Mazhar-ul-Quran - Al-Israa : 44
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
تُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَهُ : اس کی السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) السَّبْعُ : سات وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان میں وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتی ہے بِحَمْدِهٖ : اس کی حمد کے ساتھ وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَفْقَهُوْنَ : تم نہیں سمجھتے تَسْبِيْحَهُمْ : ان کی تسبیح اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : بردبار غَفُوْرًا : بخشنے والا
اللہ اس سے پاک ہے اور برتر ہے ان کی باتوں سے بڑی برتری اسی کی
تمام جان دار اور بےجان سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ محبوب کائنات ہیں اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک کیا ہوگا۔ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو مجودات ہیں وہ سب اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد وثنا میں مشغول نہ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ جمادات میں بھی خدائے تعالیٰ نے ایک قسم کا علم رکھا ہے جس کو وہ خالق خوب جانتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ لکڑی کے ایک ستون سے تکیہ فرما کر خطبہ فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنایا گیا اور آنحضرت ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ ستون رو دیا۔ آنحضر ﷺ نے اس پر دست کرم پھیرا اور شفقت فرمائی اور تسکین دی۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک سفر میں پانی نہ تھا ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ اس پانی میں ڈال دیا ادھر ہاتھ کا ڈالنا اور ادھر انگلیوں میں سے پانی کا جوش مارنا تھا جیسے چشمہ میں سے پانی نکلتا ہے۔ اس قدر پانی اس دست فیض رسا میں سے ان کو ملا کہ تمام جماعت نے وضو کرلیا اور پی بھی لیا۔ اور ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے اور وہ کھایا جاتا تھا۔ پھر فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند کریم کی ذات بردبار ہے کفار کی گستاخیوں کا ان کی موت تک تحمل ہوتا ہے اور اگر وہ توبہ کریں تو خداوند کریم مغفرت میں بھی قاصر نہیں۔
Top