Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 36
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب فَاَنْظِرْنِيْٓ : تو مجھے مہلت دے اِلٰى : تک يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : جس دن (مردے) اٹھائے جائیں
کہا (شیطان نے) اے پیغمبر ﷺ ! پس مہلت دے مجھ کو اس دن تک جس دن ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ۔
(ربط آیات) پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کیا ، ایک معمولی چیز یعنی سڑے ہوئے بدبودار گارے والی مٹی سے انسان کو پیدا کیا اور اسے کمال درجے کی حیثیت اور شان عطا فرمائی ، اس میں روح ڈالی ، فرشتوں سے اس کو سجدہ کرایا ، ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اپنی برتری جتلانے کی کوشش کی کہ میں ناری ہو کر خاکی کے سامنے کیسے سجدہ بجا لاؤں ، اس نے تکبر میں آکر اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرتابی کی ، تو اللہ نے اسے مردود ٹھہرا دیا اور فرمایا کہ قیامت تک تجھ پر لعنت ہی برستی رہے گی ، (مہلت کی درخواست) اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کے بعد شیطان نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لیے مہلت طلب کی ، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے ” قال “ شیطان نے کہا (آیت) ” رب فانظرنی “ اے پیغمبر ﷺ ! مجھے مہلت دے (آیت) ” الی یوم یبعثون “۔ اس دن تک کے لیے جب سب لوگ دوبارہ جی اٹھیں گے انظار مہلت دینے کو کہتے ہیں ، اس کی مثال حدیث شریف میں ملتی ہے ، حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے ” من انظر معسرا او تجاوز عنہ فاظلہ اللہ فی یوم لاظل الا ظلہ “۔ جو آدمی کسی تنگ دست کو مہلت دے یا قرضہ معاف ہی کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیگا ، جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ، تو بہرحال ابلیس نے بھی قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تو اللہ رب العزت نے فرمایا (آیت) ” قال فانک من المنظرین “۔ پس بیشک تو مہلت دے ہوؤں میں سے ہے گویا اللہ تعالیٰ نے شیطان کی درخواست قبول کرلی ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان جیسے بدترین کافر کی دعا فورا قبول کرلی جس کا یہ مطلب نہیں ہے جس کی دعا قبول کرلی جائے وہ لازما مقبول ہستی ہوتا ہے ، یعنی دعا کی قبولیت دعا کرنے والے کی مقبولیت کی شرط نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی بدترین مخلوق کی دعا بھی قبول کرے ، اس کا انحصار اس کی حکمت اور مصلحت پر ہے مومن کی دعا کی قبولیت تو اس کی سعادت کی بات ہے مگر ہو سکتا ہے کہ دنیوی مفاد کے لیے دعا کسی نافرمان کی بھی قبول کرے ، وہ مالک الملک اور مختار کل ہے ، اس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں مگر یہ اس کی سعادت کی علامت نہیں سمجھی جائے گی ، یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ شیطان نے دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک اپنی زندگی کی مہلت طلب کی جس سے اس کی مراد یہ تھی کہ یوم البعث تک تو اسے ویسے ہی زندگی حاصل ہوجائے گی اور اس دن سب کو پھر جی اٹھنا ہے ، اس طرح وہ موت کی کٹھن گھاٹیوں سے بچ جائے گا مگر اللہ نے فرمایا کہ تمہیں مہلت دیدی ہے مگر وہ یوم البعث تک نہیں بلکہ (آیت) ” الی یوم الوقت المعلوم “۔ معلوم وقت کے دن تک یعنی اس دن تک جس دن قیامت برپا ہوگی گویا اسے قیامت کے اعلان کے ساتھ ہی باقی ماندہ مخلوق کی طرح موت سے ہمکنار ہونا پڑیگا ، قیامت سے متعلق قرآن وحدیث میں تصریح موجود ہے کہ دو دفعہ صور پھونکا جائے ، جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہوجائے گی ہر زندہ ہستی پر موت طاری ہوگی اور کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی ، پھر چالیس سال کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ دوبارہ زندہ ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کو رعایت پہلے صور تک دی تاکہ موت اس پر بھی طاری ہو ، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت شیطان سخت پریشان ہوگا ، فرشتے اس کو گھیریں گے اسے بڑی تلخی ہوگی اور وہ بہت تڑپے گا ، پھر دوسرے صور پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور جزائے عمل کے لیے پیش ہوگا۔ (گمراہ کرنیکا عزم) بہرحال جب شیطان کو مہلت مل گئی ” قال “ تو کہنے لگا (آیت) ” رب بما اغویتنی “۔ اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ ٹھہرایا ہے ، اب میں یہ کرونگا (آیت) ” لازینن لھم فی الارض “۔ ان لوگوں کے لیے میں زمین میں مزین کروں گا یعنی اس سطح ارضی پر ہونے والی تمام برائیوں اور بےحیائیوں کو لوگوں کے لیے خوشنما کرکے دکھاؤں گا تاکہ انہیں کی طرف مائل ہوجائیں اور تیرے راستے سے ہٹ جائیں گویا کہ (آیت) ” ولا غوینھم اجمعین “۔ ضرور سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا ، مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ شیطان نے یوں کہا تھا کہ اے اللہ ! جب تک انسانوں کی روحیں ان کے جسموں میں موجود ہیں ، میں انھیں گمراہ کرتا رہوں گا ، اور ان کی گمراہی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا ، میں ان کو گمراہ کرنے کے لیے تمام وسائل برائے کار لاؤں گا ، سورة اعراف میں ہے میں تیری عبادت کے راستے سے آکر بھی گمراہ کروں گا ، میں ان کے آگے سے بھی آؤں گا اور پیچھے سے بھی ان کی دائیں طرف سے بھی آؤں گا اور بائیں طرف سے بھی میں ان کو دنیا کے معاملا ت کے اعتبار سے بھی گمراہ کروں گا اور آخرت کے اعتقاد کے راستے سے آکر بھی گمراہ کروں گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان نیکی کے راستے پر چلنا شروع کرتا ہے تو شیطان راستے میں آکر بیٹھ جاتا ہے ، جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے ، زکوۃ دیتا ہے ، روزہ رکھتا جہاد یا حج کے لیے نکلتا ہے تو شیطان اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے اس نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ مخلوق خدا کو کفر ، شرک ، بدعات ، رسوم باطلہ ، عیاشی ، فحاشی اور بےحیائی کے کاموں کو مزین کرکے دکھائے گا اور اللہ کے بندوں کو گمراہ کر نیکی کوشش کرے گا اللہ نے بھی فرمایا کہ مجھے میری عزت و جلال کی قسم جب تک میرے بندے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے رہیں گے ، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا ، (مخلصین کی حفاظت) لوگوں کو گمراہ کرنے کے عزم کے ساتھ شیطان نے کچھ استثناء بھی کی ہے ، کہا میں سب کو گمراہ کروں گا (آیت) ” الا عبادک منھم المخلصین “۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ، یعنی تیرے برگزیدہ اور منتخب بندوں پر میرا داؤ نہیں چل سکے گا ، باقی سب کو اپنے دام میں پھنسا لوں گا ، قال اللہ نے فرمایا (آیت) ” ھذا صراط علی مستقیم “۔ یہی مجھ تک سیدھا راستہ ہے اللہ نے مزید فرمایا (آیت) ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطن “۔ بیشک میرے بندے ایسے ہیں کہ تجھے ان پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکے گا ، یعنی تم انہیں گمراہ نہیں کرسکو گے (آیت) ” الا من اتبعک من الغوین “۔ سوائے ان گمراہوں میں سے جنہوں نے تیری پیروی اختیار کرلی ایسے لوگوں کو تو گمراہ کرسکے گا ، وگرنہ میرے مخلص بندے تیرے دام میں نہیں پھنسیں گے ۔ مفسرین کرام اس بات میں کلام کرتے ہیں کہ شیطان نے تو یہ کہا کہ تیرے مخلص بندے میرے قابو میں نہیں آئیں گے مگر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا اللہ کے برگزیدہ بندے ہونے کے باوجود شیطان کے وسوسے میں آگئے ، اسی طرح بعض دوسرے انبیاء اور بزرگ ہستیوں کے متعلق بھی اس قسم کے واقعات ملتے ہیں ، خود موسیٰ (علیہ السلام) سے جب ایک لغزش ہوگئی تو انہوں نے یہی کہا تھا (آیت) ” ھذا من عمل الشیطن “۔ (القصص) یہ تو شیطان کا عمل ہوا ہے گویا شیطان نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی پھسلا دیا ، تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے مخلص بندوں کے استثناء کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان سے کوئی ایسا گناہ سرزد نہیں کرا سکے گا ، جس سے بندے تو یہ نہ کرسکیں یا جن کی معافی کی گنجائش نہ ہو ، اگر شیطان وسوسہ اندازی کرے گا تو اللہ کے بندے معافی مانگ لیں گے اور انہیں معافی مل جائے گی ، غرضیکہ شیطان مخلص بندوں سے کوئی ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب نہیں کرسکتا ، اور اس سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کے مخلص بندوں پر شیطان کی معمولی معمولی باتیں بھی اثر انداز نہ ہوں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کا ذکر ایک قلعہ کی مانند ہے جس کی وجہ سے مومن شیطان کے وساوس سے محفوظ رہ سکتا ہے ، سورة اعاف میں یہ بھی موجود ہے (آیت) ” ولا تجد اکثرھم شکرین “۔ کہ اے اللہ ! تو اپنے اکثر بندوں کو شکر گزار پائے گا تو گویا لوگوں کی اکثریت ناشکر گزار ہی ہوگی ، چناچہ یہی ہوا (آیت) ” ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ “۔ ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور لوگوں کی اکثریت نے شیطان کی پیروی کی ، چناچہ دنیا بھر میں نافرمانوں کی اکثریت ہی رہی ہے ، اور آج بھی یہی حال ہے کہ فرمانبردار تھوڑے ہیں ۔ (گمراہوں کی جہنم رسیدگی) فرمایا جو بھی تیرا اتباع کرکے گمراہ ہوجائے گا (آیت) ” وان جھنم لموعدھم اجمعین “۔ ایسے تمام لوگوں کے وعدے کام مقام جہنم ہے اور جہنم کی تعریف یہ ہے (آیت) ” لھا سبعۃ ابواب “۔ اس کے سات دروازے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سات گیٹ سات طبقات کے لحاظ سے ہیں جہنم کے کل سات طبقے ہیں اور ہر طبقے کا الگ الگ دروازہ ہے ، ہر طبقے کے لوگ اپنے مخصوص دروازے سے جہنم میں داخل ہوں گے جہنم کے ان سات طبقات کا ذکر قرآن پاک میں بھی آتا ہے یعنی جہنم ، سعیر ، لظی ، حطمہ ، سقر ، جحیم ، اور ہاویہ ۔ بعض فرماتے ہیں کہ جہنم کے دروازے جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے ہوں گے ، مثلا کفر اور شرک کرنے والے ایک گیٹ سے داخل ہوں گے ، زناکار اور اس سے متعلقین دوسرے دروازے سے ظلم کرنے والوں کا دروازہ علیحدہ ہوگا ، حقوق ضائع کرنے والوں اور سرکش لوگوں کے داخلے مختلف دروازوں سے ہوں گے ، گویا کل جرائم کو سات گروپوں میں تقسیم کر کے ان کے لیے ایک ایک دروازہ مختص کردیا جائے گا ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ حشر کے میدان میں مختلف گروہ یا جماعتیں بن جائیں گی ، مثلا سو نمبر کی نیکی والے ایک صف میں کھڑے ہوجائیں اور ننانوے نمبر والے دوسری صف میں ، اسی طرح جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے بھی الگ الگ صف بندی ہوگی اور اس طرح لوگ جنت یا جہنم میں داخل ہوں گے ، تاہم فرمایا کہ دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں (آیت) ” لکل باب منھم جزء مقسوم “۔ ان میں سے ہر دروازے کے لیے انسانوں کا ایک تقسیم شدہ حصہ ہے جو اس میں سے داخل ہوگا ، جہنم کے ساتھ دروازے ہیں تو جنت کے آٹھ ہیں ، حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے کہ جنت میں بھی لوگ اعمال کے لحاظ سے داخل ہوں گے ، مثلا ایک دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے ، علی ہذا القیاس ، اور آٹھواں دروازہ محض صحیح عقیدے والے لوگوں کے لیے مخصوص ہوگا ، ایسے لوگ جن کے پاس عمل تو کوئی نہیں ہوگا ، مگر عقیدہ بالکل درست ہوگا ، ان کے ایمان اور توحید کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل وکرم سے اس دروازے میں داخل کریگا جس شخص کا عقیدہ فاسد ہوگا وہ کبھی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ، یہ جزائے عمل کا ذکر بھی ہوگیا شیطان کے اغوا اور اس کی پیروی کرنے والوں کی بات ہوئی ، اب اگلی آیات میں اللہ نے اپنے نیک بندوں یعنی متقین اور ان کو ملنے والے انعامات کا ذکر فرمایا ہے ۔
Top