Mazhar-ul-Quran - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
(خدائے تعالیٰ نے فرمایا) وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ نہیں ملایا انہیں لوگوں کے واسطے امن ہے اور یہی لوگ راہ پانے والے ہیں
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو معبود جاننے کی حالت میں بغیر توبہ کے مرگیا وہ ہمیشہ کے لئے دوزخی ہے، اور جو شخص اس حال میں کہ اس کے اعمال میں شرک نہیں ہے، اگر ایسا شخص شرک کے سوا اور گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ میں گیا بھی تو آخر کو ایسا شخص جنت میں جاوے گا۔ ظلم کے معنی '' شرک '' کے ہیں۔ مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ علم و عقل کی فضیلت کے ساتھ جسیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے درجے بلند کئے کہ انہوں نے نمرود جیسے بادشاہ اور اپنے باپ اور قوم سب کو قائل کیا۔ اسی طرح اے رسول اللہ کے ! اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور اپنے علم سے جس کا چاہے مرتبہ بڑھادے۔ اس کی حکمت اور علم کے آگے کسی کی کوئی تدبیر نہیں چل سکتی۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو گویا یہ تسلی فرمائی گئی ہے کہ اگرچہ اہل مکہ مکرمہ اسلام کے کمزور کرنے کی تدبیریں کر رہے ہیں، لیکن اللہ کی حکمت اور اس کے علم کے آگے ان کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوگی۔ آخر کار ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے علم کے موافق ہونے والا ہے۔ اللہ سچا ہے، اللہ کا کلام سچا ہے۔ بدر کی لڑائی سے لے کر فتح مکہ تک اللہ تعالیٰ کو اپنی حکمت اور اپنے علم کے موافق جو کچھ منظور تھا وہ سب ہوگیا۔
Top