Mazhar-ul-Quran - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
نوح نے عرض کی : اے میرے1 پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو (دین حق کی طرف) رات اور دن بلایا۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت کا ذکر۔ (ف 1) اوپر کی آیتوں میں حضرت نوح کو جس طرح اللہ کا حکم تھا اس کے موافق حضرت نوح نے نو سو برس تک ان کو سمجھاتے رہے جب امید کی کوئی سورت باقی نہ رہی تو مایوس اور تنگ دل ہوکربارگاہ الٰہی میں عرض کیا یا اللہ میں نے اپنی طرف سے دعوت تبلیغ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں برابر ان کو تیری طرف بلاتا رہا، مگر نتیجہ یہ ہوا کہ جوں جوں تیری طرف آنے کو کہا گیا یہ بدبخت اور زیادہ ادھر سے منہ پھیرکربھاگے اور جس قدر میری طرف سے شفقت ودل سوزی کا اظہار ہوا ان کی جانب سے نفرت اور بےزاری بڑھتی گئی سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا مگر ان لوں نے میری ایک نہ سنی بلکہ یہ لوگ نصیحت کی بات سے ایسے گھبراتے ہیں کہ جب ان سے کوئی بات نصیحت کی کہی جاتی ہے تو یہ لوگ کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں منہ سرلپیٹ کر کانوں کو کپڑے کے اندر چھپالیتے ہیں تکاہ نصیحت کی بات ان کے کان آشنانہ ہوں۔ ان کی بدعادت قحط کی آفت جو ان پر برسوں سے پڑی ہوئی ہے میں نے ان کو یہ بھی سمجھایا کہ اگر تم اللہ کی جناب میں اپنی بداعمالی سے توبہ استغفار کرو گے تو اللہ تعالیٰ خوب موسلادھار مینہ برسائے گا جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہوں گے غلے پھل میوہ کی افراط ہوگی، مویشی وغیرہ فربہ ہوجائیں گے دودھ گھی بڑھ جائے گا تم آباد ہوجاؤ گے تمہارے مال واولاد میں ترقی ہوگی اولاد کی ترقی کا ذکر اس لیے کیا کہ سزا کے طور پر جس طرح ان لوگوں میں قحط پڑا تھا اسی طرح ان کے گھر اولاد کا پیدا ہونا بھی بندہوگیا تھا میں نے ان لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ اللہ کی اس قدرت کو ذراخیال کرو کہ اس نے تم میں سے کسی کو گورا کسی کو کالا، کسی کو مرد کسی کو عورت جس طرح چاہاپیدا کیا اور پھر اب پیدا ہونے کے بعد کوئی بچہ ہے کوئی جوان کوئی بوڑھا کوئی تندرست کوئی بیمار۔ پھر کوئی اچھا ہوجاتا ہے کو یء مرجاتا ہے تمہاری طرح طرح کی ضرورتوں کے لیے تم نے کیا یہ نہیں دیکھا کہ اس نے ساتھ آسمان چاند سورج کیا کیا پیدا کیا، زمین کو بچھونے کی طرح ایسانرم کردیا کہ اس میں کھیتی کروباغ لگاؤ، اس کو کھود کر اس کی اینٹ مٹی سے مکان بناؤ، پہاڑوں میں گھاٹیاں رکھیں تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کو تجارت کے لیے جاسکو، تم جو کھیتی کرتے ہو تو اناج کے ہاتھ آنے کی نیت سے کرتے ہو، باغ لگاتے ہو میوہ کھانے کے ارادہ سے اور مکان بناتے ہو تو اس میں رہنے کے قصد سے ۔ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ نے یہ سب انتظام بغیر کسی انجام کے کیے ہیں ۔ نہیں نہیں، اس سب انتظام کا انجام یہی ہے کہ جو میں تم سے کہتا ہوں کہ مرنے کے بعد اللہ پھر تم کو زندہ کرے گا اور عمر بھر بھی جو تم نے کیا ہے اس سب کی جزا اور سزا دے گا، ان سب باتوں کو بھلاکر تم نے جو خدا کی عظمت بالکل دل سے نکال دی اور بتوں کی پوجا کرنے لگے ان بتوں کو خدا کی خدائی میں کیا اختیار ہے جو ان کی پوجا سے تم کو کچھ فیض کو پہنچوگے غرض باوجود ان سب فہمائش کے یہ لوگ کس طرح راہ راست پر نہیں آتے بلکہ ان کی سرکشی دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نوح کی دوسری یہ شکایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ اس قوم کے صاحب مال اور صاحب اولاد لوگوں نے اس قوم کو یہ بہکارکھا ہے کہ اگر ہم حق پر نہوتے تو یہ نعمتیں ہم کو کیونکر ملتیں۔ اس لیے تم اپنے بتوں کی پوجا ہرگز نہ چھوڑنا، ان مالدارلوگوں کے اس بہکاوے کو حضرت نوح نے ان کا بڑا مکر اور بڑاداؤ کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے ان کے مال اور اولاد کے غرور کے سبب سے وہ خود بھی راہ پر نہیں آتے ، دوسروں کو بھی مال واولاد کے حیلہ سے بہکاتے ہیں ۔ پھر یہ شکایت کی یا اللہ ان بتوں کے سبب سے تیری بہت سی مخلوق گمراہی میں پڑگئی حضرت نوح کی قوم میں یہ پانچ بت تھے جن کا آیت میں نام بتایا گیا ہے ہر مطلب کا ایک الگ بت بنارکھا تھا وہ ہی بت پھر عرب میں آئے اور ہندوستان میں بھی اس قسم کے بت وشنو، برہما، دو اور ہنومان وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں ۔ ولاتزد الظالمین الاضلالا۔ کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ ان کی گمراہی یہاں تک بڑھی کہ آخر ان پر عذاب آجائے یہ بددعا ہے جو حضرت نوح نے اپنی قوم کے مشرک لوگوں کے حق میں کی ہے کیونکہ مشرک سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔
Top