بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَ : اور قُرْاٰنٍ : قرآن مُّبِيْنٍ : واضح۔ روشن
الر یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور قرآن کی جو کھول کر بیان کرنے والا ہے ۔
(نام اور کوائف) اس سورة کا نام سورة الحجر ہے ، حجر ایک وادی کا نام ہے جو مکہ اور شام کے درمیان تبوک کے قریب واقع ہے ، ہزاروں سال پہلے ثمود جیسی متمدن قوم اس وادی میں آباد تھی یہاں پر ان کے سترہ سو بڑے بڑے شہر اور قصبات تھے ، اس سورة کا نام اسی وادی کے نام سے الحجر موسوم ہے ان لوگوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب آیا اور وہ ہلاک ہوئے ، یہ سورة مبارکہ مکی دور میں نازل ہوئی ، اس کی 99 آیات اور چھ رکوع ہیں ، یہ سورة 654 الفاظ اور 2770 حروف پر مشتمل ہے ۔ (مضامین سورة ) سابقہ مکی سورتوں کی مانند اس سورة مبارکہ میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد قرآن پاک کی حقانیت ، معاد ، رسالت اور توحید ہی کا ذکر ہے ، گذشتہ سورة میں رسالت کا بیان تفصیل کے ساتھ آیا تھا جب کہ اس سورة میں مجرمین کی مہلت کے مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، گذشتہ سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ تھا تو اس سورة میں حضرت شعیب اور لوط (علیہما السلام) کی قوم کی نافرمانی کا ذکر ہے ، البتہ ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اس سورة میں بھی آیا ہے ، توحید کے عقلی اور نقلی دلائل اس سورة میں بھی بیان ہوئے ہیں اور دلائل قیامت اور محاسبے کا عمل حسب سابق بیان ہوا ہے ، بہرحال اس سورة میں بھی زیادہ تر بنیادی عقائد ہی بیان کیے گئے ہیں ۔ گذشتہ سورة کی طرح اس سورة کا بھی ایک اہم مضمون حضور ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے لیے تسلی کا مضمون ہے ، اللہ نے اہل ایمان کو فرمایا کہ آپ مجرمین کو ریشہ دوانیوں سے گھبرائیں نہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دے رہا ہے مگر بالآخر اس کی گرفت میں آجائیں گے ۔ (حروف مقطعات) اس سورة مبارکہ کا آغاز بھی حروف مقطعات الر سے ہو رہا ہے ۔ جیسا کہ سورة ابراہیم کی ابتداء میں بھی عرض کیا تھا مفسرین نے ان حروف کے مختلف معانی بیان کیے ہیں تاکہ لوگوں کے اذہان قرآن پاک سے مانوس رہیں ، بعض مفسرین فرماتے ہیں ” ا “ سے انا ، ل سے اللہ اور ” ر “ سے رؤیت مراد ہے اور تینوں حروف کو ملانے سے انا اللہ اری بنتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری تمام حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوں ، گویا یہ جزائے عمل کی طرف اشارہ ہے کہ اے میرے بندو ! تمہارا کوئی عمل میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ، میں ایک ایک عمل کا حساب لوں گا اور پھر اس کے مطابق جزا اور سزا کا فیصلہ کروں گا ۔ بعض فرماتے ہیں کہ ” ا “ سے اللہ ” ل “ سے جبرائیل اور ” را “ سے رسول مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک کے حقائق اللہ رب العزت نے جبرائیل (علیہ السلام) کی وساطت سے اپنے رسول مقبول ﷺ پر نازل فرمائے ہیں ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ذوقی طریقے سے میرے ذہن میں ڈالا ہے کہ ان حروف سے مقامات انبیاء کی طرف اشارہ ہے ، عالم غیب کے حقائق الہیہ اسی مادی جہان میں آکر متعین ہوتے ہیں اور نافرمان لوگوں کے باطل عقائد اور برے اعمال کے ساتھ ٹکراتے رہتے ہیں ، پھر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کوشش سے باطل باتیں مٹتی رہتی ہیں اور حق ظاہر ہوتا رہتا ہے ، یہ گویا مقامات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ ہے ، تاہم جیسا کہ صاحب جلالین فرماتے ہیں (1) (جلالین ص 4) زیادہ سلامتی والا طریقہ یہ ہے ” اللہ اعلم بمرادہ “۔ ان کی حقیقی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اللہ کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے ، ہر چیز کی حقیقت کو جاننا ہمارے لیے ضروری نہیں ۔ (قرآن کی حقانیت ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” تلک ایت الکتب “۔ یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور کتاب سے مراد ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے : وقران مبین “۔ کہ وہ قرآن ہے جو کھول کر بیان کرنے والا ہے ، صحیح معنوں میں کتاب کہلانے کی حقدار صرف یہی کتاب قرآن پاک ہے جو پڑھ کر سنائی جا رہی ہے اور جس کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، یہی وہ کتاب ہے جس میں پوری انسانیت کی فلاح اور نجات کا پروگرام موجود ہے ، جہاں تک قرآن کے مبین ہونے کا تعلق ہے تو اس کی یہ صفت خود قرآن میں بتکرار بیان ہوئی ہے ، قرآن اپنے مطالب کبھی خود براہ راست کھولتا ہے ، اگر کسی ایک مقام پر کسی معاملہ میں اجمال پایا جاتا ہے تو دوسرے مقام پر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جاتا ہے ، قرآن پاک کی وضاحت کا دوسرا ذریعہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی زبان مبارک ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بات کا پابند کیا ہے (آیت) ” لتبین للناس “ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے کھول کر بیان کردیں ، چناچہ قرآن پاک کی تفسیر وتشریح احادیث صحیحہ میں موجود ہے ، اگر کوئی بات نبی کی زبان سے بھی واضح نہ ہوئی ہو یعنی اس کے بعض جزوی مسائل کی تشریح مطلوب ہو تو خود اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” لعلمہ الذین یستنبطونہ “۔ (النسائ) تو اسے استباط اور اجتہاد کرنے والے آئمہ کے سپرد کر دو ، وہ تحقیق کر کے مسئلہ کا حل بتا دیں گے ، امام ابوبکر جصاص (رح) چوتھی صدی کے عظیم المرتبت حنفی امام گزرے ہیں جنہوں نے تفسیر الاحکام “ جیسی عمدہ تفسیر لکھی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی تبیین کبھی براہ راست قرآن سے ہوتی ہے کبھی نبی کی زبان سے اور کبھی مجتہد اور علماء قرآنی اصولوں کے مطابق تشریح کرتے ہیں یہ سارے طریقے قرآن کی وضاحت میں داخل ہیں ، بہرحال اس سورة کی پہلی آیت میں قرآن پاکی حقانیت اور صداقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ (کفار کی آرزو) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجرمین کے متعلق فرمایا ہے (آیت) ” ربما “ بسا اوقات (آیت) ” یود الذین کفروا “ کافر لوگ آرزو کریں گے (آیت) ” لوکانوا مسلمین “۔ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے یہ اس وقت کی بات اللہ نے بیان کی ہے جب کافر لوگ عذاب میں مبتلا ہوچکے ہوں گے مگر بعض لمحات ایسے بھی آئیں گے جب وہ تمنا کرسکیں گے ، کہ کاش وہ بھی ایمان لے آتے تو یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حساب کتاب کے مرحلے سے گزرنے کے بعد بعض ایمان والے بھی اپنے گناہوں کی پاداش میں کچھ عرصہ کے لیے جہنم میں جائیں گے تو اس وقت کافر ان کو طعنہ دیں گے کہ تم نے تو دنیا میں ایمان کو قبول کیا ، اب ہمارے ساتھ جہنم میں کیوں پڑے ہو ، پھر وہ سزا بھگتنے کے بعد آہستہ آہستہ جہنم سے نکلتے جائیں گے تو اس وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اگر ہم بھی دنیا میں ایمان لے آتے تو آج ان کے ساتھ ہی دوزخ سے نکل جاتے ، مگر اس وقت کا پچھتانا کچھ کام نہ آئے گا کیونکہ عمل کا وقت ختم ہو کر جزا کا وقت آچکا ہوگا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کفار کی یہ حسرت صرف آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عام ہے اور اس کا اطلاق اس دنیا پر بھی ہو سکتا ہے چناچہ بدر اور بعض دوسرے مواقع پر جب مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو ذلت وناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ، تو انہوں نے اس وقت آرزو کی کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے تو آج ذلیل و خوار نہ ہوتے تاہم زیادہ قرین قیاس یہی بات ہے کہ کافر لوگ آخرت میں یہ آرزو کریں گے ۔ (کفار کے لیے مہلت) اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو ارشاد فرمایا (آیت) ” ذرھم “ آپ ان کو چھوڑ دیں (آیت) ” یاکلوا ویتمتعو “۔ یہ کھالیں اور فائدہ اٹھالیں ، فرمایا آپ ان کی طرف سے زیادہ تشویش میں نہ پڑیں بلکہ انہیں دنیا کی ترغیبات سے مستفید ہونے دیں ، انہیں مہلت دیں کہ یہ فائدہ اٹھا لیں ، سورة محمد میں کفار کے متعلق آتا ہے (آیت) ” یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لھم “۔ کہ یہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جیسے مویشی کھاتے ہیں مگر بالاخر ان کا ٹھکانا جہنم ہے (آیت) ” ویلھھم الامل “۔ اور غفلت میں ڈالے ان کو ان کی آرزو ، اس دنیا میں تو یہ بلاتمیز حلال و حرام چوپایوں کی طرح کھاتے رہتے ہیں اور دنیا کی لوازمات سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں مگر (آیت) ” فسوسف یعلمون “۔ انہیں عنقریب پتہ چل جائے گا کہ انکی غفلت ، لاپرواہی اور عیش و عشرت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا ” الکافر یا کل فی سبعۃ امعاء “۔ یعنی کافر آدمی سات آنتوں میں کھانا کھاتا ہے وہ خوب پیٹ بھرتا ہے کیونکہ اسے آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ، اس کے برخلاف ” والمؤمن یا کل فی معی واحد “۔ مومن آدمی صرف ایک آنت میں کھاتا ہے یعنی وہ صرف اتنا کھانا کھاتا ہے جس سے اس کی روح اور جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے اور اس میں اتنی قوت موجود رہے جس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دیگر فرائض انجام دے سکے اسی لیے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دیں ، کھانے دیں اور فائدہ اٹھانے دیں ، انہیں جلد ہی نتیجے کا پتہ چل جائے گا ۔ (حضور ﷺ کی تشویش) حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ دو چیزوں کے متعلق میں اپنی امت کے لوگوں پر خوف رکھتا ہوں یعنی اتباع الھوی وطول الامل ان میں سے ایک خواہشات کی پیروی ہے اور دوسری لمبی لمبی آرزوئیں ہیں اتباع ہوی کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے قانون کو چھوڑ کر شیطان کے پیچھے چلتا رہے ، اسی لیے اللہ نے فرمایا (آیت) ” ولا تتبعوا خطوت الشیطن “۔ (البقرہ) لوگو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، حق کے مقابلے میں رسم و رواج اختیار کرنا خواہشات اور شیطان کی پیروی کی مترادف ہے ، اگر سنت کا خیال نہیں رکھو گے ، خدا تعالیٰ کے حکم اور شریعت کی پرواہ نہیں کرو گے ، خوشی اور غمی کے موقع پر قوم ، خاندان اور برادری کے کہنے پر چلو گے ، تو یہی خواہشات کی پیروی ہے ، فرمایا ، مجھے دوسرا خطرہ لمبی لمبی آرزؤوں کا ہے ، انسان بیشمار منصوبے بناتے ہیں کہ یہ کریں گے ، پھر وہ کریں گے ، اتنا فائدہ ہوگا ، اتنی شہرت ہوگی ، انسان اسی بات میں لگا رہتا ہے آخرت کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا ، حتی کہ اسے موت آجاتی ہے اور اس کی ساری آرزوئیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ، حضور ﷺ کا یہ فرمان ہے اتباع ہوا ایسی چیز ہے ” یصد عن الحق “ ، جو حق بات سے روکتی ہے ” واما طول الامل فینسی الاخرۃ “۔ اور لمبی آرزو وہ ہے جو آخرت کو فراموش کرا دیتی ہے ، انسان کو آخرت کی فکر کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ، جتنی لمبی آرزو ہوگی اتنی ہی آخرت سے غفلت ہوگی ، (مقررہ وقت پر ہلاکت) فرمایا کہ کافر لوگ جو کچھ کرتے ہیں انہیں کرنے دیں اس وقت انہیں مہلت مل رہی ہے مگر ہر فرد اور قوم کے لیے ہم نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے (آیت) ” وما اھلکنا من قریۃ الا ولھا کتاب معلوم “۔ ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کی ہلاکت کا مقررہ وقت لکھ دیا گیا تھا ، ہم نافرمان قوموں کو مہلت دیتے رہے ، پھر جب ان کا مقررہ وقت آگیا تو وہ گرفت میں آئے اور ہلاک ہوگئے ، فرمایا یہاں پر ایک یہ قانون بھی ہے (آیت) ” ما تسبق من امۃ اجلھا وما یستاخرون “۔ کسی امت کی موت آگے پیچھے نہیں ہوتی ، مگر عین وقت مقررہ پر وارد ہوجاتی ہے ، چناچہ اس سورة میں اللہ نے کئی قوموں کے حالات بیان کیے ہیں جن کو مہلت دی گئی اور پھر جب ان کی ہلاکت کا وقت آگیا تو لحظہ بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہوا ، بلکہ عین وقت پر ان کا کام تمام کردیا گیا ۔ اس میں حضور ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے لیے تسلی کا مضمون بھی ہوگیا کہ کفار کے جوش وجذبے اور ان کے غلبے کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہئے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور آخرت میں ان کا انجام بہت برا ہوگا ، فرمایا ان کو چھوڑ دیں اور دنیا کے لوازمات سے فائدہ اٹھانے دیں ، ایک مقررہ وقت آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ کی گرفت آئے گی اور یہ مجرم لوگ پکڑے جائیں گے اگر دنیا میں مصلحت خداوندی کے مطابق سزا سے بچ بھی گئے تو اگلے جہان میں یقینی طور پر سزا میں مبتلا ہوں گے ۔
Top