Mazhar-ul-Quran - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
اور1 منکر (یہ بھی) کہتے ہیں کہ : اس رسول کو کیا ہوا کہ کھانا کھاتا ہے ار بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ کوئی فر شتہ کیوں نہ بھیج دیا گیا کہ اس کے ساتھ وہ بھی ڈر سنایا کرتا۔
مشرکین کا طعن۔ (ف 1) شان نزول : جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جب نبی ﷺ پر تنگدستی کی طعن کی اور کہا کہ یہ کیسے رسول ہیں کہ ذراذرا سی چیز بازار میں خریدتے پھرتے ہیں اگر اللہ کے سچے رسول ہوتے تو ضرور اللہ تعالیٰ ان کو خوشحال رکھتا۔ مشرکین کے اس طعن کے بارے میں اللہ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمادیا کہ شیطان نے ان لوگوں کو بہکارکھا ہے اس واسطے یہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور ورنہ یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی بتلاتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم کو نبی جانتے ہیں پھر یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ حضرت ابراہیم فرشتے تھے کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے یا غیب سے ان کو خزانہ ملا تھا یا کوئی فرشتہ ان کے ساتھ رہتا تھا جوان کے نبی ہونے کی شہادت لوگوں سے ادا کرتا تھا یا انہوں نے بڑے بڑے محل اور باغ بنائے تھے علاوہ حضرت ابراہیم کے اور انبیاء کا حال اہل کتاب سے بھی انہوں نے سنا ہے کہ کس نبی میں یہ باتیں نہیں تھیں۔ پھر سب انبیاء سے انوکھی باتیں جو یہ لوگ نبی آخرالزمان میں چاہتے ہیں یہ خواہش ان کی ایک معجزے کے طور کی خواہش نہیں ہے بلکہ ایک شرارت اور اغوائے شیطانی کی خواہش ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے طعن کا جواب مختصر طور پر دیا ہے اور آیتوں میں اس کی زیادہ تفصیل ہے جس کا ذکر ہر ایک موقع پر آوے گا۔
Top