Mazhar-ul-Quran - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
پس (اے اہل میت)1 جب کسی کی روح حلق تک آجاتی ہے ۔
روح نکلنے کا ذکر۔ (ف 1) اوپر ذکر تھا کہ جن لوگوں نے محض عقل سے حشر کا انکار کیا ہے اور اس کا انکار کے سبب سے عقبی کا کچھ سامان وہ لوگ نہیں کرتے یہ ان لوگوں کی کم عقلی اور ان کی سمجھ کا فتور ہے۔ کیونکہ عقلی تجربہ سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دوسری دفعہ کا پیدا کرنا بہ نسبت پہلی دفعہ پیدا کرنے کے زیادہ آسان ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اور طرح ان لوگوں کو سمجھایا کہ عقلی تجربہ سے حشر کے ہونے میں شک باقی نہ رہنے کے بعد ، اگر ان کے دل میں یہ وہم بس گیا ہے کہ یہ انتظام الٰہی جو ان لوگوں کو جتلایا اور بتلایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہوگا اور سزا اور جزا ہوگی، اس انتظام میں جو بات ان کی مرضی کے خلاف ہوگی، اس کو یہ لوگ روک سکتے ہیں توعقلی تجربہ سے ان کا یہ وہم بھی یوں ہی رفع ہوسکتا ہے کہ جس وقت حشر کا موقع پیش آئے گا اس وقت یہ لوگ مٹی کے ڈھیر ہوکر پڑے ہوں گے اب دنیا میں ان کا زور ان کی طاقت سب کچھ قائم ہے، اور انتطام الٰہی کے موافق ان کی اولاد ان کے عزیز و اقارب کی روح ان کی آنکھوں کے سامنے قبض ہوتی ہے ارمریض کے سرہانے ان اوپروالوں کے پاس اللہ کے فرشتے قبض روح کے لیے موجود ہوتے ہیں لیکن نہ ان کو اللہ کے فرشتے نظر آتے ہیں نہ ان لوگوں میں نے یہ قدرت ہے کہ اپنے رشتہ داروں کی روح کو یہ لوگ نہ نکلنے دیں ، جب وقت آپہنچتا ہے اور روح گلے میں آکر اٹک جاتی ہے دم ٹوٹ جاتا ہے اور تم سے بجز اس کے کہ چپ بیٹھے دیکھتے رہو اور کچھ نہیں ہوسکتا، اسی طرح حشر کے خلاف مرضی انتظام کاروکنا ان کی طاقت سے باہر ہے اور یہ یاد رہے کہ جب یہ لوگ اپنے عزیزوں کے اور اپنے مرنے کو نہیں روک سکتے تو مرنے کے بعد حشر ضرور ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے، غرض جب عقلی تجربہ سے نہ حشر کے قائم ہونے میں یہ لوگ شک کرسکتے ہیں نہ انتظام الٰہی کے روکنے کی ان کو طاقت ہے تو یہ یقینی باتیں عقبی کے پاک کرنے کی ان لوگوں کو انتظام الٰہی کے موافق جو بتلائی جاتی ہیں ان کو نہ ماننا اور ان پر عمل نہ کرنا ان لوگوں کی کم عقلی کی نشانی ہے اب اس فہمائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو حکم فرمایا کہ باوجود اس قدرفہمائش کے اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو اس کا تم کچھ خیال نہ کرو، وقت مقررہ آجانے کے بعد جن کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہونی ہے وہ خور ہوجائے گی۔ مسندامام احمد، صحیح مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، نسائی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں انکا حاصل یہ ہے کہ سبحان ربی العظیم، کو رکوع میں اور سبحان ربی الاعلی کو سجدہ میں آپ نے پڑھنے کو فرمایا اور یہ بھی فرمایا سبحان اللہ العظیم وبحمدہ۔ کے ایک دفعہ کے کہنے سے ایک پیر جنت میں لگایاجاتا ہے موت کے وقت اچھے لوگوں کو جنت کی خوشخبری اور برے لوگوں کو دوزخ کی غم ناک خبر جو فرشتے سناتے ہیں اس کا حال اوپر گزرچکا ہے ابوالعالیہ نے کہا مقربین میں سے جو کوئی دنیا سے مفارقت کرتا ہے اس کے پاس جنت کے پھولوں کی ڈالی لائی جاتی ہے اس کی خوشبو لیتا ہے تب روح قبض ہوتی ہے معنی یہ ہیں کہ اسے سیدالانبیاء آپ ان کا اسلام قبول فرمائیں اور ان کے لیے غمگین نہ ہوں وہ اللہ کے عذاب سے سلامت و محفوظ رہیں گے اور آپ ان کو اسی حالت میں دیکھیں گے جو آپ کو پسند ہو۔
Top