Mazhar-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو پس تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو، اگر تم کو اس سے اندیشہ ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے، بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
تفسیر ابن جریر میں حضرت علی ؓ کی روایت سے شان نزول اس آیت کا بیان کیا گیا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ بنی نجار قبیلہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت ہم لوگ سفر کرتے رہتے ہیں۔ سفر میں ہم نماز کیونکر پڑھا کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا وہ ٹکڑا نازل فرمایا جس میں نماز کے قصر کرنے کا حکم ہے یعنی چار رکعت والی دو رکعت پڑھے۔ مسئلہ : ہے کہ خوف کفار قصر کے لئے شرط نہیں ہے۔ یعلی بن امیہ نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ ہم تو امن میں ہیں پھر ہم کیوں قصر کرتے ہیں۔ فرمایا : اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا۔ تو میں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا حضور نے فرمایا کہ تمہارے لئے یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے، تم اس صدقہ کو قطول کرو۔ مسئلہ : ہے کہ سفر میں چار رکعت والی نماز کو پوار پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے صدقہ کا رد کرنا لازم آتا ہے لٰہذا قصر ضروری ہے۔ مدت سفر : جس سفر میں قصر کیا جاتا ہے اس کی ادنیٰ مدت تین دن کی مسافت ہے جو اونٹ یا پیدل کی متوسط رفتار سے طے کی جاتی ہو، اور اس کی مقداریں خشکی اور دریا اور پہاڑوں میں مختلف ہوجاتی ہیں۔ تو جو مسافت متوسط رفتار سے چلنے والے تین روز میں طے کرتے ہوں اس کے سفر میں قصر ہوگا۔
Top