Mazhar-ul-Quran - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
نوح نے جب بدعا کی تو ان کا انجام یہ ہوا۔ پس1 وہ اپنی خطاؤں کے سبب غرق کردئے گئے ، پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے پس انہوں نے اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار نہ پایا۔
(ف 1) حضرت نوح (علیہ السلام) کی شکایت اور بددعا کا آخرنتیجہ یہ ہوا کہ سواتھوڑے سے آدمیوں کے جو حضرت نوح کے سمجھانے سے راہ راست پر آگئے تھے اور سب قوم کے لوگ طوفان سے ہلاک ہوکر سیدھے جہنم کو چلے گئے یہ طوفان کا قصہ سورة عنکبوت اور سورة ہود میں تفصیل سے گذرچکا ہے ۔ حضرت نوح کو ساڑھے نوسو برس تک اپنی قوم کی سرکشی کا خوب تجربہ ہوا اس لیے طوفان کے وقت انہوں نے یہ دعامانگی کہ یا اللہ اس سرکش قوم میں ایک بھی گھر طوفان کی آفت سے باقی نہ رہے کیونکہ ان میں کا ایک گھر بھی باقی رہے گا تو وہ ان کی اولاد لوگوں کو بہکائیں گے پھر اپنی ذات اور اپنے ماں باپ اور جو فرمانبردار عورت حضرت نوح کے گھر میں طوفان کی آفت سے امن ومان میں رہنے کے لیے آئے تھے ان کے گناہ معاف ہونے کی دعا، اور بت پرستوں کی بربادی کی بددعا پر کلام کو ختم کیا۔ بت پرستی حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ کے بعد پھیلی ہے اس لیے حضرت نوح کے ماں باپ مسلمان تھے حضرت نوح کے باپ کا نام لامک تھا حضرت آدم (علیہ السلام) کی پانچویں پشت کے پوتے تھے۔
Top