی اسی شاہراہ سے گزرنا ہوتا تھا اور وہ ان اجڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھتے تھے مکہ کے لوگ بھی اسی راستے سے گزرتے تھے ، ا س لیے اللہ نے ان کو بھی یاد دلایا کہ وہ ان ویران بستیوں سے عبرت حاصل کریں ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھر بحر میت کا علاقہ سطح سمندر سے کافی نشیب میں واقع ہے ، اس کے بعض خطوں کا پانی اس قدر زہریلا ہے کہ اس میں کوئی مینڈک ، مچھلی یا کیڑا مکوڑا زندہ نہیں رہ سکتا ، سفر تبوک کے دوران جب حضور ﷺ کا اس وادی سے گزر ہوا تو آپ نے سر پر چادر ڈال لی اور جلدی جلدی گزرنے کی کوشش کی ، فرمایا مجھے ڈر ہے کہ جو عذاب ان قوموں پر آیا تھا کہیں ہم بھی اس میں گرفتار نہ ہوجائیں ، مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جس خطہ کو اللہ تعالیٰ نے جائے عبرت قرار دیا ہے ، اسے جدید روشنی والوں نے تفریح گاہ بنا لیا ہے ، وہاں پر عجائب گھر قائم کردیا گیا ہے ساتھ ہوٹل بھی ہیں جہاں لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں حالانکہ ایسے مقامات سے عبرت حاصل ہونی چاہئے تھی اور لوگوں کو معاصی سے باز آجانا چاہئے تھا۔
Top