Mazhar-ul-Quran - An-Nisaa : 83
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِذَا : اور جب جَآءَھُمْ : ان کے پاس آتی ہے اَمْرٌ : کوئی خبر مِّنَ : سے (کی) الْاَمْنِ : امن اَوِ : یا الْخَوْفِ : خوف اَذَاعُوْا : مشہور کردیتے ہیں بِهٖ : اسے وَلَوْ : اور اگر رَدُّوْهُ : اسے پہنچاتے اِلَى الرَّسُوْلِ : رسول کی طرف وَ : اور اِلٰٓى : طرف اُولِي الْاَمْرِ : حاکم مِنْھُمْ : ان میں سے لَعَلِمَهُ : تو اس کو جان لیتے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ : تحقیق کرلیا کرتے ہیں مِنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت لَاتَّبَعْتُمُ : تم پیچھے لگ جاتے الشَّيْطٰنَ : شیطان اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
اور جب ان کے پاس کوئی خبر اطمینان کی آوے یا خوف کی تو اس کو مشہور کرتے ہیں، اور اگر اس کو رسول (ﷺ) کی طرف رجوع لاتے اور ان کی طرف جو ان میں صاحبان حکومت ہیں اہل اسلام سے البتہ معلوم کرتے اس خبر کی حقیقت پھر سمجھ لیتے، ان سے جو لوگ تحقیق کرتے ہیں ان میں سے اور اگر نہ ہوتا فضل خدا کا تم پر اور رحمت اس کی البتہ پیروی کرتے تم شیطان کی مگر تھوڑے
ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ کسی خبر کو بغیر سوچے سمجھے اور سمجھ داروں سے صلاح لئے (مشورہ کیے بغیر) شائع نہ کرنا چاہیے ان آیتوں میں فرمایا کہ اے نبی اللہ کے ! آپ مسلانوں کو دین کی لڑائی کی ترغیب دلایا کیجئے، باقی رہی فتح وشکست وہ لشکر کی مدد پر منحصر نہیں ہے بلکہ فتح وشکست اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔ آپ بذات خود اللہ کی راہ میں لڑئیے اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ یہ جو فرمایا قریب ہے کہ اللہ بند کرے لڑائی۔ یہ ایک غیب کی خبر تھی چناچہ اسی کے موافق ظہور ہوا اور یہ جو ہے کہ اللہ کی لڑائی اور عذاب سخت ہے۔ اس سے ہر ایک کو ڈرنا چاہئے۔ ان آیتوں میں مکہ کے اہل شرک سے دین کی لڑائی کا حکم تھا اور ان اہل شرک میں اکثر لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں کے قرابت دار بھی تے، اور ان کو مسلمانوں کی لڑائی سے کچھ واسطہ بھی نہ تھا۔ اس واسطے لڑائی کی آیتوں میں باہمی سفارش اور سلام ودعا کا ذکر فرمایا۔ فقط السلام علیک سے دس نیکیوں کا ثواب ہوتا ہے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے بیس کا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے تیس نیکیوں کا۔ اور جو شخص السلام علیکم میں کوتاہی کرتا ہے وہ بڑا بخیل ہے۔ اور حضرت محمد ﷺ یہ بھی فرمایا کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسمان سے مل کر السلام علیک کہتا اور مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑجاتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں کسی پیڑ کے پتے۔ جو آدمی السلام علیک کی ابتدا کرے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہے۔
Top